قلم کے سانپ

پاکستانی حکمرانوں نے تشدد اور ظلم بھارت کے حکمرانوں سے سیکھا بڑا بھائی جوکرے گا چھوٹ بھائی وہی کرے گا



بھارت کے صحافی اور کالم نگار بہت کم بھارت کے کارناموں پر نظر ڈالتے اور لکھتے ہیں۔ کارناموں سے مثبت پہلو منفرد نہیں بلکہ بھارت کی منفی سوچ کا ذکر مقصود ہے جس کا پرچار یہ لوگ اپنے خیال میں کاروبار کے لیے کرتے ہیں کیونکہ اشتہار بہر حال اخبار کی رگوں کا خون ہوتے ہیں اور ایشیا میں رگوں کا یہ خون ضمیر بیچ کر بھی لوگ خریدتے ہیں، ہم بھی اس سے الگ نہیں ایشیا میں رہتے ہیں، بھارت کے ایک صحافی کلدیپ نیئر کا کالم میں پڑھتا ہوں اور اس کا جواب دینے کی حماقت بھی کرتا ہوں مگر جو بھی پاکستان کے لیے بولے گا وہ موجودہ مارکیٹ میں احمق ہی کہلائے گا لہٰذا کوئی بات نہیں۔

میری صورت میں ایک احمق کا اضافہ یہ قوم برداشت کرسکتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ان کا تعلق متوازن، معتدل رائٹرز میں ہے مگر اس کے دو حملوں میں غلط ثابت کردیتے ہیں کہ ان کے قلم سے پاکستان کے خلاف زہر اور کشمیریوں کا لہو ٹپک رہا ہے۔ ایک حالیہ مضمون میں انھوں نے مقبوضہ کشمیر میں یاترا کا فروغ یاتریوں کی ترقی پر کالم لکھتے ہوئے وہاں یاتریوں پر حملے کو لشکر طیبہ سے جوڑدیا اور افسوس کا اظہار کیا کہ وہ اسے قبول کیوں نہیں کررہے۔

کمال حملہ آپ کروائیں اپنے یاتری آپ خود ہلاک کریں اور چاہتے ہیں کہ لشکر طیبہ یہ قبول کرلے تاکہ پھر پاکستان پر انگلیاں اٹھاسکیں۔ آپ کو یقین نہیں تو اوم پوری کی موت کا معمہ جو حل شدہ ہے پاکستان کے ایک اینکر نے تقریباً حل کردیا ہے وہ دیکھ لیں ایک مہمان کلاکار کو کس بے دردی سے قتل کیا گیا، سچ بولنے پر کہ فوجی کا کام سرحد پر لڑنا ہے تو وہ ہے ہی اس لیے اور یہ درست ہے اب اگر خود حملہ کریں دوسرے کی سرحد پر اور مارے جائیں تو شہادت کیسی، بھارت میں ایسے شہیدوں کی ایک لائن ہے جو پاکستانی سرحد پر حملہ کرتے ہوئے مارے جاتے ہیں۔ اوم پوری ایک شاندار انسان نے یہ حقیقت پاکستان آکر جان لی تھی کہ پاکستانی محبت کرنے والے لوگ ہیں۔

جارح ہمیشہ بھارت ہے بھارت پاکستان کا دشمن ہے پاکستان بھارت کا عام طور پر بھی دشمن نہیں اور خاص طور پر اس لیے نہیں کہ بھارت میں پاکستان کے لوگوں کے رشتے دار، اعزا و اقارب رہتے ہیں۔ پاکستان کو بھارت سے محبت ہے، بھارت کا سامان پاکستانی مارکیٹوں میں بک رہا ہے، چوڑیاں تک بھارت سے لاکر حیدرآباد سندھ کی چوڑی کی صنعت کو تباہ کردیا، محبت میں تباہ تو ہونا پڑتا ہے پھر آپ کو کلبھوشن بھی ایک ہیرو لگتا ہے جس نے پاکستانیوں کو ہلاک کیا وہاں آپ کو انسانی ہمدردی نظر آجاتی ہے، کشمیر میں کشمیریوں پر توڑے جانے والے مظالم آپ کی آنکھوں کو ڈل جھیل کا نظارا دیتے ہیں۔

ابھی حال ہی میں سکھ یاتریوں کو پاکستان آنے سے روک کر بھارت نے کس کو خیر سگالی کا پیغام دیا ہے سکھوں کو یا پاکستان کو؟ یہ آپ کی عینک کے نیچے مسائل ہیں مگر چونکہ آپ مہا اور مہمان کے پرچارک ہیں لہٰذا آپ کو نظر نہیں آتا میری عینک کے نیچے سارے مسائل ہیں جن میں پاکستان کے ایک طبقے کی بھارت نوازی اور مودی کی آنکھ بے غیرت کرنے کی بین الاقوامی طور پر تمام ترکیبیں ہیں ایسا ہی ہونا چاہیے جو اپنے ملک کا نہیں وہ ایک رسوا انسان کے علاوہ اور کیا ہوسکتا ہے پاکستان پر اس وقت برا وقت ہمارے اپنوں کالایا ہوا ٹل جائے گا۔

مہاراجہ کشمیر ہری سنگھ کی تو آپ تعریف کریں گے ہی کیونکہ انھوں نے کشمیر کو کشمیریوں کی مرضی کے خلاف بھارت کو فروخت کرنے کی کوشش کی جو آج تک کامیاب نہ ہوسکی۔ لاکھوں کشمیری بھارت نے شہید کردیے مگر جذبے کو فتح نہ کرسکے۔ کشمیر، کشمیریوں کا ہے، پاکستان کی شہ رگ ہے جسم کے ساتھ رہے گی۔ چاہے اپنے پرائے کچھ بھی کرلیں کشمیریوں کو فتح نہیں کرسکتے ان کا رواں رواں کہتا ہے کشمیر بنے گا پاکستان یعنی بھارت سے آزاد ہوگا۔

آپ اپنے یہاں آزادی کی کچھ اور تحریکوں پر بھی تو لکھیں آپ کا انجام بھی اوم پوری ''سچ کے شہید'' جیسا ہوگا۔ آپ نہیں لکھیں گے کہ دس سے زیادہ ریاستوں میں زیر زمین آزادی تحریکیں چل رہی ہیں یہ ریاستیں بھارت کی غلامی سے آزاد ہونا چاہتی ہیں آپ کا قلم ہمیشہ حکومت سے تعاون کی تلقین کے اصول پر چلتا ہے روزی روٹی کا سوال ہے نا۔

بھارت میں اوم پوری ایک ہی تھا جرأت مند غیور انسان اس کا مذہب کچھ بھی ہو اس کی جرأت کو سلام پاکستان کے حق میں بولنے پر نہیں سچ بولنے پر سلام۔

کشمیر کے مجاہدین کو آپ مقامی دہشت گرد کہتے ہیں، لعنت ہے اس قلم پر جو ایسا لکھے آپ کہتے ہیں کہ بنیاد پرستوں اور پاکستان کے پروپیگنڈے نے ایک خوبصورت شے کو تباہ و برباد کردیا، جھوٹ کی انتہا ہے ایک قوم پر چور دروازے سے مسلط ہوکر تقسیم کے اصول کی خلاف ورزی کرکے کہ جہاں جو اکثریت میں ہے وہ علاقہ اس ملک کا ہے پاکستان سے کشمیر کو چھین کر امن کا راگ الاپنا آپ جیسے لوگوں کا ہی کام ہے آپ اندرا گاندھی کے سکھوں پر ظلم کو بھول گئے یہ وہی طریقہ کار تھا جو ان کے والد نے کشمیر میں اپنایا تھا۔

پاکستان میں بھی ہمیشہ کچھ نادانوں کو بھارت کی سرپرستی حاصل رہی کم از کم تین صوبوں میں ایک صوبے کی مقامی جماعتیں تو اب بھی کانگریسیت زدہ ہیں اور پاکستان کو تسلیم نہ کرنے کا پروپیگنڈا کرکے ان کے لیڈر ذاتی مفاد مرکز سے حاصل کرتے ہیں۔ آصف زرداری پاکستان کا ایک خوف زدہ صدر جو ہیں مرتبے کا اہل نہیں تھا اس سے کافی مراعات انھوں نے حاصل کیں کھایا پاکستان کا گایا افغانستان اور بھارت کا۔ یہ دہشت گردی کی جنگ کے چھپے ہوئے لیڈر ہیں کبھی ان کا اصل چہرہ بھی وقت دکھادے گا مفاد پرستوں کا خدا نمایاں کردیتا ہے۔

آپ نے اپنے کالموں میں پاکستان کی تقسیم کو ہمیشہ غلط قرار دیا کیونکہ آپ خدانخواستہ پاکستان نہ بنتا تو مسلمانوں سے ان گناہوں کا بدلہ لینا چاہتے تھے جو انھوں نے کیے ہی نہیں، مسلمان حکمرانوں کی برصغیر پر آٹھ سو سالہ تاریخ میں ہمیشہ فائدے میں ہندو رہے۔ ہندو لڑکیاں آج بھی مسلمان لڑکوں سے شادی کرتی ہیں اگر بادشاہوں نے کی تو کیا ظلم کیا یہ محض ایک جملہ معترضہ ہے۔

سمجھوتا ایکسپریس کو آپ نے کس کے کھاتے میں ڈال دیا، مقامی دہشت گردوں کے جب کہ اس میں مودی اور اس کا ٹولہ شامل تھا اور اس کی تحقیقات کرنے والے کو آپ نے اوپر پہنچادیا اوم پوری کی طرح۔

پاکستانی حکمرانوں نے تشدد اور ظلم بھارت کے حکمرانوں سے سیکھا بڑا بھائی جوکرے گا چھوٹ بھائی وہی کرے گا دونوں بھائی اناپرست تھے، ہیں حکمرانوں کی حد تک۔

کشمیر میں آبادی کے تناسب کو بدلنے کی سازش جاری ہے آپ اس پر کچھ نہیں لکھتے کیونکہ یہ آپ کی من پسند بات ہے پاکستان کا کانٹا بقول آپ کے کشمیر سے نکال دیا جائے تو پھر سکون ہی سکون ہے۔ کرلو غلام کشمیریوں کو، پر یہ خواب ہے آپ جیسوں کا۔ کشمیری مسلمان ہیں اور پکے مسلمان ہیں جو جذبہ جہاد سے سرشار ہیں اور کر بھی رہے ہیں کفار اور ظالم کے خلاف تو رات دن شہادتیں ایک تاریخ حریت کی ایسی رقم کررہے ہیں کہ جو آج نہیں تو کل دنیا کی تاریخ کا حصہ ہوںگی۔ وہ مفاد پرست ملک جو بھارت کا ساتھ دیتے ہوئے اس انسانی المیے پر خاموش ہیں وہ کل ان خواب آپ دیکھتے ہیں۔ ہم حقیقت نگار ہیں آپ پتھروں سے ڈرتے ہیں۔ کشمیری سینے پر گولی کھاتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں