نواز شریف کی نا اہلی ختم ہوسکتی ہے

آئین و قانون کی تشریح عدلیہ کا کام ہے۔ قانون سازی پارلیمنٹ کی ذمے داری ہے۔



KARACHI: اسے میری پیش گوئی کہہ لیجیے یا اگلے چند ماہ میں اختیار کیے جانے والے داؤ پیچ کا کچھ اندازہ کہ میاں نواز شریف کی موجودہ نااہلی کو پارلیمینٹ کے ذریعے ختم کرنے کی کوششیں کی جائیں گی۔ یہ کام موجودہ اسمبلی میں بھی ہو سکتا ہے یا اس پر اگلے عام انتخابات کے بعد کام کیا جاسکتا ہے۔ قانون سازی پارلیمنٹ کا استحقاق ہے۔ اسمبلی سادہ اکثریت سے قانون بناسکتی ہے اور دوتہائی اکثریت سے آئین میں ترمیم کی مجازہے۔ قانون سازی کے ضابطوں کو پورا کرتے ہوئے اسمبلی کسی نئے قانون کا اطلاق ماضی کی کسی تاریخ سے بھی کرسکتی ہے۔

مثال کے طورپر پارلیمنٹ یہ قرار دے سکتی ہے کہ جن امیدواروں نے 2013ء کے انتخابات میں حصہ لینے کے لیے گوشوارے جمع کروائے تھے وہ ان گوشواروں میں ترمیم کرسکتے ییں۔ سپریم کورٹ کے فیصلے میں نواز شریف کی نااہلی کی وجہ متحدہ عرب امارا ت سے حاصل کردہ اقامہ کا انتخابی گوشوارے میں ذکرنہ کرنا بتا ئی گئی ہے۔ نوازشریف کے خلاف فیصلے میں ان پر کسی کرپشن میں ملوث ہونے کا ذکر نہیں ہے۔ مسلم لیگ(ن)دیگر ہم خیال پارٹیوں کی مدد سے گوشواروں سے متعلق قوانین میں موثر بہ ماضی ترمیمات کرسکتی ہے۔ ایسی صورت میں نواز شریف قومی اسمبلی کا رکن بننے کے دوبارہ اہل ہوجائیں گے۔

ایسی قانون سازی کوئی نئی بات نہیں یے۔ پاکستان میں اس کی کئی نظیریں موجود ہیں۔

73ء کے آئین کے نفاذ کے بعد پاکستان کی پارلیمنٹ پہلے 1985ء میں اور دوسری بار 2002ء میں آئیں کے برخلاف قائم ہونے والی فوجی حکومتوں کو بھی موثر بہ ماضی سند قبولیت عطا کرچکی ہے۔ سپریم کورٹ بھی ائین سے انحراف کو قبول کرتی رہی ہے۔ 5 جولائی 1977ء کو جنرل ضیاء الحق نے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹنے کے ساتھ ساتھ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کو بھی تحلیل کردیا تھا۔

اس اقدام کے خلاف ایک مقدمے میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے جنرل ضیا کو حق حکمرانی تفویض کرنے کے ساتھ ساتھ فرد واحد کو پاکستان کے آئین میں ترمیم کی اجازت بھی دے دی تھی۔ جنرل ضیاء نے اقتدار حاصل کرنے کے تقریبا آٹھ سال بعد فروری 1985ء میں غیر جماعتی بنیادوں پر عام انتخابات کروائے۔ سیاسی پارٹیوں کو انتخاب حصہ لینے سے روکنے کا مقصد جنرل ضیاء کی ذاتی خواہشات کی تکمیل میں آسانیاں فراہم کرنا تھا۔ ان انتخابات کے نتیجے میں وجود میں آنے والی اسمبلی نے 5جولائی 1977ء تا 1985ء جنرل ضیاء کے سب اقدامات بشمول آئینی ترمیمات کو جائز قرار دے دیا۔ اس طرح 1973ء کا آئین ضیائی ترمیمات کے ساتھ دوبارہ نافذ العمل ہوگیا۔

12 اکتوبر 1999ء کو جنرل پرویز مشرف نے وزیر اعظم نوازشریف کی حکومت کا تختہ الٹا، اسمبلیاں تحلیل کیں، پہلے ملک کے چیف ایگزیکٹو اور پھر صدر بن گئے۔

سپریم کورٹ میں اس اقدام کے خلاف ایک مقدمہ دائر ہوا۔ اس میں بھی سپریم کورٹ نے جنرل پرویز مشرف کو پاکستان پر حکمرانی کی اجازت دینے کے ساتھ ساتھ انھیں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین میں حسب ضرورت ترمیم کی اجازت بھی دے دی۔ ساتھ ہی یہ حکم دیا کہ عام انتخابات تین سال کے اندر منعقد کروائے جائیں۔

صدر جنرل پرویز مشرف نے بھی اپنے پیش رو فوجی حکم راں جنرل ضیا کی پیروی کرتے ہوئے آئین میں چند ترامیم کیں اور اکتوبر 2002ء میں عام انتخابات کروادیے۔ عوام کی منتخب کردہ اس اسمبلی نے 12 اکتوبر 1999ء کے اقدام اور ان کی جانب سے کی گئی ترامیم کو سند قبولیت دے دی۔ اس طرح پرویزی ترمیمات بھی 1973ء کے آئین کا حصہ بن گئیں۔کچھ اندرونی سیاسی اور صحافتی دباؤ لیکن زیادہ تر مغربی جمہوری ممالک خصوصا امریکا کے اصرار پر پرویز مشرف کو فوج سے ریٹائرمنٹ لینا پڑی۔ لیکن اس سے قبل انھوں نے خود کو پارلیمنٹ سے اگلے پانچ سال کے لیے بھی صدر منتخب کروالیا تھا۔ تاہم دوسری مدت کے لیے صدر بننے کی خاطر انھوں نے وسیع پیمانے پر سودے بازی کی۔ اس مقصد کے لیے بدنام زمانہ این آر او جاری کیا گیا۔ اس آرڈیننس کے تحت ہزاروں افراد پر قائم مقدمات حکومت نے واپس لے لیے۔ این آر او کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ پرویز مشرف کسی بھی طرح عہدہ صدارت پر رہیں۔

1958 میں جنرل ایوب کی جانب سے پاکستان بھر میں لگائے گئے پہلے مارشل لا سے لے کر آج تک فوجی یا سویلین حکمرانوں اور اکثر سیاست دانوں میں ایک جذبے کی بالا دستی نظر آتی ہے۔ وہ جذبہ ہے ذاتی مفاد۔ سب حکم رانوں نے پوری کوشش کی کہ وہ زیادہ سے زیادہ عرصہ برقرار رہیں۔ ہمارے کئی سیاست دان جنوبی افریقہ کے لیڈر نیلسن منڈیلا اور ملائشیا کے لیڈر مہاتیر محمد کی بصیرت اور ان کی کامیابیوں کا ذکر تو بہت کرتے ہیں لیکن ان عظیم لیڈرز کی پیروی کرنے کے لیے کوئی تیار نہیں۔

صدر جنرل ایوب سے لے کر آج تک سیاست دانوں میں ایک جیسی سوچ ہی حاوی نظر آتی ہے۔ یحییٰ خان اپنی صدارت کے تسلسل کے لیے چالیں چلنے کے بجائے پاکستان کے وسیع تر مفاد کو سامنے رکھتے تو 70ء کے عام انتخابات کے بعد ہونے والے سانحے اور کئی انسانی المیوں سے بچا جاسکتا تھا۔

پاکستان کو متفقہ آئین دینے والے ذوالفقار علی بھٹو اگر سب سیاسی قوتوں کو مشاورت میں شریک رکھ کر جمہوری انداز میں حکومت چلاتے اور اس دور کی بہت فعال اپوزیشن کے ساتھ سخت رویہ اختیار نہ کرتے تو شاید جنرل ضیا خواہش کے باوجود 77ء میں مارشل لا نہ لگا پاتے۔

برسر اقتدار آنے کے بعد جنرل ضیاء الحق اپنی ذات کو بالادست رکھنے کے لیے پیپلز پارٹی کے ساتھ انتہائی سخت اور بہت تکلیف دہ رویہ نہ اپناتے اور ایم آر ڈی کی تحریک کو انتہائی بے رحمی کے ساتھ نہ کچلتے، آزادی اظہار کا گلا نہ گھونٹتے، پاکستان میں اخبارات پر بد ترین سینسرشپ نافذ نہ کرتے تو ملک کے کئی طبقات میں احساس محرومی اور فکری انتشار جنم نہ لیتا۔

کئی افسوس ناک واقعات میں سے ایک اور تاسف اس بات پر کہ صدر جنرل ضیاالحق اگر انتہائی شریف النفس، دیانت دار، سچے اور کھرے انسان، وزیر اعظم محمد خان جونیجو کی حکومت برطرف نہ کرتے تو پاکستان میں جمہوریت اور اچھی طرز حکمرانی (Good Governance) کی طرف بہت زیادہ پیش قدمی ہوچکی ہوتی۔

صدر غلام اسحق خان اور صدر فاروق لغاری نے نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کی منتخب حکومتوں کو بھی اپنی اپنی ذاتی خواہشات کو مقدم رکھنے کی وجہ سے ہی برطرف کیا تھا۔

سپریم کورٹ نے جنرل پرویز مشرف کی جانب سے 2007ء میں نافذ کردہ ایمرجنسی اور P.C.O کو غیر آئینی اور غیرقانونی قرار دے دیا۔ اس فیصلے سے پاکستان میں عدلیہ کے ذریعے آئین کی حفاظت اور بالا دستی کے نئے دور کا آغاز ہوا۔ آئین کی حفاظت اور قانون کی موثر حکمرانی کے لیے عدلیہ اپنے فرائض ادا کررہی ہے۔ اندرونی اور بیرونی دشمنوں سے پاکستان کی حفاطت کے لیے ہماری مسلح افواج اور سیکیوریٹی کے ذمے دار دیگر فوجی اور سویلین اداروں کا شان دار کردار سب کے سامنے ہے۔ اب سیاسی جماعتوں کو اپنے اپنے مثبت کردار کا تعین اور ان کی بہتر ادائی کا اہتمام کرنا ہے۔ آئین و قانون کی تشریح عدلیہ کا کام ہے۔ قانون سازی پارلیمنٹ کی ذمے داری ہے۔ حکومت چلانا عوام کے منتخب نمایندوں کا استحقاق ہے۔

پاکستان کو صحیح معنوں میں ایک جمہوری ملک بنانے کے لیے سیاسی جماعتوں کے سربراہوں اور سینئر لیڈرز کو پاکستان کے آئین اور قانون پر صدق دل سے عمل درآمد کا عہد کرنا ہوگا۔ کیسی عجیب بات ہے کہ سیاسی جماعتیں زبانی کلامی تو اپنی کمٹمنٹ جمہوریت کے ساتھ ظاہر کرتی ہیں لیکن اکثرجماعتوںمیںخودجمہوریت کے بجائے خاندانی بادشاہت والا نظام رائج ہے۔

اہم بات یہ ہے کہ ووٹرز کی اکثریت نے بھی اپنی اپنی پسندیدہ پارٹی میں اس روش کو قبول کرلیا یے۔ ہر پارٹی سے وابستہ افراد اپنے لیڈر کو کرپشن سمیت اس کی کئی برائیوں کے ساتھ قبول کیے ہوئے ہیں۔ کسی خرابی کی نشان دہی کو پارٹی کے خلاف پروپیگنڈہ یا اس سے بھی بڑھ کر جمہوریت کے خلاف سازش قراردینے لگتے ہیں۔ ایسے ماحول میں پارلیمنٹ میں اکثریت رکھنے والی جماعت اپنے حق میں کوئی قانون آسانی سے منظور کرواسکتی ہے۔ پارلیمنٹ کے باہر پارٹی کے حامیوں سے اس کی حمایت ہی متوقع ہے۔

جیسے شاہد خاقان عباسی کی بطور وزیراعظم نامزدگی سے یہ اشارے بھی مل رہے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) آیندہ کئی معاملات میں ضد اور ہٹ دھرمی کے بجائے متعلقہ اداروں کے ساتھ مفاہمت چاہتی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔