بھٹو کا نیرو NERO ایکٹ اور اُس کے ثمرات

جب امیر ہونا پاکستان میں ایک جرم ٹھہرا تو ہر اُس شخص نے جس کا دل سیاست کرنے کو چاہا، خود کو غریب و عام ثابت کرنا چاہا

بھٹو صاحب نے سرمایہ دار اور سرمایہ کاروں کو تو قومی تحویل میں لے لیا لیکن ایسا کوئی فیصلہ زمینداروں اور اور جاگیرداروں کے حوالے سے نہیں کیا کیونکہ اِس طرح اُن کے قریبی ساتھیون کو شدید نقصان پہنچ سکتا تھافوٹو: فائل

کیا آپ جانتے ہیں کہ نیرو (NERO) ایکٹ کیا ہے؟ یہ کب آیا تھا کیوں آیا تھا؟ اور کون لایا تھا؟ اگر نہیں جانتے تو کوئی بات نہیں، البتہ اِس کا پانامہ کیس سے ایک بہت ہی خاص رشتہ ہے۔ کچھ تجسس ہوا؟ تو پھر آئیے اِس تجسس کو دور کرنے کیلئے مندرجہ ذیل پیش کیے جانے والے نکات کو پڑھیے۔

نیرو ایکٹ ذوالفقار علی بھٹو کا میگنم اوپس (Magnum Opus) میگنم یعنی کہ بہترین کارنامہ کہلایا جاسکتا ہے۔ یہ نیرو ایکٹ ہی تھا جس کے تحت بھٹو صاحب نے پاکستان کے سرمایہ دار کو راتوں رات بے سر و سامان بلکہ بے سرمایہ کردیا تھا۔ بھٹو صاحب نے 1970ء کی دہائی میں سوشل ازم کا نعرہ بلند کیا تھا، یہ الگ بات ہے کہ اُس وقت کے اور آج کے اشتراکیت پسند یہ بات جانتے ہیں اور اِس کا برملا اظہار بھی کرتے ہیں کہ بھٹو صاحب نے فقط نعرہ ہی بلند کیا تھا اور اُن کا پاکستان کو ایک سوشلسٹ مملکت بنانے کا کوئی خاص ارادہ نہیں تھا۔ یہ ایک سیاسی نعرہ تھا جو عوام کے دلوں کو بھاگیا تھا۔

مزید یہ کہ یہ نعرہ اِس لیے بھی مقبول ہوگیا تھا کہ ڈاکٹر محبوب الحق نے کچھ ہی دنوں قبل پاکستان میں 22 خاندانوں کی اجارہ داری کا ذکر کیا تھا، ویسے تو یہ اظہار انہوں نے کسی اور تناظر میں کیا تھا لیکن اِس کو ایک بھرپور سیاسی نعرہ بھٹو صاحب نے بنا دیا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ غریبوں کے حق میں آواز اٹھانے والے بھٹو صاحب خود غریب نہیں تھے، البتہ وہ سرمایہ دار یا صنعت کار بھی نہیں تھے۔ اُن کا خاندانی پسِ منظر تو ایک وڈیرے کا تھا لیکن بذاتِ خود وہ ایک قانون دان یعنی کہ وکیل تھے اور شاید یہ بات عوام کو بھا گئی تھی کہ وہ ایک مڈل کلاس شعبے سے تعلق رکھتے تھے۔

اُس دور میں ہمیشہ کی طرح ملک ایک نازک دور سے گزر رہا تھا، اُس وقت بھی لوگ حکومت سے نالاں تھے، ایوب خان عوام میں انتہائی بدنام تھے، اور اِسی لیے اُن کی سب سے بڑی کامیابی بھی انتہائی بُری گردانی جا رہی تھی یعنی کہ نجی ادارے، صنعتیں اور امارت۔ بھٹو صاحب نے سرمایہ داروں سے متعلق اِس غم و غصے کو اشتراکیت کے ذریعہ اپنے حق میں استعمال کیا اور یک جنبشِ قلم سے تمام ''ظالم، جابر، طاغوتی'' سرمایہ داروں کی املاک کو قومیاتے ہوئے اُن سب کو عام شہری بنا ڈالا۔

اُس وقت عوام کو واقعی یقین ہوچلا تھا کہ ہر امیر انسان ظالم و جابر ہے اور ہر سرمایہ دار حرام ذریعہ سے ہی پیسہ کماتا ہے۔ یہ رجحان ہمارے قومی بیانیے کا حصہ بن گیا اور سنہ 70ء سے لے کر آج تلک ہر سیاسی پارٹی اِس کارڈ کو استعمال کرتی آرہی ہے۔

اِس کہانی کا دوسرا رخ یہ ہے کہ آزاد منڈی پر بھروسہ رکھنے والے سرمایہ دار و سرمایہ کاروں کا اعتبار پاکستان سے اُٹھ گیا۔ اُن کو یقین ہو چلا کہ جب پاکستان بنانے میں کلیدی کردار ادا کرنے والے خاندان اور اداروں کے لیے بھی صاحب ثروت ہونا جرم ٹھہرا تو پھر عام سرمایہ داروں کا بھی یہاں کوئی بھلا نہیں ہونا ہے، اور پھر اُسی دور سے ہر سرمایہ کار نے اپنا سرمایہ پاکستان سے باہر منتقل کرنا شروع کردیا۔ انہوں نے یا تو صنعت کاری ہی دوسرے ممالک میں شروع کردی یا پھر اِس بات کو یقینی بنایا کہ اُن کا پیسہ پھر کبھی پاکستان میں نہ پھنس سکے اور اُسی دور سے پاکستانیوں کو سوئس بینکوں کا نام سننے کو ملا۔


Switzerland (سوئٹزر لینڈ)، Cayman Islands (کے من آئیلینڈز) اور Monaco (موناکو) دنیا کہ وہ چند ممالک ہیں جن کو ٹیکس ہیون کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ اپنے بینکوں میں سرمایہ رکھنے والوں سے کسی قسم کا منی ٹریل نہیں مانگتے ہیں۔ ایسا کرکے یہ خود تو کافی امیر ہوگئے ہیں البتہ جن ممالک سے پیسہ یہاں منتقل ہوا ہے وہ غریب سے غریب تر ہوتے چلے گئے ہیں۔

اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ اِن سب باتوں کا پانامہ سے کیا تعلق ہے؟ تو جانیے! آج بھی امراء پاکستان میں سرمایہ کاری سے ڈرتے ہیں۔ یہ بات بھی تاریخی طور پر ثابت شدہ ہے کہ وہ تمام ادارے یا صنعتیں جن کو قومیایا گیا تھا، وہ خسارے میں چلے گئے تھے اور اُن کو بادلِ ناخواستہ واپس نجی ملکیتوں میں لوٹایا گیا تھا، بلکہ یہ بھی ہوا تھا کہ ایک خاندان کے کامیاب کاروبار کو کوئی اور شخص اونے پونے داموں لے اڑا تھا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اِس طرح کا کوئی قانون زمینداروں اور جاگیر داروں کے لیے نہیں بنایا گیا تھا کیوںکہ ایسا کرنے سے بھٹو صاحب کے قریبی ساتھیوں کو شدید نقصان پہنچ سکتا تھا۔

مزید مزے کی بات یہ ہے کہ امیر ہونا پاکستان میں ایک جرم ٹھہرا تھا، اِسی لیے اُس دور کے بعد ہر اُس شخص نے جس کا دل سیاست کرنے کو چاہا، خود کو غریب و عام ثابت کرنا چاہا۔ البتہ نجی زندگی میں اپنے شاہانہ ٹھاٹ باٹ کو برقرار رکھا، ایسا کرکے معاشرے میں منافقت یعنی کہ کذب و دروغ گوئی کو تقویت ملی اور صداقت کا دم گھٹ گیا۔

ویسے اگر بطور عوام ہم یہ چاہتے ہیں کہ ملک سے ٹیکس چوری و سرمائے کی پانامہ جیسے ممالک میں منتقلی کو روکا جائے تو ہمیں ایسے قوانین بنانا ہوں گے جو سرمایہ داروں کو تحفظ فراہم کرسکیں۔ یہاں تحفظ سے مراد قانون سے مبرا ہونا نہیں بلکہ اُن کو ایسا سازگار ماحول فراہم کیا جائے جس میں وہ بلا خوف و خطر سرمایہ کاری کرسکیں اور اُن کو اِس بات کا ڈر نہ ہو کہ اُن کی سرمایہ کاری کو جبراً قومیا لیا جائے گا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے

اگر آپ بھی ہمارے لیے بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریراپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک و ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کیساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اور ویڈیو لنکس بھی
Load Next Story