پنچایت کمیٹیوں کے ظالمانہ فیصلے

بلاشبہ پنچایت کمیٹیوں کا نظام صدیوں پرانا ہے، جن کے ذریعے بہت سے معاملات جلد اور احسن طریقے سے سرانجام پاتے ہیں

advo786@yahoo.com

KARACHI:
ملتان کے نواحی علاقے بستی راجاپور میں پنچایت کمیٹی کے فیصلے کے تحت خاتون سے زیادتی کا ایک اور حیا سوز و شرمناک واقعہ سامنے آیا ہے۔ اس سے قبل 2002ء میں ملتان کے نواحی علاقہ میراں والا میں مختاراں مائی کا شہرۂ آفاق زیادتی کیس سامنے آیا تھا۔ ان دونوں واقعات میں کافی مماثلت پائی جاتی ہے۔

حالیہ زیادتی کیس کی سامنے آنے والی تفصیلات کچھ اس طرح ہیں کہ متاثرہ لڑکی کے بھائی نے ایک دوسری لڑکی کے ساتھ زیادتی کی تھی، جس کی شکایت لے کر لڑکی کا باپ پنچایت کمیٹی کے پاس گیا۔ 20 افراد پر مشتمل کمیٹی نے زیادتی کے بدلے زیادتی کا فیصلہ سنایا، زیادتی کے مرتکب لڑکے کی کنواری بہن کو طلب کیا، لڑکے کے خاندان کی جرم کے پاداش میں مخالف فریق کو 4 رشتوں کی پیشکش اور دو شادی شدہ بہنوں کو بھی پیش کیا لیکن پنچایت کمیٹی کے فیصلے کے مطابق ملزم لڑکے کی کم عمر کنواری بہن کو زبردستی اٹھا کر زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔

میڈیکل رپورٹ میں دونوں لڑکیوں سے زیادتی ثابت ہوگئی ہے۔ وزیراعلیٰ نے نوٹس لیتے ہوئے ملزمان کی فوری گرفتاری کا حکم جاری کیا اور متعلقہ پولیس افسران و اہلکاروں کو معطل بھی کردیا ہے، ملزمان گرفتار ہوچکے ہیں۔ سپریم کورٹ نے بھی اس حیا سوز اور شرمناک واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے آئی جی پولیس سے واقعہ کی رپورٹ طلب کرلی ہے۔ اس دوران ملتان کے ایک اور نواحی علاقے میں ایک واقعہ پیش آیا جس میں پنچایت کمیٹی کے فیصلے کے تحت دس سالہ بچی کا نکاح 18 سالہ لڑکے کے ساتھ پڑھوادیا گیا۔ پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے نکاح خواں کو گرفتار کرلیا ہے۔

2002ء میں ملتان ہی کے نواحی علاقے میراں والا میں مختاراں مائی کے ساتھ زیادتی کا روح فرسا اور شرمناک واقعہ پیش آیا تھا، اسی دوران فیصل آباد میں سونیا ناز اور سوئی میں PPL کی لیڈی ڈاکٹر شازیہ کے ساتھ بھی اسی قسم کا واقعہ پیش آیا تھا لیکن مختاراں مائی کو این جی اوز اور میڈیا کی جانب سے بھرپور مدد میسر آگئی تھی۔ مختاراں مائی کو بھائی کی حرکت کے جرم میں پنچایت کمیٹی کے فیصلے کے مطابق اجتماعی زیادتی و درندگی کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ سوئی کی ڈاکٹر شازیہ کے نصیب میں انصاف کے بدلے جلاوطنی آئی۔

انھی دنوں میں جب مختاراں مائی یو این او میں خطاب کررہی تھی ڈاکٹر شازیہ نے لندن میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے شکوہ کیا تھا کہ اسے پاکستان میں تحفظ دینے کے بجائے ملک بدر کردیا گیا ہے۔ ڈاکٹر شازیہ کے منہ میں اپنے الفاظ ڈالنا اور اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنا شاید زیادہ مشکل عمل تھا۔ 2006ء تک مختاراں مائی عالمی شہرت کے افق پر چھاچکی تھی، اسے پوری دنیا میں بے حد پذیرائی ملی۔ سربراہان مملکت نے اس سے ملاقاتیں کیں، مختلف فورم اور یو این او تک سے خطاب کیا، اسی دن شوکت عزیز نے بھی یو این او سے خطاب کیا تھا، جس کی خبریں اخبارات میں چھپی تھیں، مختاراں پر فرانسیسی زبان میں کتاب Dishonor لکھی گئی جس کے کئی زبانوں میں ترجمہ کیے گئے، جس سے مائی کو بڑی آمدنی ہوئی۔


ہلیری کلنٹن نے انسانی حقوق کی جدوجہد کا ایوارڈ دیا۔ اسے ایشین ہیروئن کا خطاب دیا گیا اور اسے خواتین اور بچوں کے حقوق کا حقیقی علمبردار کہا جانے لگا۔ لیکن اس کے بعد مختاراں مائی کی کئی بچوں کے باپ شادی شدہ شخص کے ساتھ شادی کرنے کی خبر آئی، جس پر اس شخص کی پہلی بیوی اور رشتہ دار مائی کے گھر پر گئے اور انھیں بتایاکہ ان کی وٹہ سٹہ کی شادی ہے اور مذکورہ شخص کی دو بہنوں کی شادی اس کے بھائیوں سے ہے، اگر مائی اس کی بیوی کو طلاق دلائے گی تو بیوی کے بھائی اس شخص کی دونوں بہنوں کو طلاق دے دیںگے۔

اس طرح تین خاندان تباہ و برباد ہوجائیںگے۔ اس پر مائی اور اس کے گھر والوں نے انھیں یقین دلایا کہ طلاق کا اختیار مائی کے پاس ہوگا، اگر وہ محسوس کرے گی کہ حقوق نسواں تحریک میں رکاوٹ ڈالی جارہی ہے تو طلاق کا حق استعمال کرے گی۔ چنانچہ شادی کے دن اس شخص کی پہلی بیوی کو عروسی جوڑا پہناکر نو بیاہتا مختاراں مائی کے ساتھ اسٹیج پر بٹھایا گیا۔ شادی کے چند دن بعد ہی پہلی بیوی کی طرف سے اس قسم کی شکایت سامنے آگئی تھیں کہ ناصر پہلی بیوی بچوں کی حق تلفی کر رہا ہے، انھیں وقت اور نان نفقہ نہیں دیتا، وہ کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

اس کے مختاراں مائی کے ویلفیئر آرگنائزیشن کے دفتر ڈیری فارم، اسکول اور رہائش گاہ بجلی چوری کرنے اور غیر قانونی منی گرڈ اسٹیشن قائم کرنے کا الزام سامنے آیا، جب واپڈا کی ٹیم چھاپہ مارنے پہنچی تو مائی کے ملازمین اور نشے میں دھت بھائیوں نے ساتھیوں سمیت ٹیم پر حملہ کردیا۔ یہ وہی بھائی تھا جس کے جرم کی پاداش میں پنچایت کمیٹی نے مائی کی عزت و عصمت تار تار کرادی تھی۔ ان تمام واقعات کے تناظر میں مائی کا کردار ایک روایتی سوتن اور خودغرض استحصالی وڈیرے کی حیثیت سے سامنے آتا ہے جو خواتین اور انسانی حقوق کے خواہاں افراد کے لیے حیران و مایوس کن ہے۔

ان دونوں واقعات میں دونوں لڑکیوں کو ان کے بھائیوں کے کرتوتوں کی بنا پر پنچایت کمیٹیوں سے انسانیت سوز سزائیں سنائی گئیں بلکہ حالیہ واقعے کی متاثرہ لڑکی کے باپ پر کسی خاتون کی عصمت دری کرنے کا بھی الزام ہے جس کے لواحقین قانون سے لاعلمی یا خوف کی وجہ سے کوئی کارروائی کرنے سے قاصر رہے اور خود قانون بھی حرکت میں نہیں آیا۔ ایسے واقعات کی بنیادی وجہ جہالت، غربت، دین سے دوری، قانون سے بے خبری، عدالتی نظام کی کمزوری، انصاف کی فراہمی کا پرپیچ، سست اور تھکا دینے والا نظام ہے ورنہ پولیس اور عدالتوں کی موجودگی پنچایت کمیٹیوں سے اس طرح کے غیر انسانی اور ظالمانہ فیصلہ نہ ہوں۔

بلاشبہ پنچایت کمیٹیوں کا نظام صدیوں پرانا ہے، جن کے ذریعے بہت سے معاملات جلد اور احسن طریقے سے سرانجام پاتے ہیں لیکن کیونکہ پنچایت کمیٹیوں کے ارکان کی اہلیت کا کوئی معیار مقرر نہیں ہے اس لیے دین و قانون کے احکامات اور فہم و فراست سے محروم اور جاگیردار، وڈیروں اور بااثر افراد کے زیر نگر ممبران اکثر و بیشتر ایسے خطرناک، بے ہودہ اور ظالمانہ فیصلہ کرجاتے ہیں جن سے انسانیت بھی شرمسار ہوجاتی ہے۔

اگر حکومت وقتی طور پر ہنگامی بنیادوں پر پنچایتی نظام کی اصلاح احوال کی کوششیں کرے تو پنچایت کمیٹیوں کو قانون و شریعت کے دائرے میں لاکر ان کے ارکان کی اہلیت کا معیار اور چیک اینڈ بیلنس کے ذریعے ظلم و زیادتیوں کی روک تھام کی جاسکتی ہے اور اس واقعات کو کم کرسکتی ہے جو معاشرے میں مزید ظلم و جبر اور بگاڑ کا سبب بن رہے ہیں۔
Load Next Story