جدید دور اور قنوطیت پسند فلسفہ

ایک پھل فروش سے لیکر وزیراعظم کس مقصد کے تحت زندگی گزار رہے ہیں؟ اور انسان اپنی زندگی گزارنے پر کس لیے مجبورکردیا گیا؟

آپ ذہن میں کیا سوچ رہے ہیں معاشرہ آپ سے جاننے کا ہی نہیں بلکہ اِس کو چھین کر آپ پر لعن طعن کرنے کا بھی مکمل حق رکھتا ہےَ فوٹو: فائل







'ماں مرچکی ہے، آج یا کل ۔۔۔ مجھے نہیں معلوم'

یہ الفاظ شاید بیسویں صدی کے اخلاقی اور جذباتی بحران کے غماز ہیں۔ اقدار اور اُمید سے لبریز معاشرے میں اِس قسم کا اظہار کسی شخص کو کس نتیجے تک پہنچا سکتا ہے یہ جاننے کے لیے آپ کو اِن الفاظ کے موجد البرٹ کامیو کا ناول 'اجنبی' The Stranger پڑھنا پڑھے گا۔


کامیو الجزائر میں پیدا ہونے والا بیسویں صدی کا فلسفی ہے جس کا فلسفہ،


  • زندگی اور اِس کا مقصد کیا ہے؟

  • کیا یہ زندگی جینے کے قابل ہے؟


جیسے سوالات کے گرد گھومتا ہے۔ جس برس کامیو نے یہ ناول لکھا اُسی برس 'Myth of Sisyphus' کے نام سے اِس کا ایک مقالہ شائع ہوا، جس کی ابتداء اِس مفروضے سے ہوتی ہے کہ، خودکشی ہی صرف ایک فلسفیانہ سوال ہے کیونکہ باقی سوالات چاہے اُن کا تعلق معاشرے سے ہو یا فطرت سے تمام تر کا اثبات زندگی کے وجود کے بعد ہوتا ہے، اِسی لیے بذاتِ خود زندگی کیا اور کیوں ہے؟ اور کیوں زندگی جینا ضروری ہے؟ ایک معروضی مسئلہ ہے۔


حتیٰ کہ کامیو اِن حقیقت پرستوں پر تنقید کرتا ہے جنہوں نے کسی فطری حقیقت کے اقرار کی وجہ سے خود کو موت کے منہ میں دھکیل دیا ہے۔ کامیو گلیلیو کی تعریف کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اُس نے ایک اچھا فیصلہ کیا تھا کیونکہ زمین کا سورج کے گرد گھومنا ایک ایسی حقیقت ہے کہ جس کے بارے خود کو دوسروں کے ہاتھوں قتل کروانے کی کوئی احتیاج نہیں ہے۔



ایک قنوطی کا جنم معاشرے کی جانبدار روایات اور غیر منطقی رجحانات کو مسترد کرنے سے ہوتا ہے۔ ایک پھل فروش سے لے کر وزیراعظم کس مقصد کے تحت اپنی زندگی گزار رہے ہیں؟ اور انسان اپنی زندگی گزارنے پر کس لیے مجبور کردیا گیا؟ جیسے سوالات کا کوئی مطلق جواب نہ ہونا کسی بھی اُمید پسند کو قنوطی بننے پر مجبور کرسکتا ہے۔


ساتھ ہی ساتھ معاشرے کی اجارہ داری اِس انتہاء پر پہنچ چکی ہے کہ لوگ آپ کی تخیلاتی واردات کے بارے میں بھی جاننا چاہتے ہیں، آپ ذہن میں کیا سوچ رہے ہیں معاشرہ آپ سے جاننے کا ہی نہیں بلکہ اِس کو چھین کر آپ پر لعن طعن کرنے کا بھی مکمل حق رکھتا ہے۔ قنوطی اور غمگین لوگوں کو غیر حساس شخص کے طور پر لیا جاتا ہے لیکن اگر بات ہو اپنے جون ایلیا صاحب کی تو اُن کے ہاں ایسا بالکل نہیں ہے۔ وہ اُمید پسندوں کو غیر حساس گردانتے ہیں۔ جون کہتے ہیں کہ،



''تاریخ کے حساس انسانوں نے اپنی زندگی کا زیادہ تر حصہ اُداس رہ کر گزارہ ہے۔ زندگی میں خوش رہنے کے لیے بے انتہا ہمت نہیں بلکہ بہت بے حسی چاہیے''

اِسی نہج پر ایک گمنام قنوطی نے کچھ یوں لکھا ہے کہ، یقین مانیے میں نے یاسیت پھیلانے کے علاوہ کوئی فن نہیں سیکھا کیونکہ میں اِس کا ادراک کرچکا ہوں کہ اُمید دلانے کے لیے فریب اور بے تحاشہ بے حسی کی ضرورت ہے۔ میرا فلسفہ مایوس کن ہے، میں ایک مبلغ کی طرح ایسی اُمیدیں قائم کرنے کا خود کو اہل نہیں سمجھتا جو آخری سانس میں انسان کو اُن خوشیوں کی یاد دلادے جو اُس نے غیر ضروری اُمیدوں کے سائے تلے قتل کردیں تھیں۔ میرے خیال میں انسانی بقاء اِسی امر میں پوشیدہ ہے کہ وہ خود کو کائناتی ذرے کے برابر تصور کرے اور یہ جان لے کہ اِس کا ہونا یا نہ ہونا کائناتی توازن میں ٹکے کی حیثیت نہیں رکھتا ہے۔ فطرت کا کوئی مذہب نہیں ہے اور مذہب کی کوئی فطرت نہیں ہے، اشرف ہونے کے خوش کن خیالات کے بارے میں شاید کسی افریقی بچے سے دریافت کرنا چاہیے کہ آیا وہ بھوک و افلاس کی جھونپڑی میں یہ صدا بلند کرنے کی ہمت رکھتا ہے کہ وہ سب سے افضل مخلوق ہے؟ کیا وہ یہ سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہے کہ وہ منتخب کرلیا گیا ہے؟ ایسی ابتداء ذات کے انکار تک آپہنچتی ہے جس کا نظارہ ایلیا کی شاعری میں بھی جابجا نظر آتا ہے۔


ایلیا شاید اردو ادب میں پہلا باقاعدہ قنوطی ہے جس نے پاکستان جیسے اُمید پرست معاشرے میں بھی خودکشی جیسے موضوعات کو جمالیاتی کپڑے پہنائے ہیں۔ آسائش کی ہوس جبر تھی سو تھی، ہر لمحہ خودکشی کی سہولت بھی جبر ہے۔ البرٹ کامیو اور مشرق کے جون میں مماثلت پائی جاسکتی ہے لیکن خودکشی کے موضوع پر جہاں کامیو اِس کرب کو وجود کا ایک حل سمجھتا ہے وہاں جون اِس سے بھی انکاری ہے۔




زندگی ایک فن ہے لمحوں کو
اپنے انداز میں گنوانے کا (جون ایلیا)


نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے

اگر آپ بھی ہمارے لیے بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریراپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک و ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کیساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اور ویڈیو لنکس بھی


Load Next Story