ہائی ویز پر جاری لوٹ کھسوٹ
سرکاری اجازت سے قائم ریسٹورنٹس اور اسٹالز کے لیے حکومت کا اشیائے خورد و ضرورت کا کوئی معیار مقرر ہے
QUETTA:
ملک بھر میں موٹر وے ہوں، نیشنل ہائی وے ہو، جی ٹی روڈ ہو، سپر ہائی وے یا کوئی بھی آمد و رفت کی اہم سڑک، ہر جگہ ڈکیتیوں کا ہی نہیں بلکہ مسافروں کو بیدردی سے لوٹے جانے کے بازار گرم ہیں۔ ریلوے اسٹیشنوں اور ٹرینوں میں خرید و فروخت سرکاری اجازت سے مشروط ہے اور ملک میں موٹر وے بننے کے بعد اب وہاں بھی سرکاری اجازت کے بغیر ہوٹل کھولے جاسکتے ہیں نہ خرید و فروخت کا کاروبار ہوسکتا ہے کیونکہ ریلوے کاروبار کے لیے لائنیں جاری کرتی ہے اور موٹرویز پر مقررہ جگہوں پر جو ہوٹل کھولے جاتے ہیں وہ سرکاری اجازت سے ہی کھولے جاسکتے ہیں، جن کے لیے نیلام ہوتا ہے یا سفارش و رشوت درکار ہوتی ہے اور رقم دے کر سرکاری اجازت سے مسافروں کو لوٹنے کی سرکاری اجازت مل جاتی ہے۔
سرکاری اجازت سے قائم ریسٹورنٹس اور اسٹالز کے لیے حکومت کا اشیائے خورد و ضرورت کا کوئی معیار مقرر ہے، نہ کوئی نرخ اس لیے سرکاری اجازت سے مسافروں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے کی اجازت مل جاتی ہے کہ وہ جیسے چاہیں عوام کو لوٹیں انھیں کوئی نہیں پوچھے گا۔
ریلوے سفر اور موٹروے سفر میں ڈاکوؤں کے ہاتھوں لٹنے کے واقعات تو واقعی کم ہیں مگر وہاں ڈاکو نہیں لوٹتے تو ان جگہوں پر کاروبار کرنیوالے دن رات سفر کرنیوالوں کو بیدردی سے لوٹ رہے ہیں اور انھیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے کیونکہ انھوں نے متعلقہ محکموں سے کاروبار کرنے کا لائسنس لیا ہوا ہے جو مسافروں کو لوٹنے میں استعمال ہو رہا ہے۔ریلوے اسٹیشنوں پر کھانے پینے کی اکثر اشیا ناقص، مضر صحت اور مہنگی ملتی ہیں اور دو نمبر بھی ہوتی ہیں مگر ان کے نرخ ایک نمبر سے کہیں زیادہ ہوتے ہیں۔ جب کہ روزمرہ استعمال میں آنے والی دیگر اشیا بازار کے مقابلے میں کہیں زیادہ قیمت پر فروخت ہو رہی ہیں۔
یہی حال موٹروے پر قائم ریسٹورنٹس اور مختلف اشیا کی دکانوں کا ہے اور گراں فروشی پر انھیں بھی کوئی پوچھنے والا نہیں ہے اور لوٹ مچی ہوئی ہے۔ ملک میں اہم شاہراہ نیشنل ہائی وے اور جی ٹی روڈ ہیں جہاں چاروں صوبوں میں آنے جانے والی پبلک ٹرانسپورٹ رواں دواں ہیں جب کہ پرائیویٹ ٹرک اور گاڑیاں بھی لاکھوں کی تعداد میں ہیں۔ ان گاڑیوں میں روزانہ لاکھوں افراد سفر کرتے ہیں اور ریلوے میں رش بڑھ جانے کے بعد بھی بذریعہ سڑک طویل سفر کرنے والوں کی تعداد میں کمی نہیں آئی اور ٹرینوں میں جگہ حاصل کرنے کے لیے کئی روز قبل بکنگ کرانا پڑتی ہے جب کہ پبلک ٹرانسپورٹ میں جگہ مل جاتی ہے اور رش کی صورت میں ٹرینوں کی طرح کھڑے ہوکر بھی سفر کرنا پڑتا ہے اور بعض جگہوں پر پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر ریلوے سے سستا پڑتا ہے اور زیادہ چھوٹے بچے ہوں تو ٹرین کے سفر پر بسوں کو ترجیح دی جاتی ہے اور بعض شہروں کے سفر میں مسافر ٹرینوں سے پہلے اپنی منزل پر پہنچ جاتے ہیں۔
بعض علاقوں میں بدامنی کی وجہ سے پولیس کانوائے میں سفر ہوتا ہے اور ملک بھر میں سڑکوں پر سفر کرنے والوں کو ڈاکو لوٹ بھی لیتے ہیں۔ ڈاکوؤں کے ہاتھوں مسافروں کو لوٹے جانے کی وارداتیں تو کبھی کبھی ہوتی ہیں مگر شاہراہوں کے اطراف واقع ہوٹلوں اور دکانوں پر مسافروں کو منافع خور بیدردی سے لوٹ رہے ہیں اور ان کاروباری لٹیروں کو کوئی پوچھنے اور گرانی سے روکنے والا نہیں ہے۔
شاہراہوں کے اطراف کاروبار کے لیے حکومت سے کوئی اجازت لینا پڑتی ہے نہ کسی سرکاری محکمے سے لائسنس، بس متعلقہ پولیس اہلکاروں سے تعلقات اچھے رکھنے پڑتے ہیں اور کبھی کبھی شاہراہوں کے اطراف کاروبار کرنے والے بھی ڈاکوؤں کا نشانہ بن جاتے ہیں مگر ایسا ویران مقامات پر ہوتا ہے، جب کہ یہ کاروبار جہاں ہوتا ہے وہاں پٹرول پمپ ضرور ہوتے ہیں اور پبلک ٹرانسپورٹ کی گاڑیاں اور گڈز ٹرانسپورٹ کو ان پمپوں سے پٹرول و ڈیزل بھی مل جاتا ہے اور قریبی ریسٹورنٹ سے کھانا بھی اور نمازیوں کو نماز کے لیے مسجد بھی میسر آجاتی ہے۔
بعض مسافروں کو سہولت دینے والے ہوٹل مالکان رات کو روشنی کا معقول انتظام رکھتے ہیں اور جہاں پارکنگ، مسجد اور پمپ کی سہولت ہو وہاں ایسے ریسٹورنٹس کو ترجیح ملتی ہے۔ یہ تو مشہور ہے کہ مال ملک میں ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانے والے ٹرک ڈرائیوروں کو پتا ہوتا ہے کہ کہاں کا کھانا معیاری ہوتا ہے، وہاں ٹرک ڈرائیوروں کو چارپائیوں کی سہولت بھی ملتی ہے جہاں وہ کھانے کے ساتھ آرام بھی کرلیتے ہیں۔ شاہراہوں پر ہوٹل چلانے والوں کو خاص طور پر لمبے روٹ پر سفر کرانے والی بسوں کی کمپنیوں یا ان کے ڈرائیوروں سے معاملات طے کرنے پڑتے ہیں اور ایسے ہوٹلوں پر گاڑیاں روکنے والے ڈرائیوروں، کنڈیکٹروں کے لیے ہوٹل میں آرام دہ کمرے بھی ملتے ہیں۔
جہاں انھیں مفت کھانا ملتا ہے اور وہ کھانا کھا کر آرام بھی کرلیتے ہیں اور ایسے ہوٹلوں پر کھانا کھانے والے مسافروں کو معیاری اور غیر معیاری کھانا مہنگے داموں فروخت کرکے ہوٹل مالکان بسوں کے عملے کو مفت کھانا کھلانے کا نقصان بھی ان مسافروں سے پورا کرلیتے ہیں اور اسی لیے تو بسیں ایسے ہوٹلوں پر روکی جاتی ہیں۔
پمپ، ہوٹل اور مساجد کے مقام پر مسافروں کے لیے رفع حاجت کا انتظام تو ہوتا ہے مگر وہ مفت نہیں ہوتا بلکہ دس روپے فی مسافر وصول کیے جاتے ہیں اور کہیں کہیں چھوٹے پیشاب کے لیے بھی رقم وصول کرلی جاتی ہے اور رفع حاجت کی سہولت بھی ہوٹل والوں کے لیے کاروبار بن گئی ہے۔ ایسے ہوٹلوں میں مسافروں کو بٹھانے کے لیے اے سی کمرے، پنکھوں سے آراستہ ڈھکے ہوئے صحن اور رات کو کھلے آسمان تلے چارپائیاں بچھا دی جاتی ہیں جہاں مسافر قدرتی ہوا سے محظوظ ہوتے ہیں مگر سہولتوں کے نرخ الگ الگ ہوتے ہیں۔ بڑے ہوٹلوں کے ساتھ اشیائے ضرورت یا علاقے کی مشہور سوغات کی دکانیں بھی ہوٹل مالکان قائم کراتے ہیں جہاں کھانوں کی طرح تمام اشیا مہنگی فروخت ہوتی ہیں۔
شاہراہوں پر قائم ہوٹلوں کے کھانوں کے معیار چیک کرنے والا کوئی نہیں ہوتا، اس لیے ہوٹل مالکان کی مرضی ہوتی ہے کہ وہ مسافروں کو معیاری کھانا دیں یا غیر معیاری مسافر کھانے پر مجبور ہوتے ہیں۔ سپر ہائی وے ہی کی ایک مثال لے لیں جہاں مشہور ہوٹل پر کاروں کا رش لگا رہتا ہے وہاں امیروں کے لیے روسٹ چار سو روپے اور دال ماش کی ایک پلیٹ ڈیڑھ سو روپے میں ملتی ہے، جس سے دو روٹی نہیں کھائی جاسکتی۔ سلاد اور رائتہ پچاس روپے، ٹن پیک کولڈ ڈرنک ساٹھ روپے اور جوس ایک سو روپے میں ملتا ہے۔
ریلوے نے ٹرینوں سے ڈائننگ کار ختم کرکے مسافروں کو ٹھنڈا اور مہنگا کھانا کھانے پر مجبور کردیا ہے، جہاں ٹھنڈے کھانے کی ٹرے جس میں چکن کی چھوٹی بوٹی، تھوڑی سی دال اور تھوڑے چاول، ایک نان اور تھوڑے سے رائتے اور اچار کے ساتھ دو سو تیس روپے میں اور اضافی نان بیس روپے میں فروخت ہو رہی ہے اور کھانے کے یہ نرخ پاکستان ریلوے نے نہیں بلکہ ریلوے کے پرائیویٹ ٹھیکیدار کے مقرر کردہ ہیں، جس سے مسافروں کو لوٹے جانے کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے جب کہ ریلوے اسٹالوں پر تو معیاری کھانے کا تصور ہی محال ہے۔ ریلوے ٹھیکیدار جو کھانا فروخت کرا رہے ہیں اس کے معیار کا وہی بتا سکتا ہے۔
پاکستان میں سفر ٹرین سے ہو یا پبلک ٹرانسپورٹ سے ہر جگہ مسافر مجبوری میں مہنگا اور غیر معیاری کھانا خریدنے پر مجبور ہیں اور وفاقی یا صوبائی حکومتوں اور محکمہ ریلوے کی طرف سے کسی چیز کے نرخ مقرر نہیں ہیں۔ سرکاری اداروں کو اس طرف بھی توجہ دے کر مسافروں کو کاروباری اور ناجائز منافع خور لٹیروں کی لوٹ کھسوٹ پر بھی توجہ دینی چاہیے تاکہ مسافروں کا بھلا ہوسکے۔
ملک بھر میں موٹر وے ہوں، نیشنل ہائی وے ہو، جی ٹی روڈ ہو، سپر ہائی وے یا کوئی بھی آمد و رفت کی اہم سڑک، ہر جگہ ڈکیتیوں کا ہی نہیں بلکہ مسافروں کو بیدردی سے لوٹے جانے کے بازار گرم ہیں۔ ریلوے اسٹیشنوں اور ٹرینوں میں خرید و فروخت سرکاری اجازت سے مشروط ہے اور ملک میں موٹر وے بننے کے بعد اب وہاں بھی سرکاری اجازت کے بغیر ہوٹل کھولے جاسکتے ہیں نہ خرید و فروخت کا کاروبار ہوسکتا ہے کیونکہ ریلوے کاروبار کے لیے لائنیں جاری کرتی ہے اور موٹرویز پر مقررہ جگہوں پر جو ہوٹل کھولے جاتے ہیں وہ سرکاری اجازت سے ہی کھولے جاسکتے ہیں، جن کے لیے نیلام ہوتا ہے یا سفارش و رشوت درکار ہوتی ہے اور رقم دے کر سرکاری اجازت سے مسافروں کو لوٹنے کی سرکاری اجازت مل جاتی ہے۔
سرکاری اجازت سے قائم ریسٹورنٹس اور اسٹالز کے لیے حکومت کا اشیائے خورد و ضرورت کا کوئی معیار مقرر ہے، نہ کوئی نرخ اس لیے سرکاری اجازت سے مسافروں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے کی اجازت مل جاتی ہے کہ وہ جیسے چاہیں عوام کو لوٹیں انھیں کوئی نہیں پوچھے گا۔
ریلوے سفر اور موٹروے سفر میں ڈاکوؤں کے ہاتھوں لٹنے کے واقعات تو واقعی کم ہیں مگر وہاں ڈاکو نہیں لوٹتے تو ان جگہوں پر کاروبار کرنیوالے دن رات سفر کرنیوالوں کو بیدردی سے لوٹ رہے ہیں اور انھیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے کیونکہ انھوں نے متعلقہ محکموں سے کاروبار کرنے کا لائسنس لیا ہوا ہے جو مسافروں کو لوٹنے میں استعمال ہو رہا ہے۔ریلوے اسٹیشنوں پر کھانے پینے کی اکثر اشیا ناقص، مضر صحت اور مہنگی ملتی ہیں اور دو نمبر بھی ہوتی ہیں مگر ان کے نرخ ایک نمبر سے کہیں زیادہ ہوتے ہیں۔ جب کہ روزمرہ استعمال میں آنے والی دیگر اشیا بازار کے مقابلے میں کہیں زیادہ قیمت پر فروخت ہو رہی ہیں۔
یہی حال موٹروے پر قائم ریسٹورنٹس اور مختلف اشیا کی دکانوں کا ہے اور گراں فروشی پر انھیں بھی کوئی پوچھنے والا نہیں ہے اور لوٹ مچی ہوئی ہے۔ ملک میں اہم شاہراہ نیشنل ہائی وے اور جی ٹی روڈ ہیں جہاں چاروں صوبوں میں آنے جانے والی پبلک ٹرانسپورٹ رواں دواں ہیں جب کہ پرائیویٹ ٹرک اور گاڑیاں بھی لاکھوں کی تعداد میں ہیں۔ ان گاڑیوں میں روزانہ لاکھوں افراد سفر کرتے ہیں اور ریلوے میں رش بڑھ جانے کے بعد بھی بذریعہ سڑک طویل سفر کرنے والوں کی تعداد میں کمی نہیں آئی اور ٹرینوں میں جگہ حاصل کرنے کے لیے کئی روز قبل بکنگ کرانا پڑتی ہے جب کہ پبلک ٹرانسپورٹ میں جگہ مل جاتی ہے اور رش کی صورت میں ٹرینوں کی طرح کھڑے ہوکر بھی سفر کرنا پڑتا ہے اور بعض جگہوں پر پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر ریلوے سے سستا پڑتا ہے اور زیادہ چھوٹے بچے ہوں تو ٹرین کے سفر پر بسوں کو ترجیح دی جاتی ہے اور بعض شہروں کے سفر میں مسافر ٹرینوں سے پہلے اپنی منزل پر پہنچ جاتے ہیں۔
بعض علاقوں میں بدامنی کی وجہ سے پولیس کانوائے میں سفر ہوتا ہے اور ملک بھر میں سڑکوں پر سفر کرنے والوں کو ڈاکو لوٹ بھی لیتے ہیں۔ ڈاکوؤں کے ہاتھوں مسافروں کو لوٹے جانے کی وارداتیں تو کبھی کبھی ہوتی ہیں مگر شاہراہوں کے اطراف واقع ہوٹلوں اور دکانوں پر مسافروں کو منافع خور بیدردی سے لوٹ رہے ہیں اور ان کاروباری لٹیروں کو کوئی پوچھنے اور گرانی سے روکنے والا نہیں ہے۔
شاہراہوں کے اطراف کاروبار کے لیے حکومت سے کوئی اجازت لینا پڑتی ہے نہ کسی سرکاری محکمے سے لائسنس، بس متعلقہ پولیس اہلکاروں سے تعلقات اچھے رکھنے پڑتے ہیں اور کبھی کبھی شاہراہوں کے اطراف کاروبار کرنے والے بھی ڈاکوؤں کا نشانہ بن جاتے ہیں مگر ایسا ویران مقامات پر ہوتا ہے، جب کہ یہ کاروبار جہاں ہوتا ہے وہاں پٹرول پمپ ضرور ہوتے ہیں اور پبلک ٹرانسپورٹ کی گاڑیاں اور گڈز ٹرانسپورٹ کو ان پمپوں سے پٹرول و ڈیزل بھی مل جاتا ہے اور قریبی ریسٹورنٹ سے کھانا بھی اور نمازیوں کو نماز کے لیے مسجد بھی میسر آجاتی ہے۔
بعض مسافروں کو سہولت دینے والے ہوٹل مالکان رات کو روشنی کا معقول انتظام رکھتے ہیں اور جہاں پارکنگ، مسجد اور پمپ کی سہولت ہو وہاں ایسے ریسٹورنٹس کو ترجیح ملتی ہے۔ یہ تو مشہور ہے کہ مال ملک میں ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانے والے ٹرک ڈرائیوروں کو پتا ہوتا ہے کہ کہاں کا کھانا معیاری ہوتا ہے، وہاں ٹرک ڈرائیوروں کو چارپائیوں کی سہولت بھی ملتی ہے جہاں وہ کھانے کے ساتھ آرام بھی کرلیتے ہیں۔ شاہراہوں پر ہوٹل چلانے والوں کو خاص طور پر لمبے روٹ پر سفر کرانے والی بسوں کی کمپنیوں یا ان کے ڈرائیوروں سے معاملات طے کرنے پڑتے ہیں اور ایسے ہوٹلوں پر گاڑیاں روکنے والے ڈرائیوروں، کنڈیکٹروں کے لیے ہوٹل میں آرام دہ کمرے بھی ملتے ہیں۔
جہاں انھیں مفت کھانا ملتا ہے اور وہ کھانا کھا کر آرام بھی کرلیتے ہیں اور ایسے ہوٹلوں پر کھانا کھانے والے مسافروں کو معیاری اور غیر معیاری کھانا مہنگے داموں فروخت کرکے ہوٹل مالکان بسوں کے عملے کو مفت کھانا کھلانے کا نقصان بھی ان مسافروں سے پورا کرلیتے ہیں اور اسی لیے تو بسیں ایسے ہوٹلوں پر روکی جاتی ہیں۔
پمپ، ہوٹل اور مساجد کے مقام پر مسافروں کے لیے رفع حاجت کا انتظام تو ہوتا ہے مگر وہ مفت نہیں ہوتا بلکہ دس روپے فی مسافر وصول کیے جاتے ہیں اور کہیں کہیں چھوٹے پیشاب کے لیے بھی رقم وصول کرلی جاتی ہے اور رفع حاجت کی سہولت بھی ہوٹل والوں کے لیے کاروبار بن گئی ہے۔ ایسے ہوٹلوں میں مسافروں کو بٹھانے کے لیے اے سی کمرے، پنکھوں سے آراستہ ڈھکے ہوئے صحن اور رات کو کھلے آسمان تلے چارپائیاں بچھا دی جاتی ہیں جہاں مسافر قدرتی ہوا سے محظوظ ہوتے ہیں مگر سہولتوں کے نرخ الگ الگ ہوتے ہیں۔ بڑے ہوٹلوں کے ساتھ اشیائے ضرورت یا علاقے کی مشہور سوغات کی دکانیں بھی ہوٹل مالکان قائم کراتے ہیں جہاں کھانوں کی طرح تمام اشیا مہنگی فروخت ہوتی ہیں۔
شاہراہوں پر قائم ہوٹلوں کے کھانوں کے معیار چیک کرنے والا کوئی نہیں ہوتا، اس لیے ہوٹل مالکان کی مرضی ہوتی ہے کہ وہ مسافروں کو معیاری کھانا دیں یا غیر معیاری مسافر کھانے پر مجبور ہوتے ہیں۔ سپر ہائی وے ہی کی ایک مثال لے لیں جہاں مشہور ہوٹل پر کاروں کا رش لگا رہتا ہے وہاں امیروں کے لیے روسٹ چار سو روپے اور دال ماش کی ایک پلیٹ ڈیڑھ سو روپے میں ملتی ہے، جس سے دو روٹی نہیں کھائی جاسکتی۔ سلاد اور رائتہ پچاس روپے، ٹن پیک کولڈ ڈرنک ساٹھ روپے اور جوس ایک سو روپے میں ملتا ہے۔
ریلوے نے ٹرینوں سے ڈائننگ کار ختم کرکے مسافروں کو ٹھنڈا اور مہنگا کھانا کھانے پر مجبور کردیا ہے، جہاں ٹھنڈے کھانے کی ٹرے جس میں چکن کی چھوٹی بوٹی، تھوڑی سی دال اور تھوڑے چاول، ایک نان اور تھوڑے سے رائتے اور اچار کے ساتھ دو سو تیس روپے میں اور اضافی نان بیس روپے میں فروخت ہو رہی ہے اور کھانے کے یہ نرخ پاکستان ریلوے نے نہیں بلکہ ریلوے کے پرائیویٹ ٹھیکیدار کے مقرر کردہ ہیں، جس سے مسافروں کو لوٹے جانے کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے جب کہ ریلوے اسٹالوں پر تو معیاری کھانے کا تصور ہی محال ہے۔ ریلوے ٹھیکیدار جو کھانا فروخت کرا رہے ہیں اس کے معیار کا وہی بتا سکتا ہے۔
پاکستان میں سفر ٹرین سے ہو یا پبلک ٹرانسپورٹ سے ہر جگہ مسافر مجبوری میں مہنگا اور غیر معیاری کھانا خریدنے پر مجبور ہیں اور وفاقی یا صوبائی حکومتوں اور محکمہ ریلوے کی طرف سے کسی چیز کے نرخ مقرر نہیں ہیں۔ سرکاری اداروں کو اس طرف بھی توجہ دے کر مسافروں کو کاروباری اور ناجائز منافع خور لٹیروں کی لوٹ کھسوٹ پر بھی توجہ دینی چاہیے تاکہ مسافروں کا بھلا ہوسکے۔