مودی حکومت کے میڈیا کیخلاف ہتھکنڈے
بھارتی قوم کو ہمہ وقت چوکس اور ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ ماضی میں 19 ماہ کی ایمرجنسی اور سنسرشپ سے گزر چکی ہے
میں نے اپنے پسندیدہ ٹیلی ویژن اینکرز کرن تھاپر اور برکھا دت وغیرہ کی تلاش کی بے سود کوشش کی۔ پھر مجھے بتایا گیا کہ ان سب اینکرز کوسکرین سے ہٹا دیا گیا ہے اور یہ سب کس نے کیا؟ اس حقیقت کا علم نہیں ہو سکا۔ بھارت میں بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ وزیراعظم نریندر مودی حکومت کے دباؤ کے نتیجے میں ہوا جب کہ دوسرے لوگ الزام لگاتے ہیں کہ یہ کارروائی ٹی وی چینلوں کے مالکان نے خود کی ہے۔ بہرحال جس نے بھی ایسا کیا ہے اس نے گویا سنسر کا کام کیا ہے۔ جس بات کی مجھے حیرت ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ اس بات پر بھارت میں کسی طرف سے کوئی احتجاج نہیں کیا گیا۔
ہمارے زمانے میں تو کسی ایسے اقدام پر شدید تنقید ہوتی تھی۔ یہ الگ بات ہے کہ جب ایمرجنسی نافذ کر دی گئی تو سب لوگ خاموش ہو گئے لیکن اس سے پہلے وزیراعظم اندرا گاندھی کو پریس کے خلاف کوئی قدم اٹھانے کی جرأت نہیں ہوتی تھی۔ ایسے کسی کام کے لیے اندرا کو اپنے حمایتی تلاش کرنا پڑتے تھے جو کہ بہت کم ہوتے تھے جب کہ اندرا پر تنقید کرنے والوں کی تو تعداد بہت زیادہ تھی۔ مجھے یاد آتا ہے کہ 1975-77ء میں اندرا نے میڈیا پر پابندی لگانے کے بعد بڑے فخر کے ساتھ اعلان کیا تھا کہ ''کوئی ایک کتا تک نہیں بھونکا۔''
اندرا کی اس بات سے مجھے بھی اتنی ہی تکلیف پہنچی جتنی کہ دوسرے صحافیوں کو۔ ہم سارے صحافی دہلی پریس کلب میں اکٹھے ہوگئے، اس وقت مجموعی تعداد 103 تھی اور ہم نے ایک قرارداد منظور کی جس میں سنسر شپ پر تنقید کی گئی تھی۔ وزیر اطلاعات وی سی شکلا نے جو مجھے بڑی اچھی طرح جانتا تھا ٹیلی فون کر کے انتباہ کیا کہ تم سب کو گرفتار کر لیا جائے گا۔ اور یہ صرف زبانی دھمکی نہ تھی بلکہ اس نے واقعی ایسا کر دیا۔ مجھے بھی 3 ماہ کے لیے قید کر دیا گیا۔
وہ دور ایک بار پھر میری آنکھوں کے سامنے تازہ ہو گیا جب ایک معروف ادیبہ نے اگلے دن کہا کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں اختلافی آوازیں بہت تھوڑی تعداد میں اٹھی ہیں۔اس ادیبہ کو کولکتہ سے آنے کے بعد قید کر دیا گیا' اس ادیبہ کا تعلق بنگلہ دیش سے ہے' جہاں سے انھیں انتہا پسندوں نے ملک چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔ یہ بھارتی سیکولر جمہوریت کے چہرے پر ایک دھبہ ہے کہ وہ بھارت کے کسی ایسے شہر میں قیام پذیر نہیں ہو سکتی جہاں وہ چاہتی ہیں۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ چند دن پہلے وہ اورنگ آباد سے دہلی کے لیے روانہ ہوئیں لیکن اسے وہاں اترنے کی اجازت نہیں دی گئی اور اسے واپس اورنگ آباد بھیج دیا گیا۔ میں اس موضوع پر مزید خامہ فرسائی نہیں کرنا چاہتا۔ لیکن جو میرے ذہن میں ہے وہ جمہوریت کے خلاف خطرے کی نشاندہی کرتا ہے۔
بھارت میں ایمرجنسی جیسی صورتحال ایمرجنسی کے نفاذ کے بغیر بھی ہو سکتی ہے!! آر ایس ایس بہت سے تعلیمی اداروں کے سربراہوں کو جو کہ آزاد خیال سمجھے جاتے تھے ہٹانے میں کامیاب ہو گئی ہے۔ میں نہرو میموریل سینٹر کا معاملہ بغور دیکھتا رہا ہوں اور جہاں سے آزاد خیال افراد کو بالکل ہی غائب کر دیا گیا جس سے میں دہشت زدہ ہو گیا۔ یہ درست ہے کہ بی جے پی اور آر ایس ایس کے پاس حتمی فیصلے کرنے کا اختیار موجود ہے لیکن انھوں نے اس کے بارے میں کسی سے پوچھ گچھ کرنے کی ضرورت کو محسوس نہیں کیا۔ پھر اس ادیبہ کا معاملہ بھی ہے جس کے بارے میں کوئی وضاحت نہیں دی گئی ۔بھارت کے کسی ایئر پورٹ پر اسے اترنے کی اجازت نہیں سوائے ان ہوائی اڈوں کے جو اورنگ آباد کے قریب تریک ہیں جن میں پونے شامل ہے۔
بظاہر یہی لگتا ہے کہ حکومت نے مختلف ایئرپورٹس پر ہدایات جاری کر رکھی ہیں کہ اسے کہاں آنے دیا جائے اور کہاں نہ آنے دیا جائے۔
بھارتی قوم کو ہمہ وقت چوکس اور ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ ماضی میں 19 ماہ کی ایمرجنسی اور سنسرشپ سے گزر چکی ہے۔ اس دور میں پریس پر قدغن لگائی گئی تھی جس کے بارے میں بی جے پی کے مشہور لیڈر ایل کے ایڈوانی کا کہنا تھا کہ ''تمہیں سر جھکانے کا کہا گیا لیکن تم تو بالکل ہی لیٹ گئے۔'' لال کشن ایڈوانی کی یہ بات بڑی حد تک درست تھی۔ وزیراعظم اندرا گاندھی کے دور میں صحافی حضرات دہشت زدہ ہو چکے تھے حتیٰ کہ پریس کونسل آف انڈیا جو کہ بھارت میں پریس کی آزادی کی محافظ تھی وہ اندرا گاندھی کے حامیوں کے ساتھ پرچم اٹھائے کھڑی تھی۔ آج معاملہ دوسرا ہے، پریس کو وزیر اعظم مودی کے ہندو توا کے فلسفے نے مغلوب کر لیا ہے اور بھارتی پریس صاحب اقتدار افراد کا ''ماؤتھ پیس'' بن چکا ہے۔ اس وقت کے حالات اور آج کے حالات میں کوئی خاص فرق نظر نہیں آتا کیونکہ اخبارات اور ٹی وی چینلز کی مینجمنٹ کے ذہن میں اولین سوال اپنی بقا کا ہوتا ہے۔
این ڈی ٹی وی دباؤ میں ہے کیونکہ اس کے مالک پرونی رائے نے ایک قرضہ لے رکھا ہے جب کہ سی بی آئی نے حکومت کے کہنے پر اس کے خلاف مقدمہ درج کر لیا ہے۔ پرونی رائے اور اس کی بیوی رادھیکا اور آئی سی آئی بینک کے ایک نامعلوم افسر کے خلاف مجرمانہ سازش، دھوکا دہی اور کرپشن کا الزام عائد کر دیا گیا ہے۔ ممکن ہے کہ حکومت نے کرن تھاپر اور برکھا دت کو دباؤ میں لانے کے لیے ان کے ٹی وی چینل کے خلاف کارروائی کی دھمکی دی ہو، وہ دونوں کچلے ہوئے عوام کے حق میں آواز بلند کرنے والے سب سے جرأت مند اینکر تھے اور ظاہر ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اس قسم کے افراد کو پسند نہیں کرتی۔ چنانچہ ان کے چینل پر اتنا زیادہ دباؤ ڈالا گیا کہ انھوں نے دونوں کو برخاست کر دیا۔ امریکا میں بھی اس قسم کی صورتحال پیدا ہوتی رہی ہے جب کہ صحافی حضرات آپس میں مل کر نیا چینل کھول لیتے ہیں گویا آزادی اظہار پر امریکا میں بھی سمجھوتا کرنا پڑتا ہے۔
جہاں تک کرن تھاپڑ اور برکھا دت کا تعلق ہے تو انھیں خاصی طویل جدوجہد کرنا پڑے گی۔ اسٹیبلشمنٹ قدم قدم پر ان کی راہ میں روکاوٹیں کھڑی کرے گی اور اس کا انحصار بھی انھی دونوں پر ہو گا کہ وہ کس حد تک دباؤ برداشت کرتے ہیں اور مشکلات کا سامنا کرتے ہیں۔ میری تمام ہمدردیاں ان دونوں کے ساتھ ہیں۔ میرے نزدیک وہ دونوں جرأت و جوانمردی کی مثال ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ مشکلات برداشت کرنے کا اس کا اسٹیمنا کتنا ہے اور انھیں پریس کی کتنی حمایت حاصل ہوتی ہے۔ جو ایمرجنسی کے زمانے میں ہوا ممکن ہے اب ویسا نہ ہو اس وقت تو پریس نے سر کو پوری طرح جھکا دیا تھا لیکن اب اگر ہم مل کر طے کر لیں تو تمام مشکلات کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔
(ترجمہ۔ مظہر منہاس)
ہمارے زمانے میں تو کسی ایسے اقدام پر شدید تنقید ہوتی تھی۔ یہ الگ بات ہے کہ جب ایمرجنسی نافذ کر دی گئی تو سب لوگ خاموش ہو گئے لیکن اس سے پہلے وزیراعظم اندرا گاندھی کو پریس کے خلاف کوئی قدم اٹھانے کی جرأت نہیں ہوتی تھی۔ ایسے کسی کام کے لیے اندرا کو اپنے حمایتی تلاش کرنا پڑتے تھے جو کہ بہت کم ہوتے تھے جب کہ اندرا پر تنقید کرنے والوں کی تو تعداد بہت زیادہ تھی۔ مجھے یاد آتا ہے کہ 1975-77ء میں اندرا نے میڈیا پر پابندی لگانے کے بعد بڑے فخر کے ساتھ اعلان کیا تھا کہ ''کوئی ایک کتا تک نہیں بھونکا۔''
اندرا کی اس بات سے مجھے بھی اتنی ہی تکلیف پہنچی جتنی کہ دوسرے صحافیوں کو۔ ہم سارے صحافی دہلی پریس کلب میں اکٹھے ہوگئے، اس وقت مجموعی تعداد 103 تھی اور ہم نے ایک قرارداد منظور کی جس میں سنسر شپ پر تنقید کی گئی تھی۔ وزیر اطلاعات وی سی شکلا نے جو مجھے بڑی اچھی طرح جانتا تھا ٹیلی فون کر کے انتباہ کیا کہ تم سب کو گرفتار کر لیا جائے گا۔ اور یہ صرف زبانی دھمکی نہ تھی بلکہ اس نے واقعی ایسا کر دیا۔ مجھے بھی 3 ماہ کے لیے قید کر دیا گیا۔
وہ دور ایک بار پھر میری آنکھوں کے سامنے تازہ ہو گیا جب ایک معروف ادیبہ نے اگلے دن کہا کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں اختلافی آوازیں بہت تھوڑی تعداد میں اٹھی ہیں۔اس ادیبہ کو کولکتہ سے آنے کے بعد قید کر دیا گیا' اس ادیبہ کا تعلق بنگلہ دیش سے ہے' جہاں سے انھیں انتہا پسندوں نے ملک چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔ یہ بھارتی سیکولر جمہوریت کے چہرے پر ایک دھبہ ہے کہ وہ بھارت کے کسی ایسے شہر میں قیام پذیر نہیں ہو سکتی جہاں وہ چاہتی ہیں۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ چند دن پہلے وہ اورنگ آباد سے دہلی کے لیے روانہ ہوئیں لیکن اسے وہاں اترنے کی اجازت نہیں دی گئی اور اسے واپس اورنگ آباد بھیج دیا گیا۔ میں اس موضوع پر مزید خامہ فرسائی نہیں کرنا چاہتا۔ لیکن جو میرے ذہن میں ہے وہ جمہوریت کے خلاف خطرے کی نشاندہی کرتا ہے۔
بھارت میں ایمرجنسی جیسی صورتحال ایمرجنسی کے نفاذ کے بغیر بھی ہو سکتی ہے!! آر ایس ایس بہت سے تعلیمی اداروں کے سربراہوں کو جو کہ آزاد خیال سمجھے جاتے تھے ہٹانے میں کامیاب ہو گئی ہے۔ میں نہرو میموریل سینٹر کا معاملہ بغور دیکھتا رہا ہوں اور جہاں سے آزاد خیال افراد کو بالکل ہی غائب کر دیا گیا جس سے میں دہشت زدہ ہو گیا۔ یہ درست ہے کہ بی جے پی اور آر ایس ایس کے پاس حتمی فیصلے کرنے کا اختیار موجود ہے لیکن انھوں نے اس کے بارے میں کسی سے پوچھ گچھ کرنے کی ضرورت کو محسوس نہیں کیا۔ پھر اس ادیبہ کا معاملہ بھی ہے جس کے بارے میں کوئی وضاحت نہیں دی گئی ۔بھارت کے کسی ایئر پورٹ پر اسے اترنے کی اجازت نہیں سوائے ان ہوائی اڈوں کے جو اورنگ آباد کے قریب تریک ہیں جن میں پونے شامل ہے۔
بظاہر یہی لگتا ہے کہ حکومت نے مختلف ایئرپورٹس پر ہدایات جاری کر رکھی ہیں کہ اسے کہاں آنے دیا جائے اور کہاں نہ آنے دیا جائے۔
بھارتی قوم کو ہمہ وقت چوکس اور ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ ماضی میں 19 ماہ کی ایمرجنسی اور سنسرشپ سے گزر چکی ہے۔ اس دور میں پریس پر قدغن لگائی گئی تھی جس کے بارے میں بی جے پی کے مشہور لیڈر ایل کے ایڈوانی کا کہنا تھا کہ ''تمہیں سر جھکانے کا کہا گیا لیکن تم تو بالکل ہی لیٹ گئے۔'' لال کشن ایڈوانی کی یہ بات بڑی حد تک درست تھی۔ وزیراعظم اندرا گاندھی کے دور میں صحافی حضرات دہشت زدہ ہو چکے تھے حتیٰ کہ پریس کونسل آف انڈیا جو کہ بھارت میں پریس کی آزادی کی محافظ تھی وہ اندرا گاندھی کے حامیوں کے ساتھ پرچم اٹھائے کھڑی تھی۔ آج معاملہ دوسرا ہے، پریس کو وزیر اعظم مودی کے ہندو توا کے فلسفے نے مغلوب کر لیا ہے اور بھارتی پریس صاحب اقتدار افراد کا ''ماؤتھ پیس'' بن چکا ہے۔ اس وقت کے حالات اور آج کے حالات میں کوئی خاص فرق نظر نہیں آتا کیونکہ اخبارات اور ٹی وی چینلز کی مینجمنٹ کے ذہن میں اولین سوال اپنی بقا کا ہوتا ہے۔
این ڈی ٹی وی دباؤ میں ہے کیونکہ اس کے مالک پرونی رائے نے ایک قرضہ لے رکھا ہے جب کہ سی بی آئی نے حکومت کے کہنے پر اس کے خلاف مقدمہ درج کر لیا ہے۔ پرونی رائے اور اس کی بیوی رادھیکا اور آئی سی آئی بینک کے ایک نامعلوم افسر کے خلاف مجرمانہ سازش، دھوکا دہی اور کرپشن کا الزام عائد کر دیا گیا ہے۔ ممکن ہے کہ حکومت نے کرن تھاپر اور برکھا دت کو دباؤ میں لانے کے لیے ان کے ٹی وی چینل کے خلاف کارروائی کی دھمکی دی ہو، وہ دونوں کچلے ہوئے عوام کے حق میں آواز بلند کرنے والے سب سے جرأت مند اینکر تھے اور ظاہر ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اس قسم کے افراد کو پسند نہیں کرتی۔ چنانچہ ان کے چینل پر اتنا زیادہ دباؤ ڈالا گیا کہ انھوں نے دونوں کو برخاست کر دیا۔ امریکا میں بھی اس قسم کی صورتحال پیدا ہوتی رہی ہے جب کہ صحافی حضرات آپس میں مل کر نیا چینل کھول لیتے ہیں گویا آزادی اظہار پر امریکا میں بھی سمجھوتا کرنا پڑتا ہے۔
جہاں تک کرن تھاپڑ اور برکھا دت کا تعلق ہے تو انھیں خاصی طویل جدوجہد کرنا پڑے گی۔ اسٹیبلشمنٹ قدم قدم پر ان کی راہ میں روکاوٹیں کھڑی کرے گی اور اس کا انحصار بھی انھی دونوں پر ہو گا کہ وہ کس حد تک دباؤ برداشت کرتے ہیں اور مشکلات کا سامنا کرتے ہیں۔ میری تمام ہمدردیاں ان دونوں کے ساتھ ہیں۔ میرے نزدیک وہ دونوں جرأت و جوانمردی کی مثال ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ مشکلات برداشت کرنے کا اس کا اسٹیمنا کتنا ہے اور انھیں پریس کی کتنی حمایت حاصل ہوتی ہے۔ جو ایمرجنسی کے زمانے میں ہوا ممکن ہے اب ویسا نہ ہو اس وقت تو پریس نے سر کو پوری طرح جھکا دیا تھا لیکن اب اگر ہم مل کر طے کر لیں تو تمام مشکلات کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔
(ترجمہ۔ مظہر منہاس)