پاکستان کے بارے میں 70 سنہری حقائق چوتھی قسط

پاکستان کے حوالے سے ایسی مثبت باتیں جن کے بارے میں شاید آپ پہلے نہیں جانتے ہوں۔


پاکستان کے حوالے سے ایسی مثبت باتیں جن کے بارے میں شاید آپ پہلے نہیں جانتے ہوں۔

ایکسپریس اردو بلاگز کی جانب سے اپنے قارئین کے لیے یوم آزادی کے موقع پر خصوصی سلسلہ شروع کیا جارہا ہے جس میں 14 اگست تک روزانہ کی بنیاد پر پاکستان اور پاکستانیوں کے سنہری حقائق / اعزازات پیش کیے جائیں گے۔




پاکستان کے بارے میں 70 سنہری حقائق (پہلی قسط)

پاکستان کے بارے میں 70 سنہری حقائق (دوسری قسط)

پاکستان کے بارے میں 70 سنہری حقائق (تیسری قسط)


دانتوں کا سب سے پہلا معالج پاکستان میں تھا


ماہرینِ آثارِ قدیمہ نے دریافت کیا ہے کہ دنیا میں آج سے تقریباً 9000 سال پہلے جس قدیم تہذیب میں دانتوں کی برما کاری (ڈرلنگ) اور علاج کا آغاز ہوا وہ ''مہر گڑھ'' ہے؛ اور جو بلوچستان، پاکستان میں واقع ہے۔ مہر گڑھ کی تہذیب موجودہ بلوچستان میں 7500 سے 9000 سال پہلے موجود تھی۔ 2001 میں ماہرین کی ایک ٹیم نے مہر گڑھ سے ملنے والے دو مردوں کی باقیات کا مطالعہ کرنے کے بعد بتایا کہ ان کے دانتوں میں باریک برموں سے سوراخ کیے جانے کے نشانات موجود تھے، جو یہ ظاہر کرتے تھے کہ مہر گڑھ میں آج سے لگ بھگ 9000 پہلے بھی دانتوں کا علاج کرنے والے ہوا کرتے تھے۔ اس دریافت پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا گیا لیکن پھر 2006 میں ماہرینِ آثارِ قدیمہ کی ایک اور ٹیم نے مہر گڑھ سے ملنے والے 11 ڈھانچوں میں جبڑوں کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد ثابت کیا کہ یہ بات درست تھی۔ بالغ افراد کے ان ڈھانچوں کی ڈاڑھوں (molar teeth) میں بڑے ماہرانہ انداز سے باریک سوراخ کیے گئے تھے جو دندان سازی کے مخصوص اوزاروں کے بغیر ممکن ہی نہیں ہوسکتے تھے۔ ان ثبوتوں کی بنیاد پر آج ماہرین تسلیم کرتے ہیں کہ دنیا میں دانتوں کے علاج (ڈینٹسٹری) کی ابتداء مہر گڑھ سے ہوئی تھی؛ اور یہ منفرد قدیم تہذیب حال کے پاکستان میں وجود رکھتی تھی۔



دنیا میں سب سے زیادہ فلک بوس پہاڑ بھی یہیں ہیں!


اس وقت دنیا بھر میں 109 پہاڑ ایسے ہیں جن کی اونچائی 7200 میٹر یا اس سے بھی زیادہ ہے؛ اور ان میں سے 43 پہاڑ پاکستان میں واقع ہیں۔ یعنی پاکستان وہ منفرد ملک ہے جس میں بلند ترین چوٹیوں والے پہاڑ سب سے زیادہ تعداد میں موجود ہیں۔ پاکستان میں پہاڑوں کی طویل پٹی شمال میں آزاد کشمیر، خیبر پختونخوا اور گلگت بلتستان سے ہوتی ہوئی شمال مغرب میں بلوچستان کے آخری کنارے تک چلی گئی ہے جہاں پاک ایران سرحد واقع ہے۔ کے ٹو اور نانگا پربت کے علاوہ پاکستان کی دیگر اہم پہاڑی چوٹیوں میں راکاپوشی، بتورا سر، چوغولیزا، تریور، پاسو سر، مومہل سر، ہراموش پیک، بالتورو کنگری، بلتستان پیک (کے 6) اور لپغار سر کے نام شامل ہیں۔ بلند ترین پہاڑی چوٹیوں کے باعث پاکستان ساری دنیا کے ممالک میں نمایاں ترین مقام رکھتا ہے اور اگر توجہ دی جائے تو کوہ پیمائی کا عالمی مرکز بھی بن سکتا ہے۔



نصرت فتح علی خان کا سنہری اعزاز


شہنشاہ قوال نصرت فتح علی خان کی آواز کے سحر سے یہاں کون متاثر نہیں ہے؟ ان کا کمال یہ تھا کہ وہ صرف پاکستان میں ہی مقبول نہیں تھے بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی لوگ نصرت فتح علی خان کو سننے کے لیے بے قرار رہتے تھے۔ اِسی مقبولیت کی وجہ سے انہوں نے دو ہالی ووڈ فلموں 'دی لاسٹ ٹیمپٹیشن' The Last Temptation اور 'کرسٹ اینڈ ڈیڈ مین واکنگ' Chirst and Dead Man Walking میں بھی اپنی آواز کا جگایا۔ لیکن اِن کا اصل اعزاز اور کارنامہ یہ ہے انہوں نے اپنی زندگی میں قوالیوں کے 125 البم ریکارڈ کروائے اور ہر البم میں کامیاب قوالیاں شامل تھی۔ یہی وہ اعزاز ہے جس کی وجہ سے اِن کا نام 2001ء میں گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں شامل کیا گیا۔



 

کم ترین عمر میں ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے والے پاکستانی کھلاڑی


کرکٹ وہ واحد کھیل ہے جو ہمیشہ سے ہی پاکستانیوں میں انتہائی مقبول رہا ہے، یہی ہے کہ ہے کم ترین عمر میں ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے والے پانچ ابتدائی کھلاڑیوں میں سے چار کا تعلق پاکستان سے ہے۔ سب سے کم عمر میں ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے والے کھلاڑی حسن رضا تھے جنہوں نے محض 14 برس اور 227 دن کی عمر میں اپنا پہلا میچ 1996ء میں زمبابوے کے خلاف کھیلا تھا۔ حسن رضا کو دیکھ کر خیال ہورہا تھا کہ شاید قومی ٹیم کو طویل عرصے کے لیے ایک اچھا کھلاڑی مل گیا ہے لیکن بدقسمتی سے محض 7 ٹیسٹ میچ کھلانے کے بعد اِس نوجوان کھلاڑی کو ٹیم سے باہر کردیا گیا اور اُس کے بعد دوبارہ موقع نہیں دیا گیا۔ اِس وقت حسن رضا 34 برس کے ہیں اور مسلسل اِس اُمید کے ساتھ ڈومیسٹک کرکٹ کھیل رہے ہیں کہ شاید اِن کو ایک بار پھر آزمایا جاسکے

حسن رضا سے پہلے یہ اعزاز مشتاق محمد کے پاس تھا جنہوں نے 15 برس اور 224 دن کی عمر میں ویسٹ انڈیز کے خلاف 1959 میں اپنا پہلا میچ کھیلا تھا۔ مشتاق محمد نے اپنے کیرئیر میں 57 ٹیسٹ میچوں میں 39 کی اوسط سے 3643 رنز بنائے جس میں دس سنچریاں اور 19 نصف سنچریاں شامل ہیں۔

اِسی طرح عاقب جاوید اور آفتاب بلوچ نے بھی کم ترین عمر میں ٹیسٹ کرکٹ کھیلی ہے۔ دونوں کھلاڑیوں نے بالترتیب 16 سال اور 189 دن کی عمر اور 16 سال اور 221 دن کی عمر میں پہلا ٹیسٹ میچ کھیلا تھا۔



 

دنیا کی سب سے کم عمر نوبل انعام یافتہ


اِس بات سے کوئی انکار کر ہی نہیں سکتا کہ نوبل انعام کا حصول نہ صرف انسان کے لیے ایک خواب ہے بلکہ رہتی دنیا تک انسان کے لیے سب سے بڑا اعزاز بھی ہے، اور جب یہ اعزاز انسان کو کم ترین عمر میں مل جائے تو یہ کتنی اہمیت اور خوشی کی بات ہے اِس کا جواب صرف ملالہ یوسفزئی ہی دے سکتی ہیں کیونکہ محض 17 سال کی عمر میں یہ باہمت لڑکی اِس ایوارڈ کی مستحق ٹھہری تھی۔

یہ 10 اکتوبر 2014ء کی بات ہے جب ملالہ کو بچوں اور کم عمر افراد کی آزاد اور تمام بچوں کو تعلق کے حق کے بارے میں جدوجہد کرنے اِس انعام سے نوازا گیا تھا۔

لیکن یہ سفر جتنا آسان معلوم ہورہا ہے اتنا نہیں کیونکہ یہاں تک پہنچنے کے لیے ملالہ کو بہت تکالیف کا سامنا کرنا پڑا۔ جب پاکستان میں طالبان مسلسل دہشت گرد کارروائیوں میں مصروف تھے اور یہاں کے قبائلی علاقوں میں تعلیمی اداروں کو نقصان پہنچا رہے تھے اُس دور میں بھی یہ بچی اپنی دیگر ساتھیوں کے ساتھ تعلیم کے حصول میں مصروف تھی اور اِسی جسارت کی سزا اُس کو یوں ملی کہ 9 اکتوبر 2012ء کو اسکول جاتے ہوئے اِس کو دہشتگردوں نے گولی ماردی۔ خوش قسمتی سے ملالہ زندگی کی بازی نہیں ہاری اور جیسے ہی کچھ طبیعت بہتر ہوئی تو اُسے فوری طور پر برمنگھم کے کوئین الزبتھ ہسپتال بھیج دیا گیا جہاں وہ مکمل صحتیاب ہوئی۔ لیکن صحتیاب ہونے کے بعد وہ دوبارہ پاکستان نہیں آئی اور وہیں رہ کر بچوں کی تعلیم کے حوالے سے اپنا کردار ادا کرتی رہی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔