پیپلزپارٹی اور مسلم لیگن کی مالیاتی لوٹ مارچوتھا حصہ

اس طرح پورے ملک کے جاگیرداروں اور سرمایہ داروں نے پارٹی کے نام سے مختلف گروپ بنائے ہوئے ہیں

k_goraya@yahoo.com

اس طرح پورے ملک کے جاگیرداروں اور سرمایہ داروں نے پارٹی کے نام سے مختلف گروپ بنائے ہوئے ہیں، جو عوام کو جمہوریت کے جال میں پھانس کر عوام سے ووٹ لے کر اسے عوامی مینڈیٹ کا نام دے کر ملکی عوامی سرپلس سرمائے یعنی عوامی خزانے پر حکومت کی شکل میں قابض ہوکر خود تو مالدار اور عوام کو غریب تر بنانے کا کام کرتے ہیں۔ بجٹ سازی اشرافیہ کا جمہوری ذریعہ آمدنی ہے۔

پیپلزپارٹی نے 2008ء سے 2013ء تک حکومت کی تھی۔ (1)۔ سال 2008ء میں ٹیبل 4.2 (پاکستان اکنامک سروے) ٹوٹل ریونیو آمدنی 14 کھرب 99 ارب 38 کروڑ روپے تھی۔ ٹوٹل اخراجات 22 کھرب 76 ارب 54 کروڑ90 لاکھ روپے تھے۔ ٹیبل 4.5 میں Interest Payments میں 5 کھرب 9 ارب 57 کروڑ 40 لاکھ روپے دکھائے گئے۔ اس ملکی+ غیر ملکی سود ادائیگی+ صوبہ جاتی سود ادائیگیاں شامل تھیں۔ (نوٹ: Total Debt Servicing کی مد میں5 کھرب 78 ارب 23 کروڑ60 لاکھ روپے دکھائے گئے جن کا کسی بھی ٹیبل، اخراجات یا آمدنی میں ذکر نہیں)سود ادائیگی کے جعلی و بوگس اعداد و شمار کو ٹیبل 4.4 میں جاری اخراجات- ترقیاتی اخراجات- ڈیفنس اخراجات وغیرہ میں شامل کرکے بجٹ میں ٹوٹل اخراجات کا حصہ بناکر ٹوٹل اخراجات 22 کھرب 76 ارب 54 کروڑ90 لاکھ روپے دکھائے گئے۔ ٹیبل 4.3 میں ریونیو آمدنی کے تمام ذرایع میں اس قرض وصولی کو شامل نہیں کیا گیا؟ اخراجات میں ٹیبل 4.5 کے سود ادائیگیوں کے بوگس اعداد و شمار سے بجٹ کا خسارہ 7 کھرب 77ارب 16 کروڑ90 لاکھ روپے تک بڑھا دیا گیا۔

اگر جعلی اور بوگس ٹیبل 4.5 کے اعداد وشمارکو ٹوٹل اخراجات میں سے نکال دیے جائیں تو صحیح بجٹ خسارہ 2 کھرب 67 ارب 59 کروڑ 40 لاکھ روپے تھا۔ اب ٹیبل D۔(1)۔ سال 2008ء تین مدوں میں حکومت نے رقوم اکٹھی کیں۔ غیر ملکی نقد ڈالر وصولی، ملکی قرض وصولی، زرمبادلہ وصولی۔ تینوں کا ٹوٹل 11 کھرب75 ارب 40 کروڑ47 لاکھ روپے تھا۔ اس میں سے صحیح بجٹ خسارہ 2 کھرب 67 ارب 59 کروڑ40 لاکھ روپے نکال دیا جائے تو باقی 9 کھرب7 ارب 81 کروڑ 7 لاکھ روپے حکومت کے پاس عوام کا سرپلس سرمایہ بچ گیا۔ اس کی ڈالر میں مالیت 62.5465 روپے فی ڈالر کے حساب سے 14 ارب 51 کروڑ41 لاکھ 73 ہزار ڈالر حکومت نے غبن کر لیے۔ (2) ٹیبل 4.2 کے مطابق سال 2009ء میں ٹوٹل ریونیو 18 کھرب 50 ارب 90 کروڑ10 لاکھ روپے تھا۔


ٹیبل 4.5 کے مطابق Debt Servicing کے نام پر 6 کھرب56 ارب 25 کروڑ90 لاکھ روپے (حالانکہ ٹوٹل قرض ادائیگی اسی ٹیبل میں 8 کھرب80 ارب 83 کروڑ50 لاکھ روپے دکھائی گئی اسے کسی بھی ٹیبل میں شامل نہیں کیا گیا؟) کو ٹیبل 4.4 میں سال 2009ء میں اخراجات میں شامل ٹوٹل اخراجات25 کھرب 31 ارب 30 کروڑ80 لاکھ روپے دکھا کر حکومت نے بجٹ خسارہ ٹیبل 4.2 کے مطابق 6 کھرب 80 ارب 40 کروڑ 70 لاکھ روپے دکھایا ہے۔ اگر ٹیبل 4.5 کے مطابق بوگس سود ادائیگیوں کے نام پر 6 کھرب 56 ارب 25 کروڑ90 لاکھ روپے اخراجات میں سے نکال دیے جائیں تو حقیقی اخراجات 18 کھرب 75 ارب 4 کروڑ90 لاکھ روپے رہ جاتے ہیں۔ اس طرح حقیقی بجٹ خسارہ صرف 24 ارب 14 کروڑ 80 لاکھ روپے رہ جاتا ہے۔ ٹیبل D۔(2) سال 2009ء میں حکومت غیر ملکی قرض+ ملکی قرض+زرمبادلہ کی مد میں 14 کھرب 4 ارب 96 کروڑ 95 لاکھ 76 ہزار روپے وصول کیے تھے۔ اس میں سے حقیقی بجٹ خسارہ نکال دینے کے بعد 13 کھرب 80 ارب 82 کروڑ15 لاکھ 76 ہزار حکومت کے پاس بچ گئے تھے۔

اس عوامی سرپلس سرمائے کی ڈالرز میں مالیت 78.4983 روپے فی ڈالر کے حساب سے 17 ارب 59 کروڑ4 لاکھ 65 ہزار ڈالر تھی۔ یہ ڈالر حکمرانوں نے ہڑپ کرلیے۔ (3)۔ سال 2010ء ٹیبل 4.2 کے مطابق ٹوٹل ریونیو 20 کھرب 78 ارب 16 کروڑ50 لاکھ روپے اور ٹیبل 4.5 کے مطابق سود ادائیگیاں 6 کھرب 61 ارب 27 کروڑ دکھائی گئیں۔ ان ادائیگیوں کو ٹیبل 4.4 میں ٹوٹل اخراجات میں شامل کرکے اس کا حصہ بناکر مزید ٹوٹل اخراجات ٹیبل 4.2 میں 30 کھرب 7 ارب 22 کروڑ60 لاکھ روپے میں سے ریونیو خارج کرکے بجٹ خسارہ 9 کھرب 29 ارب 6 کروڑ10 لاکھ روپے دکھایا گیا ۔ اور مزید اسی خسارے کے حساب سے کے مطابق بیرونی قرضہ، ملکی قرضے سے خسارہ برابر کردیا گیا۔ لیکن حقیقت یہ تھی کہ اصل اخراجات 23 کھرب 45 ارب 95 کروڑ60 لاکھ روپے تھے (اس میں بوگس سود ادائیگیاں ڈال کر اخراجات بڑھائے گئے) ان اخراجات میں سے اگر ریونیو کو نکال دیا جاتا ہے تو بجٹ خسارہ 2 کھرب 67 ارب 79 کروڑ10 لاکھ روپے رہ جاتا ہے۔

ٹیبل D۔(3)۔ سال 2010ء کے مطابق حکومت نے تین مدوں میں 16 کھرب 86 ارب 97 کروڑ61 لاکھ 60 ہزار روپے حاصل کیے تھے۔ اس میں سے بجٹ خسارہ نکال دینے کے بعد 14 کھرب 19 ارب 18 کروڑ 51 لاکھ 60 ہزار روپے کی بچت ہوئی جس کو حکومت جن میں جاگیردار، سرمایہ دار اور سول بیورو کریٹس سب نے مل کر غبن کرکے کھا لیے۔ اس سرمائے کی ڈالر میں مالیت 83.8017 روپے فی ڈالر کے حساب سے 16 ارب 93 کروڑ50 لاکھ 40 ہزار ڈالر تھی۔ (4)۔ سال 2011ء ٹیبل 4.2 کے مطابق ریونیو 22 کھرب 52 ارب 85 کروڑ50 لاکھ روپے دکھایا گیا۔ ٹیبل 4.5 میں سال 2011ء کی بوگس سود ادائیگیاں 7 کھرب 16 ارب 60 کروڑ30 لاکھ روپے کو حکومت نے ٹیبل 4.4 میں دیگر اخراجات کے ساتھ شامل کرکے ٹوٹل اخراجات 34 کھرب 47 ارب 26 کروڑ40 لاکھ روپے دکھا کر ٹیبل 4.2 میں بجٹ خسارہ 11 کھرب 94 ارب 40 کروڑ 90 لاکھ روپے دکھایا ہے۔ اگر بوگس سود ادائیگیوں کو ٹوٹل اخراجات سے نکال دیا جائے تو صحیح اخراجات 27 کھرب 30 ارب 66 کروڑ10 لاکھ روپے رہ جاتے ہیں۔ اگر ان میں سے ریونیو خارج کیا جائے تو صحیح اصل بجٹ خسارہ 4 کھرب 77 ارب 80 کروڑ60 لاکھ روپے ہوتا ہے۔

ٹیبل D۔(4)۔ سال 2011ء میں حکومت نے ریونیو کے علاوہ دیگر تین ذرایع سے 23 کھرب 57 ارب 26 کروڑ77 لاکھ 77 ہزار روپے حاصل کیے تھے اگر ان میں سے صحیح بجٹ خسارہ نکال دیا جاتا ہے تو باقی 18 کھرب 79 ارب 46 کروڑ17 لاکھ 77 ہزار روپے کی کثیر رقم حکومت نے کس اندھے کنوئیں میں ڈال دی؟ اس رقم کی ڈالر میں مالیت 85.5017 روپے فی ڈالر کے حساب سے 21 ارب 98 کروڑ15 لاکھ72 ہزار ڈالر تھی۔ (5)۔سال 2012-13ء میں ٹیبل 4.2 کے مطابق ٹوٹل ریونیو 25 کھرب 66 ارب 51 کروڑ40 لاکھ روپے تھا۔ ٹوٹل اخراجات 43 کھرب 27 ارب 18 کروڑ50 لاکھ روپے دکھائے گئے تھے۔ ٹیبل 4.5 کے مطابق سال 2012-13ء حکومت نے بوگس سود ادائیگیوں کے نام پر 9 کھرب ایک ارب 91 کروڑ90 لاکھ روپے کو ٹیبل 4.4 میں دیگر اخراجات میں شامل کرکے ٹوٹل اخراجات 43 کھرب 27 ارب 18 کروڑ50 لاکھ روپے بناکر ٹیبل 4.2 میں سال 2012-13ء کا بجٹ خسارہ 17 کھرب 60 ارب 67 کروڑ10 لاکھ روپے دکھایا ہے۔ حکومت نے ٹیبل 4.5 میں بوگس ادائیگیاں اخراجات میں داخل کرکے بجٹ خسارہ بڑھایا۔ اگر اس کو اخراجات سے نکال دیا جائے تو اصل اخراجات 34 کھرب 25 ارب 26 کروڑ60 لاکھ روپے ہوتے ہیں۔ ان میں سے سال 2012-13ء کا ریونیو نکال دیا جائے تو صحیح خسارہ 8 کھرب 58 ارب 75 کروڑ20 لاکھ روپے تھا۔ (جاری ہے)
Load Next Story