جمہوریت پر خود کش حملے نہ کیے جائیں…
ترقی اور خوشحالی کا خواب دیکھنے والوں کو تباہی اور بربادی سے نکلنے کے لیے ایک صبر آزما جدوجہد کا سامنا کرنا ہوگا۔
کسی بھی معاشرے میں بے چینی اس وقت پیدا ہوتی ہے کہ جب وہاں سیاسی وسماجی،معاشی ومعاشرتی اور مذہبی و ثقافتی مسائل عوام کی خواہشات اور امنگوں کے مطابق ناصرف حل نہیں ہوتے اور اس پر عمل کے لیے مضبوط آئینی اور قانونی تحفظ کا میکانزم دستیاب نہیں ہوتا ۔میثاق جمہوریت کے نتیجے میں گزشتہ 60سال سے جاری ملک میں غیر یقینی سیاسی حالات کا خاتمہ ہوا اور یہ امید ہوئی کہ اب ملک کو جمہوریت کی پٹری سے کوئی نہیں اتار سکے گا۔
میثاق جمہوریت ہی کا یہ ثمر تھا کہ ہماری سیاسی تاریخ میں پہلی مرتبہ 2008میں منتخب ہونے والی نسبتاً کمزور پارلیمنٹ نے اپنی تمام تر خامیوں اورکمزوریوں کے باوجود اپنی آئینی مدت مکمل کرنے والی ہے۔ اب جب کہ آئین کے مطابق آزاد اور خودمختار الیکشن کمیشن قائم ہو چکا ہے اور جس کے سربراہ پر ملک کی اہم سیاسی جماعتوں کو مکمل اعتماد بھی ہے اور اب اس کے اگلے مرحلے پر ریاست کے آئین کے مطابق غیر جانبدار نگراں حکومت کے قیام میں ہرسیاسی جماعت کو اپنا مثبت کردار ادا کرنا چاہیے۔ یہ ملک کے عظیم تر قومی مفاد کا تقاضہ اور ریاست کی سلامتی کا نسخہ کیمیا بھی ہے۔
موجودہ جمہوری نظام کو عدم استحکام کا شکار کرنے والی سازشوں اور اس کے نتیجے میں آیندہ دو سے3 سال کے لیے غیر آئینی سیٹ اپ لائے جانے کے خدشے کا اظہار صرف پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں محمد نواز شریف نے ہی نہیں بلکہ وزیر اعظم پاکستان راجہ پرویز اشرف اور پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئر پارلیمنٹرین و قومی سلامتی کے بارے میں قائم خصوصی پارلیمانی کمیٹی کے چیئرمین میاں رضا ربانی نے بھی کر کے جمہوریت پسندوں کو گہری تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔اس ہی کے ساتھ ساتھ دوسری جانب آج کی آزاد اور خود مختار اعلیٰ عدلیہ باربار ان خیالات کا اظہار کر چکی ہے کہ ''کوئی ایسا نظام نہ لایا جائے جو آئین کے خلاف ہو ،عدالت کسی غیر آئینی اقدام کو قانونی حیثیت نہیں دیگی۔''ایسے واضح احکامات کے باوجود اگر کوئی ماورائے آئین اقدام کیا گیا اور جمہوریت کی بساط کو لپیٹ کر جمہوری نظام کو نقصان پہنچایا گیا تو اس کے نتیجے میں معاشرے میں ایک بار پھر غیر یقینی سیاسی حالات پیدا ہوسکتے ہیں۔
یہاں ہمیں اپنی ہی تاریخ کو پیش نظر رکھنا چاہیے اور ان امور پر غوروفکر کرنا چاہیے کہ آخر ریاستیں کن مسائل کی بنیادوں پر غیر مستحکم ہوکر اس انتہا تک پہنچ جاتی ہیں کہ جس کے نتیجے میں ان کے اندر ٹوٹ پھوٹ کا عمل شروع ہوجاتا ہے اور آخر کون سا طریقہ کار اختیار کیا جانا چاہیے کہ ریاست اپنے اندر کے اختلافات کو آئین اور قانون کے دائرہ میں رہتے ہوئے دور کر سکے ؟ تاکہ ٹوٹ پھوٹ کے تکلیف دہ عمل سے بچا جا سکے۔ اس مرحلے پر ہمیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ آیا وہ کیا عوامل تھے کہ جن کی بنیاد پر برصغیر تقسیم ہوا اور پھر ہماری اپنی جدوجہد کے نتیجے میں حاصل ہونے والا ملک ایک بار پھر محض 23برس میں ٹوٹ کر علیحدہ علیحدہ دو آزاد اور خود مختار ریاستوں میں تقسیم ہو گیا۔
جہاں تک برصغیر کی تقسیم کا تعلق ہے تو اس کے پس منظر میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ انگریز سرکار کی جانب سے مسلمانوں کے ساتھ روا رکھے گئے ظالمانہ رویے نے مسلمانوں کو ایک الگ سیاسی جماعت کی تشکیل پر مجبور کیا جب کہ بعد میں کانگریس کی قیادت قائداعظم ؒؒ کی جانب سے برصغیر کے مسلمانوں کو درپیش مسائل کے حل کے ضمن میں پیش کیے گئے مذہبی سیاسی اور معاشی حقوق کو آزادیٔ ہند کے بعد آئینی تحفظ فراہم کرنے کی یقین دہانی کروانے میں ناکام رہی۔ان دونوں بنیادی عوامل کے نتیجے میں چلنے والی تحریک قیام پاکستان پر منتج ہوئی ۔ اس حقیقت کے تناظر میں اس امر کو بخوبی سمجھا جاسکتا ہے کہ 40کی دہائی میں ریاست اس وقت تقسیم ہوئی کہ جب مقبوضہ ہندوستان کے عوام کے حقوق اور مفادات کو عدم تحفظ کا سامنا ہوا اور عوام دو بڑے واضح گروپوں میں تقسیم ہوگئے اور پاکستان معرض وجود میں آگیا۔
بعد ازاں پاکستان کی تقسیم کا معاملہ بھی اس سے کچھ زیادہ مختلف نہیں تھا۔ قیام پاکستان کے کچھ ہی عرصے بعد پاکستان میں سیاسی عدم استحکام پیدا کردیا گیا۔ حکومتوں کی بار بار تبدیلی گویا ریاستی امور کا حصہ بن گئی یہاں تک کہ 1954میں دستور ساز اسمبلی ہی کو برخاست کردیا گیا ۔اس کے باوجود سیاسی انتشار کے دور میں بھی اس وقت کی سیاسی قیادت نے 1956میں ایک آئین منظور کروالیا لیکن پھر عام انتخابات سے بچنے کے لیے فوجی اشرافیہ نے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ سماجی و معاشی نا انصافی اور سیاسی عدم استحکام نے ریاست کی جڑوں کو ہلا کر رکھ دیا۔
ان حالات میں 1970 کے انتخابات منعقد ہوئے جس کے نتائج مغربی پاکستان کی بڑی سیاسی قوتوں کے علاوہ حکمراں فوجی اشرافیہ بھی تسلیم کرنے کو تیار نہ ہوئی۔ مشرقی پاکستان میں فیصلہ کن کامیابی حاصل کرنے والی عوامی لیگ کو اقتدار منتقل کرنے کے بجائے ان کے خلاف فوجی آپریشن شروع کردیا گیا ۔ سیاسی، سماجی اور معاشی حقوق کا مطالبہ کرنے والوں کو نا صرف غدار کہا گیا بلکہ ان کی جمہوری تحریک کو جس بے دردی کے ساتھ کچلا گیا وہ ہماری قومی تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے۔ان عوامل کے نتیجے میں مشرقی پاکستان ہم سے الگ ہوکر بنگلہ دیش بن گیا۔
یہاں اٹھائے گئے نکات سے یہ بات واضح کرنا مقصود ہے کہ ریاست اس وقت عدم استحکام اور شکست و ریخت کا شکار ہوتی ہے کہ جب وہاں بسنے والے عوام کو ریاست کے آئین میں دیے گئے سیاسی ، سماجی اور معاشی حقوق سے محروم کردیا جاتا ہے ، تاہم جن ریاستوں میںعوام کو تسلیم شدہ اصولوں اور ضابطوں پر عملدرآمد کرتے ہوئے ریاستی آئین کے مطابق تمام سیاسی ،سماجی اور معاشی حقوق حاصل ہوتے ہیں، جہاں حقیقی معنوں میں آئین کی حکمرانی قائم ہوجاتی ہے وہ ریاستیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار نہیں ہوتیں بلکہ دن بہ دن مستحکم ہوتی چلی جاتی ہیں۔
یہ ہماری بدنصیبی نہیں تو اور کیا ہے کہ جب ایک منتخب جمہوری حکومت کسی فوجی چھتری کے بغیر اپنی آئینی مدت پوری کرنے والی ہے اور مستقبل قریب میں آئین کے مطابق ایک غیر جانبدار نگراں حکومت اور آزاد الیکشن کمیشن کے تحت عام انتخابات کا انعقاد ہونے والا ہے۔ تو اس موقعے پر بعض سیاسی جماعتیں ماورائے آئین مطالبات لے کر میدان میں اترنے کا اعلان کررہی ہیں۔ طاہر القادری کی عوامی تحریک، عمران خان کی تحریک انصاف کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ (ق) نے بھی الیکشن کمیشن میں بنیادی تبدیلیوں یا تحلیل کا مطالبہ شروع کردیا ہے۔ اس کے ساتھ صدر پاکستان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ بھی کیا جارہا ہے۔ ان غیر آئینی مطالبات کے لیے مارچ اور احتجاج کا سلسلہ بھی شروع ہونے والا ہے۔ غالباً حکمت عملی یہ ہے کہ امن و امان کی صورتحال پیدا کرکے انتخابات کو ملتوی کرانے کا مقصد حاصل کیا جائے۔ جمہوریت پر ایسے خود کش حملوں سے سیاسی انتشار اور عدم استحکام کے سوا اور کچھ پیدا نہیں ہوگا۔لہٰذا یہ ضروری ہے کہ کسی بھی طرح انتخابات کو ملتوی کرانے کی سازشوںکو ناکام بنایا جائے۔
ان حالات میں ہمارے پاس ملک کی ترقی اور قوم کی خوشحالی کے لیے اس کے علاوہ دوسرا کوئی اور راستہ ہوہی نہیں سکتا کہ ہم موجودہ جمہوری نظام کو جاری رکھیں اور غلطیوں کو پھر سے نہ دہرانے کا عہد کریں ۔آئین پر عملدرآمد کے ساتھ ساتھ میثاق جمہوریت پر بھی صدقِ دل سے عمل کیا جائے ۔بصورت دیگر ٹوٹ پھوٹ ،انتشار اور گمراہی کے علاوہ قوم کے ہاتھ کچھ نہیں رہے گا ۔یعنی نصف صدی سے زائد کا عرصہ دائرے میں سفر کر کے ضایع کرنے کے بعد ترقی اور خوشحالی کا خواب دیکھنے والوں کو تباہی اور بربادی سے نکلنے کے لیے ایک مرتبہ پھر ایک صبر آزما جدوجہد کا سامنا کرنا ہوگا۔ لہٰذا اب ہمیں آئین سے انحراف کا تصور تک بھی نہیں کرنا چاہیے۔