عمران خان نااہلی کیس ممنوعہ فنڈز پر حکومت کو کوئی کارروائی کرنی ہے تو کرے چیف جسٹس

پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ میں جعلی سرٹیفکیٹ داخل کرنے پر نااہل قرار نہیں دیا جا سکتا، چیف جسٹس پاکستان کے ریمارکس

چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ کیس کی سماعت کررہا ہے۔ فوٹو: فائل

سپریم کورٹ میں چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں تحریک انصاف پارٹی فنڈنگ اور عمران خان نااہلی کیس کی سماعت جاری ہے۔

چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ عمران خان نا اہلی اور تحریک انصاف پارٹی فنڈنگ کیس کی سماعت کررہا ہے، اس موقع پر پی ٹی آئی کے وکیل انور منصور نے گزشتہ سماعت پر اٹھائے گئے نکات کا جواب دیا جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ یہ بات درست ہے کہ ایل ایل سی یو ایس اے تحریک انصاف کی ایجنٹ اور ایل ایل سی ایجنٹ پی ٹی آئی پاکستان کے لیے فنڈ ریزنگ کرتی ہے، اگر ایل ایل سی ممنوعہ زرائع سے فنڈز وصول کرے تو کیا کرنا چاہیے جس پر انور منصور نے کہا کہ پی ٹی آئی یو ایس جو ہدایات دی گئی ہیں ان کے مطابق فنڈز اکٹھے کرتی ہے۔

اس خبر کو بھی پڑھیں : تحریک انصاف نے سماعت ملتوی کرنے کی درخواست دائر کردی

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیا ممنوعہ زرائع سے پاکستان آنے والا فنڈ قبول کرنا چاہیے، جب فنڈز اکٹھے کیے جاتے ہیں تو فارا آپ کو فہرست فراہم کرتا ہے جب کہ ہمیں جو لسٹ ایجنٹ بھیجتا ہے ہمارے پاس موجود ہوتی ہے، جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ کیا تمام فہرستیں ویب سائٹ پر موجود ہوتی ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اکرم شیخ نے کہا کہ آپ کارپوریشنز سے بھی رقم وصول کرتے ہیں، کیا فارا کو آپ نے معلومات دی جس پر انور منصور نے کہا کہ فارا کو معلومات دینا ہمارا کام نہیں، ایجنٹ نے دییے گئے اختیارات کے تحت ہی کام کرنا ہے جب کہ پی ٹی آئی کے پاس وہی فہرست آتی ہے جو ایجنٹ پاکستان بھیجتا ہے، ایجنٹ اطلاع دیتا ہے کہ فنڈز قانون کے مطابق اکٹھے کئے گیے۔

حنیف عباسی کے وکیل اکرم شیخ نے اپنے دلائل میں کہا کہ ایجنٹ کے معاہدے کے خلاف اقدام پر پارٹی کو بری الذمہ قرار نہیں دیا جا سکتا، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ میں جعلی سرٹیفکیٹ داخل کرنے پر نااہل قرار نہیں دیا جا سکتا، عوامی نمائندگی ایکٹ میں بھی جعلی سرٹیفکیٹ داخل کرنے پر قانونی نتائج بھگتنے کا ذکر نہیں جب کہ پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ اور عوامی نمائندگی ایکٹ میں غلط سرٹیفکیٹ پر نااہلی کی سزا کا ذکر نہیں۔

اس خبر کو بھی پڑھیں : مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں پر چیف جسٹس برہم

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ قانون میں غلطی اور اس کے نتائج دونوں درج ہوتے ہیں، قانون میں ممنوعہ فنڈنگ ضبط کئے جانے کا ذکر ہے جب کہ قانون میں کہاں لکھا ہے کہ سزا نااہلی ہے جس پر اکرم شیخ نے کہا کہ تحریک انصاف کا فارا ایجنٹ محمد نصراللہ فارا کے تمام معاملات کو دیکھتا ہے اور محمد نصر اللہ فارا کے پاس تحریک انصاف کا ایجنٹ تھا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اتنی مشکل بات کو عام آدمی کیسے سمجھے گا جس پر اکرم شیخ نے کہا کہ آپ کے ان ریمارکس کی ہیڈ لائنز بن جائے گی،عمران خان کی کرکٹ کھیل کے بارے میں بتاؤں گا، عمران خان بہت محنتی آدمی ہے اور انہوں نے عام آدمیوں کے علاوہ اسٹیبلشمنٹ کو بھی متاثر کیا۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ لگتا ہے آپ میڈیا میں ہیڈ لائن چھپوانے کے لیے ایسی باتیں کر رہے ہیں، کبھی آسٹریلیا اور کبھی کیری پیکر کو لے آتے ہیں، اکرم شیخ نے کہا کہ میرے علم میں نہیں کہ میڈیا عدالت میں موجود ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یاد رکھیں آپ جواب الجواب میں دلا ئل دے رہے ہیں، عدالت کسی فریق کو وقت نہیں دے گی جب کہ وفاقی حکومت نے ممنوعہ فنڈز کے حوالے سے جو کارروائی کرنی ہے کرے، اکرم شیخ نے دلائل میں کہا کہ عمران خان نے جعلی سرٹیفکیٹ جمع کروایا جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ قانون میں یہ بھی واضح نہیں کہ ممنوعہ فنڈز کی تصدیق کیا ہے جب کہ ہم عمران خان کے سرٹیفکیٹ کو جعلی کیسے قراد دیدیں جس پر اکرم شیخ نے کہا کہ عمران خان نے شوکت خانم اسپتال اور میانوالی یونیورسٹی کے لیے ہینری کیسنجر فاؤنڈیشن سے فنڈز لیے، ہمیں صرف اعتراض پولیٹیکل فنڈنگ پر ہے۔


چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیا ہم پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ میں قانون نہ ہونے کے باوجود عمران خان کو نااہل قرار دے دیں، اکرم شیخ نے دلائل میں کہا کہ عمران نے جو دستاویزات عدالت میں جمع کروائی ہیں وہ فراڈ ہیں، جعلی دستاویزات پر چیئرمین ایس ای سی پی پر مقدمہ درج ہواہے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ عمران خان کی عدالت میں دستاویزات داخل کرنے کا الیکشن کمیشن سے کیا تعلق ہے جس پر اکرم شیخ کا کہنا تھا کہ کاشف نامی شخص نے ایک ہی دن میں کئی مرتبہ تحریک انصاف کو فنڈز دیے، جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ ہو سکتا ہے ایک شخص نے دوسرے لوگوں کی طرف سے فنڈز جمع کروائے ہوں جس پر اکرم شیخ نے کہا کہ سپریم کورٹ جب کارروائی کرنا چاہے تو کر لیتی ہے جب کہ امریکی قانون کے مطابق 10 ہزار ڈالرز سے زائد رقم تحفہ دینا غیر قانونی ہے، مہر بن عاشق نامی شخص نے 25 ہزار ڈالرز کی فنڈنگ پی ٹی آئی کو کی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ امریکی قوانین کا یہاں اطلاق نہیں ہوتا، اکرم شیخ نے دلائل میں کہا کہ تحریک انصاف کی جمع کروائی گئی دستاویزات فارا سے مطابقت نہیں رکھتیں، جسٹس عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ آپ کے اعدادوشمار ہمیں سمجھ نہیں آ رہے جس پر اکرم شیخ نے کہا کہ دنیا میں یہ کہیں نہیں ہوتا کہ رقوم لی جائے اور آمدن میں ظاہر نہ کی جائے۔

جسٹس فیصل عرب نے ریمارکس دیے کہ یہ ایک اچھی بات ہے کہ بیرون ملک سے فنڈز آ رہے ہیں، کیا حکومتیں امریکہ سے پیسے نہیں لیتیں جس پر اکرم شیخ نے کہا کہ امریکی پالیسی نے ملک تباہ کر دیا۔ جسٹس عمرعطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ فارن پالیسی کے معاملات کا عدالتی کارروائی سے کوئی تعلق نہیں جس پر کرم شیخ نے دلائل دیے کہ پی ٹی آئی کی فنڈنگ مشکوک ہے، پی ٹی آئی فنڈنگ کے ذرائع میں شفافیت نہیں، چند ناموں کو بار بار لکھا گیا ہے جب کہ برائٹ اسمائل سمیت 195 کمپنیوں سے فنڈز لیے گئے۔ انہوں نے کہا کہ میرے پاس جعلی دستاویزات بنانے کا کوئی ذریعہ نہیں، تمام مواد فارا کی ویب سائٹ سے ڈاوٴن لوڈ کیا ہے۔

جسٹس فیصل عرب نے استفسار کیا کہ کیا ہر کیس میں آرٹیکل 62 لگایا جا سکتا ہے، کہیں بھی کوئی رکن اسمبلی غلط بیانی کرے تو کیا آرٹیکل 62 لگے گا جس پر اکرم شیخ نے کہا کہ جمہوریت کا تحفظ ضروری ہے، آزاد عدلیہ کے لیے جمہوریت ضروری ہے جب کہ شفاف سیاست جمہوری عمل کے لیے ناگزیر ہے لہذا عدالت کی ذمہ داری ہے کہ جمہوریت برقرار رکھے، غیر شفاف سیاست پر جمہوری نظام لپیٹا جاتا ہے۔

اس خبر کو بھی پڑھیں : الیکشن کمیشن کے اختیارات پرسمجھوتہ نہیں ہوگا، سپریم کورٹ

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کسی رکن اسمبلی کے پاس کرایہ ادا کرنے کا گواہ نہ ہو تو کیا وہ بھی نا اہل ہو گا جس پر اکرم شیخ نے کہا کہ غلط بیان حلفی پر عدالت کئی ارکان کو نااہل قرار دے چکی ہے جب کہ تنخواہ نہ ظاہر کرنے پر وزیر اعظم بھی نااہل ہو گئے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ وزیر اعظم کی نااہلی سے متعلق فیصلے پر کوئی تبصرہ نہیں کر رہے،اکرم شیخ نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ کاغذات نامزدگی میں اثاثے ظاہر نہ کریں تو نااہلی ہوتی ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ قانون میں اثاثے ظاہر نہ کرنے پر نااہلی لکھی گئی ہے جس پر اکرم شیخ کا کہنا تھا کہ کیا نجی معلومات میں غلط بیانی پر آرٹیکل 62 لگے گا اور کیا نجی معاملات میں صادق اور امین کا معاملہ اٹھایا جا سکتا ہے، عام آدمی اور لیڈر کے لیے معیار مختلف ہونا چاہیے، لیڈر کو عام آدمی کے لیے رول ماڈل ہونا چاہیے۔

شیخ اکرم کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی نے کہا تھا ملٹی نیشنل کمپنیوں سے فنڈز لیے جا سکتے ہیں، وکیل عمران خان انور منصور نے کہا کہ میری بات کو غلط انداز میں پیش کیا جا رہا ہے، اکرم شیخ نے دلائل میں کہا کہ کیا پاکستان کے مفاد کے خلاف چلنے والی کمپنی سے فنڈ لیا جاسکتا ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگرممنوعہ فنڈز لیے ہیں تو زیادہ سے زیادہ ضبط ہو جائیں گے جس پر اکرم شیخ کاکہنا تھا کہ ایسی پارٹی کے سربراہ کو راست گوئی کا سرٹیفکیٹ عدالت دیتی ہے تو اعتراض نہیں، چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ سرٹیفکیٹ کا مقصد الیکشن کمیشن کی تسلی کروانا ہے، الیکشن کمیشن کی تسلی نہ ہو تو سیاسی جماعت کو انتخابی نشان الاٹ نہیں ہوتا جب کہ درخواست گزار کے مطابق عمران خان کا سرٹیفکیٹ جھوٹا ہے۔

اکرم شیخ نے دلائل میں کہا کہ عدالت اپنے اسٹاف سے فارا کی ویب سائٹ کھلوا کر دیکھ لے جب کہ لازمی نہیں کہ ہر کیس میں جے آئی ٹی بنائی جائے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ شیخ صاحب، ہم انکوائری کے معاملے میں محتاط ہیں، ہمارا کام شواہد جمع کرنا نہیں۔ عدالت نے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی۔
Load Next Story