فضیلتِ علم
انسان جو پہلے نہایت کم زور مخلوق تھا آج علم کی بہ دولت خشکی، تری اور ہوا پر اپنے رب کے فضل و کرم سے حکومت کر رہا ہے
JOHANNESBURG:
اللہ رب العالمین نے انسان کو تمام تر مخلوقات پر فضیلت و برتری عطا فرمائی تو ا س کا سبب علم اور اس کا شعور و آگہی ہے جو کسی اور مخلوق کو عطا نہیں کیا گیا۔ یہ محض انسان ہی تھا جسے خالق کائنات نے علم کی دولت سے اس وقت ہی نواز دیا تھا جب یہ تخلیقی مراحل سے گزر رہا تھا جب کہ دیگر مخلوقات کو اللہ تعالیٰ نے اس عزت و شرف سے محروم رکھا۔ یہی وجہ ہے کہ انسان کو اشرف المخلوقات کہا جاتا ہے حالاں کہ تخلیق آدم کے موقع پر فرشتوں نے عرض کیا تھا کہ یااللہ ہم تیری تسبیح بیان کرنے والے ہیں۔
مفہوم : '' اور جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں تو انہوں نے کہا ایسے شخص کو کیوں پیدا کرتا ہے جو زمین میں خون بہائے اور ہم تیری حمد اور پاکیزگی اور تسبیح بیان کرنے والے ہیں۔ اللہ (تعالیٰ) نے فرمایا جو میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے ہو۔ اور اللہ (تعالیٰ) نے آدم (علیہ السلام) کو تمام نام سکھا کر ان چیزوں کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور فرمایا کہ اگر تم سچے ہو تو ان چیزوں کے نام بتاؤ۔ ان سب نے کہا یااللہ تیری ذات پاک ہے، ہمیں تو صرف اتنا ہی علم ہے جتنا تو نے ہمیں سکھا رکھا ہے، تُو ہی جاننے والا، حکمت والا ہے۔ تو اللہ نے آدم (علیہ السلام) سے فرمایا تم ان کے نام بتا دو۔ جب انہوں نے نام بتا دیے تو اللہ نے فرمایا کیا میں نے تم سے پہلے ہی نہیں کہا تھا کہ زمین و آسمان کا غیب میں ہی جانتا ہوں اور میرے ہی علم میں ہے جو تم ظاہر کر رہے ہو اور جو تم چھپاتے ہو۔'' (سورۃ البقرہ )
یہ عزت و شرافت اور فضیلت و بزرگی سیدنا آدمؑ کو علم کی بہ دولت ملی۔ اس سے معلوم ہوا کہ زمین و آسمان میں علم سے بہتر کوئی نعمت نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء و رسلؑ کو اپنا خاص علم مرحمت فرمایا جس سے ساری دنیا منور ہوئی اور علم کی روشنی سب کو اپنی اپنی حیثیت کے مطابق ملی۔ اسلامی تعلیمات کا جب ہم مطالعہ کرتے ہیں تو علم کی حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے۔ رحمت کائناتؐ پر جو پہلی وحی نازل ہوئی وہ علم ہی کے بارے میں تھی۔ اللہ رب العالمین نے سب سے پہلے ہادی کائناتؐ کو دوسرا کوئی پیغام نہیں دیا، بل کہ پہلی نصیحت ہی علم کے بارے میں کی۔ چوں کہ علم و آگہی سے شعور کی راہیں کھلتی ہیں اور جب انسان باشعور ہو جاتا ہے تو وہ معرفت حق کے حصول کا اہل ثابت ہوسکتا ہے لہٰذا چوں کہ پیغمبر آخر الزماںؐ نے تاقیامت آنے والی نسلوں کی راہ نمائی کا عظیم فریضہ سرانجام دینا تھا لہٰذا تمام امور سے پہلے آپؐ کو علم سے روشناس کرایا گیا۔ پہلی وحی میں ارشاد ہوا۔
مفہوم : '' اپنے رب کا نام لے کر پڑھیے۔ جس نے پیدا کیا انسان کو خون کے لوتھڑے سے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) پڑھتے رہیے آپ کا رب بڑے کرم والا ہے جس نے قلم کے ذریعے علم سکھایا جس نے انسان کو وہ سکھایا جسے وہ جانتا نہیں تھا۔'' ان آیات مبارکہ کو غور سے پڑھا جائے تو علم کی اہمیت واضح ہوجاتی ہے۔ علم کی نعمت وہ عظیم نعمت ہے جو ازحد کرم والے پروردگار کا کرم ہے۔
واقعی ظلوم و جہول انسان پر اس کا سب سے بڑا کرم اور کیا ہوسکتا ہے کہ علم و عرفان کا مہرِ تاباں اس پر روشن و درخشاں ہوگیا۔ جس کے نور کی نہ کوئی حد ہے اور نہ وہ کبھی ختم ہونے والا ہے۔ رب اکرم نے کرم فرما کر علم کی عظمت اور اہمیت پوری طرح واضح کر کے یہ بھی صاف کر دیا کہ قلم و تحریر کے ذریعے انسان کے علم کو جو وسعت اور فراوانی بخشی گئی ہے اس کا اندازہ کسی کے بس کا نہیں ہے۔ غور فرمائیے کہ وہی انسان جو پہلے نہایت کم زور مخلوق تھا آج علم کی بہ دولت خشکی پر، پانی پر اور ہوا پر اپنے رب اکرم کے فضل و کرم سے حکومت کر رہا ہے۔
مفہوم : '' کیا تم نے نہیں دیکھا کہ جو کچھ آسمانوں میں اور جو کچھ زمین ہے سب کو اللہ نے تمہارے لیے مسخر کردیا ہے۔'' (سورۃ لقمان )
قرآن مجید میں سورۃ علق کی ابتدائی چار آیتوں کے سوا اگر علم کی فضیلت میں اور کچھ نہ کہا جاتا تب بھی کافی ہوتا لیکن قرآن میں بار بار علم کی عظمت و اہمیت کو نہایت دل کش پیرائے میں جا بہ جا پیش کیا گیا ہے اور حصول علم پر انسانوں بالخصوص اہل ایمان کو راغب کیا گیا ہے۔ چناںچہ ایک مقام پر علم اور اہل علم کی فضیلت یوں بیان کی گئی۔
ترجمہ : '' آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) فرما دیجیے کہ جاننے والے اور نہ جاننے والے برابر نہیں ہوسکتے' یہ تو عقل والے ہی سمجھ سکتے ہیں۔'' (سورۃ الزمر)
اسی طرح ایک مقام پر خشیت الٰہی کا ذریعہ بھی علم کو قرار دیا۔
ترجمہ : ''اللہ سے توا س کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں۔ بے شک اللہ غالب اور بخشنے ولا ہے۔'' (سورۃ فاطر )
اس آیت مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کا تقویٰ اور پرہیز گاری بھی علم سے ہی حاصل ہوسکتے ہیں۔ چوں کہ اگر ایک شخص کو اللہ کی معرفت ہی حاصل نہیں تو وہ کس طرح اللہ کا خوف اور تقویٰ اختیار کرسکتا ہے۔ یہاں پر یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ ضروری نہیں کہ ایک اعلیٰ ترین دنیاوی تعلیمات سے بہرہ ور شخص ہی معرفت الٰہی سے بھی روشناس ہو۔ قرآن کی نظر میں وہی عالم ہے جسے رب تعالیٰ کی معرفت حاصل ہو۔ دنیاوی علوم صرف دنیا تک محدود ہیں اور انہیں دنیاوی تعمیر و ترقی کا منفعت بخش ہنر و فن ہی کہا جاسکتا ہے۔
چوں کہ یہ تمام علوم دنیا تک ہی محدود ہیں جب کہ حقیقی علم یعنی قرآن و سنت معرفت الٰہی کے حصول کا سبب اور اسی کی روشنی سے دین و دنیا کی تمام تر کامیابیاں اور کامرانی مشروط ہیں۔ اسلام میں علم اور اہل علم کی بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے اور حصول علم پر بہت زور دیا گیا ہے ا س میں دینی و دنیاوی دونوں علوم شامل ہیں۔ بعض حضرات دینی و دنیوی علوم میں تفریق کرتے ہیں حالاں کہ اسلام جہاں دین سیکھنے کی تعلیم دیتا ہے وہیں تسخیر کائنات کی بھی دعوت فکر دیتا ہے۔ شیخ سعدیؒ نے علم کے بارے میں کیا خوب فرمایا ہے: '' انسان علم سے کمال حاصل کرتا ہے نہ کہ فوج اور لاؤ لشکر سے اور نہ مال و دولت سے۔ شمع کی مانند علم کے لیے گُھلنا چاہیے کہ بغیر علم کے توُ اللہ کو نہیں پہچان سکتا۔
گویا علم کا حصول معرفت الٰہی کا ذریعہ ہے اور جہالت گم راہی ہے۔ یہاں یہ بات واضح ہوتی ہے کہ وہی علم نافع ہے جو معرفت ربانی سے ہم کنار کر دے اور وہ صرف قرآن و سنت کا ہی علم ہے بہ صورت دیگر دنیاوی علوم و فنون محض دنیا تک ہی محدود ہیں۔ اگرچہ سائنسی علوم کی ترقی بھی معرفت الٰہی کا پتا دیتی ہیں تاہم دینی علوم یا اسلامی تعلیمات سے بے بہرہ ماہرین سائنس دان وغیرہ یا انسانیت کا بہت بڑا طبقہ ان ایجادات کو ذاتی کمالات جان کر پھولے نہیں سماتا اور رب کائنات کی صفت خالقیت پر غور نہیں کرتا جس کی وجہ سے وہ حقیقت کو نہیں پاتا بل کہ مادیت کے گرد گھومتا رہتا ہے۔ اس کے برعکس اگر کوئی رب کائنات کی صفات عالیہ و یکتائی کا قائل مومن موحد مسلمان سائنس دان یا کسی چیز کا موجد اگر کوئی عظیم سائنسی کارنامہ انجام دے گا تو معرفت الٰہی اسے عاجزی و انکساری پر آمادہ رکھے گی اور وہ برملا اظہار کرے گا کہ یہ محض توفیق الٰہی سے ممکن ہوا ہے۔ کیوں کہ تمام تر کائنات کا خالق و مالک صرف اللہ رب العالمین ہی ہے۔ بس یہی فرق ہے علم و فن کا کہ حقیقی علم رکھنے والا ہر سطح پر رب کا شکر گزار اور اس کی صناعی کا ثنا خواں ہوگا اور محض دنیاوی علوم و فنون کے ماہرین اسے ذاتی کمال سمجھتے ہیں۔
اسلام میں جس قدر زور حصول علم پر دیا گیا ہے وہ روز روشن کی طرح عیاں ہے۔ کیوں کہ علم کے بغیر انسان اپنے رب کو بھی نہیں پہنچان سکتا۔ دین نام ہی علم کا ہے۔ مختلف انبیائے کرام ؑ کو اللہ تعالیٰ نے بعض خصوصی علوم عطا فرمائے جن میں وہ دیگر انبیاء و رسل سے ممتاز تھے۔ مثلاً اللہ تعالیٰ نے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو علم معرفت عطا فرمایا تھا جس کے ذریعے وہ لوگوں کو توحید باری تعالیٰ کی طرف بلاتے رہے اسی طرح اللہ تعالیٰ نے سیدنا یوسف علیہ السلام کو خوابوں کی تعبیر کا علم عطا فرمایا تھا جس کے سبب و ہ بادشاہ ہوگئے اور تخت و تاج کے مالک بن گئے تھے۔ جب کہ سرور کائناتؐ تو تمام علوم اور کمالات و جمالات سے سرفراز فرمائے گئے تھے۔ سیدنا یوسف علیہ السلام کو اللہ نے حسن عطا فرمایا اور سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو مردے زندہ کرنے یا ان کی پیدائش خود معجزہ بنا کردی گئی۔ اسی طرح سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو یہ معجزہ عطا فرمایا گیا کہ جب وہ اپنا ہاتھ بغل سے نکالتے تو وہ چمک رہا ہوتا تھا۔ یہ سب کمالات و جمالات جو تمام انبیاء و رسلؑ میں فرداً فرداً عطا کیے گئے تھے۔ وہ تمام کے تمام ذات رسالت مآب ﷺ میں بہ درجہ اتم پیدا کردیے گئے تھے۔
سیدنا سلیمان علیہ السلام کو جہاں نبوت و بادشاہت عطا ہوئی وہیں آپ کو اللہ کی طرف سے ایک اور نعمت یہ ملی کہ آپ کو حیوانات کی بول چال کا علم عطا ہوا جس کی بہ دولت آپ ان کی بول چال اشارہ کنایے سمجھ لیتے تھے۔ اسی طرح انسان جنات اور ہر طرح کے جانوروں سے طرح طرح کے کام اور خدمات لیا کرتے تھے۔ ہدہد کے ذریعے سبا کی خبر منگوائی اور عفریت سے اس کے بہت بڑے تخت کو منگوایا اور پورے ملک یمن کے بھی بادشاہ ہوئے۔ یہ سب کچھ علم نبوت اور اللہ کے فضل و کرم سے ہوا۔ منٹوں میں تخت سبا کا آجانا سیدنا سلیمان علیہ السلام کا معجزہ تھا لیکن موجودہ دور میں سیل فون، ریڈیو، ٹی وی، کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کی ایجاد اسی علم کی بہ دولت ہوئی۔
ہوائی جہاز' بحری جہاز' ریل' موٹر کار ' میزائل ٹیکنالوجی ایٹمی قوت اور بے شمار ایجادات جن کی بہ دولت آج دنیا سمٹ کر رہ گئی ہے اور گلوبل ولیج بن گئی ہے تو یہ سب علم اور اللہ کے فضل و کرم کی بہ دولت ہی ہے۔ اب یہ حضرت انسان پر منحصر ہے کہ وہ ان ایجادات سے مثبت خدمات انجام دے یا انسانیت کی تباہی و بربادی کا سامان کرے۔
یقیناً یہ تمام تر ایجادات تب ہی خیر اور بھلائی کا سبب بن سکتی ہیں جب انسانیت علوم نبوت سے بھی آگاہی حاصل کرے' کیوں کہ اسلامی تعلیمات ہی انسان کے منفی جذبات و احساسات کو شریعت کی لگام کے ذریعے کنٹرول کرتی ہیں اور خیر و شر کے تمام پہلو واضح کرکے علم کے ذریعے انسانیت پر روز آخرت حساب و کتاب کا یقین پیدا کرتی ہیں۔ جس کی بہ دولت انسان آخرت کی جواب دہی کے احساس کے تحت دنیا میں محتاط زندگی اختیار کرتا ہے اور انسانیت کے لیے مفید ثابت ہوتا ہے۔
دینی علوم کا حصول دراصل دنیاوی تعمیر و ترقی کے لیے بھی انتہائی ضروری ہے اسی لیے قرآن مجید و احادیث نبوی ﷺ میں علم کے حصول اور عمل پر بہت زور دیا گیا ہے۔ حدیث مبارکہ ہے کہ ایک عابد کی سو سال کی بے ریا عبادت سے عالم کی ایک گھڑی صحبت میں رہنا افضل و اعلیٰ ہے۔ چوں کہ عابد کی عبادت اپنے لیے ہے جب کہ عالم کا علم پورے عالم کو فیض یاب کرتا ہے۔
آج امت مسلمہ کی زبوں حالی' درماندگی ' پس ماندگی کا سب سے اہم سبب علمی پس ماندگی ہی ہے۔ اگر بہ حیثیت مجموعی غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ تمام اسلامی ممالک کی تعلیمی حالت انتہائی دگرگوں ہے۔ اگر دینی علوم سے بہرہ ور ہیں تو دنیاوی علوم سے نابلد اور اگر دنیاوی علوم کے حصول میں کسی حد کام یاب ہیں تو دینی علوم سے یک سر لاتعلق، لہٰذا منطقی نتیجہ یہ نکلا کہ دین بھی ہاتھ سے جاتا رہا اور دنیا بھی حاصل نہ ہو پائی۔ لہٰذا شدید ضرورت اس امر کی ہے کہ تعلیم کو عام اور لازمی قرار دیا جائے اور تمام اسلامی ممالک اس سلسلے میں اجتماعی انقلابی اقدامات اٹھاتے ہوئے دینی و دنیاوی دونوں علوم ساتھ ساتھ نئی نسل کو منتقل کریں۔
تحقیق و ریسرچ کے لیے منظم و مربوط کوششیں کی جائیں تاکہ ایک قابل ذکر تعداد میں ریسرچ اسکالر پیدا کیے جاسکیں۔ کتنے دکھ کی بات ہے کہ جو دین ابتداء سے ہی اپنے ماننے والوں کو حصول علم کی تعلیم دیتا ہو وہ امت آج دنیا میں علمی میدان میں سب سے پیچھے ہے۔ حالاں کہ اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ کو ہر طرح سے مادی وسائل سے نوازا ہوا ہے لیکن ہم معمولی مسائل میں بھی اغیار کی جانب دیکھنے پر مجبور ہیں۔ ہماری زبوں حالی عروج میں تبدیل ہو سکتی ہے بہ شرطے کہ ہمارے معاشرے میں علم کو فروغ حاصل ہو اور تحقیق کا جذبہ بیدار ہو۔ دیگر اقوام عالم جو آج ہم پر حاوی ہیں تو علم و ریسرچ کی بہ دولت ہیں۔ ہم بھی اپنی تمام تر صلاحیتیں بروئے کار لاکر حصول علم و ریسرچ پر صرف کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ امت مسلمہ پھر بام عروج پر پہنچ جائے۔
اللہ رب العالمین نے انسان کو تمام تر مخلوقات پر فضیلت و برتری عطا فرمائی تو ا س کا سبب علم اور اس کا شعور و آگہی ہے جو کسی اور مخلوق کو عطا نہیں کیا گیا۔ یہ محض انسان ہی تھا جسے خالق کائنات نے علم کی دولت سے اس وقت ہی نواز دیا تھا جب یہ تخلیقی مراحل سے گزر رہا تھا جب کہ دیگر مخلوقات کو اللہ تعالیٰ نے اس عزت و شرف سے محروم رکھا۔ یہی وجہ ہے کہ انسان کو اشرف المخلوقات کہا جاتا ہے حالاں کہ تخلیق آدم کے موقع پر فرشتوں نے عرض کیا تھا کہ یااللہ ہم تیری تسبیح بیان کرنے والے ہیں۔
مفہوم : '' اور جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں تو انہوں نے کہا ایسے شخص کو کیوں پیدا کرتا ہے جو زمین میں خون بہائے اور ہم تیری حمد اور پاکیزگی اور تسبیح بیان کرنے والے ہیں۔ اللہ (تعالیٰ) نے فرمایا جو میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے ہو۔ اور اللہ (تعالیٰ) نے آدم (علیہ السلام) کو تمام نام سکھا کر ان چیزوں کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور فرمایا کہ اگر تم سچے ہو تو ان چیزوں کے نام بتاؤ۔ ان سب نے کہا یااللہ تیری ذات پاک ہے، ہمیں تو صرف اتنا ہی علم ہے جتنا تو نے ہمیں سکھا رکھا ہے، تُو ہی جاننے والا، حکمت والا ہے۔ تو اللہ نے آدم (علیہ السلام) سے فرمایا تم ان کے نام بتا دو۔ جب انہوں نے نام بتا دیے تو اللہ نے فرمایا کیا میں نے تم سے پہلے ہی نہیں کہا تھا کہ زمین و آسمان کا غیب میں ہی جانتا ہوں اور میرے ہی علم میں ہے جو تم ظاہر کر رہے ہو اور جو تم چھپاتے ہو۔'' (سورۃ البقرہ )
یہ عزت و شرافت اور فضیلت و بزرگی سیدنا آدمؑ کو علم کی بہ دولت ملی۔ اس سے معلوم ہوا کہ زمین و آسمان میں علم سے بہتر کوئی نعمت نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء و رسلؑ کو اپنا خاص علم مرحمت فرمایا جس سے ساری دنیا منور ہوئی اور علم کی روشنی سب کو اپنی اپنی حیثیت کے مطابق ملی۔ اسلامی تعلیمات کا جب ہم مطالعہ کرتے ہیں تو علم کی حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے۔ رحمت کائناتؐ پر جو پہلی وحی نازل ہوئی وہ علم ہی کے بارے میں تھی۔ اللہ رب العالمین نے سب سے پہلے ہادی کائناتؐ کو دوسرا کوئی پیغام نہیں دیا، بل کہ پہلی نصیحت ہی علم کے بارے میں کی۔ چوں کہ علم و آگہی سے شعور کی راہیں کھلتی ہیں اور جب انسان باشعور ہو جاتا ہے تو وہ معرفت حق کے حصول کا اہل ثابت ہوسکتا ہے لہٰذا چوں کہ پیغمبر آخر الزماںؐ نے تاقیامت آنے والی نسلوں کی راہ نمائی کا عظیم فریضہ سرانجام دینا تھا لہٰذا تمام امور سے پہلے آپؐ کو علم سے روشناس کرایا گیا۔ پہلی وحی میں ارشاد ہوا۔
مفہوم : '' اپنے رب کا نام لے کر پڑھیے۔ جس نے پیدا کیا انسان کو خون کے لوتھڑے سے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) پڑھتے رہیے آپ کا رب بڑے کرم والا ہے جس نے قلم کے ذریعے علم سکھایا جس نے انسان کو وہ سکھایا جسے وہ جانتا نہیں تھا۔'' ان آیات مبارکہ کو غور سے پڑھا جائے تو علم کی اہمیت واضح ہوجاتی ہے۔ علم کی نعمت وہ عظیم نعمت ہے جو ازحد کرم والے پروردگار کا کرم ہے۔
واقعی ظلوم و جہول انسان پر اس کا سب سے بڑا کرم اور کیا ہوسکتا ہے کہ علم و عرفان کا مہرِ تاباں اس پر روشن و درخشاں ہوگیا۔ جس کے نور کی نہ کوئی حد ہے اور نہ وہ کبھی ختم ہونے والا ہے۔ رب اکرم نے کرم فرما کر علم کی عظمت اور اہمیت پوری طرح واضح کر کے یہ بھی صاف کر دیا کہ قلم و تحریر کے ذریعے انسان کے علم کو جو وسعت اور فراوانی بخشی گئی ہے اس کا اندازہ کسی کے بس کا نہیں ہے۔ غور فرمائیے کہ وہی انسان جو پہلے نہایت کم زور مخلوق تھا آج علم کی بہ دولت خشکی پر، پانی پر اور ہوا پر اپنے رب اکرم کے فضل و کرم سے حکومت کر رہا ہے۔
مفہوم : '' کیا تم نے نہیں دیکھا کہ جو کچھ آسمانوں میں اور جو کچھ زمین ہے سب کو اللہ نے تمہارے لیے مسخر کردیا ہے۔'' (سورۃ لقمان )
قرآن مجید میں سورۃ علق کی ابتدائی چار آیتوں کے سوا اگر علم کی فضیلت میں اور کچھ نہ کہا جاتا تب بھی کافی ہوتا لیکن قرآن میں بار بار علم کی عظمت و اہمیت کو نہایت دل کش پیرائے میں جا بہ جا پیش کیا گیا ہے اور حصول علم پر انسانوں بالخصوص اہل ایمان کو راغب کیا گیا ہے۔ چناںچہ ایک مقام پر علم اور اہل علم کی فضیلت یوں بیان کی گئی۔
ترجمہ : '' آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) فرما دیجیے کہ جاننے والے اور نہ جاننے والے برابر نہیں ہوسکتے' یہ تو عقل والے ہی سمجھ سکتے ہیں۔'' (سورۃ الزمر)
اسی طرح ایک مقام پر خشیت الٰہی کا ذریعہ بھی علم کو قرار دیا۔
ترجمہ : ''اللہ سے توا س کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں۔ بے شک اللہ غالب اور بخشنے ولا ہے۔'' (سورۃ فاطر )
اس آیت مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کا تقویٰ اور پرہیز گاری بھی علم سے ہی حاصل ہوسکتے ہیں۔ چوں کہ اگر ایک شخص کو اللہ کی معرفت ہی حاصل نہیں تو وہ کس طرح اللہ کا خوف اور تقویٰ اختیار کرسکتا ہے۔ یہاں پر یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ ضروری نہیں کہ ایک اعلیٰ ترین دنیاوی تعلیمات سے بہرہ ور شخص ہی معرفت الٰہی سے بھی روشناس ہو۔ قرآن کی نظر میں وہی عالم ہے جسے رب تعالیٰ کی معرفت حاصل ہو۔ دنیاوی علوم صرف دنیا تک محدود ہیں اور انہیں دنیاوی تعمیر و ترقی کا منفعت بخش ہنر و فن ہی کہا جاسکتا ہے۔
چوں کہ یہ تمام علوم دنیا تک ہی محدود ہیں جب کہ حقیقی علم یعنی قرآن و سنت معرفت الٰہی کے حصول کا سبب اور اسی کی روشنی سے دین و دنیا کی تمام تر کامیابیاں اور کامرانی مشروط ہیں۔ اسلام میں علم اور اہل علم کی بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے اور حصول علم پر بہت زور دیا گیا ہے ا س میں دینی و دنیاوی دونوں علوم شامل ہیں۔ بعض حضرات دینی و دنیوی علوم میں تفریق کرتے ہیں حالاں کہ اسلام جہاں دین سیکھنے کی تعلیم دیتا ہے وہیں تسخیر کائنات کی بھی دعوت فکر دیتا ہے۔ شیخ سعدیؒ نے علم کے بارے میں کیا خوب فرمایا ہے: '' انسان علم سے کمال حاصل کرتا ہے نہ کہ فوج اور لاؤ لشکر سے اور نہ مال و دولت سے۔ شمع کی مانند علم کے لیے گُھلنا چاہیے کہ بغیر علم کے توُ اللہ کو نہیں پہچان سکتا۔
گویا علم کا حصول معرفت الٰہی کا ذریعہ ہے اور جہالت گم راہی ہے۔ یہاں یہ بات واضح ہوتی ہے کہ وہی علم نافع ہے جو معرفت ربانی سے ہم کنار کر دے اور وہ صرف قرآن و سنت کا ہی علم ہے بہ صورت دیگر دنیاوی علوم و فنون محض دنیا تک ہی محدود ہیں۔ اگرچہ سائنسی علوم کی ترقی بھی معرفت الٰہی کا پتا دیتی ہیں تاہم دینی علوم یا اسلامی تعلیمات سے بے بہرہ ماہرین سائنس دان وغیرہ یا انسانیت کا بہت بڑا طبقہ ان ایجادات کو ذاتی کمالات جان کر پھولے نہیں سماتا اور رب کائنات کی صفت خالقیت پر غور نہیں کرتا جس کی وجہ سے وہ حقیقت کو نہیں پاتا بل کہ مادیت کے گرد گھومتا رہتا ہے۔ اس کے برعکس اگر کوئی رب کائنات کی صفات عالیہ و یکتائی کا قائل مومن موحد مسلمان سائنس دان یا کسی چیز کا موجد اگر کوئی عظیم سائنسی کارنامہ انجام دے گا تو معرفت الٰہی اسے عاجزی و انکساری پر آمادہ رکھے گی اور وہ برملا اظہار کرے گا کہ یہ محض توفیق الٰہی سے ممکن ہوا ہے۔ کیوں کہ تمام تر کائنات کا خالق و مالک صرف اللہ رب العالمین ہی ہے۔ بس یہی فرق ہے علم و فن کا کہ حقیقی علم رکھنے والا ہر سطح پر رب کا شکر گزار اور اس کی صناعی کا ثنا خواں ہوگا اور محض دنیاوی علوم و فنون کے ماہرین اسے ذاتی کمال سمجھتے ہیں۔
اسلام میں جس قدر زور حصول علم پر دیا گیا ہے وہ روز روشن کی طرح عیاں ہے۔ کیوں کہ علم کے بغیر انسان اپنے رب کو بھی نہیں پہنچان سکتا۔ دین نام ہی علم کا ہے۔ مختلف انبیائے کرام ؑ کو اللہ تعالیٰ نے بعض خصوصی علوم عطا فرمائے جن میں وہ دیگر انبیاء و رسل سے ممتاز تھے۔ مثلاً اللہ تعالیٰ نے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو علم معرفت عطا فرمایا تھا جس کے ذریعے وہ لوگوں کو توحید باری تعالیٰ کی طرف بلاتے رہے اسی طرح اللہ تعالیٰ نے سیدنا یوسف علیہ السلام کو خوابوں کی تعبیر کا علم عطا فرمایا تھا جس کے سبب و ہ بادشاہ ہوگئے اور تخت و تاج کے مالک بن گئے تھے۔ جب کہ سرور کائناتؐ تو تمام علوم اور کمالات و جمالات سے سرفراز فرمائے گئے تھے۔ سیدنا یوسف علیہ السلام کو اللہ نے حسن عطا فرمایا اور سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو مردے زندہ کرنے یا ان کی پیدائش خود معجزہ بنا کردی گئی۔ اسی طرح سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو یہ معجزہ عطا فرمایا گیا کہ جب وہ اپنا ہاتھ بغل سے نکالتے تو وہ چمک رہا ہوتا تھا۔ یہ سب کمالات و جمالات جو تمام انبیاء و رسلؑ میں فرداً فرداً عطا کیے گئے تھے۔ وہ تمام کے تمام ذات رسالت مآب ﷺ میں بہ درجہ اتم پیدا کردیے گئے تھے۔
سیدنا سلیمان علیہ السلام کو جہاں نبوت و بادشاہت عطا ہوئی وہیں آپ کو اللہ کی طرف سے ایک اور نعمت یہ ملی کہ آپ کو حیوانات کی بول چال کا علم عطا ہوا جس کی بہ دولت آپ ان کی بول چال اشارہ کنایے سمجھ لیتے تھے۔ اسی طرح انسان جنات اور ہر طرح کے جانوروں سے طرح طرح کے کام اور خدمات لیا کرتے تھے۔ ہدہد کے ذریعے سبا کی خبر منگوائی اور عفریت سے اس کے بہت بڑے تخت کو منگوایا اور پورے ملک یمن کے بھی بادشاہ ہوئے۔ یہ سب کچھ علم نبوت اور اللہ کے فضل و کرم سے ہوا۔ منٹوں میں تخت سبا کا آجانا سیدنا سلیمان علیہ السلام کا معجزہ تھا لیکن موجودہ دور میں سیل فون، ریڈیو، ٹی وی، کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کی ایجاد اسی علم کی بہ دولت ہوئی۔
ہوائی جہاز' بحری جہاز' ریل' موٹر کار ' میزائل ٹیکنالوجی ایٹمی قوت اور بے شمار ایجادات جن کی بہ دولت آج دنیا سمٹ کر رہ گئی ہے اور گلوبل ولیج بن گئی ہے تو یہ سب علم اور اللہ کے فضل و کرم کی بہ دولت ہی ہے۔ اب یہ حضرت انسان پر منحصر ہے کہ وہ ان ایجادات سے مثبت خدمات انجام دے یا انسانیت کی تباہی و بربادی کا سامان کرے۔
یقیناً یہ تمام تر ایجادات تب ہی خیر اور بھلائی کا سبب بن سکتی ہیں جب انسانیت علوم نبوت سے بھی آگاہی حاصل کرے' کیوں کہ اسلامی تعلیمات ہی انسان کے منفی جذبات و احساسات کو شریعت کی لگام کے ذریعے کنٹرول کرتی ہیں اور خیر و شر کے تمام پہلو واضح کرکے علم کے ذریعے انسانیت پر روز آخرت حساب و کتاب کا یقین پیدا کرتی ہیں۔ جس کی بہ دولت انسان آخرت کی جواب دہی کے احساس کے تحت دنیا میں محتاط زندگی اختیار کرتا ہے اور انسانیت کے لیے مفید ثابت ہوتا ہے۔
دینی علوم کا حصول دراصل دنیاوی تعمیر و ترقی کے لیے بھی انتہائی ضروری ہے اسی لیے قرآن مجید و احادیث نبوی ﷺ میں علم کے حصول اور عمل پر بہت زور دیا گیا ہے۔ حدیث مبارکہ ہے کہ ایک عابد کی سو سال کی بے ریا عبادت سے عالم کی ایک گھڑی صحبت میں رہنا افضل و اعلیٰ ہے۔ چوں کہ عابد کی عبادت اپنے لیے ہے جب کہ عالم کا علم پورے عالم کو فیض یاب کرتا ہے۔
آج امت مسلمہ کی زبوں حالی' درماندگی ' پس ماندگی کا سب سے اہم سبب علمی پس ماندگی ہی ہے۔ اگر بہ حیثیت مجموعی غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ تمام اسلامی ممالک کی تعلیمی حالت انتہائی دگرگوں ہے۔ اگر دینی علوم سے بہرہ ور ہیں تو دنیاوی علوم سے نابلد اور اگر دنیاوی علوم کے حصول میں کسی حد کام یاب ہیں تو دینی علوم سے یک سر لاتعلق، لہٰذا منطقی نتیجہ یہ نکلا کہ دین بھی ہاتھ سے جاتا رہا اور دنیا بھی حاصل نہ ہو پائی۔ لہٰذا شدید ضرورت اس امر کی ہے کہ تعلیم کو عام اور لازمی قرار دیا جائے اور تمام اسلامی ممالک اس سلسلے میں اجتماعی انقلابی اقدامات اٹھاتے ہوئے دینی و دنیاوی دونوں علوم ساتھ ساتھ نئی نسل کو منتقل کریں۔
تحقیق و ریسرچ کے لیے منظم و مربوط کوششیں کی جائیں تاکہ ایک قابل ذکر تعداد میں ریسرچ اسکالر پیدا کیے جاسکیں۔ کتنے دکھ کی بات ہے کہ جو دین ابتداء سے ہی اپنے ماننے والوں کو حصول علم کی تعلیم دیتا ہو وہ امت آج دنیا میں علمی میدان میں سب سے پیچھے ہے۔ حالاں کہ اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ کو ہر طرح سے مادی وسائل سے نوازا ہوا ہے لیکن ہم معمولی مسائل میں بھی اغیار کی جانب دیکھنے پر مجبور ہیں۔ ہماری زبوں حالی عروج میں تبدیل ہو سکتی ہے بہ شرطے کہ ہمارے معاشرے میں علم کو فروغ حاصل ہو اور تحقیق کا جذبہ بیدار ہو۔ دیگر اقوام عالم جو آج ہم پر حاوی ہیں تو علم و ریسرچ کی بہ دولت ہیں۔ ہم بھی اپنی تمام تر صلاحیتیں بروئے کار لاکر حصول علم و ریسرچ پر صرف کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ امت مسلمہ پھر بام عروج پر پہنچ جائے۔