سینیٹ حکومت نے مسئلہ بلوچستان کے حل کیلئے 6 نکاتی فارمولا پیش کردیا۔ رحمن ملک
قتل وغارت گری میں لشکرجھنگوی،بی ایل اے ملوث ہیں،اسلحہ افغانستان...
THIMPHU:
ایوان بالا میںحکومت نے بلوچستان کے مسئلے کے حل کیلیے 6نکاتی فارمولا پیش کرتے ہوئے کہاہے کہ لوگ اٹھانے کاایجنسیوں کااختیار روکا جائے،سرداروںکے علاوہ نوجوان بلوچ رہنمائوں سے بھی بات کی جائے جبکہ وزیرداخلہ رحمن ملک نے کہاہے کہ قتل وغارت گری میں بی ایل اے اور لشکر جھنگوی ملوث ہیں،اسلحہ افغانستان سے آرہاہے،پاکستان توڑنے والی قوتوں نے روڈ میپ بنایاہوا ہے۔
بلوچستان پران کیمرہ بریفنگ دینے کوتیار ہوں،بدھ کواجلاس ڈپٹی چیئرمین صابر بلوچ کی صدارت میںشروع ہوا توحکومتی اور اپوزیشن ارکان نے دوسرے روزبھی وزیرداخلہ رحمن ملک کی ایوان میں عدم موجودگی پراحتجاج کیا،مولاناعبدالغفورحیدری نے کہا کہ بلوچستان پر بحث ہورہی ہے اوروزیرداخلہ ایوان میں موجود نہیں، ان کے پاس مسئلے کا کوئی حل نہیں،اس کے ساتھ ہی جے یوآئی کے ارکان ایوان سے واک آئوٹ کرگئے، اے این پی کے زاہدخان نے کہاکہ راجہ پرویزاشرف نے جب سے وزارت عظمیٰ کاحلف اٹھایا، وہ اس ایوان میں نہیںآئے ، یہ کیا تماشا ہے۔
بعدازاں(ن) لیگ کے راجہ ظفرالحق کے مشورے پر ڈپٹی چیئرمین نے وزیرداخلہ کے ایوان میں آنے تک اجلاس15منٹ کیلیے ملتوی کردیا۔ اجلاس دوبارہ شروع ہونے کے بعد پیپلزپارٹی کے فرحت اللہ بابر نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کامسئلہ پیکیجزاورکمیٹیوںسے حل نہیںہوا،کچھ بین الاقوامی قوتیں بلوچستان میں غیرضروری دلچسپی لے رہی ہیں،لاپتہ افرادکامسئلہ سب سے زیادہ اہم ہے ، 18ماہ میںلاپتہ افرادکے 634نئے کیس سامنے آئے ہیں جن میںسے اکثریت بلوچستان کی ہے ،ہمیںاس معاملے کی سنگینی کا ادراک کرنا ہوگا۔
ہم مشرقی پاکستان کے الگ ہونے سے دوروز قبل تک بھی حقیقی صورتحال کا اعتراف نہیںکررہے تھے، جس کی ہمیں بڑی قیمت چکاناپڑ،لاپتہ افرادسے متعلق پہلے کمیشن کی رپورٹ کونہ صرف شائع کیاجائے بلکہ اس کی سفارشات پر عملدرآمدکیاجائے ، انھوں نے مسئلہ کے حل کیلیے 6 تجاویزپیش کرتے ہوئے کہاکہ سیکیورٹی اداروںکوپولیس کاقانونی اختیاردیکرنگرانی بھی کی جائے،لوگ اٹھانے سے متعلق ایجنسیوںکے اختیارکورو کا جائے، انسداد دہشت گردی ترمیمی قانون کوجلدمنظور کرایا جائے۔
زبردستی غائب کیے جانے کے خلاف عالمی کنونشن پردستخط کیے جائیں، سرداروں کے علاوہ بلوچ نوجوانوںسے بھی بات کی جائے، فرحت اللہ بابرنے کہا کہ آئندہ ماہ اقوام متحدہ کا لاپتہ افرادسے متعلق ورکنگ گروپ پاکستان آرہا ہے ، وزارت داخلہ اور دیگرادارے اس کے ساتھ تعاون کریں۔ قائدحزب اختلاف سینیٹراسحاق ڈارنے کہاکہ بلوچستان حکومت سنجیدہ نہیں،جب صوبے کاوزیراعلیٰ معاملات مزاحیہ اندازمیں چلائے گا تو وہاں محرومیاں توبڑھیں گی، اے این پی کے زاہد خان نے کہاکہ مجیب الرحمن سے بات نہیںکی گئی تو بنگلہ دیش وجود میں آیا۔
حکومت بلوچوںسے مل بیٹھ کر مسئلہ حل کرے، نیشنل پارٹی کے حاصل بزنجونے کہاکہ بلوچستان میںلاپتہ افرادکی تعداد 400 سے زائدہو چکی ہے، ایف سی چیک پوسٹیں بدستور قائم ہیں، اے این پی کے شاہی سید نے کہا کہ ہمیں کلاشنکوف اور جیکٹ کلچر کو ختم کرنا ہوگا ،پیپلز پارٹی کے فتح محمد حسینی نے کہاکہ آج بلوچستان پر ہونے والی گفتگو رحمٰن ملک کے حلف کے صدقے ہے، وزیراعظم کو ایوان میں موجود ہونا چاہیے تھا، ڈپٹی چیئرمین سینٹ صابر بلوچ نے کہا کہ بلوچستان پر سیمینار کا اسلام آباد میں منعقد کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا،۔
لوچستان جاکر زمینی حقائق کا جائزہ لینا ہوگا، وفاقی وزیرداخلہ رحمن ملک نے کہا کہ بلوچستان میں امن عامہ کا مسئلہ گھمبیر ہے ، پاکستان کیخلاف منظم غیر ملکی جارجیت ہو رہی ہے، بی ایل اے کلنگ مشین ہے ،اس کی تمام کارروائیاں افغانستان سے کنٹرول ہوتی ہیں، وہ اپنے لوگوں کو 500 ڈالر تنخواہ دے رہی ہے ،تخریبی اور فرقہ وارانہ کارروائیوں میں بی ایل اے، طالبان اور لشکر جھنگوی ملوث ہیں، انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے معاملے پر بہت سے حقائق کو سرعام نہیں بتایا جاسکتا، اگر ایوان چاہے تو ان کیمرہ بریفنگ دی جاسکتی ہے۔
آن لائن کے مطابق رحمن ملک نے کہا کہ بلوچستان اورخیبرپختونخوا کے بعض علاقوں میںہونے والی دہشت گردی کی کارروائیوں میں افغانستان ملوث ہے، این این آئی کے مطابق رحمن ملک نے کہا کہ پاکستان توڑنے والی قوتوں نے روڈ میپ بنایا ہوا ہے، بعض عناصر کو پاکستان کا ایٹمی طاقت بننا قبول نہیں،رحمن ملک نے بتایا کہ پاکستان پر افغانستان سے ہونیوالے حملے ان علاقوں سے ہورہے ہیں جو نیٹو فورسز کے کنٹرول میں ہیں۔ وفاقی وزیر کی تقریر جاری تھی کہ ڈپٹی چیئرمین نے اجلاس آج جمعہ کی دوپہر 2 بجے تک کیلئے ملتوی کردیا، قبل ازیں اجلاس میں ایف سی اور کوسٹ گارڈز کے اہلکاروں اور دیگر افراد کے ایصال ثواب کیلئے فاتحہ خوانی بھی کی گئی۔
ایوان بالا میںحکومت نے بلوچستان کے مسئلے کے حل کیلیے 6نکاتی فارمولا پیش کرتے ہوئے کہاہے کہ لوگ اٹھانے کاایجنسیوں کااختیار روکا جائے،سرداروںکے علاوہ نوجوان بلوچ رہنمائوں سے بھی بات کی جائے جبکہ وزیرداخلہ رحمن ملک نے کہاہے کہ قتل وغارت گری میں بی ایل اے اور لشکر جھنگوی ملوث ہیں،اسلحہ افغانستان سے آرہاہے،پاکستان توڑنے والی قوتوں نے روڈ میپ بنایاہوا ہے۔
بلوچستان پران کیمرہ بریفنگ دینے کوتیار ہوں،بدھ کواجلاس ڈپٹی چیئرمین صابر بلوچ کی صدارت میںشروع ہوا توحکومتی اور اپوزیشن ارکان نے دوسرے روزبھی وزیرداخلہ رحمن ملک کی ایوان میں عدم موجودگی پراحتجاج کیا،مولاناعبدالغفورحیدری نے کہا کہ بلوچستان پر بحث ہورہی ہے اوروزیرداخلہ ایوان میں موجود نہیں، ان کے پاس مسئلے کا کوئی حل نہیں،اس کے ساتھ ہی جے یوآئی کے ارکان ایوان سے واک آئوٹ کرگئے، اے این پی کے زاہدخان نے کہاکہ راجہ پرویزاشرف نے جب سے وزارت عظمیٰ کاحلف اٹھایا، وہ اس ایوان میں نہیںآئے ، یہ کیا تماشا ہے۔
بعدازاں(ن) لیگ کے راجہ ظفرالحق کے مشورے پر ڈپٹی چیئرمین نے وزیرداخلہ کے ایوان میں آنے تک اجلاس15منٹ کیلیے ملتوی کردیا۔ اجلاس دوبارہ شروع ہونے کے بعد پیپلزپارٹی کے فرحت اللہ بابر نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کامسئلہ پیکیجزاورکمیٹیوںسے حل نہیںہوا،کچھ بین الاقوامی قوتیں بلوچستان میں غیرضروری دلچسپی لے رہی ہیں،لاپتہ افرادکامسئلہ سب سے زیادہ اہم ہے ، 18ماہ میںلاپتہ افرادکے 634نئے کیس سامنے آئے ہیں جن میںسے اکثریت بلوچستان کی ہے ،ہمیںاس معاملے کی سنگینی کا ادراک کرنا ہوگا۔
ہم مشرقی پاکستان کے الگ ہونے سے دوروز قبل تک بھی حقیقی صورتحال کا اعتراف نہیںکررہے تھے، جس کی ہمیں بڑی قیمت چکاناپڑ،لاپتہ افرادسے متعلق پہلے کمیشن کی رپورٹ کونہ صرف شائع کیاجائے بلکہ اس کی سفارشات پر عملدرآمدکیاجائے ، انھوں نے مسئلہ کے حل کیلیے 6 تجاویزپیش کرتے ہوئے کہاکہ سیکیورٹی اداروںکوپولیس کاقانونی اختیاردیکرنگرانی بھی کی جائے،لوگ اٹھانے سے متعلق ایجنسیوںکے اختیارکورو کا جائے، انسداد دہشت گردی ترمیمی قانون کوجلدمنظور کرایا جائے۔
زبردستی غائب کیے جانے کے خلاف عالمی کنونشن پردستخط کیے جائیں، سرداروں کے علاوہ بلوچ نوجوانوںسے بھی بات کی جائے، فرحت اللہ بابرنے کہا کہ آئندہ ماہ اقوام متحدہ کا لاپتہ افرادسے متعلق ورکنگ گروپ پاکستان آرہا ہے ، وزارت داخلہ اور دیگرادارے اس کے ساتھ تعاون کریں۔ قائدحزب اختلاف سینیٹراسحاق ڈارنے کہاکہ بلوچستان حکومت سنجیدہ نہیں،جب صوبے کاوزیراعلیٰ معاملات مزاحیہ اندازمیں چلائے گا تو وہاں محرومیاں توبڑھیں گی، اے این پی کے زاہد خان نے کہاکہ مجیب الرحمن سے بات نہیںکی گئی تو بنگلہ دیش وجود میں آیا۔
حکومت بلوچوںسے مل بیٹھ کر مسئلہ حل کرے، نیشنل پارٹی کے حاصل بزنجونے کہاکہ بلوچستان میںلاپتہ افرادکی تعداد 400 سے زائدہو چکی ہے، ایف سی چیک پوسٹیں بدستور قائم ہیں، اے این پی کے شاہی سید نے کہا کہ ہمیں کلاشنکوف اور جیکٹ کلچر کو ختم کرنا ہوگا ،پیپلز پارٹی کے فتح محمد حسینی نے کہاکہ آج بلوچستان پر ہونے والی گفتگو رحمٰن ملک کے حلف کے صدقے ہے، وزیراعظم کو ایوان میں موجود ہونا چاہیے تھا، ڈپٹی چیئرمین سینٹ صابر بلوچ نے کہا کہ بلوچستان پر سیمینار کا اسلام آباد میں منعقد کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا،۔
لوچستان جاکر زمینی حقائق کا جائزہ لینا ہوگا، وفاقی وزیرداخلہ رحمن ملک نے کہا کہ بلوچستان میں امن عامہ کا مسئلہ گھمبیر ہے ، پاکستان کیخلاف منظم غیر ملکی جارجیت ہو رہی ہے، بی ایل اے کلنگ مشین ہے ،اس کی تمام کارروائیاں افغانستان سے کنٹرول ہوتی ہیں، وہ اپنے لوگوں کو 500 ڈالر تنخواہ دے رہی ہے ،تخریبی اور فرقہ وارانہ کارروائیوں میں بی ایل اے، طالبان اور لشکر جھنگوی ملوث ہیں، انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے معاملے پر بہت سے حقائق کو سرعام نہیں بتایا جاسکتا، اگر ایوان چاہے تو ان کیمرہ بریفنگ دی جاسکتی ہے۔
آن لائن کے مطابق رحمن ملک نے کہا کہ بلوچستان اورخیبرپختونخوا کے بعض علاقوں میںہونے والی دہشت گردی کی کارروائیوں میں افغانستان ملوث ہے، این این آئی کے مطابق رحمن ملک نے کہا کہ پاکستان توڑنے والی قوتوں نے روڈ میپ بنایا ہوا ہے، بعض عناصر کو پاکستان کا ایٹمی طاقت بننا قبول نہیں،رحمن ملک نے بتایا کہ پاکستان پر افغانستان سے ہونیوالے حملے ان علاقوں سے ہورہے ہیں جو نیٹو فورسز کے کنٹرول میں ہیں۔ وفاقی وزیر کی تقریر جاری تھی کہ ڈپٹی چیئرمین نے اجلاس آج جمعہ کی دوپہر 2 بجے تک کیلئے ملتوی کردیا، قبل ازیں اجلاس میں ایف سی اور کوسٹ گارڈز کے اہلکاروں اور دیگر افراد کے ایصال ثواب کیلئے فاتحہ خوانی بھی کی گئی۔