لبرل ازم کی معاشی اور فلسفیانہ اساس آخری حصہ
جدید فاشزم ایک ایسا رویہ ہے جو سرمایہ داری نظام کے وسط میں موجود ہے، یہ حقیقت میں لبرل ازم کا بحران ہے۔
KARACHI:
لبرل آئیڈیالوجی اور مذہبیت کے مابین چند بنیادی امتیازات کو یوں بیان کیا جاسکتا ہے: لبرل ازم انسان کی مرکزیت کو تسلیم کرتا ہے، جب کہ مذہب خدا کی مرکزیت کا قائل ہے۔ لبرل ازم میں انسان عقلی تصورات کی تشکیل کرتا ہے، اور سماجی حوالوں سے عقلی نقطہ نظر سے وضع کی گئی اقدارکی حتمیت کو تسلیم کرتا ہے۔ ''ایمان'' کی ہر جہت کو عقل کی حدود کا پابند ہونا پڑتا ہے۔
الٰہیاتی مابعدالطبعیات میں انسان کی منشا و مرضی کی نفی ''ہستی مطلق'' کی مرکزیت کو قائم کرنے کے لیے ضروری ہے۔ لبرل ازم روشن خیالی پروجیکٹ سے جنم لینے والی عقلیت کی تحریک پر انحصار کرتا ہے، جس کا منبع و ماخذ خود انسان ہے۔ لبرل ازم خارجی اور باطنی سطح پر آزاد ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور یہی انفرادیت کا مفہوم ہے تاہم یہ نکتہ ذہن نشین رہنا بہت ضروری ہے کہ لبرل ازم کے مثالی آدرش ایک طرف، مگر حقیقت میں لبرل ازم انسان کو وہ خارجی حالات دینے میں ناکام رہا ہے، جو اعلیٰ اقدار کی تکمیل کے لیے لازمی تصور کیے جاتے ہیں۔
آزادی، مساوات، انصاف اور انفرادیت جیسے مثالی آدرش پیش تو کیے جاسکتے ہیں مگر دیکھنا یہ ہے کہ کیا ان تصورات کی وکالت کرنے والا نظریہ ان تصورات کے حصول کے لیے بنیاد فراہم کرسکا ہے یا نہیں! اپنے ابتدائی ادوار میں گزشتہ نظریات کی نفی کرتے ہوئے لبرل آئیڈیالوجی نے انسانی تصورات کی توسیع کو ممکن بنایا ہے، اور گزشتہ ادوار کی ساخت کو توڑ کر انسانی عقلیت کے دائرے کو وسیع کیا ہے مگر آج لبرل آئیڈیالوجی خود سے تضاد میں آچکی ہے، ایک ایسا تضاد جس کو حل کرنے کی استعداد اس کے نظریہ سازوں میں نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ لبرل ازم کی آئیڈیالوجی میں وہ تضادات کھل کر سامنے آگئے ہیں جن کو ایک عرصے تک روشن خیالی پروجیکٹ نے مخفی رکھا ہوا تھا۔
اہم نکتہ یہ ہے کہ موجودہ عالمی بحران کسی مذہب کا بحران نہیں ہے جیسا کہ لبرل ازم کے مبلغ دعویٰ کرتے ہیں۔ محض اس لیے دعویٰ کرتے ہیں تاکہ مذہب کو الزام دے کر سرمایہ داری نظام اور اس کی بالائی ساخت یعنی لبرل آئیڈیالوجی کے نقائص کو پوشیدہ رکھ سکیں، اور ساتھ ہی یہ بھی ثابت کرسکیں کہ لبرل ازم ایک آفاقی اور حتمی نظام ہے جب کہ ہم اس اصول کو تسلیم کرتے ہیں کہ کائنات میں حرکت و ارتقا کے اصول ہر نظریے میں مضمر شگاف کو سامنے لانے کے لیے کافی ہوتے ہیں۔ ہر نظام جو کبھی ارتقائی قوتوں کو مہمیز دیتا ہے، بالآخر ان ہی قوتوں کے راستے کی رکاوٹ بن جاتا ہے۔ حتمی اصول یا حتمی نظام کا تصور باطلِ محض ہے، حتمی اصول صرف ایک ہی ہے اور وہ ہے حتمیت کا خاتمہ!
عہد حاضر کی دہشت گردی، تشدد، ظلم و بربریت مذہب کی عطا کردہ نہیں ہے، یہ تمام بحرانی رجحانات سرمایہ داری نظام کی داخلی ہیئت میں مضمر اس بنیادی تضاد سے تشکیل پارہے ہیں جنھیں حل کرنے میں لبرل ازم بطور ایک آئیڈیالوجی ناکام ہو چکا ہے۔ یہ بحران لبرل ازم کی باطنی کشمکش اور حقیقی تضادات کو محض اپنی تصوراتی ساخت میں تحلیل کرنے کی کوششوں سے اور بھی زیادہ گہرا ہوتا جارہا ہے۔ سرمایہ داری نظام اور اس کی لبرل آئیڈیالوجی کا بحران عالمی سطح پر سیاست اور سماج کے علاوہ ادب و آرٹ، فلسفہ و تنقید، علم البشریات اور طبیعاتی اور حیاتیاتی سائنسوں کا بھی بحران بن چکا ہے۔
انسانی و معاشرتی اصلاح اور تمام علوم کے حوالے سے تشکیک کا رجحان لبرل ازم کے بحران کو منعکس کررہا ہے۔ مادیت پسندوں کے بعد مابعد جدیدیت کے حامیوں نے لبرل ازم کی نظری اساس کے کھوکھلے پن کو عیاں کردیا ہے۔ نظری حوالوں سے فلسفیانہ تصورات میں تضادات کے نمایاں ہونے سے آئیڈیالوجیکل شناختوں سے لے کر اجتماعی اور انفرادی شناختوں کا بحران بھی کھل کر سامنے آچکا ہے۔ مختصر یوں کہ لبرل ازم کا بحران اس کے تمام مثالی آدرشوں کا بحران بن چکا ہے اور اس کے بحران نے لبرل ازم کے اندر فاشسٹ رجحانات کو عیاں کردیا ہے۔
پاکستان کے ذرایع ابلاغ میں ''لبرل فاشزم'' جیسی اصطلاح کا بے دریغ استعمال کیا جاتا ہے۔ جو لوگ اس اصطلاح کا استعمال کرتے ہیں، وہ یہ واضح نہیں کرتے کہ ان کے ذہن میں لبرل ازم کے کون سے پہلو موجود ہوتے ہیں، جو انھیں فاشزم سے ہم آہنگ ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔ فاشزم اور لبرل ازم کے درمیان تعلق کو اس وقت تک نہیں سمجھا جاسکتا جب تک لبرل ازم اور فاشزم کے بنیادی تصورات کی تصدیق ان تحریکوں سے نہ کرلی جائے، جن میں مخصوص تصورات پر انحصار کیا جاتا رہا ہے۔ جدید فاشزم ایک ایسا رویہ ہے جو سرمایہ داری نظام کے وسط میں موجود ہے، یہ حقیقت میں لبرل ازم کا بحران ہے جسے فسطائیت سے موسوم کیا جاتا ہے۔
اس کا آغاز اس وقت ہوتا ہے جب لبرل آئیڈیالوجی خود سے تضاد میں آتی ہے، اور اس کے محافظ اس تضاد کی تحلیل بذریعہ طاقت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ زیادہ تر لوگ لبرل ہوتے ہیں، لیکن بحران کے ایام میں وہ فاشسٹ بن جاتے ہیں، لہٰذا بحران کو سرمایہ داری سے الگ کرکے نہیں دیکھا جاسکتا، اور نہ ہی فاشزم کو لبرل ازم سے الگ کرکے دیکھا جاسکتا ہے۔ میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ سرمایہ داری کا بحران ایک رجعتی اور قدامت پسندانہ رجحان ہے جس میں فاشزم خود کو ظاہر کرتا ہے۔ اس کی تفہیم اسی صورت ہوسکے گی جب روشن خیالی کی عقلیت اور اسی روشن خیالی کے بحران یعنی غیر عقلیت کو اس کے فاشسٹ اظہار میں دیکھا جائے گا۔
1919 میں تشکیل پانے والی مسولینی کی فاشسٹ پارٹی اور 1919 میں ہی قائم ہونے والی ہٹلر کی فاشسٹ پارٹی کے منشور میں سماجی و سیاسی نجات کے لیے تکثیریت کے بجائے فرد واحد کی اکلوتی حکمرانی پر کامل یقین بنیادی پہلو تھے۔ ہٹلر نے کہا کہ 1789 کے فرانسیسی انقلاب کو منہدم کرنے کا وقت آچکا ہے، جب کہ اٹلی میں یہ نعرہ عام تھا کہ ''حکمران'' پر یقین کامل رکھو، اس کی تابعداری کرو اور لڑائی کے لیے تیار رہو۔ اگرچہ لبرل ازم کے انفرادیت، مساوات، انصاف اور باہمی اخوت کے نعرے کھوکھلے تھے مگر ان کا انکار کیا گیا تھا۔ یہاں پر یہ نکتہ ذہن میں رہنا ضروری ہے کہ جب پاکستانی لبرلز اپنے تعصبات کی پشت میں عوام کی جدوجہد کو صرف اس لیے چھپا دیتے ہیں کہ ان کی رہنمائی کرنیوالا ''رہنما'' انھیں پسند نہیں ہے تو بلاشبہ وہ بھی تکثیریت کی نفی کرتے ہوئے رہنما کی ذات پر ہی تکیہ کیے رکھتے ہیں جو کہ بلاشبہ ایک فسطائی رجحان ہے لہٰذا پاکستانی لبرل فاشسٹوں میں شخصیت کی مرکزیت، عوام کی تحقیر، ارتقا میں رکاوٹ، عقلیت کی تبلیغ کے نام پر عقلیت کی نفی کے پہلو موجود ہیں۔ وہ اس حد تک مذہب بیزار ہیں کہ ان کو اپنی غیر عقلیت کا ادراک تک بھی نہیں ہے۔
لبرل آئیڈیالوجی تاریخ کے ایک خاص لمحے میں خود سے تضاد میں آجاتی ہے، اور روایت اور قدامت کے انہدام پر یقین کرنیوالی یہ آئیڈیالوجی انھی آدرشوں پر یقین کرنے لگتی ہے، جن کے خلاف یہ برسرِ پیکار رہی ہوتی ہے اور یہی وہ لمحہ ہے جہاں سے اس کا '' رد انقلابی'' یا فسطائی کردار شروع ہوجاتا ہے۔
بنیادی مسئلہ وہی ہے کہ بیسویں صدی کے آغاز کی لبرل جمہوریت آگے بڑھنے کی صلاحیت کھوچکی تھی، لہٰذا اپنی بقا و دوام کے لیے عوامی تخیل کو تسخیر کرنا ضروری تھا، اسی لیے سیاسی معاملات سے قطع نظر کرتے ہوئے فلسفیانہ پروجیکٹ میں سے کچھ ایسے تصورات مستعار لینے کی کوششیں شروع ہوگئیں کہ جس سے فسطائیت کو نظری جواز فراہم کیا جاسکے۔ یہاں پر یہ نکتہ سامنے آتا ہے کہ پارلیمان کی مرکزیت ہو یا کسی آمر کی، فسطائیت کے پہلو کو تصور مرکزیت اور اس مرکزیت کو قائم رکھنے کے لیے بے پناہ طاقت کے استعمال میں ہی تلاش کرنا ہوگا۔ ہٹلر ہو یا مسولینی، ٹونی بلیئر ہو یا جارج بش ان کے تصورات میں ہی ان کی فسطائیت کو تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔
ہٹلر نے جرمن قوم کی بقا کو مقدم گردانا اور جرمنی کی ''روح'' کو ازسرنو دریافت کرنے کا درس دیا۔ جارج بش نے ''برائی کے محور'' کی تثلیث تیار کی اور ''امریکی اقدار'' کے بقا اور تحفظ کے لیے اس کے انہدام کو لازمی گردانا۔ 9/11 کے بعد جارج بش کا یہ نعرہ کہ یا تم ہمارے ساتھ ہو یا ہمارے خلاف ہو، ہٹلر کے افکار کی یاد تازہ کراتا ہے۔ ہٹلر نے یہودیوں کا خاتمہ ضروری سمجھا جب کہ ہلیری کلنٹن نے اپنے نعروں میں ایران کو صفحہ ہستی سے مٹانے کو ضروری سمجھا۔ نیو لبرل آئیڈیالوجی اور فاشزم کے مابین تعلق کو ان مماثلتوں اور امتیازات کو نشان زد کیے بغیر سمجھنا بہت مشکل ہے۔
لبرل آئیڈیالوجی اور مذہبیت کے مابین چند بنیادی امتیازات کو یوں بیان کیا جاسکتا ہے: لبرل ازم انسان کی مرکزیت کو تسلیم کرتا ہے، جب کہ مذہب خدا کی مرکزیت کا قائل ہے۔ لبرل ازم میں انسان عقلی تصورات کی تشکیل کرتا ہے، اور سماجی حوالوں سے عقلی نقطہ نظر سے وضع کی گئی اقدارکی حتمیت کو تسلیم کرتا ہے۔ ''ایمان'' کی ہر جہت کو عقل کی حدود کا پابند ہونا پڑتا ہے۔
الٰہیاتی مابعدالطبعیات میں انسان کی منشا و مرضی کی نفی ''ہستی مطلق'' کی مرکزیت کو قائم کرنے کے لیے ضروری ہے۔ لبرل ازم روشن خیالی پروجیکٹ سے جنم لینے والی عقلیت کی تحریک پر انحصار کرتا ہے، جس کا منبع و ماخذ خود انسان ہے۔ لبرل ازم خارجی اور باطنی سطح پر آزاد ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور یہی انفرادیت کا مفہوم ہے تاہم یہ نکتہ ذہن نشین رہنا بہت ضروری ہے کہ لبرل ازم کے مثالی آدرش ایک طرف، مگر حقیقت میں لبرل ازم انسان کو وہ خارجی حالات دینے میں ناکام رہا ہے، جو اعلیٰ اقدار کی تکمیل کے لیے لازمی تصور کیے جاتے ہیں۔
آزادی، مساوات، انصاف اور انفرادیت جیسے مثالی آدرش پیش تو کیے جاسکتے ہیں مگر دیکھنا یہ ہے کہ کیا ان تصورات کی وکالت کرنے والا نظریہ ان تصورات کے حصول کے لیے بنیاد فراہم کرسکا ہے یا نہیں! اپنے ابتدائی ادوار میں گزشتہ نظریات کی نفی کرتے ہوئے لبرل آئیڈیالوجی نے انسانی تصورات کی توسیع کو ممکن بنایا ہے، اور گزشتہ ادوار کی ساخت کو توڑ کر انسانی عقلیت کے دائرے کو وسیع کیا ہے مگر آج لبرل آئیڈیالوجی خود سے تضاد میں آچکی ہے، ایک ایسا تضاد جس کو حل کرنے کی استعداد اس کے نظریہ سازوں میں نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ لبرل ازم کی آئیڈیالوجی میں وہ تضادات کھل کر سامنے آگئے ہیں جن کو ایک عرصے تک روشن خیالی پروجیکٹ نے مخفی رکھا ہوا تھا۔
اہم نکتہ یہ ہے کہ موجودہ عالمی بحران کسی مذہب کا بحران نہیں ہے جیسا کہ لبرل ازم کے مبلغ دعویٰ کرتے ہیں۔ محض اس لیے دعویٰ کرتے ہیں تاکہ مذہب کو الزام دے کر سرمایہ داری نظام اور اس کی بالائی ساخت یعنی لبرل آئیڈیالوجی کے نقائص کو پوشیدہ رکھ سکیں، اور ساتھ ہی یہ بھی ثابت کرسکیں کہ لبرل ازم ایک آفاقی اور حتمی نظام ہے جب کہ ہم اس اصول کو تسلیم کرتے ہیں کہ کائنات میں حرکت و ارتقا کے اصول ہر نظریے میں مضمر شگاف کو سامنے لانے کے لیے کافی ہوتے ہیں۔ ہر نظام جو کبھی ارتقائی قوتوں کو مہمیز دیتا ہے، بالآخر ان ہی قوتوں کے راستے کی رکاوٹ بن جاتا ہے۔ حتمی اصول یا حتمی نظام کا تصور باطلِ محض ہے، حتمی اصول صرف ایک ہی ہے اور وہ ہے حتمیت کا خاتمہ!
عہد حاضر کی دہشت گردی، تشدد، ظلم و بربریت مذہب کی عطا کردہ نہیں ہے، یہ تمام بحرانی رجحانات سرمایہ داری نظام کی داخلی ہیئت میں مضمر اس بنیادی تضاد سے تشکیل پارہے ہیں جنھیں حل کرنے میں لبرل ازم بطور ایک آئیڈیالوجی ناکام ہو چکا ہے۔ یہ بحران لبرل ازم کی باطنی کشمکش اور حقیقی تضادات کو محض اپنی تصوراتی ساخت میں تحلیل کرنے کی کوششوں سے اور بھی زیادہ گہرا ہوتا جارہا ہے۔ سرمایہ داری نظام اور اس کی لبرل آئیڈیالوجی کا بحران عالمی سطح پر سیاست اور سماج کے علاوہ ادب و آرٹ، فلسفہ و تنقید، علم البشریات اور طبیعاتی اور حیاتیاتی سائنسوں کا بھی بحران بن چکا ہے۔
انسانی و معاشرتی اصلاح اور تمام علوم کے حوالے سے تشکیک کا رجحان لبرل ازم کے بحران کو منعکس کررہا ہے۔ مادیت پسندوں کے بعد مابعد جدیدیت کے حامیوں نے لبرل ازم کی نظری اساس کے کھوکھلے پن کو عیاں کردیا ہے۔ نظری حوالوں سے فلسفیانہ تصورات میں تضادات کے نمایاں ہونے سے آئیڈیالوجیکل شناختوں سے لے کر اجتماعی اور انفرادی شناختوں کا بحران بھی کھل کر سامنے آچکا ہے۔ مختصر یوں کہ لبرل ازم کا بحران اس کے تمام مثالی آدرشوں کا بحران بن چکا ہے اور اس کے بحران نے لبرل ازم کے اندر فاشسٹ رجحانات کو عیاں کردیا ہے۔
پاکستان کے ذرایع ابلاغ میں ''لبرل فاشزم'' جیسی اصطلاح کا بے دریغ استعمال کیا جاتا ہے۔ جو لوگ اس اصطلاح کا استعمال کرتے ہیں، وہ یہ واضح نہیں کرتے کہ ان کے ذہن میں لبرل ازم کے کون سے پہلو موجود ہوتے ہیں، جو انھیں فاشزم سے ہم آہنگ ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔ فاشزم اور لبرل ازم کے درمیان تعلق کو اس وقت تک نہیں سمجھا جاسکتا جب تک لبرل ازم اور فاشزم کے بنیادی تصورات کی تصدیق ان تحریکوں سے نہ کرلی جائے، جن میں مخصوص تصورات پر انحصار کیا جاتا رہا ہے۔ جدید فاشزم ایک ایسا رویہ ہے جو سرمایہ داری نظام کے وسط میں موجود ہے، یہ حقیقت میں لبرل ازم کا بحران ہے جسے فسطائیت سے موسوم کیا جاتا ہے۔
اس کا آغاز اس وقت ہوتا ہے جب لبرل آئیڈیالوجی خود سے تضاد میں آتی ہے، اور اس کے محافظ اس تضاد کی تحلیل بذریعہ طاقت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ زیادہ تر لوگ لبرل ہوتے ہیں، لیکن بحران کے ایام میں وہ فاشسٹ بن جاتے ہیں، لہٰذا بحران کو سرمایہ داری سے الگ کرکے نہیں دیکھا جاسکتا، اور نہ ہی فاشزم کو لبرل ازم سے الگ کرکے دیکھا جاسکتا ہے۔ میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ سرمایہ داری کا بحران ایک رجعتی اور قدامت پسندانہ رجحان ہے جس میں فاشزم خود کو ظاہر کرتا ہے۔ اس کی تفہیم اسی صورت ہوسکے گی جب روشن خیالی کی عقلیت اور اسی روشن خیالی کے بحران یعنی غیر عقلیت کو اس کے فاشسٹ اظہار میں دیکھا جائے گا۔
1919 میں تشکیل پانے والی مسولینی کی فاشسٹ پارٹی اور 1919 میں ہی قائم ہونے والی ہٹلر کی فاشسٹ پارٹی کے منشور میں سماجی و سیاسی نجات کے لیے تکثیریت کے بجائے فرد واحد کی اکلوتی حکمرانی پر کامل یقین بنیادی پہلو تھے۔ ہٹلر نے کہا کہ 1789 کے فرانسیسی انقلاب کو منہدم کرنے کا وقت آچکا ہے، جب کہ اٹلی میں یہ نعرہ عام تھا کہ ''حکمران'' پر یقین کامل رکھو، اس کی تابعداری کرو اور لڑائی کے لیے تیار رہو۔ اگرچہ لبرل ازم کے انفرادیت، مساوات، انصاف اور باہمی اخوت کے نعرے کھوکھلے تھے مگر ان کا انکار کیا گیا تھا۔ یہاں پر یہ نکتہ ذہن میں رہنا ضروری ہے کہ جب پاکستانی لبرلز اپنے تعصبات کی پشت میں عوام کی جدوجہد کو صرف اس لیے چھپا دیتے ہیں کہ ان کی رہنمائی کرنیوالا ''رہنما'' انھیں پسند نہیں ہے تو بلاشبہ وہ بھی تکثیریت کی نفی کرتے ہوئے رہنما کی ذات پر ہی تکیہ کیے رکھتے ہیں جو کہ بلاشبہ ایک فسطائی رجحان ہے لہٰذا پاکستانی لبرل فاشسٹوں میں شخصیت کی مرکزیت، عوام کی تحقیر، ارتقا میں رکاوٹ، عقلیت کی تبلیغ کے نام پر عقلیت کی نفی کے پہلو موجود ہیں۔ وہ اس حد تک مذہب بیزار ہیں کہ ان کو اپنی غیر عقلیت کا ادراک تک بھی نہیں ہے۔
لبرل آئیڈیالوجی تاریخ کے ایک خاص لمحے میں خود سے تضاد میں آجاتی ہے، اور روایت اور قدامت کے انہدام پر یقین کرنیوالی یہ آئیڈیالوجی انھی آدرشوں پر یقین کرنے لگتی ہے، جن کے خلاف یہ برسرِ پیکار رہی ہوتی ہے اور یہی وہ لمحہ ہے جہاں سے اس کا '' رد انقلابی'' یا فسطائی کردار شروع ہوجاتا ہے۔
بنیادی مسئلہ وہی ہے کہ بیسویں صدی کے آغاز کی لبرل جمہوریت آگے بڑھنے کی صلاحیت کھوچکی تھی، لہٰذا اپنی بقا و دوام کے لیے عوامی تخیل کو تسخیر کرنا ضروری تھا، اسی لیے سیاسی معاملات سے قطع نظر کرتے ہوئے فلسفیانہ پروجیکٹ میں سے کچھ ایسے تصورات مستعار لینے کی کوششیں شروع ہوگئیں کہ جس سے فسطائیت کو نظری جواز فراہم کیا جاسکے۔ یہاں پر یہ نکتہ سامنے آتا ہے کہ پارلیمان کی مرکزیت ہو یا کسی آمر کی، فسطائیت کے پہلو کو تصور مرکزیت اور اس مرکزیت کو قائم رکھنے کے لیے بے پناہ طاقت کے استعمال میں ہی تلاش کرنا ہوگا۔ ہٹلر ہو یا مسولینی، ٹونی بلیئر ہو یا جارج بش ان کے تصورات میں ہی ان کی فسطائیت کو تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔
ہٹلر نے جرمن قوم کی بقا کو مقدم گردانا اور جرمنی کی ''روح'' کو ازسرنو دریافت کرنے کا درس دیا۔ جارج بش نے ''برائی کے محور'' کی تثلیث تیار کی اور ''امریکی اقدار'' کے بقا اور تحفظ کے لیے اس کے انہدام کو لازمی گردانا۔ 9/11 کے بعد جارج بش کا یہ نعرہ کہ یا تم ہمارے ساتھ ہو یا ہمارے خلاف ہو، ہٹلر کے افکار کی یاد تازہ کراتا ہے۔ ہٹلر نے یہودیوں کا خاتمہ ضروری سمجھا جب کہ ہلیری کلنٹن نے اپنے نعروں میں ایران کو صفحہ ہستی سے مٹانے کو ضروری سمجھا۔ نیو لبرل آئیڈیالوجی اور فاشزم کے مابین تعلق کو ان مماثلتوں اور امتیازات کو نشان زد کیے بغیر سمجھنا بہت مشکل ہے۔