عصر حاضر میں انتہاپسندی کا تصور حصہ اوّل

دین میں انتہاپسندی اور غلو سے سختی سے روکا گیا ہے

drtayyabsinghanvi100@gmail.com

انتہاپسندی، عصر حاضر کا اہم موضوع بحث ہے، انتہاپسندی سے مراد انتہاپسندانہ سوچ و خیالات، بے اعتدال، غیر متوازن اور ایسی سوچ ہے جس میں انتہاپسندی کا حد سے زیادہ دخل ہو، انتہاپسندی کو انگریزی میں Extremism کہتے ہیں اور یہ ایک ایسی اصطلاح ہے جس کو منافرت و دہشتگردی سے تعبیر کیا جارہا ہے۔

یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ اسلام امن و سلامتی، تحمل و برداشت، رواداری اور احترام آدمیت کا سب سے عظیم مذہب ہے، اسلام کی نگاہ میں سب انسان بغیر کسی تفریق و امتیاز کے احترام کے مستحق ہیں، اسلام میں عدم برداشت اور انتہاپسندی کا کوئی تصور نہیں ہے۔

اسلام وہ آفاقی اور عظیم مذہب ہے جس نے ساری کائنات کو امن و سلامتی اور بنی نوع انسان کے لیے احترام کا درس دیا ہے، یہ اسلام کی شان اور عظمت ہے کہ اس نے اشرف المخلوقات کے لیے پرامن بقائے باہم مذہب و ملت 'لکم دینکم ولی دین' کا عظیم تصور پیش کیا، اسلام ہی نے انسانی عظمت کے مینار کو بلند کرتے ہوئے اس کو غیر جانبداری، اعتدال پسندی اور امن و سلامتی کا وہ منشور و فلسفہ عطا کیا جس پر اسلام کی عمارت تعمیر ہے، اسلام نے ساری کائنات کی مخلوق کو یہ درس دیا کہ ملت اسلامیہ کا رب سارے جہاں کا رب ہے، اس کی سب سے بڑی عظمت و شان یہ ہے کہ وہ رحمن و رحیم ہے، غفور الرحیم ہے۔ سرور کائنات، رحمت اللعالمین، فخر اعظم، احمد مجتبیٰ، احمد مصطفی کی تمام حیات طیبہ، صبر و برداشت، رواداری، عفو و درگزر، میانہ روی، مساوات، امن و سلامتی، اعتدال پسندی اور روشن خیالی سے مزین ہے۔

رحمت اللعالمین ﷺ نے ہمیں جو درس دیا تھا ہم اس کے برعکس زندگی گزار رہے ہیں، آج ایک خدا، ایک کتاب اور ایک نبی کو ماننے والے جس طرح فرقہ واریت، دہشت گردی اور مذہبی انتہا پسندی کے شکار نظر آرہے ہیں، اس نے دنیا بھر میں اسلام اور امت مسلمہ کو رسوائے زمانہ کیا ہوا ہے۔ مولانا الطاف حسین حالی آج کے زوال اور انتہا پسند معاشرے کی عکاسی اپنے اشعار میں اپنے ہی عہد میں کرچکے تھے:

اے خاصہ خاصان رسل وقت دعا ہے

امت پہ تری آ کے عجب وقت پڑا ہے

انتہاپسندی اور غلو کا یہ لازمی نتیجہ ہوتا ہے کہ آدمی امن اور سلامتی سے دور ہلاکتوں اور خطروں سے قریب تر ہو جاتا ہے، اسی لیے اسلام کی راہ اعتدال کی راہ ہے ہر چیز میں اعتدال کا تصور اور عقائد میں عبادت اور زہد میں اخلاق اور رویے میں معاملات اور قانون سازی میں اسی راہ کا نام اﷲ نے صراط مستقیم رکھا ہے، یہ راہ ان دینی اور فکری گروہوں کی راہ سے الگ ہے جس پر اللہ کا غضب ہوا جو راہ پانے کے بعد کھو بیٹھے اور جن کی راہوں پر غلو اور افراط و تفریط کی چھاپ پڑی ہوئی ہے۔ لہٰذا اسلام عدم برداشت کے بجائے میانہ روی اور اعتدال پسندی کی تلقین کرتا ہے۔


اسلام اعتدال کی تعلیم دیتا ہے، انتہاپسندی سے خبردار کرتا ہے، قرآن و حدیث کے نصوص پر جن لوگوں کی نگاہ ہے وہ اس بات کو اچھی طرح جانتے ہیں کہ اسلام غلو کو انتہائی ناپسند کرتا ہے، نیز لوگوں کو اس سے شدت کے ساتھ خبردار کرتا ہے۔ احادیث میں بھی غلو سے روکا گیا ہے اور اس کے خوفناک انجام سے آگاہ کیا گیا ہے، دین میں انتہاپسندی اور غلو سے سختی سے روکا گیا ہے اس لیے کہ یہ انتہا پسندی اور غلو اپنے ساتھ کچھ خرابیاں، عیوب اور آفتیں بھی لے کر آتا ہے۔ غلو کا رویہ طبیعتوں میں وحشت پیدا کرتا ہے اور یہ فطری طور پر انسانوں کے لیے ناپسندیدہ اور ناقابل برداشت ہوتا ہے تھوڑے لوگ ہی اسے برداشت کرسکتے ہیں، انتہاپسندی اور غلو کی عمر تھوڑی ہوتی ہے شدت پسند کا یہ رویہ جہاں پایا جاتا ہے وہاں ذمے داریوں کی ادائیگی میں کوتاہی بھی ہوتی ہے اور دوسرے بہت سارے حقوق متاثر ہوتے ہیں، آج کل لوگوں کی زبان پر رجعت پسندی، انتہا پسندی، جمود و تعصب کے جو الفاظ چڑھے ہوئے ہیں ان کے مفہوم کی وضاحت اور تجدید نہایت ضروری ہے۔

پیغمبر آخر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت دنیا مذہبی، نسلی اور طبقاتی گروہوں میں بٹی ہوئی تھی، انتہا پسندی اور مذہبی تعصب ان کا وطیرہ تھا نعیم صدیقی اپنی کتاب محسن انسانیتﷺ میں فرماتے ہیں:

''محسن انسانیت کا ظہور ایسے وقت میں ہوا جب کہ انسانیت تاریکیوں میں ڈوبی ہوئی تھی، عرب معاشرہ میں کیا سارے عالم میں انسانیت کا تصور نہ ہونے کے برابر تھا، ایک وحشی معاشرہ کا تصور نظر آتا تھا، دنیا کے بڑے بڑے ممالک و تہذیب کے علمبردار اپنی روشن روایات اور تعلیمات کو فراموش کرچکے تھے، انسانیت کی اخلاقی و مذہبی روح فنا ہوچکی تھی، انسانیت کے لیے راہ نجات کا کوئی تصور نہ تھا، انسان انسان کے خون کا پیاسا تھا انسانیت سسک سسک کر زندگی گزارنے پر مجبور تھی حتیٰ کہ معاشرہ تباہی کے دہانے پر کھڑا تھا یعنی لوگ اپنی اولاد کو زندہ دفن کردیا کرتے تھے معاشرے کی اس سے زیادہ بھیانک تصویر اور کیا ہوسکتی تھی''۔

اعتدال اور میانہ روی کا اصول اخلاقی زندگی کی روح اور انسان کو صراط مستقیم پر قائم رکھنے کا ذریعہ ہے، یہ اسلام کا اعجاز ہے کہ اس نے اعتدال اور میانہ روی کی ایسی راہ دکھائی اور وہ تعلیم دی جس سے افراط و تفریط کی گنجائش ہی باقی نہ رہی، اعتدال اور میانہ روی ہی دین و دنیا کی کام یابی کی ضمانت ہے، مذہبی انتہا پسندی کو قرآن ''غلو فی الدین'' اور دینی مزاج کے خلاف قرار دیتا ہے۔

رسول اکرم نے تکمیل دین کے آخری مرحلے خطبہ حجۃ الوداع کے تاریخی موقع پر ارشاد فرمایا: ''اور سنو غلو (انتہاپسندی) سے بچنا، کیونکہ دین میں غلو (انتہا پسندی اختیار کرنیوالے) کرنیوالے تم سے پہلے بھی ہلاک کردیے گئے''۔

متعدد احادیث میں آسانی اختیار کرنے، تنگی اور کجی کی راہ اختیار نہ کرنے، بشارت سنانے اور منافرت کا پیغام عام نہ کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ دوسری طرف یہ حقیقت بھی مخفی نہ رہے کہ اسلام ایک استدلالی اور عقلی مذہب ہے۔ اس کی تبلیغ و دعوت کے اصول، حکمت و دانش مندی، اعتدال اور میانہ روی اور وعظ و نصیحت پر مبنی ہیں، اسلام نے یہ تعلیم بھی دی کہ مذہب رضا، خوش دلی اور خود اختیاری جذبے کا نام ہے۔ اس کا تعلق قلب و روح سے ہے، اور قلب و روح کو بزور شمشیر تسخیر نہیں کیا جاسکتا، ایمان دراصل یقین کا دوسرا نام ہے، دنیا کی زبردست سے زبردست طاقت جبراً کسی کمزور سے کمزور انسان کے دل میں بھی یقین کا ایک ذرہ نہیں پیدا کرسکتی، قرآن کا ابدی اصول ہے: دین میں کوئی زبردستی نہیں، حقیقت گمراہی سے الگ ہوچکی ہے۔

اسلام مذہب کے معاملے میں یہ اصول واضح کرتا ہے کہ لوگوں کو مذہب کے معاملے میں پوری آزادی حاصل ہو، عقل و بصیرت والے چشمہ نور سے فیضیاب ہوں اور نافہم، کج رو محروم رہیں، اس حوالے سے ارشاد ربانی ہے:

''اور اگر تیرا پروردگار چاہتا (لوگوں کو زبردستی مومن بنادے) تو زمین کے تمام لوگ ایمان لے آتے تو کیا پیغمبر! آپ (ﷺ) لوگوں کو مجبور کریں گے کہ وہ ایمان لے آئیں''۔قرآن و سنت میں انتہا پسندی، غیر مسلموں کے مذہبی معاملات میں مداخلت، جبر و تشدد کے ذریعے اسلام کا پیغام عام کرنے، انتہا پسندی اختیار کرنے اور عدم برداشت کے ہر رویے کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے اسلامی تعلیمات کے منافی قرار دیا گیا ہے۔ (جاری ہے)
Load Next Story