پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کی مالیاتی لوٹ مار تیسرا حصہ
یہ یاد رکھنے کی بات ہے کہ جو رقم حکومت ہر سال ’’ملکی قرض‘‘ کے نام سے کھربوں میں وصول کرتی ہے
SUKKUR:
C۔(4)۔ سال 2011ء میں 11 ارب 20 کروڑ9 لاکھ 70 ہزار ڈالر حکومت نے وصول کیے جن کی روپے میں مالیت (85.5017روپے فی ڈالر) 9 کھرب 57 ارب 70 کروڑ 19 لاکھ 77 ہزار روپے تھی۔ C۔(5)۔ سال 2012-13ء مارچ میں 13 ارب 18 کروڑ 66 لاکھ 20 ہزار ڈالرحکومت نے وصول کیے جن کی روپے میں مالیت (89.2359 روپے فی ڈالر) 11 کھرب 76 ارب 71 کروڑ 99 لاکھ روپے تھی۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے اپنے حکومتی دور میں زرمبادلہ جو وصول کیا اس کی تفصیل کے مطابق C۔ (6)۔سال 2013 میں 13 ارب 92 کروڑ 16 لاکھ 60 لاکھ ڈالر وصول کیے۔
ان کی روپے میں مالیت (96.7272روپے فی ڈالر) 13 کھرب 46 ارب 60 کروڑ 31 لاکھ 91 ہزار روپے تھی۔ C۔(7)۔سال 2014 میں 15 ارب 83 کروڑ 77 لاکھ 10 ہزار ڈالر وصول کیے گئے جن کی روپے میں مالیت (102.8591روپے فی ڈالر) 16 کھرب 29 ارب 5 کروڑ 25 لاکھ 96 ہزار روپے تھی۔ C۔(8)۔ سال 2015ء میں 18 ارب 72 کروڑ ڈالر وصول کیے گئے جن کی روپے میں مالیت 101.2947 روپے فی ڈالرکے حساب سے 18 کھرب 96 ارب 23 کروڑ67 لاکھ 84 ہزار روپے تھی۔ C۔(9)۔ سال 2016ء میں 19 ارب 91 کروڑ 67 لاکھ 60 ہزار ڈالر وصول کیے گئے جن کی روپے میں مالیت 104.7630 روپے فی ڈالر کے حساب سے 20 کھرب 86 ارب 53 کروڑ 95 لاکھ روپے تھی۔ سیریل A، B اور C میں تین ذرایع غیر ملکی قرض، نقد وصولی، ملکی قرض وصولی اور زرمبادلہ وصولی کی تفصیلات دی گئی ہیں۔
اب سیریل D میں متذکرہ تینوں وصولیوں کی مدوں کا ٹوٹل سال بہ سال دیا جاتا ہے تاکہ حکومتوں کے مالیاتی تجزیے میں آسانی ہو۔ ٹیبل D۔(1)۔ سال 2008ء میں 11 کھرب 75 ارب 40 کروڑ 47 لاکھ روپے ٹوٹل تھا۔ ٹیبل D۔(2)۔ سال 2009ء میں 14 کھرب 4 ارب 96 کروڑ 95 لاکھ 76 ہزار روپے ٹوٹل تھا۔ ٹیبل D۔ (3)۔ سال 2014ء میں 16 کھرب 86 ارب 97 کروڑ61 لاکھ 60 ہزار روپے ٹوٹل تھا۔ ٹیبل D۔ (4)۔سال 2011ء میں 23 کھرب 57 ارب 26 کروڑ 77 لاکھ 77 ہزار روپے ٹوٹل تھا۔ ٹیبل D۔(5)۔ سال 2012-13ء مارچ میں 28 کھرب 87 ارب 7 کروڑ63 لاکھ روپے ٹوٹل تھا۔ ٹیبل D۔(6)۔ سال 2013ء میں 33 کھرب ایک ارب 33 کروڑ 55 لاکھ 64 ہزار روپے تھا۔ ٹیبل D۔(7)۔ سال 2014ء میں 34 کھرب 65 ارب 89 کروڑ 45 لاکھ 96 ہزار روپے ٹوٹل تھا۔ ٹیبل D۔(8)۔ 8 سال 2015ء میں 38 کھرب 46 ارب 57 کروڑ 45 لاکھ 84 ہزار روپے ٹوٹل تھا۔ ٹیبل D۔(9)۔سال 2016ء میں 35 کھرب59 ارب 76 کروڑ98 لاکھ روپے ٹوٹل تھا۔
پیپلز پارٹی کی حکومت نے جون 2008ء سے مارچ 2012-13ء تک جو مالیاتی ہیرا پھیری، نوسربازیاں، دروغ بیانیاں، عوامی خزانے میں مجرمانہ خیانتیں اپنے دور حکومت میں کیں اور جب مسلم لیگ (ن) نے 2013ء سے اب تک (2013ء سے 2016ء تک) نے بھی جو مالیاتی گھپلے، فراڈ، غلط بیان بازیاں کیں یہ سب فراڈ مالیاتی تجزیے میں کھل کر سامنے آجاتے ہیں۔ پورے ملک کے چند جاگیرداروں، سرمایہ داروں نے مل کر پورے ملک کے وسائل پر قبضے کیے ہوئے ہیں۔ پورے ملک کے عوام کو جمہوری غلام بنایا ہوا ہے۔ عوامی سرپلس سرمائے کو حکومت پر قابض ہونے کے بعد ہڑپ کر رہے ہیں۔ ملکی عوام اور ملکی عزت کو بیرونی ملکوں میں گھٹا دیا ہے۔
بجٹوں کے اعداد و شمار سے قبل یہ حقیقت بتانا ضروری ہے کہ ہر حکومت نے جب بھی غیر ملکی قرضہ لیا اسی قرضے میں سے بروقت اصل زر اور سود کٹوا کر باقی نقد ڈالر وصول کیے گئے۔ اسٹیٹ بینک کی کتاب ہینڈ بک 2015ء کے صفحہ 848 سے 851 تک ٹیبل 9.1 اور کتابیں پاکستان اکنامک سروے کے ٹیبل 9.3 کے مطابق (یہ کتاب حکومت اسلام سے ہر سال بجٹ آنے سے کچھ روز قبل شایع کرتی ہے) تمام حکومتوں نے اپنے اپنے دور میں جتنے بھی غیرملکی قرضے لیے ان قرضوں میں سے ہر سال بروقت اصل زر اور سود کٹوا کر باقی بچے ڈالر نقد وصول کیے ہیں۔
ملکی قرضوں کی تفصیلات کتاب ہینڈ بک 2015ء کے صفحہ 592 سے 599 تک کے ٹیبل 6.5 کے مطابق ہر حکومت ملکی مالیاتی اداروں میں جمع شدہ عوامی رقوم میں سے قرض کے نام پر بڑی مقدار میں رقوم لیتی آرہی ہے۔ یہ کئی مدوں میں جمع عوامی سرمایہ ہوتا ہے۔ جی پی فنڈ، بانڈز، پرائز بانڈز، ڈیفنس سیونگ سرٹیفکیٹ، خاص ڈپازٹ اکاؤنٹ، مارکیٹ لون، انکم ٹیکس بانڈ، ایڈہاک ٹریژری بلز، پنشنرز بینیفٹ اکاؤنٹ وغیرہ وغیرہ۔ ایک خاص نقطہ یہ کہ ان قرضوں کی تفصیلات 1960ء سے 2015ء تک دی گئی ہیں، لیکن ان قرضوں پر سود اور اصل زر کی ادائیگیوں کا ذکر کہیں بھی نہیں کیا گیا ہے۔ کیونکہ یہ مالیاتی ادارے حکومت کے براہ راست کنٹرول میں ہیں۔
مورخہ 17 جولائی 2017ء کو اسلام آباد کے حوالے سے اخباری خبر کے مطابق مالی سال 2016-17ء کے بجٹ خسارے کو کم کرنے کے لیے وفاقی وزارت خزانہ نے 30 جون 2017ء کو قومی بچت اسکیموں کے ہزاروں اکاؤنٹس کو ڈیڈ اکاؤنٹس قرار دے کر 18 ارب روپے سے زائد رقم حکومتی خزانے میں منتقل کردی۔ اس کے لیے 30 جون 2017ء کو رات گئے تک محکمہ قومی بچت کی ملک بھر میں قائم سیکڑوں برانچیں کھلی رکھی گئی تھیں تاکہ عوامی اکاؤنٹس میں موجود رقوم کو وزارت خزانہ کو منتقل کیا جائے۔
یہ یاد رکھنے کی بات ہے کہ جو رقم حکومت ہر سال ''ملکی قرض'' کے نام سے کھربوں میں وصول کرتی ہے عوامی کئی ہزار کھربوں میں مختلف مدوں تقریباً 35 مدوں میں جمع سرمائے سے قرض کے نام سے سرمایہ نکال لیتی ہے، حکومت اس عوامی سرمائے کو آگے کاروبار کے سسٹم کا حصہ بناکر اس سے نفع بھی حاصل کرتی ہے۔
یہاں اس بات کا ذکر کرنا ضروری ہے کہ غیر ملکی قرضہ لیتے وقت اصل زر اور سود بروقت کٹوا دیا جاتا ہے، لیکن ملکی قرضے لیتے وقت اس پر سود اور اصل زر ادائیگی کا ذکر اس قرضے کے باب Domestic Debt Outstanding کہیں نہیں کیا گیا ہے۔ جیسے 2008ء میں ٹوٹل قرضہ 32 کھرب 74 ارب 68 کروڑ ایک لاکھ روپے ہوا تھا اور 2007ء میں ٹوٹل قرضہ 26 کھرب 10 ارب 35 کروڑ16 لاکھ روپے تھا۔ یعنی 2008ء میں حکومت نے عوامی جمع اسکیموں کے سرمائے سے قرض کے نام پر 6 کھرب 64 ارب 32 کروڑ85 لاکھ روپے نکال لیے تھے۔
اس پر کوئی سود یا اصل زر ادا نہیں کیا تھا۔ کیونکہ یہ 35 مدوں میں جمع شدہ رقوم براہ راست حکومتی کنٹرول میں ہیں۔ جیسے کہ ابھی ذکر کیا گیا ہے کہ 17 جولائی 2017ء کو بجٹ سپورٹ کے لیے وفاقی وزارت خزانہ نے قومی بچت اسکیموں سے 18 ارب روپے حکومتی خزانے میں منتقل کردیے۔
اب آگے دیکھیے کتابیں ''پاکستان اکنامک سروے'' 2013-14ء، 2014-15ء، 2015-16ء اور 2016-17ء کے ٹیبلز 4.2، 4.3، 4.4 اور 4.5 کے تجزیے سے یہ بات واضح طور پر آتی ہے کہ تمام حکومتوں نے بجٹوں کا ڈھانچہ ایک فراڈیے منشی کی طرح مرتب کیا ہوا ہے جو بہی کھاتوں میں ہیرا پھیری کرکے نقصان کو نفع اور نفع کو نقصان میں بدل دیتا ہے۔ ملک کے تمام بجٹوں کی بنیادوں میں اسی طرح کی نوسر بازیاں، ہیرا پھیری موجود ہے۔
موجودہ وزیر خزانہ اس میں بڑی مہارت رکھتا ہے۔ آپ کو یاد ہوگا جب پیپلز پارٹی نے 2008ء میں حکومت بنائی تھی تو اسحاق ڈار کو بطور وزیر خزانہ لیا جا رہا تھا۔ اسحاق ڈار حکومتی بینچوں پر بیٹھا تھا اس کے بعد پیپلز پارٹی نے اپنا وزیر خزانہ تلاش کرلیا تو اسحاق ڈار حکومتی بینچوں سے اٹھ کر اپنی پارٹی کی طرف آگیا تھا۔ حکومت کے معاملے میں پارٹیوں میں یہ ایمانداری اس حد تک ہے کہ جس کے ممبر زیادہ ہوں گے دوسری پارٹی فرینڈلی حزب اختلاف کا کردار ادا کرتی ہے۔ (جاری ہے)