جاگیردارانہ نظام کا شاخسانہ
اکیسویں صدی میں بھی اس طرح کے واقعات رونما ہونا لمحہ فکریہ ہے
ملک میں آئے روز ایسے واقعات پیش آتے رہتے ہیں جن میں غریب عوام کو جابر اور طاقتور لوگوں کے سامنے اپنے ناکردہ گناہوں کے باعث سرجھکانا پڑتا ہے۔ پنجاب کے علاقے ملتان میں بھی ایسا ہی انسانیت کو شرمادینے والا ایک واقعہ پیش آیا، جس میں ایک غریب بچی کو اس جرم کی سزا بھگتنی پڑی جو اس نے کیا ہی نہیں تھا، ملتان کے نواحی علاقے مظفر آباد میں 12سالہ لڑکی کی بے حرمتی کا بدلہ 17سالہ لڑکی کی بے حرمتی کرکے لیا گیا، اس بارے میں یہ اطلاعات ہیں کہ متاثرہ لڑکی کے بھائی نے ایک دوسری لڑکی کی بے حرمتی کی تھی جس کا بدلہ لینے کے لیے اس کا باپ پنچایت کے پاس پہنچ گیا، پنچایت نے بے حرمتی کے بدلے کا حکم دیتے ہوئے ملزم کی بہن کو متاثرہ لڑکی کے بھائی کے حوالے کردیا، اس قسم کے شرمناک واقعات سے ہمارے ملک کے بعض پسماندہ، قبائلی اور دیہی معاشرے کی اخلاقی پستی آشکار ہوتی ہے۔
پنچایتوں کے ذریعے ہونیوالے یہ شرمناک واقعات آئے دن رونما ہورہے ہیں، پنچایت کے نام پر لوگ اپنی مرضی کے فیصلے صادر کرتے ہیں، جسے ظلم کے سوا کوئی نام نہیں دیا جاسکتا، ایسے فیصلے ہمیشہ مردوں کی غلطیوں یا گناہوں کی سزا عورتوں سے وصول کرتے ہیں، ایک نوجوان لڑکی کی زندگی اس لیے تباہ کردی گئی کہ اس کے بھائی نے ایک اور لڑکی کی زندگی تباہ کی تھی، جنگل کے قانون میں تو شاید اس طرح کے فیصلے چل جاتے ہوں لیکن ایک جمہوری ملک میں ایسا طرز عمل نہایت ہی شرمناک عمل ہے۔ لیکن ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا، ماضی میں بھی پنچایتوں کے حکم پر خواتین کی عصمتیں تار تار کی جاتی رہی ہیں، چند برس قبل جنوبی پنچاب کے ضلع مظفر گڑھ میں بھی مختاراں مائی کے ساتھ زیادتی کا کیس سامنے آیا تھا، جس کی گونج پوری دنیا میں سنی گئی اور پاکستان کے معاشرتی نظام پر انگلیاں اٹھیں، مذکورہ شرمناک واقعے پر مختاراں مائی کا یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ اگر میرے ساتھ پیش آنیوالے واقعہ کے ملزموں کو قرار واقعی سزا مل جاتی تو نام نہاد پنچایتوں کے حکم پر درندگی کے مزید واقعات رونما نہ ہوتے۔
اکیسویں صدی میں بھی اس طرح کے واقعات رونما ہونا لمحہ فکریہ ہے، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ حکومتی رٹ ابھی تک دیہی و نیم قبائلی علاقوں تک نہیں پہنچی ہے اور لوگ روایتی، ظالمانہ و جاگیردارانہ نظام کے تحت پس رہے ہیں، اگر حکومت کی رٹ ہوتی تو پنچایت کو اس قدر جاہلانہ فیصلہ کرنے کی جرأت نہ ہوتی۔
جدید دور میں بھی غیرت کے نام پر قتل، کم عمری کی شادی، وراثت سے محرومی، کاروکاری، ونی، ستی، جیسی فرسودہ و جاہلانہ رسومات موجود ہیں جو کہ دور جاہلیت کی نشانیاں ہیں، زبردستی شادی کرانا، وٹہ سٹا، ونی کرنا، زندہ جلانا یہ سب دور جاہلیت کی نشانیاں ہیں، قبل از اسلام بھی اسی طرح کی جاہلانہ رسومات عام تھیں اور آج بھی جاگیردارانہ نظام کی بدولت لوگ ان جاہلانہ رسومات کو سینے سے چمٹائے ہوئے ہیں، اس طرح کے واقعات رونما ہونا اصل میں سسٹم کی خرابی کی دلیل ہے اور یہ بھی عیاں ہوتا ہے کہ وطن عزیز میں ابھی تک جاگیردارانہ سسٹم پر ضرب نہیں لگی، جب تک جاگیردارانہ نظام برقرار رہیگا تب تک یہ ذہنیت بھی موجود رہیگی، جاگیردارانہ نظام کے مہلک جراثیم ہمارے سماجی، معاشی اور سیاسی ڈھانچے میںرچ بس چکے ہیں۔
اس حوالے سے قانون سازی تو کی جاتی ہے مگر افسوس کہ اس پر عملدرآمد نہیں کرایا جاتا، جاگیرداروں کے نزدیک قانون کی اہمیت کاغذ کے ٹکرے سے زیادہ کچھ نہیں ہوتی اور اصل فیصلے جاگیردار ہی کرتے ہیں، جو پاکستانی معاشرے کے لیے ناسور ہیں، جاگیردارانہ نظام روز اول سے ملک کا سب سے بڑا مسئلہ اور ہماری ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے، قیام پاکستان کے بعد جاگیردارانہ نظام کے خاتمے کے لیے کچھ کوششیں بھی کی گئیں مگر بدقسمتی سے وہ کامیاب نہ ہوسکیں، اس کے برعکس یہ فرسودہ نظام اور مضبوط ہوتا چلاگیا۔
عوام دشمن طبقہ تیزی سے طاقت پکڑتا گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے سیاست اور اقتدار پر اس کا ایسا قبضہ ہوگیا کہ اسے ان شعبوں سے نکالنا مشکل ہوگیا، سیاسی جماعتیں بھی اس اہم مسئلے پر دوغلے پن کا مظاہرہ کرتی دکھائی دے رہی ہیں، ہر سیاسی جماعت جاگیردارانہ نظام کے خاتمے کی ضرورت تو تسلیم کرتی ہے مگر عملی جدوجہد نہیں کرتی بلکہ سیاسی جماعتیں اپنی سیاسی طاقت میں اضافے کے لیے جاگیرداروں، وڈیروں اور سرداروں سے گٹھ جوڑ کرلیتی ہیں، سیاست میں ایسے وڈیرے اور بااثر افراد موجود ہیں جنہوں نے عرصہ دراز تک پہلے خود عوام پر مسائل کے پہاڑ توڑے اور اب ان کی اولادیں اپنے اجداد کے نقش قدم پر چلنے کے لیے اسمبلیوں میں پہنچ رہی ہیں۔
جاگیردارانہ نظام کی ذلتوں اور اذیتوں کے ساتھ ساتھ سماجی و معاشی بحران کے اس زوال نے عورت پر جاری مسلسل ظلم و جبر کو بھی مزید مضبوط بنادیا ہے، پاکستان میں صنف نازک کئی مسائل کا شکار ہے، کبھی ونی کے نام پر اس پر ظلم کیا جاتا ہے تو کبھی اس کے چہرے پر تیزاب پھینک دیا جاتا ہے، کبھی جنسی تشدد تو کبھی پسند کی شادی اور کبھی محض شک کی بناء پر اسے مار دیا جاتا ہے، کبھی اسے نام نہاد جرگے کے حکم پر بدترین تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے، کبھی عورت وڈیروں کی جیلوں سے ملتی ہے تو کبھی اس کی لاش درخت سے لٹکتی ہوئی ملتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ عدالتی نظام کی موجودگی میں خود ساختہ پنچایت یا جرگے کے نظام کو کیوں برداشت کیا جارہا ہے؟ معمولی نوعیت کے چھوٹے موٹے مسائل کو تو یقیناً علاقہ کی سطح پر حل کرنے کی کوشش کی جاسکتی ہے لیکن قتل، زیادتی اور اس طرح کے دیگر سنگین جرائم کے حل کے لیے پنچایت یا جرگے کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے، جب ان کی کوئی قانونی حیثیت نہیں تو پھر ان کے خلاف کوئی خاطر خواہ کارروائی عمل میں کیوں نہیں لائی جاتی؟ کیا وجہ ہے کہ ایسے واقعات کے میڈیا میں رپورٹ ہونے کے بعد ہی انتظامی مشینری حرکت میں لائی جاتی ہے اور جونہی میڈیا کی توجہ کسی اور جانب ہوتی ہے تب پھر سے ریاستی ادارے گہری نیند میں چلے جاتے ہیں۔
موجودہ کیس میں بھی میڈیا میں خبریں آنے کے بعد عدالت عظمیٰ نے نوٹس لے کر آئی جی پنجاب سے رپورٹ طلب کرلی جب کہ وزیر اعلیٰ پنجاب نے بھی نوٹس لے کر سی پی او ملتان کوا ایس ڈی بنادیا اور متعلقہ تھانے کے ایس ایچ او سمیت تمام عملے کو معطل کردیا، جس کے بعد پولیس نے مرکزی ملزمان اور پنچایت کے سرپنچ سمیت 25ملزمان کو گرفتار کرلیا، ارباب اختیار کی جانب سے معاملے کا نوٹس لیے جانا خوش آیند ہے تاہم سب جانتے ہیں کہ اس طرح کے اقدامات محض رسمی ثابت ہوتے ہیں اور جونہی معاملہ میڈیا کی نگاہوں سے اوجھل ہوتا ہے جیسا کہ مذکورہ واقعہ تو پھر نوٹس بھی دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں، ملزمان قانونی سقم کا فائدہ اٹھاکر رہا ہوجاتے ہیں اور گلشن کا کاروبار اسی طرح چلتا رہتا ہے۔
اسی سے ملتا جلتا ایک اور واقعہ بھی گزشتہ دنوں منظر عام پر آیا، ایک سال قبل 3مئی 2016کو لاہور کے لاء کالج میں زیر تعلیم طالبہ خدیجہ صدیقی کو اس کے ہم جماعت شاہ حسین نے قاتلانہ حملہ کرکے زخمی کیا، اس مقدمے میں بھی اہم موڑ اس وقت آیا جب ملزم کے والد جو خود بھی وکیل ہے نے اس کیس پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی اور وکیلوں نے خدیجہ کا کیس لڑنے سے انکار کردیا۔
معاملہ میڈیا کی زینت بنا تو چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے واقعے کا نوٹس لے کر ایک ماہ میں ٹرائل مکمل کرنیکا حکم دیا اور جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت نے جرم ثابت ہونے پر مجرم شاہ حسین کو 7سال قید کی سزا سنائی، جس کے بعد مجرم کو کمرہ عدالت سے گرفتار کرلیا گیا۔ قاتلانہ حملے میں زخمی ہونے والی طالبہ خدیجہ نے بہت خوب کہاکہ ہم کمزور نہیں لیکن معاشرے نے ہمیں کمزور بنادیا ہے، میری کسی سے ذاتی دشمنی نہیں اور لڑائی صرف ظلم کے خلاف تھی۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ملتان میں زیادتی کے بدلے زیادتی کے واقعے کی اعلیٰ سطح پر انکوائری کرائی جائے، اس کیس کے ملزموں اور زیادتی کا حکم دینے والے پنچایتوں کو قانون کے مطابق زیادہ سے زیادہ سزا دی جائے، اس کے ساتھ ساتھ ملک بھر میں پنچایتوں اور جرگوں کے انعقاد کو روکا جائے اور ملک سے جاگیردارانہ نظام کے خاتمے کے لیے موثر اقدامات کیے جائیں ورنہ ایسے واقعات کسی نہ کسی شکل میں رونما ہوتے رہیں گے۔