پاکستان کے بارے میں 70 سنہری حقائق دوسری قسط

پاکستان کے حوالے سے ایسی مثبت باتیں جن کے بارے میں شاید آپ پہلے نہیں جانتے ہوں۔


پاکستان کے حوالے سے ایسی مثبت باتیں جن کے بارے میں شاید آپ پہلے نہیں جانتے ہوں۔

ایکسپریس اردو بلاگز کی جانب سے اپنے قارئین کے لیے یوم آزادی کے موقع پر خصوصی سلسلہ شروع کیا جارہا ہے جس میں 14 اگست تک روزانہ کی بنیاد پر پاکستان اور پاکستانیوں کے سنہری حقائق / اعزازات پیش کیے جائیں گے۔




پاکستان کے بارے میں 70 سنہری حقائق (پہلی قسط)

 

ایٹمی توانائی کے حوالے سے پاکستان کی خصوصی شہرت کیا ہے؟


اگرچہ ایٹمی توانائی کا نام آتے ہی 1998ء میں پاکستان کے ایٹمی دھماکوں کا خیال آتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاکستان نے ایٹمی توانائی پر سنجیدہ پیش رفت 1960ء کے عشرے ہی سے شروع کردی تھی اور اٹامک انرجی کمیشن کے سربراہ ڈاکٹر آئی ایچ عثمانی کی قیادت میں بڑے پیمانے پر ایٹمی سائنسدانوں اور انجینئروں کی بیرونِ ملک تربیت کا آغاز بھی کیا جاچکا تھا۔ اِن کوششوں کے نتیجے میں صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ پورے عالمِ اسلام کے پہلے ایٹمی بجلی گھر ''کراچی نیوکلیئر پاور پلانٹ'' (KANUPP) کی تعمیر 1966ء میں شروع کردی گئی تھی۔ 90 میگاواٹ بجلی بنانے والے اِس ایٹمی بجلی گھر کی ٹیکنالوجی کینیڈا سے حاصل کی گئی تھی جبکہ تکنیکی طور پر یہ ''پریشرائزڈ ہیوی واٹر ری ایکٹر'' شمار کیا جاتا ہے۔

پیراڈائز پوائنٹ، کراچی کے مقام پر واقع کینپ نے 18 اکتوبر 1971ء سے قومی گرڈ کے لیے بجلی کی پیداوار شروع کردی تھی جبکہ متعدد بار مرمت اور جدت طرازی کے مرحلوں سے گزرنے کے بعد یہ آج تک بجلی بنا رہا ہے۔ اِس بجلی گھر کا افتتاح 7 دسمبر 1972ء کو ذوالفقار علی بھٹو نے کیا جو اس وقت صدرِ پاکستان کے عہدے پر فائز تھے۔



دنیا کی سب سے بڑی ایمبولینس سروس


ایدھی ایمبولینس سروس کی تعریف ساری دنیا کرتی ہے، جو ایک طرف تو دنیا کی سب سے بڑی ایمبولینس سروس ہے تو دوسری جانب یہ دنیا کی سب سے بڑی غیر سرکاری اور خیراتی ایمبولینس سروس بھی ہے۔ 1951ء میں صرف ایک ایمبولینس سے آغاز کرنے والی اِس ایمبولینس سروس میں اِس وقت 1800 سے زیادہ گاڑیاں شامل ہیں جبکہ ہیلی کاپٹر ایمبولینس اِس کے علاوہ ہے۔ ایدھی فاؤنڈیشن کی یہ ایمبولینس سروس گزشتہ دو دہائیوں سے دنیا کی سب سے بڑی ایمبولینس سروس کے مقام پر بھی فائز ہے جو اپنے آپ میں ایک ریکارڈ ہے۔



پاکستان کی پہلی اور مسلم دنیا کی کم عمر ترین کوہِ پیما


ثمینہ خیال بیگ پاکستان کی پہلی اور مسلم دنیا کی کم عمر ترین کوہ پیما خاتون ہیں۔ ثمینہ ماؤنٹ ایورسٹ سر کرنے والی واحد خاتون اور تیسری پاکستانی ہیں۔ ثمینہ بیگ نے 21 برس کی عمر میں پہلی بار ایورسٹ کی چوٹی سر کی۔

دنیا کے سات برِ اعظموں کے پہاڑوں (seven summits) پر قدم رکھنے والی پہلی مسلم خاتون ہونے کا اعزاز بھی ثمینہ بیگ کے پاس ہی ہے۔ ثمینہ بیگ 6 ہزار میٹر اونچی چاشکن پہاڑی بھی سر کرچکی ہیں۔ یہ کارنامہ انہوں نے 2011ء میں انجام دیا۔ 19 ستمبر 1990ء کو پیدا ہونے والی ثمینہ خیال بیگ گلگت بلتستان کے گاؤں گوجال شمشال میں پیدا ہوئیں اور 15 برس کی عمر سے اپنے بھائی کے ہمراہ کوہِ پیمائی کی تربیت لینے کا آغاز کیا۔



'سیاچن' دنیا کا بلند ترین محاذ جنگ


سیاچن گلیشیر گلگت بلتستان میں سطح سمندر سے 22 ہزار فٹ بلندی پر واقع ہے۔ یہ گلیشئیرز بہت اسٹریٹیجک اہمیت کے حامل ہیں کیونکہ اِس کے ایک جانب کشمیر اور دوسری جانب چین ہے۔ یہاں کا درجہ حرارت گرمیوں میں بھی منفی 30 ڈگری سینٹی گریڈ تک رہتا ہے جبکہ سردیوں کے موسم میں یہی درجہ حرارت منفی 58 تک پہنچ جاتا ہے۔

انتہائی سخت موسم کی وجہ سے یہاں انسان تو انسان جانوروں کے لیے زندگی کے آثار انتہائی معدوم رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قیام پاکستان سے 1984ء تک کوئی یہ تصور بھی نہیں کرسکتا تھا کہ یہاں کوئی فوجی عمل دخل ہوسکے گی لیکن جون 1984ء میں بھارت نے اِس کے شمال مغرب میں واقع تین پہاڑیوں پر قبضہ کرلیا، جس کے بعد پاکستان کو بھی اپنی خودمختاری اور سالمیت کو بچانے کے لیے اِس محاذ میں کودنا پڑگیا۔ یہ گلیشئیرز جتنے ٹھنڈے ہیں اُتنا ہی یہ محاذ گرم ہے۔ پاکستان نے کئی مرتبہ سیاچن کا مسئلہ حل کرنے کی پیشکش کی ہے لیکن بھارت کی ہٹ دھرمی ناصرف دونوں ممالک کو دفاعی اور مالی لحاظ سے نقصان پہنچا رہی ہے بلکہ اس سے ماحولیاتی آلودگی بھی بڑھ رہی ہے، جس کا براہِ راست اثر ہمارے دریاؤں میں پانی کی کمی کی صورت میں پڑ رہا ہے۔



 

دنیا کی سب سے گہری گوادر پورٹ


گوادر بندرگاہ دنیا کی سب سے گہری بندرگاہ ہے جو پاکستان کے صوبے بلوچستان میں بحیرہ عرب پر واقع ہے۔ اس بندرگاہ کی ایک اہم ترین خاصیت یہ ہے کہ یہاں کا پانی گرم ہے، یہی وجہ ہے کہ قدرتی صلاحیت کے باعث چین کے علاوہ بہت سے ممالک اِس بندرگاہ پر سرمایہ کاری کے لیے دلچسپی دکھا چکے ہیں، جبکہ اسی پورٹ کے باعث خلیجی اور افریقی ممالک کے ساتھ براہِ راست رابطہ بھی ممکن ہوگیا ہے۔ دوسری جانب گوادر بندرگاہ پر پاک چین اقتصادی راہداری کے تحت بننے والے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر دنیا کے سب سے بڑے مسافر بردار طیارے 'اے 380' کے اترنے کی بھی سہولت موجود ہوگی جو ایک منفرد اعزاز ہے۔



 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔