اسلام۔۔۔۔وظیفۂ لب

اور تو اور محمد خان شیرانی کے میعاد صدارت کو گزرے آٹھ ماہ ہو گئے



RAWALPINDI: پاکستان کے دستور میں جن آئینی اداروں کا ذکر ہے، ان میں سے ایک اہم اور قابل ذکر ادارہ اسلامی نظریاتی کونسل ہے۔ ہم عرصے سے محض وظیفہ لب کے عادی چلے آ رہے ہیں اور خصوصاً ان امور کے معاملے میں جن پر ملت اسلامیہ کی بقا کا انحصار ہے۔

جنوبی ایشیا کی تقسیم کے وقت جن بنیادوں پر ملک کی تقسیم ہو رہی تھی ان میں تین عناصر بہت اہم اور بنیادی تھے۔ اسلام، اردو اور مسلم تہذیب۔ یہی تین عناصر ہمیں ہندو اکثریت سے ممتاز کرتے تھے اور انھی کی بنیاد پر تقسیم کا مطالبہ کیا اور منوایا گیا۔

اب صورتحال یہ ہے کہ اس وقت مذہبی بنیاد پر وجود میں آنے والے دنیا میں صرف دو ملک ہیں۔ اسرائیل اور پاکستان۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ تقسیم کے فوراً بعد ہی جیسے ہی ہندو مسلم فسادات کی ہولناکیوں سے سانس لینے کی فرصت میسر آئی تینوں بنیادی عناصر کے خلاف ہمارے اندر سے ہی آوازیں اٹھنا شروع ہو گئیں۔

اسلام محض نعرہ نہیں ہے جسے لگا کر آپ مسلمان ہو جائیں اسلام محض کلمہ گوئی کا مطالبہ نہیں کرتا بلکہ کلمے کے بعد فرائض و واجبات کا ایسا تسلسل وجود میں آتا ہے کہ راہ مستقیم پرگامزن رہنا دشوار ہو جاتا ہے:

لوگ آساں سمجھتے ہیں مسلماں ہونا

اسلام اپنے ماننے والوں سے جو تقاضے کرتا ہے وہ پتا پانی کر دینے والے ہیں مگر اسلام کو سب سے زیادہ نقصان ہمارے سیاستدانوں نے پہنچایا۔ انھوں نے اسلام کو بھی وظیفۂ لب یا نعرہ بنا لیا کہ جب چاہا محفل کو گرمانے کے لیے اس کو استعمال کر لیا اور اللہ اللہ خیر صلا۔

ہمارے سیاستداں، بگڑے ہوئے دانشور، مغرب زدگان ملکی اچھی طرح جانتے ہیں کہ اسلام آتا ہے تو کچھ پابندیاں لاتا ہے، کچھ قدغن لگاتا ہے اور بے لگام آزادی کا تو تصور ہی خلاف اسلام ہے۔

اس لیے دستور سازوں نے دور اندیشی سے کام لیتے ہوئے ایک ایسے آئینی ادارے کی تشکیل ضروری قرار دی تھی جو یہ طے کر سکے کہ پاکستانی پارلیمان جو قانون بنا رہی ہے وہ قرآن و سنت کے مطابق اسلامی ہے بھی یا نہیں۔ اس ادارے کا نام اسلامی نظریاتی کونسل ہے۔ دستور کی دفعہ (3)23 کے تحت اس ادارے کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ یہ طے کرے کہ آیا کوئی قانون قرآن و سنت کے مطابق ہے یا نہیں۔ کیونکہ ایک اسلامی ریاست میں قانون سازی محض پارلیمان کے ممبران کا حق نہیں بلکہ سرے سے ہے ہی نہیں۔ وہ تو کسی بھی امر میں قرآن و سنت کے عطا کردہ قوانین کو اصطلاحاً قانونی شکل دینے پر مجاز ہیں اور کوئی ایسا قانون بنا ہی نہیں سکتے جو قرآن و سنت سے انحراف یا اس سے ٹکراؤ پر مبنی ہے۔

دستور میں پارلیمان کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ اپنے بنائے ہوئے کسی قانون کو اسلامی نظریاتی کونسل کو بھیجے یا نہ بھیجے۔ یہ اختیار خود اسلامی نظریاتی کونسل کو کمزور کرنے کی شق ہے مگر اگر کوئی فرد یا افراد و ادارے اس سلسلے میں ازخود اسلامی نظریاتی کونسل سے رجوع کریں تو وہ پارلیمان کے بنائے ہوئے قانون پر اپنی شرعی رائے (فتویٰ) دے سکتی ہے۔

اب مدتوں سے ہو یہ رہا ہے کہ پارلیمنٹ اسلامی نظریاتی کونسل سے رجوع ہی نہیں کر رہی اور شتر بے مہار بنی ہوئی ہے۔ ''آزاد خیال'' طبقہ (اور جس کی ملک میں اکثریت ہے) اسلامی نظریاتی کونسل سے جان چھڑانے، دوسرے الفاظ میں اسلام کے نفاذ اور اس کی عائد کردہ پابندیوں سے جان چھڑانے کے در پے ہے۔

اس بات کا اندازہ اس اخباری اطلاع سے لگائیے کہ اسلامی نظریاتی کونسل نے 50 ہزار سے زائد سفارشات اور 20 ہزار رپورٹس پارلیمنٹ کو بھیجی ہیں مگر اب تک کوئی رپورٹ پارلیمنٹ میں ٹیبل نہیں کی گئی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ نہ تو ممبران ان سفارشات اور رپورٹوں پر غور کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں نہ اسپیکر صاحب اس کو ازخود زیر بحث لانے کے خواہش مند۔ یہ سارا دفتر گاؤ خورد ہی رہنے میں عافیت ہے۔

دوسری طرف ہمارے خیال میں اصطلاحی ''آزاد خیال'' طبقہ اس قدامت پسندی سے سرے سے نجات کا خواہش مند ہے چنانچہ مہتاب اکبر راشدی نے سندھ اسمبلی میں اس مقصد کے لیے ایک قرارداد پیش کی کہ اسلامی نظریاتی کونسل جیسے ادارے کی ضرورت نہیں اور سندھ اسمبلی نے الحمداللہ سے پاس بھی کر دی ہے۔

فرحت اللہ بابر صاحب بھی اسلامی نظریاتی کونسل کی سرگرمیوں کو ایک طرح ''طالبان'' قرار دے چکے ہیں۔

بے چارے داعیان اسلام کا مقدر یہ ہے کہ ہر عہد میں ان کے لیے انھی کی بعض اصطلاحات گالی کے طور پر استعمال ہوتی رہی ہیں۔ ماضی میں باعمل مسلمان کو وہابی۔ آج کل ریش دراز اور پابند صوم و صلوٰۃ کو طالبان اور نہ جانے کیا کیا کہا جاتا رہا ہے۔ اب اگر فرحت اللہ بابر صاحب انھیں طالبان قرار دیں تو تعجب نہیں ہونا چاہیے تھا انھیں یہی کہنا اور کرنا چاہیے۔

مگر آپ حکومت کے رویے کو دیکھیے جو دستور کی کسٹوڈین بھی ہے۔ اس نے اب تک اسلامی نظریاتی کونسل کے لیے مقررہ ممبران کی تعداد ابھی مکمل نہیں کی ہے۔ ابھی کا مطلب ہے عرصہ دراز سے۔ اور اگر کسی آئینی ادارے کے ارکان پورے نامزد یا منتخب نہ ہوں تو وہ نامکمل رہتا ہے اور اس کی کارکردگی بے معنی ہوتی ہے۔

اور تو اور محمد خان شیرانی کے میعاد صدارت کو گزرے آٹھ ماہ ہو گئے۔ حکومت اپنی اکھاڑ پچھاڑ میں لگی رہی اپنے وجود کو برقرار رکھنے کی جدوجہد میں اسلامی نظریات کی پرواہ کون کرتا۔

اب نواز حکومت بھی ٹھکانے لگی۔ نئی حکومت بنے گی۔ قدم جمانے کی کوشش کرے گی مخالفین اس کے قدموں کو اکھاڑنے کے درپے رہیں گے۔ دونوں طرف سے اسلام کے حق میں بڑی خوش گوار باتیں کہی جائیں گی مگر دونوں اسلام کی جڑوں کو کھوکھلا کر رہے ہوں گے کیونکہ اسلام ہم میں سے کسی کا مسئلہ نہیں ہے وہ تو محض ایک وظیفۂ لب ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔