باگھل بائی سندھ کی بہادر عورت
سومرا کے اقتدار والے دور میں عورتوں کی بڑی عزت کی جاتی تھی اور انھیں سارے سماجی، اقتصادی اور گھریلو حق حاصل تھے۔
آج کل پوری دنیا میں عورتیں ہر وہ کام کر رہی ہیں جو صرف مرد کرتے تھے اور اس کی تقلید پاکستان میں بھی ہو رہی ہے، جس کے بارے میں سندھ میں بڑی پیش رفت ہوئی ہے اور نہ صرف شہروں، بلکہ گاؤں میں بھی اب لوگ یہ سمجھ چکے ہیں کہ اگر عورتوں کو موقع دیا جائے تو وہ اپنا ٹیلنٹ ہر میدان میں استعمال کرکے اپنی فیملی، قوم اور علاقے کا نام روشن کرسکتی ہیں۔ اسی سلسلے میں بے نظیر بھٹو سے لے کر کئی عورتوں نے یہ ثابت کر دکھایا ہے کہ ان میں بھی قدرت نے صلاحیتیں دی ہیں۔
سومرا قوم نے سندھ پر ایک اچھا خاصا عرصہ حکومت کی ہے مگر ہر بار حکومتوں کے خاتمے میں اپنوں کی سازشیں شامل رہی ہیں اور سندھ کے بہادر مردوں نے ڈٹ کر مقابلہ کیا ہے اور اس میں شہید ہوکر قوم و ملک کا نام برقرار رکھا ہے۔ اس مقابلے میں عورتیں بھی پیش پیش رہی ہیں، وہ جنگ پر جانے والے مردوں کی ہمت افزائی کیا کرتی تھیں اور اگر وہ شہید ہوجاتے تو خود بھی ہتھیار اٹھاکر دشمن کا مقابل کرتی تھیں اور اگر دیکھتی تھیں کہ ان کی عزت کو خطرہ ہے تو وہ اپنے آپ کو دشمن کے حوالے کرنے کے بجائے اپنی جان دے دیتی تھیں۔
سومرا قبیلے کے بادشاہ بھونگر کا جب انتقال ہوا تو اقتدار پر بیٹھنے کا مسئلہ کھڑا ہوگیا، جیساکہ باگھل بائی بڑی ہوشیار اور دانش مند تھی اس لیے لوگوں نے فیصلہ کیا کہ بھونگر کی بیٹی باگھل بائی کو تخت پر بٹھایا جائے مگر اس نے کہا کہ بھائیوں کے ہوتے ہوئے وہ تخت نشین نہیں ہوگی، اس لیے اس کے دو بھائیوں میں سے کسی ایک کو بادشاہ بنادیا جائے۔ چنیسر بڑا بھائی تھا اور دودو چھوٹا۔ چنیسر کی ماں الگ تھی اور دودو باگھل کی دوسری۔ اب بادشاہت کی پگڑی باندھنے کے لیے خاص عوام میں چنیسر کا نام گیا تو اس نے کہا کہ وہ اپنی ماں سے پوچھ کر بتائے گا۔ اس بات پر لوگوں نے کہا کہ اگر یہ ہر بات ماں سے پوچھنے جائے گا تو پھر بادشاہت کا کاروبار کیسے چلے گا۔ لہٰذا انھوں نے چھوٹے بھائی دودو کو پگ پہنا دی اور وہ سومرا قبیلے کا بادشاہ بن گیا۔
یہ دیکھ کر چنیسر باگھل بائی کے پاس گیا کہ اس کے ساتھ ناانصافی ہوئی ہے، جس پر اسے کہا گیا کہ بادشاہت کے اصل وارث عوام ہیں اور انھوں نے دودو کو چن لیا ہے جس کے لیے وہ کچھ نہیں کریں گے۔ چنیسر نے اپنی بہن کو دھمکی دی کہ اگر اسے اقتدار نہیں دیا جائے گا تو وہ دشمن کے ساتھ مل کر ان پر حملہ کروا دے گا اور جو اس کی بے عزتی ہوئی ہے اس کا بدلہ لے گا۔ یہ بات چنیسر نے دودو کے پاس جاکر بھی کہی، جس پر دودو نے کہا کہ وہ تو یہ ذمے داری لینا ہی نہیں چاہتا تھا لیکن عوام کے آگے وہ بے بس تھا۔ اگر لوگ تمہیں اس تخت پر بٹھائیں تو انھیں کوئی اعتراض نہیں ہے۔
دودو نے اپنی بہن باگھل بائی کے پاس جاکر کہا چنیسر تو عجیب باتیں کر رہا ہے، اب کیا کیا جائے؟ باگھل بائی نے کہا کہ بادشاہت کا تاج عوام کی امانت ہے اور وہ جس کے سر پر چاہیں رکھیں۔ سندھ ان کی ماں ہے، اگر چنیسر نے کچھ ایسا کیا بھی تو وہ لوگ اس کی حفاظت کرنا جانتے ہیں۔ دھرتی کی حفاظت کے لیے آخری قطرہ بھی بہادیں گے۔ اور سنو اگر چنیسر اس طرح کی حرکت کرے اور تمہارا اس سے لڑائی میں سامنا ہوجائے تو اسے مارنے سے گریز نہ کرنا کیونکہ یہ ماں کی عزت کا سوال ہے۔
چنیسر اپنی ماں کے کہنے پر دہلی گیا جہاں جاکر وہ علاؤالدین خلجی سے ملا اور اسے کہا کہ اس سے اقتدار زبردستی چھین کر اس کے چھوٹے بھائی دودو کو دیا گیا ہے۔ اگر وہ اقتدار واپس لانے میں اس کی مدد کرے گا تو وہ اپنی بہن باگھل بائی کا ہاتھ شادی کروا کے اس کے ہاتھ میں دے گا۔ اب سومرا اور علاؤ الدین خلجی کی فوجوں میں لڑائی شروع ہوگئی، چنیسر نے بہن کو پیغام بھجوایا کہ اس نے ان کا ہاتھ خلجی کو دینے کا فیصلہ کیا ہے جس کے لیے وہ تیار رہے۔ باگھل بائی نے جواب میں بھائی کو کہلوایا کہ وہ کسی دوسری ذات یا ملک والے سے شادی نہیں کرے گی، کیونکہ ایک تو ان کے رواج اور رسم کے خلاف ہے اور دوسری بات یہ کہ وہ لوٹ کا مال نہیں ہے کہ وہ ایسے شادی کرکے اپنے خاندان اور ملک کے اوپر کالا دھبہ لگوا دے۔
زندہ رہنے کے بجائے وہ لڑتے لڑتے اپنی جان اپنی قوم اور ملک کے لیے قربان کردے گی کیونکہ عزت اور ناموس زندگی سے زیادہ اہم اور مہنگا ہے۔ مزید کہا کہ اس کے ملک کے جوان غیرت مند ہیں اور کوئی بھی کسی کے سامنے سر نہیں جھکائے گا بلکہ جان کا نذرانہ پیش کرے گا جس میں وہ بھی شامل ہوگی۔ جنگ کے دوران اس نے ایک حکمت عملی اور بھی کی کہ جتنا بھی سونا، چاندی، جواہرات، ہیرے ان کے پاس تھے سب ہاتھ کی آٹا پیسنے والی چکی میں ڈال کر ریزہ ریزہ کردیا، کیونکہ وہ جانتی تھی کہ سندھ ایک خوشحال ملک تھا اور اس پر ہمیشہ حملے اس لیے کیے جاتے تھے کہ مال و دولت لوٹا جائے۔ جب حملہ آور کو اس حملے سے کچھ نہیں ملے گا تو وہ پسپا ہوجائے گا۔
باگھل بھائی نے مردانہ کپڑے پہنے اور سر پر پگڑی باندھ کر سب عورتوں کو مردانہ لباس پہنا کر جنگ کے میدان میں پہنچ گئی کیونکہ کچھ مرد مرچکے تھے، کچھ زخمی تھے اور باقی قیدی بنالیے گئے تھے۔ دودو، سومرو بھی بہادری سے لڑتے لڑتے شہید ہوچکے تھے اور جب یہ خبر باگھل کو ملی تو پھر وہ جنگ کے میدان میں اتر پڑی، اب باگھل اور باقی عورتیں تلوار ہاتھ میں لیے میدان جنگ میں کود پڑیں۔
یہ صورتحال دیکھ کر علاؤالدین خلجی جو خود بھی جنگ کے میدان میں موجود تھا وہ عورتوں کی اس بہادری سے بڑا متاثر ہوا اور باگھل کو کہلوایا کہ وہ اس کی بہن ہیں اور لکھ کر دیا کہ سندھ سومرا قوم کا ہے اور وہ وہاں سے دستبردار ہوکر اپنی فوج لے کر واپس چلے گیا۔ باگھل بائی کی بہادری، ہمت اور صلاحیت سے ایک بار پھر سندھ آزادی کے جشن میں کود پڑا۔ ان کا جنم سومرا سلطنت کے تخت گاہ واگھ کوٹ میں ہوا گیا، وہ دونوں بھائیوں سے بڑی تھی۔ اس کی عقل مندی، بہادری، ملک سے محبت، سچائی اور پارسائی ہر طرف مشہور تھی۔ اس میں سیاسی بصیرت اور باہمی تعلقات اور حکومت چلانے کا ہنر بھی تھا اس لیے عوام کا خیال تھا کہ وہ سلطنت کی باگ ڈور سنبھالے۔ وہ ہمیشہ اپنے بھائیوں اور عوام میں حب الوطنی کے بارے میں لیکچر دیا کرتی تھی۔
سومرا کے اقتدار والے دور میں عورتوں کی بڑی عزت کی جاتی تھی اور انھیں سارے سماجی، اقتصادی اور گھریلو حق حاصل تھے۔ تاریخ میں کہتے ہیں کہ رضیہ سلطانہ مسلمانوں کی پہلی حکومتی سربراہ تھیں، جب کہ ایسا نہیں ہے اور سندھ میں سومرا دور سے تقریباً ڈیڑھ صدی پہلے دو سندھی مسلمان عورتیں حمون بائی اور تارا بائی بہادری کے ساتھ حکومت کر چکی ہیں۔
اس وقت بھی سندھ کے اندر چھوٹے چھوٹے گاؤں سے عورتیں علم، ادب، سیاست اور سماج کی بھلائی والے کاموں میں حصہ لے رہی ہیں اور ان میں سے کئی نے یہ ثابت کر دکھایا ہے کہ وہ کسی بھی لحاظ سے مردوں سے پیچھے نہیں ہیں۔ میں دعا کرتا ہوں کہ ہم میں پھر کوئی باگھل بائی، بے نظیر بھٹو، بختار شہید ہاریانی جیسی عورت پیدا ہو۔