پروقار اجتماع۔۔۔۔ مگر

نظم و ضبط، تعداد اور ہر اعتبار سے جلسہ مجموعی طور سے پروقار کہلانے کا مستحق ہے۔

anisbaqar@hotmail.com

ایک چھوٹے صوبے کے لیڈر نے جہد مسلسل کو جاری رکھا۔ پہلے دو دھرنے طاہرالقادری کے ہمراہ اور ایک دھرنا ایسا بھی جس میں کارکن سڑکوں پر رات گزارتے رہے اور عمران خان بنی گالا میں آرام فرما رہے تھے۔ جس پر لوگوں نے تنقید کی اور رفتہ رفتہ عمران خان نے عوام کے مزاج کو پوری طرح سمجھ لیا۔ مگر پھر بھی عوامی مزاج کو انقلابی لیڈر ہی سمجھ سکتا ہے کیونکہ وہ معاشرے کی فرسودہ کڑیاں توڑ دیتا ہے اور عوام کو نئی راہ پر چلاتا ہے مگر عمران خان برطانوی جمہوری نظام سے متاثر ہیں، اس لیے امید ہے کہ وہ بہتر طور سے جمہوریت چلا سکیں گے۔

وہ خود چونکہ خاندانی سیاست کے خلاف جدوجہد کرتے رہے ہیں لہٰذا وہ خاندانی سیاست یا احباب پروری سے گریز کریں گے۔ اتوار 30 جولائی کو انھوں نے جو جلسہ منعقد کیا، اس نے اسلام آباد کے ماضی میں منعقد ہونے والے تمام جلسوں پر سبقت لے جانے میں ایک مقام پیدا کر دیا۔ نظم و ضبط، تعداد اور ہر اعتبار سے جلسہ مجموعی طور سے پروقار کہلانے کا مستحق ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ عوام نے تو عمران خان کو کامیاب بنا دیا، میرے پاس لوگوں کے جو تاثرات موجود ہیں خصوصاً نوجوانوں یا پچاس برس کے لگ بھگ تک کے لوگ اسلام آباد سے کراچی تک مجموعی طور پر اس بات پر متفق ہیں، ایک صاحب نے تو یہ کہا کہ عمران خان نے دوسرا ورلڈ کپ جیت لیا ہے، کیونکہ یہ ایک صبر آزما مقام تھا اور مقدمے میں وہ پوری استقامت سے کھڑے رہے۔ میڈیا کی اکثریت بھی ان کے موقف کی تائید کرتی رہی۔ یہ تائید مستقبل میں بھی تحریک انصاف کا مورل (Moral) بلند کرتی رہے گی۔

اب یہ پارٹی کا فرض ہے کہ وہ عوام کی خواہشات اور ضروریات کو مدنظر رکھے کہ کس چیز کی عوام کو ضرورت ہے۔ کیونکہ جب سے دھرنے کی سیاست چلی ہے اور بعد میں مقدمے کی سیاست، دن رات میڈیا حمایت یا مخالفت میں کوشاں رہے ہیں۔ بعض کالم نگار اخبارات میں نواز شریف کو ایک ایسا جانباز سمجھتے رہے ہیں کہ گویا انھوں نے مارشل لا کو روک رکھا ہے۔ جب کہ عالمی موقف پر ہمیشہ دونوں ایک صفحے پر ہی رہے ہیں۔ بعض نادان مبصر قطر اور سعودی عرب کی زبانی جنگ کو ایک بڑی جنگ تصور کرتے رہے جب کہ یہ امریکی محاذ کی آپس کی چپقلش ہے اور یہ جلد ہی ختم ہو جائے گی۔

ان دنوں ایران اور سعودی عرب میں جس قدر اختلافات بڑھ گئے تھے، ایسا لگتا ہے تھا کہ جنگ قریب ہے، مگر عراق کے شیعہ رہنما مقتدا صدر کا حالیہ وزٹ اتفاق کی سمت ایک قدم ہے، لہٰذا غیر ضروری قیاس آرائی سے گریز کی ضرورت ہے اور اس پہلو پر بھی عمران خان نہایت زیرک ثابت ہوئے۔ البتہ انھوں نے اس جلسے میں (Merit) میرٹ یعنی لیاقت کو معیار مقرر بنایا ہے، کاش کہ یہ لیاقت ملک کے ہر شعبے میں اولیت حاصل کر لے۔ یہ واضح رہے کہ عمران خان نے سماجی انصاف کی بات کی ہے جس میں معاشی انصاف کی بڑی اہمیت ہے۔ انھوں نے ایک بڑا میٹھا بول اجاگر کیا کہ وہ ایک ایسا نظام لائیں گے کہ جس میں زکوٰۃ دینے والے تو ہوں گے مگر زکوٰۃ لینے والے نہ ہوں گے۔

کاش یہ خواب شرمندہ تعبیر ہو، کیونکہ پاکستان کی سیاسی پارٹیاں تحریری شکل میں کوئی بیان منظر عام پر نہیں لاتیں، تقریریں کوئی قابل گرفت دستاویز نہیں ہوتیں کہ بول کر اس پر عمل کیا جائے۔ اب تو صورتحال یہ ہو چکی ہے کہ ایک پارٹی جو کبھی روٹی، کپڑا اور مکان کی باتیں کرتی تھی اب تو زمین کا بھی نام لینے سے گریزاں ہے، کیونکہ زمین جو بڑے بلڈر کی ملکیت ہے عام لوگوں کے نصیب میں کہاں۔ دوسری پارٹیاں تو اب اس نہج پر فائز ہو گئی ہیں کہ وہ کوڑے خانے تعمیر کر رہی ہیں، جہاں سے وہ کچرا ایکسپورٹ کریں۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ پورے شہر میں چکن گونیا اور دیگر وبائی امراض پھیل گئے ہیں۔ ان پارٹیوں نے نواز شریف کے باوفا دوست کا ساتھ دینے اور ان کے ساتھیوں کے خلاف بات کی ہے اور کراچی کو کچرا خانہ بنے رہنے دینا ہے۔


اب کراچی کو کون لیڈر جام صحت پلائے گا؟ یہ وہ شہر ہے جس کو کراچی کا میئر صبح سویرے سڑکیں دھلایا کرتا تھا، ڈبل ڈیکر بسیں سیٹ بائی سیٹ لوگوں کی نشست اور شہر میں ٹراموے چلا کرتی تھی۔ اب ترقی کے نام پر ہزاروں درخت کاٹے جاتے ہیں۔ شاید ہی اب دنیا کا کوئی اس قدر رقم کما کر دینے والا اتنا بدنصیب شہر ہو۔ ٹوٹی سڑکیں، گندی نالیاں، تعفن کا سمندر حکمرانوں کے قصیدے پڑھ رہا ہے۔ شاید امید ہے کہ کوئی حکمران کراچی کے سر پر سہرا باندھے، عوامی مسائل پر کوئی گفتگو پر تیار نہیں، بس الجھی ہوئی گفتگو کا سلسلہ عوام کے لیے رات دن گفتگو، جس سے وہ باہر نہ نکل سکیں۔ میڈیا نے پورے سسٹم کو کنفیوژ کر کے رکھ دیا ہے۔ یہ لوگ حاکموں کے تنخواہ دار ہیں، تاکہ کہیں عوام میں انقلابی سوچ پیدا نہ ہو جائے۔

اسی وجہ سے ملک میں بیداری کا فقدان ہے۔ اسٹوڈنٹس یونین، مزدور یونین اور ہاری تحریک یعنی کسانوں کے حقوق پر طاہر القادری گفتگو کیا کرتے تھے مگر پارٹی کے سینیٹر رضا ربانی طلبا تحریک کے کئی برس سے حقوق کی باتیں کرتے رہے مگر یہ گفتگو صرف بیان کی حد تک محدود رہی۔

طلبا یونین پر عمران خان کی گفتگو بھی نہ رہی اور نہ کسان حقوق کی کوئی بات ہوئی، لیبر یونین نامی جہد کا تصور ان کے پاس نہیں۔ البتہ صاف ستھری سیاست کا تصور تو یقیناً ان کے پاس موجود ہے، وہ برطانوی کنزرویٹو یا لیبر پارٹی کے دستور حکومت کی باتیں کرتے رہے ہیں اور تعلیم پر زور دیتے رہے ہیں۔ یہ یقیناً باتوں کے اعتبار سے عمدہ گفتگو ہے، مگر غریبوں کے لیے موجودہ سسٹم میں غریب کا ترقی کرنا آسان نہیں، لیکن باتوں کی حد تک سہل ہے، پھر بھی دیگر لیڈران کو تو ملک میں باتوں کی حد تک بھی غریبوں کا کوئی احساس نہیں ہے کہ وہ امید بھی پیدا کرسکیں۔

بہرصورت اس دور میں غریب کے لیے عمران خان نے احساس تو پیدا کرنے کا شعور پیدا کیا، ہمیں عمران خان سے اتنا بلند سوچنے کی ضرورت نہیں جتنا بلند کہ اوسط طبقہ سوچ رہا ہے، نہ یہ مخدوم محی الدین ہیں اور نہ حبیب جالبؔ یا افضل بنگش، پھر بھی ان پر موجودہ الزام تراشی ایک محترمہ کی جانب سے کی جا رہی ہے وہ سراسر مصنوعی ہے، کیونکہ یہ الزامات نواز شریف کے خلاف عدم اعتماد کے بعد منظر عام پر آئے۔

ایک عجیب مضحکہ خیزی یہ ہے کہ وہ شخص جو خود صادق و امین نہ رہا مگر وہ دوسرے کو نامزد کرنے کا اختیار رکھتا ہے جب کہ اس کے چنے ہوئے سب کے سب قانونی حیثیت سے بداعتماد نہ ہوئے، بہرحال عمران خان کوئی انقلابی رہنما نہیں جو عوام کو لوٹ مار سے نجات دلا سکیں۔ بلکہ اگر یہ برطانوی جمہوریت کے طرز کا نظام بھی نافذ کر دیں تو کامیاب لیڈر اپنا نظام نافذ کرنے کے قابل ہوجائیں گے مگر نہ ملک میں مزدور یونین نواز شریف نے باقی چھوڑی ہے نہ طلبا یونین تو یہ کیسے ممکن ہے کہ ملک کا نظام بدل جائے مگر لوگوں کی گفتگو اور مجموعی طور پر عوام عمران خان کی گفتگو سے پرامید ہیں۔ اس لیے ان کے مخالفین ان کا چوتھائی بھی عوامی متوسط طبقہ کا جلسہ کرنے کے قابل نہیں ہیں۔
Load Next Story