حکومت اور عدلیہ کے پانچ سال
پانچ سالہ حکومتی دور میں عدلیہ کا کردار قابل فخر اور حکومت کا کردار قابل فکر رہا ہے۔
ISLAMABAD:
جنرل پرویز مشرف کی حکومت نے سپریم کورٹ پر کئی وار کیے جن میں سب سے بڑا شب خون چیف جسٹس سمیت تمام جسٹسز کی معزولی اور اہلخانہ سمیت نظربندی کا تھا۔ چیف جسٹس سے بیعت لینے میں ناکامی کے بعد ان کے ساتھ اچھا سلوک نہیںکیا گیا اور دیگر ججز اور ان کے اہلخانہ کو ان کے گھروں میں مقید کرکے ہفتوں کے لیے ان کا دنیا سے رابطہ توڑا گیا وہ تاریخ کا سیاہ باب بن چکا ہے۔
وکلا، سول سوسائٹی اور سیاسی کارکنوں کی تحریک و جدوجہد کے نتیجے میں جب قوم کو پرویزی آمریت سے چھٹکارا ملا تو عوام الناس کو یہ توقع ہوچلی تھی کہ اب جمہوری حکومت کے نتیجے میں ملک میں آئین و قانون کا دور دورہ اور انصاف کا راج ہوگا، سماجی انصاف ملے گا، سستے اور فوری انصاف اور مفادعامہ کے نتیجے میں معاشی ترقی کے نئے دور کا آغاز ہوگا، لیکن بدقسمتی سے ایسا نہ ہوسکا اور یہ خوش فہمی وقتی اور غلط فہمی ثابت ہوئی۔ ان 5برسوں میں حکومت اور عدلیہ کے درمیان کھنچاؤ اور محاذ آرائی کی کیفیت رہی۔
حکومتی سطح پر عدلیہ کی توہین، بینچ اور بار میں تضادات اور ٹکراؤ، وکلا کو تقسیم کرنے کی منظم کوششوں کا آغاز ہوا جس کا تسلسل آج تک قائم ہے۔ دوسری جانب تناؤ، ٹکراؤ اور عدلیہ مخالف پروپیگنڈے کی اس فضا میں عدلیہ نے تاریخ کے مشکل ترین قومی اہمیت کے حامل فیصلے کرتے وقت انتہائی تدبر وتحمل، جرأت اور برداشت کا مظاہرہ کیا جو مثالی ہے۔
اعلیٰ عدلیہ نے ریاستی مشینری کی زیادتیوں، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، امتیازی سلوک، کرپشن، اختیارات کے ناجائز استعمال اور سیاسی انتقامی بنیادوں پر تقرریوں اور تنزلیوں وغیرہ جیسے قومی اہمیت کے حامل معاملات پر ہر طرح کے دباؤ اور مخالفت کا سامنا کرتے ہوئے میرٹ پر فیصلے دیے۔ اسٹیل ملز نجکاری، این آئی سی ایل، ایفیڈرین، حج اسکینڈل، چینی، پٹرول، سی این جی کی قیمتیں، اوگرا، رینٹل پاور پروجیکٹس، سوئس اکاؤنٹس، میموگیٹ، دہری شہریت، جعلی ڈگریاں، لاپتہ افراد، بلوچستان اور سندھ بدامنی کیس، صدر کے دو عہدوں کا معاملہ، ریکوڈک، بنیادی انسانی حقوق کی پامالی، بسنت کی ہلاکتوں، اور اقتدار و طاقت کے حامل افراد کی جانب سے غریب و بے سہارا شہریوں کے ساتھ مظالم اور غیر انسانی سلوک جیسے لاتعداد معاملات پر کارروائی عدلیہ کی بہترین کارکردگی کا ثبوت ہیں، جن کی وجہ سے قومی خزانے کو اربوں روپوں کی وصولیاں ہوئیں اور مزید کھربوں روپوں کی لوٹ مار سے محفوظ رہا۔
اگر حکومت عدلیہ سے تعاون کرتی تو یہ کارکردگی اس کے ماتھے کا جھومر بنتی اور اس کو ہلانے کا کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا تھا۔ گو کہ حکومت نے بھی ان 5سال کے دوران ریکارڈ قانون سازی کی ہے، قومی اسمبلی نے 117 اور سینیٹ نے 78 بلز پاس کیے ہیں لیکن ان میں سے بہت سے قوانین بڑی عجلت، مصلحت یا سیاسی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے وضع کیے گئے جن کے مثبت نتائج آنے کے بجائے ان سے قباحتوں اور پیچیدگیوں نے جنم لیا ہے، انھیں عدالتوں میں چیلنج بھی کیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ پولیس کی خراب کارکردگی اور سینئر افسران کی حق تلفی اور ان میں فرسٹریشن کو ختم کرنے کے لیے سفارشیوں اور نااہلیوں کے آؤٹ آف ٹرن پروموشن کو غیر قانونی قرار دیتی ہے تو ایک طرف تو اس پولیس افسر کو اس کے غاصب پولیس افسر سرعام تشدد کا نشانہ بناتے ہیں جس نے عدلیہ سے اپنا حق مانگا تھا۔
دوسری جانب سندھ اسمبلی سول سروسز ترمیمی بل پاس کرکے عدالت کے فیصلے کو غیر موثر اور غاصبوں کو تحفظ دینے کی خاطر سول سروسز کے ڈھانچے اور کارکردگی دونوں کو تباہ کرنے کے لیے بقول جام مدد علی اندھا قانون بنانے میں ذرا تامل نہیں کرتی۔ عدلیہ جعلی ڈگری والے کو نااہل قرار دیتی ہے تو اسے پھر منتخب کرلیا جاتا ہے، عدالت انتخابی امیدوار کی جانب سے پریزائیڈنگ افسر کو تھپڑ مارنے پر کارروائی کرتی ہے تو ایک رکن اسمبلی واپڈا کے ایس ڈی او کی تعیناتی کو ناپسندیدہ قرار دے کر سر عام پٹائی کردیتا ہے۔ عدالت بااثر افراد کے ہاتھوں شاہ زیب کے قتل پر ایکشن لے رہی ہوتی ہے تو دوسری جانب ایک اور بااثر ممبر قومی اسمبلی کا بیٹا پرواز میں تاخیر ہوجانے پرایک افسر کو مارمار کر بے ہوش کردیتا ہے، باپ اپنے بیٹے کو بڑا صبر والا اور بے گناہ قرار دے کر اپنے ساتھ لے جاتا ہے۔
ایسے لاتعداد واقعات ظاہر کرتے ہیں کہ حکومتی ارباب اختیار اور طاقتور اثرورسوخ کے حامل افراد کے نزدیک قانون، عدالتیں اور پولیس کچھ اہمیت نہیں رکھتیں اور حکومت خود بھی قانون کی بالادستی قائم کرنے میں مخلص و متحرک نہیں ہے۔ خود وزیر قانون توہین عدالت کا نوٹس ملنے پر عدالت کا تمسخر اس طرح اڑاتا ہے کہ ''نوٹس ملیا ککھ نہ ہلیا''۔ ان کی حمایت یافتہ ایک وکیل لوگوں کو مشورہ دیتی ہیں کہ سندھ کے عوام سندھی ججوں کے تقرر کے لیے سڑکوں پر جلاؤ گھیراؤ کریں، میموگیٹ میں بھی انھوں نے عدالت کو جواب دیا کہ ان کے موکل نہیں آئینگے آپ کو جو کرنا ہے کرلیں۔ خود آئی جی سندھ نے عدالت کو بتایا کہ مصلحتوں کے باعث قانون سازی نہیں ہو سکی ہے۔
ایک صاحب اپنی وزارت کے دور میں اپنی پسند کی قیادت لانے کے لیے ہر حربہ استعمال کرتے رہے ہیں، سپریم کورٹ کے الیکشن پر اثرانداز ہونے کے لیے انھوں نے بڑے پیمانے پر فنڈنگ کی، من پسند وکلا کو فیسوں، عہدوں اور انعامات سے نوازا، ہوائی جہاز پر پورے ملک کی بارکونسلز کا طوفانی دورہ کیا، 110 بار کونسلرز کو 224 ملین کی ریکارڈ گرانٹ دیں، کچھ بار کونسلرز جنہوں نے عدلیہ کی آزادی میں بھرپور جدوجہد کی تھی ایک پیسہ بھی نہیں دیا گیا حالانکہ لیگل پریکشنر بار کونسل ایکٹ کے تحت حکومت بار کونسلرز کو ان کے ممبران کی تعداد کے مطابق فنڈ دے سکتی ہے، اس سلسلے میں سب سے زیادہ ناانصافی و حق تلفی ایشیا کی سب سے بڑی کراچی بار کے ساتھ کی گئی۔
آج ملک کا یہ حال ہے کہ دہشت گردوں اور کرپٹ عناصر نے عوام کی جان و مال اور ملک کا مستقبل تک داؤ پر لگادیا ہے۔ اس کو حکومت کی سرپرستی، نااہلی یا کم ازکم الفاظ میں چشم پوشی سے ضرور تعبیر کیا جائے گا کہیں غیرملکی ریمنڈ ڈیوس پاکستانیوں کا سر عام قتل کرکے حکومتی سرپرستی میں ملک سے فرار کرا دیا جاتا ہے تو کہیں ڈھائی سو افراد کو آگ کی نذر کردینے والے ملزمان کی ایف آئی آر سے وزیر اعظم کے حکم پر قتل کی دفعہ نکال دی جاتی ہے۔ کرپٹ، جعلی ڈگریوں والے، سزا یافتہ اور ہر ایرے غیرے کے لیے عدالتوں، ججوں اور فیصلوں پر تنقید، تذلیل اور پروپیگنڈے کے لیے ہر طرح کی اعانت اور دروازے کھلے ہوئے ہیں۔ بنیادی حقوق کا دفاع اور کرپشن و لوٹ مار روکنے کی عدلیہ کی کوششیں بعض حلقوں کے لیے تشویشناک اور پریشانی کا باعث بنی ہوئی ہیں۔
عوام کے دکھوں کا مداوا کرنا اور ان کے حقوق کا تحفظ کرنا اور انصاف فراہم کرنا صرف عدلیہ کا ہی کام نہیں ہے بلکہ ریاست کی بنیادی ذمے داری ہے اگر حکومتی ادارے فعال و موثر ہوں، ان میں اہل اور دیانتدار لوگ تعینات ہوں اور گڈ گورننس ہو تو مقدمات کے انبار ہی نہ لگیں۔ جب ادارے ناکام ہوتے ہیں تو عدلیہ پر دباؤ پڑتا ہے اور اس کے ذمے داری اور بڑھ جاتی ہے ایسی صورتحال میں ریاستی اداروں کی ناانصافیوں کے خلاف عدلیہ ہی عوام کی امیدوں کا آخری سہارا ہوتی ہے، حکومتی کردار کے مقابلے میں عدالتوں کا یہ کردار رہا ہے کہ انھوں نے انتہائی دباؤ، کردار کشی، حکومتی عدم تعاون اور رکاوٹوں کے باوجود ہر قومی اور انسانی حقوق کے مسئلے پر بلاامتیاز و خوف فیصلے صادر کیے ہیں، خود اپنا احتساب بھی جاری رکھا ہے۔
چیف جسٹس کے بیٹے کے خلاف اسکینڈل سامنے آیا تو انھوں نے اسے قانون کے حوالے کرکے گھر سے نکال دیا۔ جوڈیشل پالیسی ساز کمیٹی نے اعلیٰ عدلیہ کے ریٹائرڈ ججوں کو فوری طور پر سرکاری عہدے چھوڑنے کی ہدایت کی ہے تاکہ دیگر لوگوں کی حق تلفی اور کارکردگی متاثر نہ ہو۔ اسی طرح گورنر کی غیر موجودگی میں چیف جسٹس کو قائم مقام گورنر بننے سے بھی روک دیا گیا ہے۔ انتخابی عمل میں عدالتی ججوں اور عملے کی شمولیت کو بھی ممنوع قرار دیا گیا تھا، ہفتے کی چھٹی میں بھی عدالتیں کام کر رہی ہیں بلکہ سپریم کورٹ نے تو سالانہ چھٹیوں کو بھی ختم کردیا تھا۔
حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ 5سال میں جہاں حکومت گڈ گورننس، میرٹ اور بنیادی حقوق کی خلاف ورزی اور عدالتوں سے عدم تعاون اور ان پر اثرانداز ہونے کی کوششیں کرتی نظر آتی ہے وہیں عدالتیں گڈ گورننس کے قیام، میرٹ اور بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ اور کرپشن کو ختم کرنے میں کوشاں اور بڑے بڑے اور نازک قومی معاملات چاہے وہ بلوچستان ہو یا سندھ ، بار بار حکومت کی توجہ حالات کی سنگینی کی طرف قبل ازوقت مبذول کراتی نظر آتی ہیں، اس لیے بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ اس پانچ سالہ حکومتی دور میں عدلیہ کا کردار قابل فخر اور حکومت کا کردار قابل فکر رہا ہے۔
جنرل پرویز مشرف کی حکومت نے سپریم کورٹ پر کئی وار کیے جن میں سب سے بڑا شب خون چیف جسٹس سمیت تمام جسٹسز کی معزولی اور اہلخانہ سمیت نظربندی کا تھا۔ چیف جسٹس سے بیعت لینے میں ناکامی کے بعد ان کے ساتھ اچھا سلوک نہیںکیا گیا اور دیگر ججز اور ان کے اہلخانہ کو ان کے گھروں میں مقید کرکے ہفتوں کے لیے ان کا دنیا سے رابطہ توڑا گیا وہ تاریخ کا سیاہ باب بن چکا ہے۔
وکلا، سول سوسائٹی اور سیاسی کارکنوں کی تحریک و جدوجہد کے نتیجے میں جب قوم کو پرویزی آمریت سے چھٹکارا ملا تو عوام الناس کو یہ توقع ہوچلی تھی کہ اب جمہوری حکومت کے نتیجے میں ملک میں آئین و قانون کا دور دورہ اور انصاف کا راج ہوگا، سماجی انصاف ملے گا، سستے اور فوری انصاف اور مفادعامہ کے نتیجے میں معاشی ترقی کے نئے دور کا آغاز ہوگا، لیکن بدقسمتی سے ایسا نہ ہوسکا اور یہ خوش فہمی وقتی اور غلط فہمی ثابت ہوئی۔ ان 5برسوں میں حکومت اور عدلیہ کے درمیان کھنچاؤ اور محاذ آرائی کی کیفیت رہی۔
حکومتی سطح پر عدلیہ کی توہین، بینچ اور بار میں تضادات اور ٹکراؤ، وکلا کو تقسیم کرنے کی منظم کوششوں کا آغاز ہوا جس کا تسلسل آج تک قائم ہے۔ دوسری جانب تناؤ، ٹکراؤ اور عدلیہ مخالف پروپیگنڈے کی اس فضا میں عدلیہ نے تاریخ کے مشکل ترین قومی اہمیت کے حامل فیصلے کرتے وقت انتہائی تدبر وتحمل، جرأت اور برداشت کا مظاہرہ کیا جو مثالی ہے۔
اعلیٰ عدلیہ نے ریاستی مشینری کی زیادتیوں، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، امتیازی سلوک، کرپشن، اختیارات کے ناجائز استعمال اور سیاسی انتقامی بنیادوں پر تقرریوں اور تنزلیوں وغیرہ جیسے قومی اہمیت کے حامل معاملات پر ہر طرح کے دباؤ اور مخالفت کا سامنا کرتے ہوئے میرٹ پر فیصلے دیے۔ اسٹیل ملز نجکاری، این آئی سی ایل، ایفیڈرین، حج اسکینڈل، چینی، پٹرول، سی این جی کی قیمتیں، اوگرا، رینٹل پاور پروجیکٹس، سوئس اکاؤنٹس، میموگیٹ، دہری شہریت، جعلی ڈگریاں، لاپتہ افراد، بلوچستان اور سندھ بدامنی کیس، صدر کے دو عہدوں کا معاملہ، ریکوڈک، بنیادی انسانی حقوق کی پامالی، بسنت کی ہلاکتوں، اور اقتدار و طاقت کے حامل افراد کی جانب سے غریب و بے سہارا شہریوں کے ساتھ مظالم اور غیر انسانی سلوک جیسے لاتعداد معاملات پر کارروائی عدلیہ کی بہترین کارکردگی کا ثبوت ہیں، جن کی وجہ سے قومی خزانے کو اربوں روپوں کی وصولیاں ہوئیں اور مزید کھربوں روپوں کی لوٹ مار سے محفوظ رہا۔
اگر حکومت عدلیہ سے تعاون کرتی تو یہ کارکردگی اس کے ماتھے کا جھومر بنتی اور اس کو ہلانے کا کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا تھا۔ گو کہ حکومت نے بھی ان 5سال کے دوران ریکارڈ قانون سازی کی ہے، قومی اسمبلی نے 117 اور سینیٹ نے 78 بلز پاس کیے ہیں لیکن ان میں سے بہت سے قوانین بڑی عجلت، مصلحت یا سیاسی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے وضع کیے گئے جن کے مثبت نتائج آنے کے بجائے ان سے قباحتوں اور پیچیدگیوں نے جنم لیا ہے، انھیں عدالتوں میں چیلنج بھی کیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ پولیس کی خراب کارکردگی اور سینئر افسران کی حق تلفی اور ان میں فرسٹریشن کو ختم کرنے کے لیے سفارشیوں اور نااہلیوں کے آؤٹ آف ٹرن پروموشن کو غیر قانونی قرار دیتی ہے تو ایک طرف تو اس پولیس افسر کو اس کے غاصب پولیس افسر سرعام تشدد کا نشانہ بناتے ہیں جس نے عدلیہ سے اپنا حق مانگا تھا۔
دوسری جانب سندھ اسمبلی سول سروسز ترمیمی بل پاس کرکے عدالت کے فیصلے کو غیر موثر اور غاصبوں کو تحفظ دینے کی خاطر سول سروسز کے ڈھانچے اور کارکردگی دونوں کو تباہ کرنے کے لیے بقول جام مدد علی اندھا قانون بنانے میں ذرا تامل نہیں کرتی۔ عدلیہ جعلی ڈگری والے کو نااہل قرار دیتی ہے تو اسے پھر منتخب کرلیا جاتا ہے، عدالت انتخابی امیدوار کی جانب سے پریزائیڈنگ افسر کو تھپڑ مارنے پر کارروائی کرتی ہے تو ایک رکن اسمبلی واپڈا کے ایس ڈی او کی تعیناتی کو ناپسندیدہ قرار دے کر سر عام پٹائی کردیتا ہے۔ عدالت بااثر افراد کے ہاتھوں شاہ زیب کے قتل پر ایکشن لے رہی ہوتی ہے تو دوسری جانب ایک اور بااثر ممبر قومی اسمبلی کا بیٹا پرواز میں تاخیر ہوجانے پرایک افسر کو مارمار کر بے ہوش کردیتا ہے، باپ اپنے بیٹے کو بڑا صبر والا اور بے گناہ قرار دے کر اپنے ساتھ لے جاتا ہے۔
ایسے لاتعداد واقعات ظاہر کرتے ہیں کہ حکومتی ارباب اختیار اور طاقتور اثرورسوخ کے حامل افراد کے نزدیک قانون، عدالتیں اور پولیس کچھ اہمیت نہیں رکھتیں اور حکومت خود بھی قانون کی بالادستی قائم کرنے میں مخلص و متحرک نہیں ہے۔ خود وزیر قانون توہین عدالت کا نوٹس ملنے پر عدالت کا تمسخر اس طرح اڑاتا ہے کہ ''نوٹس ملیا ککھ نہ ہلیا''۔ ان کی حمایت یافتہ ایک وکیل لوگوں کو مشورہ دیتی ہیں کہ سندھ کے عوام سندھی ججوں کے تقرر کے لیے سڑکوں پر جلاؤ گھیراؤ کریں، میموگیٹ میں بھی انھوں نے عدالت کو جواب دیا کہ ان کے موکل نہیں آئینگے آپ کو جو کرنا ہے کرلیں۔ خود آئی جی سندھ نے عدالت کو بتایا کہ مصلحتوں کے باعث قانون سازی نہیں ہو سکی ہے۔
ایک صاحب اپنی وزارت کے دور میں اپنی پسند کی قیادت لانے کے لیے ہر حربہ استعمال کرتے رہے ہیں، سپریم کورٹ کے الیکشن پر اثرانداز ہونے کے لیے انھوں نے بڑے پیمانے پر فنڈنگ کی، من پسند وکلا کو فیسوں، عہدوں اور انعامات سے نوازا، ہوائی جہاز پر پورے ملک کی بارکونسلز کا طوفانی دورہ کیا، 110 بار کونسلرز کو 224 ملین کی ریکارڈ گرانٹ دیں، کچھ بار کونسلرز جنہوں نے عدلیہ کی آزادی میں بھرپور جدوجہد کی تھی ایک پیسہ بھی نہیں دیا گیا حالانکہ لیگل پریکشنر بار کونسل ایکٹ کے تحت حکومت بار کونسلرز کو ان کے ممبران کی تعداد کے مطابق فنڈ دے سکتی ہے، اس سلسلے میں سب سے زیادہ ناانصافی و حق تلفی ایشیا کی سب سے بڑی کراچی بار کے ساتھ کی گئی۔
آج ملک کا یہ حال ہے کہ دہشت گردوں اور کرپٹ عناصر نے عوام کی جان و مال اور ملک کا مستقبل تک داؤ پر لگادیا ہے۔ اس کو حکومت کی سرپرستی، نااہلی یا کم ازکم الفاظ میں چشم پوشی سے ضرور تعبیر کیا جائے گا کہیں غیرملکی ریمنڈ ڈیوس پاکستانیوں کا سر عام قتل کرکے حکومتی سرپرستی میں ملک سے فرار کرا دیا جاتا ہے تو کہیں ڈھائی سو افراد کو آگ کی نذر کردینے والے ملزمان کی ایف آئی آر سے وزیر اعظم کے حکم پر قتل کی دفعہ نکال دی جاتی ہے۔ کرپٹ، جعلی ڈگریوں والے، سزا یافتہ اور ہر ایرے غیرے کے لیے عدالتوں، ججوں اور فیصلوں پر تنقید، تذلیل اور پروپیگنڈے کے لیے ہر طرح کی اعانت اور دروازے کھلے ہوئے ہیں۔ بنیادی حقوق کا دفاع اور کرپشن و لوٹ مار روکنے کی عدلیہ کی کوششیں بعض حلقوں کے لیے تشویشناک اور پریشانی کا باعث بنی ہوئی ہیں۔
عوام کے دکھوں کا مداوا کرنا اور ان کے حقوق کا تحفظ کرنا اور انصاف فراہم کرنا صرف عدلیہ کا ہی کام نہیں ہے بلکہ ریاست کی بنیادی ذمے داری ہے اگر حکومتی ادارے فعال و موثر ہوں، ان میں اہل اور دیانتدار لوگ تعینات ہوں اور گڈ گورننس ہو تو مقدمات کے انبار ہی نہ لگیں۔ جب ادارے ناکام ہوتے ہیں تو عدلیہ پر دباؤ پڑتا ہے اور اس کے ذمے داری اور بڑھ جاتی ہے ایسی صورتحال میں ریاستی اداروں کی ناانصافیوں کے خلاف عدلیہ ہی عوام کی امیدوں کا آخری سہارا ہوتی ہے، حکومتی کردار کے مقابلے میں عدالتوں کا یہ کردار رہا ہے کہ انھوں نے انتہائی دباؤ، کردار کشی، حکومتی عدم تعاون اور رکاوٹوں کے باوجود ہر قومی اور انسانی حقوق کے مسئلے پر بلاامتیاز و خوف فیصلے صادر کیے ہیں، خود اپنا احتساب بھی جاری رکھا ہے۔
چیف جسٹس کے بیٹے کے خلاف اسکینڈل سامنے آیا تو انھوں نے اسے قانون کے حوالے کرکے گھر سے نکال دیا۔ جوڈیشل پالیسی ساز کمیٹی نے اعلیٰ عدلیہ کے ریٹائرڈ ججوں کو فوری طور پر سرکاری عہدے چھوڑنے کی ہدایت کی ہے تاکہ دیگر لوگوں کی حق تلفی اور کارکردگی متاثر نہ ہو۔ اسی طرح گورنر کی غیر موجودگی میں چیف جسٹس کو قائم مقام گورنر بننے سے بھی روک دیا گیا ہے۔ انتخابی عمل میں عدالتی ججوں اور عملے کی شمولیت کو بھی ممنوع قرار دیا گیا تھا، ہفتے کی چھٹی میں بھی عدالتیں کام کر رہی ہیں بلکہ سپریم کورٹ نے تو سالانہ چھٹیوں کو بھی ختم کردیا تھا۔
حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ 5سال میں جہاں حکومت گڈ گورننس، میرٹ اور بنیادی حقوق کی خلاف ورزی اور عدالتوں سے عدم تعاون اور ان پر اثرانداز ہونے کی کوششیں کرتی نظر آتی ہے وہیں عدالتیں گڈ گورننس کے قیام، میرٹ اور بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ اور کرپشن کو ختم کرنے میں کوشاں اور بڑے بڑے اور نازک قومی معاملات چاہے وہ بلوچستان ہو یا سندھ ، بار بار حکومت کی توجہ حالات کی سنگینی کی طرف قبل ازوقت مبذول کراتی نظر آتی ہیں، اس لیے بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ اس پانچ سالہ حکومتی دور میں عدلیہ کا کردار قابل فخر اور حکومت کا کردار قابل فکر رہا ہے۔