سپریم کورٹ کا فیصلہ
حواس باختگی کایہ عالم ہے کہ خود کو تسلی دینے کے لیے ایسے ایسے رجزیہ اشعار پڑھے جا رہے ہیں۔
RIYADH:
پاناما کرپشن کیس پر سپریم کورٹ اپنا فیصلہ سنا چکی ہے۔ نوازشریف گھر جا چکے ہیں۔ اور ہمارے جو دوست برابریہ لکھ رہے تھے کہ نوازشریف نااہل نہیں ہوں گئے، اب وہ بھی سازشی کہانیوں میں پناہ تلاش رہے ہیں۔ نوازشریف کی حالیہ برطرفی اس لحاظ سے دلچسپ ہے کہ ایک بار پھر ان کی مسلسل پانچ سال تک وزیراعظم رہنے کی خواہش پوری نہیں ہو سکی۔
ویسے تو آئین میں وزیراعظم کی مدت سرے سے مذکور ہی نہیں۔ آئین میں صرف قومی اسمبلی کی آئینی مدت، پانچ سال کا ذکر ہے۔ اس دوران میں اگر کوئی منتخب وزیراعظم پارلیمنٹ کے اعتماد کھو بیٹھتا ہے یا آئینی طور پر نااہل قرار پا جاتا ہے، تو اس کی جگہ نیا وزیراعظم آ سکتا ہے۔ اس آئینی تناظر میں وزیراعظم کی موجودہ تبدیلی کوئی غیر آئینی چیز نہیں، تاہم یہ مسلسل تیسری قومی اسمبلی ہے،جس میں دوران مدت وزیراعظم کی تبدیلی عمل میں آئی ہے۔ ق لیگ کے پانچ سالہ دور میں تین وزراے اعظم آئے، ظفراللہ جمالی، چوہدری شجاعت حسین اور شوکت عزیز۔ پیپلزپارٹی کے پانچ سالہ دور میں دو وزراے اعظم آئے ، یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف۔ اب ن لیگ کے دور میں بھی پہلے وزیراعظم نوازشریف فارغ ہو چکے ہیں۔
دوسرے خاقان عباسی آچکے ہیں،اور تیسرے شہبازشریف تیار بیٹھے ہیں۔ پاکستان میں وزیراعظم کی حیثیت سے ایک ہی بار میں سب سے زیادہ مدت تک ذوالفقارعلی بھٹو ہی وزیراعظم رہے ہیں۔ بلکہ ایک لحاظ سے انھوںنے پانچ سال پورے کر لیے تھے کہ اپنی مرضی سے ہی انھوں نے چند ماہ پہلے الیکشن کرائے تھے۔ نوازشریف کو ''قسمت کا دھنی'' کہا جاتا ہے، مگر اس لحاظ سے وہ بدقسمت ترین وزیراعظم ہیں کہ تین بار وزیراعظم بنے، مگر تینوں بار ان کو برطرفی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ پہلی بار صدر کے ہاتھوں، دوسری بار فوج کے ہاتھوں اور تیسری بار عدلیہ کے ہاتھوں۔
سابق وزیراعظم نے اپنے خلاف سپریم کورٹ کے فیصلہ پر اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ ان پر کرپشن کا کوئی کیس نہیں اور اس کے بغیر ہی ان کو فارغ خطی کا پروانہ تھما دیا گیا ہے؛ ان کی یہ بات درست نہیں۔ ان کو اور ان کے حامیوں کو معلوم ہونا چاہے کہ سپریم کورٹ نے اپنے تازہ فیصلہ کو اس ضمن میں اپنے گزشتہ فیصلہ کا تسلسل قرار دیا ہے، یعنی موجودہ حتمی فیصلہ کو سابقہ عبوری فیصلہ کے ساتھ ملا کے پڑھا جائے گا۔ سپریم کورٹ کے دو سینئر ججز، جو پاکستان کے مستقبل کے چیف جسٹس بھی ہیں، اپنے فیصلہ میں وزیراعظم نااہل قرار دے چکے ہیں۔ باقی تین ججوں نے ان سے صرف اتنا اختلاف کیا کہ وزیراعظم کو نااہل قرار دینے سے پہلے جے آئی ٹی کے ذریعہ مزید ایک انکوائری کر لی جائے تو مناسب ہو گا۔
اس فیصلے پر سابق وزیراعظم نے سمجھا کہ وہ بچ نکلے ہیں۔ ان کے حامیوں نے مٹھائیاں بھی تقسیم کیں اور ایک دوسرے کو مبارکبادیں بھی دیں۔ مگر جو لوگ قانونی طریقہ کار سے ذرا سی بھی واقفیت رکھتے تھے، ان کو معلوم تھا کہ سابق وزیراعظم کو صفائی پیش کرنے کے لیے مزید ۶۰ روز کی مہلت دی گئی ہے اور حتمی فیصلہ ابھی ہونا ہے۔
نوازشریف فیملی مگر اس مہلت سے کوئی فائدہ نہ اٹھا سکی، بلکہ یہ مہلت اس لحاظ سے ان کے لیے مہلک ثابت ہوئی کہ جے آئی ٹی ارکان نے دوران تفتیش ان کی دبئی میں ایک نئی آف شور کمپنی اور اس میں بطور چیئرمین ان کے سیلری اکاونٹ کا بھی سراغ لگا لیا، جس کا اعتراف نہ صرف یہ کہ سپریم کورٹ میں ان کے وکیلوں نے کیا ، بلکہ سپریم کورٹ فیصلہ کے بعد بھی سابق وزیراعظم کی طرف سے اس کا انکار نہیں کیا گیا۔ سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے سابق وزیراعظم کو دوران تفتیش اس نئے ظاہر ہونے والے ثبوت کی پاداش میں متفقہ طور پر نااہل قرار دیا ہے۔
سپریم کورٹ کے موجودہ حتمی فیصلہ کا اس کے سابقہ عبوری فیصلہ کے ساتھ ملا کر پڑھا جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ سابق وزیراعظم مئے فیئر فلیٹس کی ملکیت چھپانے پر بھی نااہل ہیں اور دبئی کمپنی میں بطور چیئرمین کام کرنے اور سیلری اکاونٹ چھپانے پر بھی نااہل ہیں۔ یہ دوسری نااہلی دفعہ 62 - f کے تحت دی گئی ہے، لہذا قانونی زبان میں یہ تاحیات نااہلیت تصور کی جائے گی۔ یوں سپریم کورٹ اپنے دائرہ اختیار یعنی آئین کی دفعہ 62 - 63 کے تحت براہ راست جو سزا وزیراعظم کو دے سکتی ہے، وہ اس نے دیدی ہے۔
فوجداری سزائیں یعنی قید اور جرمانہ کی سزائیں سپریم کورٹ براہ راست نہیں دے سکتی کیونکہ سپریم کورٹ ٹرائل کورٹ نہیں۔ مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ سپریم کورٹ نے سابق وزیراعظم کو باقی الزامات سے بری کر دیا ہے، جیسا کہ ان کے حامی کہہ رہے ہیں۔ حقیقت اس کے برخلاف یہ ہے کہ وزیراعظم اور ان کے خاندان کے خلاف ریفرنسز نیب کو بھجوا دیے گئے ہیں۔ فوجداری سزاوں کے فیصلہ سے پہلے ان کو مخالف گواہوں پر جرح کرنے کی اجازت ہو گی۔ اسی طرح استغاثہ بھی ان پر جرح کر سکے گا، جو ان کے لیے جے آئی ٹی میں پیشی سے زیادہ تکلیف دہ چیز ثابت ہو سکتی ہے۔ مزید یہ کہ سپریم کورٹ نے ان ریفرنسز پر قانونی کارروائی ۶ ماہ کے اندر اندر مکمل کرنے کا حکم دیا ہے، اور اس کی مانیٹرنگ کے لیے سپریم کورٹ کایک رکنی بنچ بنانا ہے۔
گویا، دفعہ62 ایف کے تحت سابق وزیراعظم کی تاحیات نااہلی کی سزا پاناما کرپشن کیس میں صرف پہلی سزا ہے۔ باقی سزاوں کا فیصلہ ابھی ہونا ہے۔ امکان یہ ہے کہ یہ فیصلہ 2018ء کے اوائل تک یعنی اگلے الیکشن سے پہلے ہو جائے گا۔ سپریم کورٹ کے فیصلہ کے تحت سابق وزیراعظم کی نااہلیت کا مطلب یہ بھی ہے کہ اب وہ مسلم لیگ کے صدر رہ سکیں گے، نہ کھلے عام اس کی تنظیمی سرگرمیوں میں حصہ لے سکیں گے۔ اگر وہ ایسا کریں گے توجلد یا بدیر ان کے خلاف کسی نہ کسی طرف سے کوئی پٹیشن دائر ہو جائے گی۔ شنید یہ ہے کہ فیصلہ کے اس پہلو کے پیش نظر ہی سابق وزیراعظم نے پارٹی اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے راجہ راجہ ظفر الحق کو اپنے پہلو میں بٹھائے رکھا، تا کہ بعد میں کوئی قانونی پیچیدگی پیدا ہو تو کہہ سکیں کہ اجلاس کی صدارت وہ نہیں، بلکہ چیئرمین راجہ ظفر الحق کر رہے تھے۔
سپریم کورٹ کے حتمی فیصلہ کی ن لیگ کے دفاعی ماہرین جس طرح کی مضحکہ خیز تعبیریں کر رہے ہیں اور جس طرح اپنے قائد کو پاناما کیس سے بری الذمہ ہونے کا سرٹیفکیٹ دے رہے ہیں، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاناما کیس پر سپریم کورٹ کے گزشتہ فیصلہ کی طرح، جس کے تحت جے آئی ٹی قائم کی گئی تھی، سپریم کورٹ کے موجودہ فیصلہ کے مضمرات کو بھی ن لیگ سمجھ نہیں پا رہی ہے۔ حواس باختگی کایہ عالم ہے کہ خود کو تسلی دینے کے لیے ایسے ایسے رجزیہ اشعار پڑھے جا رہے ہیں۔
جن کی موجودہ صورت حال سے کوئی مطابقت نہیں۔ کوئی کہہ رہا ہے، چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے۔ کوئی کہہ رہا ہے، جس دور میں جینا مشکل ہو، اس دور میں جینا لازم ہے۔ کوئی کہہ رہا ہے، خون صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا۔ حالانکہ سابق وزیراعظم کو نااہلیت کی جو سزا ملی ہے، وہ ان کی اپنی حکومت کے دوران ہی ملی ہے، اور اسی آزاد عدلیہ نے دی ہے، جس کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ یہ انھوں نے ہی آزاد کرائی تھی۔ واقعہ یہ ہے کہ سابق وزیراعظم جس طرح بے وقار ہو کر گھر گئے ہیں اور جس کا گلہ انھوں نے خود بھی یہ کہہ کر کیا ہے کہ 'ہم ایسی توہین کے مستحق تو نہیں تھے' اس پر انھی کے محبوب شاعر مرزا غالبؔ کا یہ شعر صادق آتا ہے کہ
نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے ہیں لیکن
بڑے بے آبرو ہو کر تیرے کوچے سے ہم نکلے
پاناما کرپشن کیس پر سپریم کورٹ اپنا فیصلہ سنا چکی ہے۔ نوازشریف گھر جا چکے ہیں۔ اور ہمارے جو دوست برابریہ لکھ رہے تھے کہ نوازشریف نااہل نہیں ہوں گئے، اب وہ بھی سازشی کہانیوں میں پناہ تلاش رہے ہیں۔ نوازشریف کی حالیہ برطرفی اس لحاظ سے دلچسپ ہے کہ ایک بار پھر ان کی مسلسل پانچ سال تک وزیراعظم رہنے کی خواہش پوری نہیں ہو سکی۔
ویسے تو آئین میں وزیراعظم کی مدت سرے سے مذکور ہی نہیں۔ آئین میں صرف قومی اسمبلی کی آئینی مدت، پانچ سال کا ذکر ہے۔ اس دوران میں اگر کوئی منتخب وزیراعظم پارلیمنٹ کے اعتماد کھو بیٹھتا ہے یا آئینی طور پر نااہل قرار پا جاتا ہے، تو اس کی جگہ نیا وزیراعظم آ سکتا ہے۔ اس آئینی تناظر میں وزیراعظم کی موجودہ تبدیلی کوئی غیر آئینی چیز نہیں، تاہم یہ مسلسل تیسری قومی اسمبلی ہے،جس میں دوران مدت وزیراعظم کی تبدیلی عمل میں آئی ہے۔ ق لیگ کے پانچ سالہ دور میں تین وزراے اعظم آئے، ظفراللہ جمالی، چوہدری شجاعت حسین اور شوکت عزیز۔ پیپلزپارٹی کے پانچ سالہ دور میں دو وزراے اعظم آئے ، یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف۔ اب ن لیگ کے دور میں بھی پہلے وزیراعظم نوازشریف فارغ ہو چکے ہیں۔
دوسرے خاقان عباسی آچکے ہیں،اور تیسرے شہبازشریف تیار بیٹھے ہیں۔ پاکستان میں وزیراعظم کی حیثیت سے ایک ہی بار میں سب سے زیادہ مدت تک ذوالفقارعلی بھٹو ہی وزیراعظم رہے ہیں۔ بلکہ ایک لحاظ سے انھوںنے پانچ سال پورے کر لیے تھے کہ اپنی مرضی سے ہی انھوں نے چند ماہ پہلے الیکشن کرائے تھے۔ نوازشریف کو ''قسمت کا دھنی'' کہا جاتا ہے، مگر اس لحاظ سے وہ بدقسمت ترین وزیراعظم ہیں کہ تین بار وزیراعظم بنے، مگر تینوں بار ان کو برطرفی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ پہلی بار صدر کے ہاتھوں، دوسری بار فوج کے ہاتھوں اور تیسری بار عدلیہ کے ہاتھوں۔
سابق وزیراعظم نے اپنے خلاف سپریم کورٹ کے فیصلہ پر اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ ان پر کرپشن کا کوئی کیس نہیں اور اس کے بغیر ہی ان کو فارغ خطی کا پروانہ تھما دیا گیا ہے؛ ان کی یہ بات درست نہیں۔ ان کو اور ان کے حامیوں کو معلوم ہونا چاہے کہ سپریم کورٹ نے اپنے تازہ فیصلہ کو اس ضمن میں اپنے گزشتہ فیصلہ کا تسلسل قرار دیا ہے، یعنی موجودہ حتمی فیصلہ کو سابقہ عبوری فیصلہ کے ساتھ ملا کے پڑھا جائے گا۔ سپریم کورٹ کے دو سینئر ججز، جو پاکستان کے مستقبل کے چیف جسٹس بھی ہیں، اپنے فیصلہ میں وزیراعظم نااہل قرار دے چکے ہیں۔ باقی تین ججوں نے ان سے صرف اتنا اختلاف کیا کہ وزیراعظم کو نااہل قرار دینے سے پہلے جے آئی ٹی کے ذریعہ مزید ایک انکوائری کر لی جائے تو مناسب ہو گا۔
اس فیصلے پر سابق وزیراعظم نے سمجھا کہ وہ بچ نکلے ہیں۔ ان کے حامیوں نے مٹھائیاں بھی تقسیم کیں اور ایک دوسرے کو مبارکبادیں بھی دیں۔ مگر جو لوگ قانونی طریقہ کار سے ذرا سی بھی واقفیت رکھتے تھے، ان کو معلوم تھا کہ سابق وزیراعظم کو صفائی پیش کرنے کے لیے مزید ۶۰ روز کی مہلت دی گئی ہے اور حتمی فیصلہ ابھی ہونا ہے۔
نوازشریف فیملی مگر اس مہلت سے کوئی فائدہ نہ اٹھا سکی، بلکہ یہ مہلت اس لحاظ سے ان کے لیے مہلک ثابت ہوئی کہ جے آئی ٹی ارکان نے دوران تفتیش ان کی دبئی میں ایک نئی آف شور کمپنی اور اس میں بطور چیئرمین ان کے سیلری اکاونٹ کا بھی سراغ لگا لیا، جس کا اعتراف نہ صرف یہ کہ سپریم کورٹ میں ان کے وکیلوں نے کیا ، بلکہ سپریم کورٹ فیصلہ کے بعد بھی سابق وزیراعظم کی طرف سے اس کا انکار نہیں کیا گیا۔ سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے سابق وزیراعظم کو دوران تفتیش اس نئے ظاہر ہونے والے ثبوت کی پاداش میں متفقہ طور پر نااہل قرار دیا ہے۔
سپریم کورٹ کے موجودہ حتمی فیصلہ کا اس کے سابقہ عبوری فیصلہ کے ساتھ ملا کر پڑھا جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ سابق وزیراعظم مئے فیئر فلیٹس کی ملکیت چھپانے پر بھی نااہل ہیں اور دبئی کمپنی میں بطور چیئرمین کام کرنے اور سیلری اکاونٹ چھپانے پر بھی نااہل ہیں۔ یہ دوسری نااہلی دفعہ 62 - f کے تحت دی گئی ہے، لہذا قانونی زبان میں یہ تاحیات نااہلیت تصور کی جائے گی۔ یوں سپریم کورٹ اپنے دائرہ اختیار یعنی آئین کی دفعہ 62 - 63 کے تحت براہ راست جو سزا وزیراعظم کو دے سکتی ہے، وہ اس نے دیدی ہے۔
فوجداری سزائیں یعنی قید اور جرمانہ کی سزائیں سپریم کورٹ براہ راست نہیں دے سکتی کیونکہ سپریم کورٹ ٹرائل کورٹ نہیں۔ مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ سپریم کورٹ نے سابق وزیراعظم کو باقی الزامات سے بری کر دیا ہے، جیسا کہ ان کے حامی کہہ رہے ہیں۔ حقیقت اس کے برخلاف یہ ہے کہ وزیراعظم اور ان کے خاندان کے خلاف ریفرنسز نیب کو بھجوا دیے گئے ہیں۔ فوجداری سزاوں کے فیصلہ سے پہلے ان کو مخالف گواہوں پر جرح کرنے کی اجازت ہو گی۔ اسی طرح استغاثہ بھی ان پر جرح کر سکے گا، جو ان کے لیے جے آئی ٹی میں پیشی سے زیادہ تکلیف دہ چیز ثابت ہو سکتی ہے۔ مزید یہ کہ سپریم کورٹ نے ان ریفرنسز پر قانونی کارروائی ۶ ماہ کے اندر اندر مکمل کرنے کا حکم دیا ہے، اور اس کی مانیٹرنگ کے لیے سپریم کورٹ کایک رکنی بنچ بنانا ہے۔
گویا، دفعہ62 ایف کے تحت سابق وزیراعظم کی تاحیات نااہلی کی سزا پاناما کرپشن کیس میں صرف پہلی سزا ہے۔ باقی سزاوں کا فیصلہ ابھی ہونا ہے۔ امکان یہ ہے کہ یہ فیصلہ 2018ء کے اوائل تک یعنی اگلے الیکشن سے پہلے ہو جائے گا۔ سپریم کورٹ کے فیصلہ کے تحت سابق وزیراعظم کی نااہلیت کا مطلب یہ بھی ہے کہ اب وہ مسلم لیگ کے صدر رہ سکیں گے، نہ کھلے عام اس کی تنظیمی سرگرمیوں میں حصہ لے سکیں گے۔ اگر وہ ایسا کریں گے توجلد یا بدیر ان کے خلاف کسی نہ کسی طرف سے کوئی پٹیشن دائر ہو جائے گی۔ شنید یہ ہے کہ فیصلہ کے اس پہلو کے پیش نظر ہی سابق وزیراعظم نے پارٹی اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے راجہ راجہ ظفر الحق کو اپنے پہلو میں بٹھائے رکھا، تا کہ بعد میں کوئی قانونی پیچیدگی پیدا ہو تو کہہ سکیں کہ اجلاس کی صدارت وہ نہیں، بلکہ چیئرمین راجہ ظفر الحق کر رہے تھے۔
سپریم کورٹ کے حتمی فیصلہ کی ن لیگ کے دفاعی ماہرین جس طرح کی مضحکہ خیز تعبیریں کر رہے ہیں اور جس طرح اپنے قائد کو پاناما کیس سے بری الذمہ ہونے کا سرٹیفکیٹ دے رہے ہیں، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاناما کیس پر سپریم کورٹ کے گزشتہ فیصلہ کی طرح، جس کے تحت جے آئی ٹی قائم کی گئی تھی، سپریم کورٹ کے موجودہ فیصلہ کے مضمرات کو بھی ن لیگ سمجھ نہیں پا رہی ہے۔ حواس باختگی کایہ عالم ہے کہ خود کو تسلی دینے کے لیے ایسے ایسے رجزیہ اشعار پڑھے جا رہے ہیں۔
جن کی موجودہ صورت حال سے کوئی مطابقت نہیں۔ کوئی کہہ رہا ہے، چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے۔ کوئی کہہ رہا ہے، جس دور میں جینا مشکل ہو، اس دور میں جینا لازم ہے۔ کوئی کہہ رہا ہے، خون صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا۔ حالانکہ سابق وزیراعظم کو نااہلیت کی جو سزا ملی ہے، وہ ان کی اپنی حکومت کے دوران ہی ملی ہے، اور اسی آزاد عدلیہ نے دی ہے، جس کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ یہ انھوں نے ہی آزاد کرائی تھی۔ واقعہ یہ ہے کہ سابق وزیراعظم جس طرح بے وقار ہو کر گھر گئے ہیں اور جس کا گلہ انھوں نے خود بھی یہ کہہ کر کیا ہے کہ 'ہم ایسی توہین کے مستحق تو نہیں تھے' اس پر انھی کے محبوب شاعر مرزا غالبؔ کا یہ شعر صادق آتا ہے کہ
نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے ہیں لیکن
بڑے بے آبرو ہو کر تیرے کوچے سے ہم نکلے