گلا لئی معاملہ کیا ہے
عائشہ گلا لئی میڈیا ٹاک کر رہی تھیں تو اسی دوران کچھ ایسی حرکتیں ہوئیں کہ معاملہ مشکوک ہوتا نظر آنے لگا۔
خاتون گھریلو ہو یا ورکنگ لیڈی اس کے ساتھ غیرشائستگی کا مظاہرہ کرنے والا جتنا مرضی بڑا یا طاقتور ہو' اسے قانون کے شکنجے میں لایا جانا چاہیے۔ کیونکہ ہم بھی بہو بیٹیوں والے ہیں ۔ ہمارا تو کلچر یہ ہے کہ دشمن کی بیٹی کو بھی اپنی بیٹی سمجھ کر احترام کیا جاتا ہے۔ لیکن دوسری صورت میں الزام غلط ثابت ہو جائے تو پھر وہ خاتون بھی کسی رحم یا عزت و احترام کے قابل نہیں ہے۔ کیس پی ٹی آئی کی رکن قومی اسمبلی عائشہ گلا لئی کا ہے اور الزام تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان پر لگایا گیا ہے۔
مسلم لیگ (ن) والے اور ان کے اتحادی و پیروکار گلالئی کے تمام الزامات کو 100فیصد سچا قرار دے کر عمران خان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ سپریم کورٹ سے از خود نوٹس لینے کی اپیلیں بھی ہو رہی ہیں۔ ادھر تحریک انصاف کی تمام خواتین اور مرد لیڈر اورکارکن ان الزامات کو سرے سے غلط قرار دے رہے ہیں۔
پی ٹی آئی کی طرف سے مخصوص نشست پر منتخب ہونے والی رکن قومی اسمبلی عائشہ گلا لئی نے منگل کو اچانک دو تین ٹویٹ کیے اور عمران خان کو بدکردار قرار دے دیا۔ 4سال تک پارٹی اور اس کے چیئرمین عمران خان کی حمایت کرنے والی خاتون پیر کی شام بنی گالہ میں ایک وفد کے ساتھ کپتان سے ملاقات کے لیے جاتی ہیں اور پھر اس سے اگلے دن انھیں پتہ چلتا ہے کہ 4سال سے ان کا لیڈر بد کردار ہے اس لیے تحریک انصاف میں کوئی باعزت خاتون کام نہیں کر سکتی ۔ اس خاتون کے ٹویٹس نے ملک بھرمیں آگ لگا دی۔
وزیراعظم کے الیکشن اور حلف سمیت ساری خبریں پس منظر میں چلی گئیں۔ طے ہوا کہ منگل کو ٹویٹس کے بعد بدھ کو میڈیا کے سامنے آ کر یہ خاتون نہ صرف تمام الزامات دہرائیں گی بلکہ کچھ اور الزامات بھی لگائیں گی۔ اس کے بعد اچانک کسی نے سمجھایا اور پتہ چلا کہ میڈیا ٹاک ٹویٹ والے دن ہی ہو گی۔ الزامات اور ماردھاڑ سے بھرپور اس میڈیا ٹاک کے لیے نیشنل پریس کلب اسلام آباد کا انتخاب کیا گیا۔ ہم خیال میڈیا گروپ ٹویٹس پر کھیلنے میں پیش پیش تھا۔نیشنل پریس کلب میں اسٹیج لگایا گیا تو پتہ چلا کہ اس میڈیا گروپ کے تین رپورٹرسب سے زیادہ متحرک ہیں۔ اس ساری کارروائی نے بہت سے سوالات کو جنم دیا۔
ایک معروف خاتون عمران خان جیسی کسی شخصیت پر جنسی طور پر ہراساں کرنے کا الزام لگائے تو عالمی سطح کی خبربن جاتی ہے۔ گلا لئی نے جب الزامات لگائے تو فوری طور پر ہمدردی کے جذبات پیدا ہونا فطری امر تھا۔ اور یہی ہوا ملک بھر سے آوازیں آنا شروع ہو گئیں کہ ان الزامات کی فوری تحقیقات ہونی چاہیے۔
عائشہ گلا لئی میڈیا ٹاک کر رہی تھیں تو اسی دوران کچھ ایسی حرکتیں ہوئیں کہ معاملہ مشکوک ہوتا نظر آنے لگا۔ ہمدردیاں شکوک و شبہات میں بدلنے لگیں۔ جس خاتون کو ہراساں کیا گیا ہو اور وہ میڈیا پر آکر الزام لگانے پر بھی آمادہ ہو اسے یہ بتانے کی ضرورت نہیں پڑتی کہ وہ کیا کیا کہے اور کس کس کا نام لے۔ میڈیا ٹاک کے دوران البتہ ان کے والد صاحب مسلسل اپنی بیٹی کی رہنمائی کرتے رہے کہ اس نے کیا کہنا ہے اور کس کا نام لینا ہے۔ میڈیا ٹاک کے اختتام پر دو میڈیا گروپ کے رپورٹروں نے ڈرامے میں ماردھاڑ بھی شامل کر دی۔ پہلا ایکٹ یہاں ختم ہو گیا۔
اگلے دن میڈیا نے خاتون کو ہاتھوں ہاتھ لیا۔ سارے چینل اور سارے اینکرز اس ایک ہستی کا انٹرویو لے رہے تھے۔ حیرت انگیز طور پر ہم خیال چینل نے اس ایشو کو تقریباً غائب ہی کر دیا۔ دیگر تمام چینلز گلا لئی فوبیا میں مبتلا دکھائی دے رہے تھے۔ پی ٹی آئی کی خواتین اور مرد ارکان البتہ اپنے لیڈر کی حمایت میں پریس کانفرنسیں اور احتجاج کرتے دکھائی دے رہے تھے۔ خواتین کا ردعمل فطری تھا کیونکہ جس طرح کے الزامات اس خاتون نے لگائے وہ تحریک انصاف میں شامل تمام خواتین کے وقار پر براہ راست حملے کے مترادف تھے۔ تیسرے روز بھی گلا لئی فوبیا جاری رہا ۔ جمعرات کی شب آخری دو انٹرویو ہم خیال چینل پر چلے اور تحقیقات کے پرزور مطالبے کے ساتھ ہی دوسرا اور تیسرا ایکٹ اپنے انجام کو پہنچا۔
خاتون کے انٹر ویو میں ایک بات نمایاں تھی ۔ ان سے جب بھی مطالبہ کیا گیا کہ وہ کوئی ایک قابل اعتراض ٹیکسٹ میسج ہی دکھا دیں تووہ جواب دیتیں کہ عمران خان کا فون چیک کیا جائے، ان کے سارے الزاما ت کا ثبوت مل جائے گا۔ مسلم لیگ (ن) والے ان کے تمام الزامات کو 100فیصد درست قرار دیتے ہوئے کپتان کا فون چیک کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ پیپلزپارٹی سے بھی تحقیقات کی آوازیں آرہی ہیں۔ جمعہ کو نئے وزیراعظم اور نئی کابینہ کے ساتھ ہونے والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں بھی عمران خان پرعائد الزامات اور عائشہ گلا لئی اہم موضوع بن کر سامنے آئے۔
نئے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے الزامات پر تحقیقات کے لیے خصوصی پارلیمانی کمیٹی بنانے کی تجویز دی جس کے بعد ن لیگ کی ایک رکن نے پارلیمانی کمیٹی کے قیام کے لیے تحریک پیش کی جسے متفقہ طور پر منظور کر لیا گیا۔ یہ کمیٹی اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق تشکیل دیں گے جس میں حکومتی و اپوزیشن ارکان سمیت تمام جماعتوں کی نمایندگی ہو گی اور یہ کمیٹی ایک ماہ میں تحقیقات کر کے رپورٹ ایوان میں پیش کرے گی اس دوران معاملہ کی تمام تحقیقات ان کیمرہ ہوگی۔حسب توقع تحریک انصاف نے اس کمیٹی کو مسترد کر دیا ہے۔ ان کا موقف ہے کہ جنہوں نے یہ سب کیا ، ان کی تحقیقات نہیں مان سکتے۔
معاملہ ابھی ختم نہیں ہوا۔ گلا لئی کی جتنی گفتگو سننے کا موقع ملا اس میں ایک بات نمایاں تھی۔ وہ خود عدالت سمیت کسی بھی فورم سے رجوع کرنے کو تیار نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ انھیں جب کسی فورم پر بلایا جائے گا تو وہ ثبوت پیش کر دیں گی۔ بار بار سوال پوچھنے پر انھوں نے نعیم الحق پر بھی الزام لگا دیا۔ حیرت ہے انھیں 4سال پہلے قابل اعتراض ٹیکسٹ میسج آنے شروع ہوئے لیکن وہ برداشت کرتی رہیں۔ ان کا یہ کہنا بھی حیرت انگیز ہے کہ وہ یہ میسج اپنے والد اور بھائی سے بھی شیئر کرتی تھیں۔ اصولاً تو انھیں پہلے ، دوسرے یا تیسرے میسج پر پارٹی چھوڑ کر میدان میں نکلنا چاہیے تھا۔
بات والد اور بھائی تک پہنچ گئی تھی تو پھر برداشت کیسے کی گئی؟یہ کیسا اتفاق ہے کہ وہ بقول ان کے قابل اعتراض میسج برداشت اور ''ملزم'' کا دفاع بھی بڑھ چڑھ کر کرتی رہیں۔ خیبر پختون خوا کو ریاست مدینہ سے تشبیہ دینے والی اب صوبائی حکومت کو کرپٹ ترین قرار دے رہی ہیں تو کیسے یقین کر لیا جائے۔ یہ ایشو الزامات در الزامات کی زد میں ہے۔ کپتان اور ان کی ٹیم کہتی ہے ان کی ایم این اے کو ن لیگ نے خرید لیا۔ گلا لئی اس الزام کو رد کرتی ہیں۔ گلا لئی اور ان کے والد پر مالی کرپشن کے الزامات بھی لگائے جا رہے ہیں۔ غرض جتنے منہ اتنی باتیں۔
اس سارے پراسس میں عمران خان کا مسلسل ٹرائل ہو رہا ہے۔ کہیںایسا تو نہیں کہ اصل مقصد ہی کپتان کی بدنامی تھا۔ گلا لئی کے حامی ان سے اظہار ہمدردی کر رہے ہیں۔ معاملے کی تفتیش ہر حال میں ہونی چاہیے۔ الزام درست ہے یا غلط، اس کا علم تفتیش کے بعد ہی ہو گا۔ اب تک سب سے زیادہ فایدہ ن لیگ کو ہوا ہے۔ ن لیگ کے قائد سپریم کورٹ سے نا اہل ہو چکے ہیں۔ ان کی طرف سے عمران کی نا اہلی کا مطالبہ ہو رہا ہے۔ سیاست پہلے ہی بہت گندی ہو چکی ہے۔ اس کو روکنا ہو گا۔الزامات سے زیادہ ٹائمنگ اہم ہے۔سیاسی شخصیات پر الزام نئی بات نہیں۔ کچھ سچے ہوتے ہیں اور کچھ محض بدنام کرنے کے لیے لگائے جاتے ہیں۔ اس لیے گلا لئی معاملے کی تہہ تک پہنچنا ضروری ہے۔ عدل و انصاف کا تقاضا بھی یہی ہے۔ کیونکہ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے!