ترقی ترقی ترقی
اگر عوام اپنی بستیوں میں ’’ترقی‘‘ کو تلاش کریں گے تو انھیں مایوسی کے علاوہ کچھ نہیں ملے گا۔
ہمارا حکمران طبقہ رات دن عوام کو ملک میں ہونے والی ترقی کی ایسی ایسی داستانیں سنا رہا ہے کہ بے چارے عوام حیرت اور تجسس کے ساتھ ترقی کو تلاش کر رہے ہیں، لیکن یہ اعلاناتی ترقی کہیں نظر نہیں آتی۔ اس حوالے سے عوام کی غلطی یہ ہے کہ وہ حکومتی اہلکاروں کی اعلان کردہ ترقی کو اپنی غریب بستیوں لانڈھی، کورنگی، ملیر، شاہ فیصل کالونی، آگرہ تاج کالونی، نیو کراچی، شیر شاہ جیسی بستیوں میں تلاش کرتے ہیں، اسی لیے انھیں مایوس ہونا پڑتا ہے، اگر کراچی جیسے ترقی یافتہ شہر میں ترقی کو تلاش کرنا ہو تو عوام کو ہمت کرکے کلفٹن جانا ہو گا، ڈیفنس جانا ہو گا، پی ای سی ایچ جانا ہو گا، انھیں وہاں ترقی بھی نظر آئے گی، ترقی یافتہ ایلیٹ بھی نظر آئے گی۔
اگر عوام اپنی بستیوں میں ''ترقی'' کو تلاش کریں گے تو انھیں مایوسی کے علاوہ کچھ نہیں ملے گا۔ وہ سوچتے ہیں کہ ان کے بچے تعلیم سے ہمیشہ کی طرح محروم ہیں۔ ان کی گلیوں میں گٹر کا گندا پانی کھڑا رہتا ہے، ان کی گلیاں اس قدر تنگ ہوتی ہیں کہ وقت واحد میں دو آدمی ایک ساتھ نہیں گزر سکتے، ان کی گلیاں اتنی تنگ ہوتی ہیں کہ ان میں رکشہ، ٹیکسی نہیں آ سکتے، ان کی بستیاں کچرے کا ڈھیر بنی رہتی ہیں، ان کے باورچی خانے بھائیں بھائیں کرتے رہتے ہیں،ان کے پیٹ خالی رہتے ہیں۔ انھیں بسوں، ویگنوں میں دروازوں پر لٹک کر اور چھتوں پر بیٹھ کر سفر کرنا پڑتا ہے صورتحال جب جوں کی توں ہے تو پھر ترقی کے اعلانات اور مژدوں کا مطلب کیا؟
ہمارا حکمران طبقہ جس ترقی کے مژدے سناتا ہے وہ زرمبادلہ کے ذخائر میں چھپی ہوئی ہے، اسٹاک ایکسچینج میں چلا رہی ہے، اسٹیٹ بینک کے اعداد و شمار میں دبکی ہوئی ہے، امپورٹ ایکسپورٹ کے کاروبار میں دندنا رہی ہے، فائیو اسٹار ہوٹلوں اور ایلیٹ کے کلبوں میں رقص کر رہی ہے، طارق روڈ اور کلفٹن کی مارکیٹوں میں جھلملا رہی ہے، سڑکوں پر مچھلیوں کی طرح تیرتی نئے نئے ماڈل کی کاروں کے ساتھ دوڑ رہی ہے، کلفٹن، ڈیفنس، لاہور کے ماڈل ٹاؤن، گلبرگ اور ڈیفنس میں ناچتی پھر رہی ہے، کلفٹن ڈیفنس کے محلوں کی اونچی دیواروں اور گیٹ پر کھڑے مسلح گارڈز کی شکل میں موجود ہے، ایلیٹ کے کچن اور ڈائننگ ہالوں میں اپنے جلوے بکھیر رہی ہے۔ بے وقوف تم اپنی گندی بستیوں میں اگر ترقی کو تلاش کروگے تو تمہیں مایوسی کے سوا کچھ نہ ملے گا۔ تم اپنے کچے گھروں اپنے بھائیں بھائیں کرتے کچن میں ترقی کو تلاش کروگے تو تمہیں ترقی کہاں نظر آئے گی؟
آج کل ملک میں پاناما لیکس، میاں فیملی کا ہر طرف چرچا ہے، حکومت کے پیادے دن میں چار چار، آٹھ آٹھ پریس کانفرنسوں، پریس بریفنگز میں عوام کو ڈرا رہے ہیں کہ ''ملک دشمن'' عناصر ایک گہری اور منظم سازش کے تحت ملک میں خلفشار پیدا کر کے اور حکمران خاندان پر لفظوں اور الزامات کے تیروں کی بوچھاڑ کر کے ترقی کے پہیے کو روکنا چاہ رہے ہیں۔ پاکستان کی ترقی کے مژدے تو عالمی سروے ٹیمیں سنا رہی ہیں، آئی ایم ایف ورلڈ بینک سنا رہے ہیں، اقوام متحدہ کے مدبرین سنا رہے ہیں، اگر عمران خان اور سراج الحق ترقی کو پاناما لیکس، دبئی، لندن کے 25-25 ارب کے فلیٹوں میں تلاش کر رہے ہیں تو انھیں کچھ حاصل نہ ہو گا۔
پاکستان کے ساڑھے چار کروڑ مزدور پاکستان کی زرعی معیشت سے جڑے 60 فیصد کسان اور ہاری چھوٹے چھوٹے کاروبار سے جڑے کروڑوں غریب حیرت سے ترقی کے بلند بانگ دعوؤں کو سن رہے ہیں اور حیرت سے ایک دوسرے کو دیکھ رہے ہیں کہ سرکار کی اعلان کردہ ترقی کہاں ہے؟ غریب کے جسم پر وہی پھٹے پرانے کپڑے ہیں جو 1947ء سے اس کا مقدر بنے ہوئے ہیں، غریب کے پیروں میں پلاسٹک کی وہی سستی چپلیں ہیں جو وہ 70 سال سے پہنتا آ رہا ہے، غریب کو ہمیشہ کی طرح دو وقت کی روٹی کے لیے سارا سارا دن محنت کرنا پڑ رہی ہے، غریب کو 70 سال سے ''ٹرانسپورٹ'' کی جو اذیتیں حاصل ہیں ان میں اضافہ ہوا ہے کمی نہیں ہوئی، پہلے وہ بسوں میں جانوروں کی طرح ٹھنس کر اور دروازوں پر لٹک کر سفر کرتا تھا اب بسوں ویگنوں کی چھتوں پر آرام سے بیٹھ کر سفر کر رہا ہے۔
پہلے اسے آدھے گھنٹے بس اسٹاپوں پر بسوں کا انتظار کرنا پڑتا تھا اب اسے گھنٹہ گھنٹہ، ڈیڑھ ڈیڑھ گھنٹہ انتظار کرنا پڑ رہا ہے، پہلے وہ چائے روٹی سے ناشتہ کرتا تھا اب وہ پیاز روٹی سے ناشتہ کر رہا ہے۔ پہلے اس کی بستیاں گندے پانی سے اٹی رہتی تھیں، اب صدر اور بندر روڈ گندے پانی سے اٹے ہوئے ہیں۔ پہلے اسے مزدوروں کے اڈے پر ہفتے میں چار پانچ دیہاڑیاں مل جاتی تھیں، اب ہفتے میں دو تین دیہاڑیاں مل رہی ہیں باقی دن اسے ''آرام'' کا موقع مل رہا ہے۔ کیا یہ سب ترقی کے شاہکار نہیں ہیں؟ اور یہ ترقی اس وقت تک اس کا مقدر بنی رہے گی جب تک وہ صبر کا دامن تھامے رہے گا۔ جس دن اس سے صبر کا دامن چھوٹ جائے گا اس دن سے وہ ترقی کے اس سفر پر چل پڑے گا جہاں کوئی بندہ رہے گا نہ بندہ نواز۔
اگر عوام اپنی بستیوں میں ''ترقی'' کو تلاش کریں گے تو انھیں مایوسی کے علاوہ کچھ نہیں ملے گا۔ وہ سوچتے ہیں کہ ان کے بچے تعلیم سے ہمیشہ کی طرح محروم ہیں۔ ان کی گلیوں میں گٹر کا گندا پانی کھڑا رہتا ہے، ان کی گلیاں اس قدر تنگ ہوتی ہیں کہ وقت واحد میں دو آدمی ایک ساتھ نہیں گزر سکتے، ان کی گلیاں اتنی تنگ ہوتی ہیں کہ ان میں رکشہ، ٹیکسی نہیں آ سکتے، ان کی بستیاں کچرے کا ڈھیر بنی رہتی ہیں، ان کے باورچی خانے بھائیں بھائیں کرتے رہتے ہیں،ان کے پیٹ خالی رہتے ہیں۔ انھیں بسوں، ویگنوں میں دروازوں پر لٹک کر اور چھتوں پر بیٹھ کر سفر کرنا پڑتا ہے صورتحال جب جوں کی توں ہے تو پھر ترقی کے اعلانات اور مژدوں کا مطلب کیا؟
ہمارا حکمران طبقہ جس ترقی کے مژدے سناتا ہے وہ زرمبادلہ کے ذخائر میں چھپی ہوئی ہے، اسٹاک ایکسچینج میں چلا رہی ہے، اسٹیٹ بینک کے اعداد و شمار میں دبکی ہوئی ہے، امپورٹ ایکسپورٹ کے کاروبار میں دندنا رہی ہے، فائیو اسٹار ہوٹلوں اور ایلیٹ کے کلبوں میں رقص کر رہی ہے، طارق روڈ اور کلفٹن کی مارکیٹوں میں جھلملا رہی ہے، سڑکوں پر مچھلیوں کی طرح تیرتی نئے نئے ماڈل کی کاروں کے ساتھ دوڑ رہی ہے، کلفٹن، ڈیفنس، لاہور کے ماڈل ٹاؤن، گلبرگ اور ڈیفنس میں ناچتی پھر رہی ہے، کلفٹن ڈیفنس کے محلوں کی اونچی دیواروں اور گیٹ پر کھڑے مسلح گارڈز کی شکل میں موجود ہے، ایلیٹ کے کچن اور ڈائننگ ہالوں میں اپنے جلوے بکھیر رہی ہے۔ بے وقوف تم اپنی گندی بستیوں میں اگر ترقی کو تلاش کروگے تو تمہیں مایوسی کے سوا کچھ نہ ملے گا۔ تم اپنے کچے گھروں اپنے بھائیں بھائیں کرتے کچن میں ترقی کو تلاش کروگے تو تمہیں ترقی کہاں نظر آئے گی؟
آج کل ملک میں پاناما لیکس، میاں فیملی کا ہر طرف چرچا ہے، حکومت کے پیادے دن میں چار چار، آٹھ آٹھ پریس کانفرنسوں، پریس بریفنگز میں عوام کو ڈرا رہے ہیں کہ ''ملک دشمن'' عناصر ایک گہری اور منظم سازش کے تحت ملک میں خلفشار پیدا کر کے اور حکمران خاندان پر لفظوں اور الزامات کے تیروں کی بوچھاڑ کر کے ترقی کے پہیے کو روکنا چاہ رہے ہیں۔ پاکستان کی ترقی کے مژدے تو عالمی سروے ٹیمیں سنا رہی ہیں، آئی ایم ایف ورلڈ بینک سنا رہے ہیں، اقوام متحدہ کے مدبرین سنا رہے ہیں، اگر عمران خان اور سراج الحق ترقی کو پاناما لیکس، دبئی، لندن کے 25-25 ارب کے فلیٹوں میں تلاش کر رہے ہیں تو انھیں کچھ حاصل نہ ہو گا۔
پاکستان کے ساڑھے چار کروڑ مزدور پاکستان کی زرعی معیشت سے جڑے 60 فیصد کسان اور ہاری چھوٹے چھوٹے کاروبار سے جڑے کروڑوں غریب حیرت سے ترقی کے بلند بانگ دعوؤں کو سن رہے ہیں اور حیرت سے ایک دوسرے کو دیکھ رہے ہیں کہ سرکار کی اعلان کردہ ترقی کہاں ہے؟ غریب کے جسم پر وہی پھٹے پرانے کپڑے ہیں جو 1947ء سے اس کا مقدر بنے ہوئے ہیں، غریب کے پیروں میں پلاسٹک کی وہی سستی چپلیں ہیں جو وہ 70 سال سے پہنتا آ رہا ہے، غریب کو ہمیشہ کی طرح دو وقت کی روٹی کے لیے سارا سارا دن محنت کرنا پڑ رہی ہے، غریب کو 70 سال سے ''ٹرانسپورٹ'' کی جو اذیتیں حاصل ہیں ان میں اضافہ ہوا ہے کمی نہیں ہوئی، پہلے وہ بسوں میں جانوروں کی طرح ٹھنس کر اور دروازوں پر لٹک کر سفر کرتا تھا اب بسوں ویگنوں کی چھتوں پر آرام سے بیٹھ کر سفر کر رہا ہے۔
پہلے اسے آدھے گھنٹے بس اسٹاپوں پر بسوں کا انتظار کرنا پڑتا تھا اب اسے گھنٹہ گھنٹہ، ڈیڑھ ڈیڑھ گھنٹہ انتظار کرنا پڑ رہا ہے، پہلے وہ چائے روٹی سے ناشتہ کرتا تھا اب وہ پیاز روٹی سے ناشتہ کر رہا ہے۔ پہلے اس کی بستیاں گندے پانی سے اٹی رہتی تھیں، اب صدر اور بندر روڈ گندے پانی سے اٹے ہوئے ہیں۔ پہلے اسے مزدوروں کے اڈے پر ہفتے میں چار پانچ دیہاڑیاں مل جاتی تھیں، اب ہفتے میں دو تین دیہاڑیاں مل رہی ہیں باقی دن اسے ''آرام'' کا موقع مل رہا ہے۔ کیا یہ سب ترقی کے شاہکار نہیں ہیں؟ اور یہ ترقی اس وقت تک اس کا مقدر بنی رہے گی جب تک وہ صبر کا دامن تھامے رہے گا۔ جس دن اس سے صبر کا دامن چھوٹ جائے گا اس دن سے وہ ترقی کے اس سفر پر چل پڑے گا جہاں کوئی بندہ رہے گا نہ بندہ نواز۔