سیاستدان کے لیے ایک آزمائش
بھٹو کی مظلومیت کو مثال بنا کر نواز لیگ کے رہنماء اپنے وزیر اعظم کی معزولی کو اس سے تشبیہ دے رہے ہیں
میاں نواز شریف کی سپریم کورٹ سے نا اہلی کے بعد یہ تاثر کسی حد تک کم ہو گیا ہے کہ کسی بااثر شخص کو سزا نہیں ہو سکتی۔ اس سے پہلے یہ بات بڑے وثوق سے کہی جا سکتی تھی کیونکہ آج تک کسی بڑے آدمی کو عدالت کی جانب سے اس قسم کی سزا نہ ملنے کی وجہ سے یہ بات بہت عام تھی کہ بڑے لوگوں کو سزا نہیں دی جا سکتی حالانکہ ہمارے مذہب میں کسی بڑے چھوٹے کا کوئی تصور نہیں سب برابر کے حقوق رکھتے ہیں اور ریاست ان کے حقوق کی حفاظت کی ذمے دار ہے۔ اسلام کے نام پر بنائے جانے والے ملک کا نام تو اسلامی ہے لیکن ہمارے عمل اسلام سے مطابقت نہیں رکھتے اور ہم ہر معاملے میں ڈنڈی مارنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اس سزا و جزا کے عمل کے شروع ہونے کے بعد ایک بات تو سپریم کورٹ نے معین کر دی ہے کہ اب جس کا بھی آئین کی شق 62, 63 کے تحت کیس آئے گا اگر وہ اس پر پورا نہیں اترتا تو گھر جائے گا اور کون ہے جو اس ملک میں صادق و امین کی شرائط پر پورا اترے۔ حکمرانوں اور سیاستدانوں کے علاوہ ہم میں سے کوئی بھی مشکل سے ہی یہ پل صراط پار کر سکتا ہے کہ اس شق کے تحت اپنے آپ کو صادق و امین ثابت کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے۔
میاں نواز شریف کا نااہلی کے بعد یہ کام اب آسان ہو گیا ہے وہ اب آزادی کے ساتھ اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف کھل کر اظہار خیال کرسکتے ہیں دوسرے معنوں میں دھاڑ سکتے ہیں کہ ان پر وزیر اعظم کی حیثیت سے جو پابندیاں تھیں وہ اب ختم ہو چکی ہیں اور اپنی اس مجبوری کی وجہ سے ان کی زبان بند تھی اب یہ بندش کھل گئی ہے اور جب میاں صاحب عوام میں نکلیں گے تو سیاسی منظر نامہ تبدیل ہوتا نظر آئے گا وہ اس مشکل مرحلے کو بھگتنے کے بعد اب عوام کی عدالت میں پیش ہونے جا رہے ہیں اور اپنے بھائی شہباز شریف کو وزیر اعظم کی کرسی پر براجمان کرا نے کے لیے قومی اسمبلی کی نشست پر پہلا مقابلہ ان کی قسمت سے ان کے آبائی علاقے لاہور گوالمنڈی میں ہونے جا رہا ہے۔
جہاں پر ان کی جڑیں بہت مضبوط ہیں اور اپوزیشن چاہے جتنا بھی زور لگا لے نتائج ان کے حق میں آنے کی امید کم ہی ہے ہاں ایک اچھے مقابلے کی توقع ضرور کی جارہی ہے اور اپوزیشن حکومت کو سخت مقابلہ دے سکتی ہے لیکن واضح فرق کی پیش گوئی مشکل ہے کیونکہ گوالمنڈی میں بھی لاہوری نوجوان بستے ہیں اور آج کل کے نوجوانوں کے اپنے مسائل ہیں اور ان کی پسند نا پسند بزرگوں سے مختلف ہے وہ پرانی روایتوں سے باغی ہے اور اگر اس اہم الیکشن میں کوئی فرق نظر آئے گا تو انھی نوجوانوں کی وجہ سے کہ بزرگ تو ابھی بھی میاں نواز شریف کے دیوانے ہیں اور ان کو چاہتے ہیں۔ دوسری وجہ ضمنی الیکشن ہے جو کہ عموماً حکومت کے جیتنا آسان ہوتا ہے اور اب موجودہ صورتحال میں جب اس حلقے سے جیت کر جانے والا وزیر اعظم بننے جا رہا ہو تو معاملہ اور آسان ہو جاتا ہے ۔
''ہر گھر سے بھٹو نکلے گا تم کتنے بھٹو مارو گے'' یہ مقبول عام نعرہ ہماری پیپلز پارٹی کی میراث ہے اور اسی نعرے کو نواز لیگ کے رہنماء اپنی زبان میں دہرا رہے ہیں کہ ایک شریف چلا گیا تو دوسرا آرہا ہے اور تیسرا اور چوتھا بھی آجائے گا شریف آتے ہی رہیں گے۔ ان رہنماؤں کو اب بھٹو کی پھانسی بھی عدالتی قتل نظر آرہا ہے اور اس کی مثالیں دی جا رہی ہیں کہ کس طرح پہلے بھی ایک وزیر اعظم کو ہٹایا گیا اور اب نواز شریف کو بھی اسی طرح ہٹا دیا گیا ہے کوئی ان سے پوچھے کہ کیا نواز شریف کو جیل میں ڈال کر لٹکا دیا گیا وہ تو ما شا اﷲ مری کے پُر فضا مقام پر اپنے گھر میں آرام کر رہے ہیں اور اپنے ووٹرز سے مل رہے ہیں جب کہ بھٹو کو تو اسی مری میں قید رکھا گیا تھا۔
بات وہی ہے کہ ''جس تن لاگے وہ جانے'' جب اپنے پر پڑتی ہے تو دوسرے بھی یاد آجاتے ہیں اور دوسرے اور تیسرے شریف کی آمد کی خبر دراصل ہماری نسل در نسل غلامی ہے جس سے ہم نکلنا نہیں چاہتے اور انھی سیاستدانوں کی آنے والی نسلوں کے بھی غلام رہنا چاہتے ہیں یہ غلامی انگریز ہمارے گھٹی میں ڈال گیا ہے اور ہم اس کے عادی ہو چکے ہیں اور اس سے باہر نکلنے کو قطعاً تیار نہیں ہیں۔
بھٹو کی مظلومیت کو مثال بنا کر نواز لیگ کے رہنماء اپنے وزیر اعظم کی معزولی کو اس سے تشبیہ دے رہے ہیں وہ شاید یہ بھول گئے ہیں کہ بھٹو کو جس شخص کے دور حکومت میں پھانسی کی سزا سنائی گئی وہ کوئی اور نہیں بلکہ وہ اسی کے پروردہ ہیں اور وہ وہی شخص ہے جس نے انگلی پکڑ کر آپ کے لیڈر کو سیاست میں داخل کیا اور اقتدار اعلیٰ تک پہنچایا، اس کو آپ نے روحانی باپ کا درجہ بھی دیا اب نواز لیگ کی جانب سے مرحوم ضیاء الحق پر بلاواسطہ تنقید جچتی نہیں کہ وہ اسی خاکی وردی کے بطن سے پیدا ہوئے اور پروان چڑھے اور اپنی سیاست کو آگے بڑھایا۔
میاں نواز شریف بارہ اکتوبر ننانوے تک ان وردی والوں کے مداح رہے لیکن اس کے بعد جو سلوک ان کے ساتھ ان کے بنائے ہوئے جرنیل نے کیا تو ان کی وردی سے محبت کم ہونے کے بجائے ختم ہو گئی اور پھر انھوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا اور اپنی ضد بنا لی کہ وہ اب مزید ان کا سہارا نہیں لیں گے۔ لیکن اس ملک میں حکومت کر نے کے لیے سب سے مشاورت کی ہر وقت ضرورت رہتی ہے وہ تو بھلا ہو شہباز شریف اور چوہدری نثار کا جو الجھے معاملات کو رات کی ملاقاتوں میں سلجھاتے رہے کہ اس کے سوا اقتدار کی طاقت برقرار رکھنے کا کوئی چارہ نہ تھا۔
واہ واہ کرنے والے مشیروں اور درباریوں کے نرغے میں آتے ہی میاں نواز شریف نے مشاورت کا عمل ترک کر دیا جس کی وجہ سے وہ چوہدری نثار سے بھی دور ہوتے چلے گئے کہ وہی ایک تو ان کو اصل صورتحال سے آگاہ رکھتے تھے لیکن نواز لیگ کی اندرونی سیاست نے ان کو قیادت سے دور کر دیا جس کا اظہار انھوں نے میڈیا سے گفتگو کے دوران بھی کیا۔
دانا مشیروں سے مشاورتی عمل ترک کرنے کے بعد نواز شریف سیاسی دلدل میں اترتے چلے گئے جہاں سے ان کی واپسی نہ ہو سکی اور وہ وزیر اعظم ہاؤس سے پنجاب ہاؤس منتقل ہو گئے۔ عدالتی فیصلے کے بعد اب فیصلہ میاں نواز شریف نے کرنا ہے کہ وہ آیندہ کس طرح کی سیاست کرنا چاہتے ہیں۔
ایک بات تو اب ان کو ہضم کر لینی چاہیے کہ وہ اب سابق وزیر اعظم ہو چکے ہیں اور یہ وقت مزید محاذ آرائی کا نہیں بلکہ اگر اب بھی اپنے پتے عقلمندی کے ساتھ کھیلے جائیں تو سہولتیں حاصل کی جا سکتی ہیں اور نواز شریف اپنی پارٹی کو متحد رکھ کر اس کی رہبری کر سکتے ہیں۔ انھوں نے اپنی معزولی کے بعد گلے شکوے بھی کیے ہیں لیکن اب ان کا وقت نہیں رہا ان کو اپنی پوزیشن کو مضبوط کرنے کے لیے عوام سے رابطہ بڑھانا ہو گا وہ آج بھی ایک مقبول لیڈر ہیں ان کو ایک بار پھر اپنی ماضی کی غلطیوں پر نظر دوڑانی ہو گی اور ان سے سبق سیکھنا ہو گا۔
ان کی سیاست اب اپنے سیاسی مخالفین کے ارد گرد ہی گھومے گی۔ میاں نواز شریف کو اپنی توانائیاں آیندہ کی سیاست میں اپنے مخالفین کی غلطیوں پر کرنا پڑیں گی جو کہ ان کی اپنی وضاحتوں سے زیادہ آسان ہو گی، عوام ابھی بھی ان کی بات کو سنیں گے اب یہ ان پر منحصر ہے کہ وہ کون سی بات عوام کو سنانا چاہتے ہیں۔ لیکن ایک بات واضح نظر آرہی ہے کہ آنے والے دن ان کی سیاست کے اچھے نہیں ہوں گے ان کو اپنا سیاسی راستہ ہموار کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔