ڈکٹیشن تو لینی پڑتی ہے
نواز شریف نے کرپشن کی ہے تو انصاف کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے سخت ترین سزا ملنی چاہیے
پاکستان کے نئے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی کامیابی کا جیسے ہی قومی اسمبلی میں اعلان ہوا، اس کے ساتھ ہی ایوان شیر آیا، شیر آیا، نواز شریف زندہ باد کے نعروں سے گونج اٹھا۔ نوازشریف کو نااہل قرار دینے کے بعد ان کی تصویر قومی اسمبلی اور وزیراعظم ہاؤس سے اتار دی گئی تھی مگر ایوان میں نواز شریف کی تصاویر مسلم لیگی ممبر قومی اسمبلی اور نئے وزیراعظم کی ٹیبل پر موجود تھی۔
نئے وزیراعظم کا کہنا تھا کہ نواز شریف کی تصویر کو دلوں سے اتارا نہیں جاسکتا۔ یقیناً یہ منظر اور یہ نعرے ان درو دیوار سے بھی ٹکرائے ہوں گے جنھوں نے مائنس ون فارمولا بنایا ہوگا۔ چالیس برس قبل ذوالفقار علی بھٹو کو مائنس کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا مگر بھٹو آج بھی دلوں میں زندہ ہے۔ پیپلز پارٹی کو ملنے والے ووٹ آج بھی بھٹو کے نام پر پڑتے ہیں۔
ایک سینئر قانون دان کا کہنا ہے کہ ایک کمزور شہادت پر ایک وزیراعظم کو پھانسی دی گئی، اس کو آج عدالتی قتل سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ کسی کو مائنس کرنے سے کوئی مائنس نہیں ہوتا ہے۔ مری میں نواز شریف کا شاندار استقبال اور میاں صاحب کے بااعتماد اور جیل کے ساتھی شاہد خاقان عباسی کا بھاری اکثریت سے وزیراعظم منتخب ہونا دراصل نوازشریف کی کامیابی ہے۔
نواز شریف نے کرپشن کی ہے تو انصاف کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے سخت ترین سزا ملنی چاہیے مگر اس کے ساتھ ساتھ ہر اس شخصیت کو سزا ملنی چاہیے جس نے ملک کی دولت کو لوٹا اور ان لوگوں کا بھی احتساب ہونا چاہیے جن کا نام پاناما لیکس میں آیا ہے۔ سب کے لیے علیحدہ علیحدہ JIT بننی چاہیے تاکہ فیصلے جلد ہوسکیں۔ سوال یہ ہے کہ قومی اسمبلی میں موجود 300 ارکان کے صادق اور امین ہونے کا فیصلہ کون کرے گا اور یہ کام کب شروع ہوگا۔ اوپر سے احتساب کا جو عمل شروع ہوا ہے اسے اب جاری رکھنے کی ضرورت ہے، کسی بھی وجہ سے احتساب کا سلسلہ رکا تو پھر عوام میں مایوسی بھی پیدا ہوگی اور سوالات بھی اٹھیں گے۔
نواز شریف کی برطرفی کے بعد کچھ میڈیا گروپ کا دعویٰ تھا کہ نواز شریف کی پارٹی پر گرفت کمزور پڑجائے گی، مسلم لیگ خزاں کے پتوں کی طرح بکھر جائے گی۔ تمام اندازوں کے برخلاف پارٹی کے سربراہ کی حیثیت سے میاں صاحب نے اب تک پارٹی کو مضبوط اور یکجا رکھا ہوا ہے۔ نواز شریف کو برطرف کرنے کی آوازیں لگانے والے خود متحد نہ ہوسکے۔ وزیراعظم کے انتخاب میں بڑی جماعتیں متفقہ امیدوار لانے میں ناکام رہیں۔
حیرت تو اس بات پر ہے کہ قومی اسمبلی میں ایک سیٹ رکھنے والی جماعت کے سربراہ شیخ رشید بھی وزیراعظم کے امیدوار کے طور پر کھڑے تھے۔ کم از کم شیخ رشید میں یہ خوبی تو موجود ہے کہ وہ جس سربراہ کے قریب ہوتے ہیں اسے کسی نہ کسی طرح رام کر ہی لیتے ہیں۔ وزیراعظم کے انتخاب میں عمران خان کی غیر سنجیدگی اور عدم دلچسپی اس بات کا مظہر تھی کہ ان کے پاس کوئی لائحہ عمل تھا اور نہ اپوزیشن جماعتوں کے پاس کوئی ایجنڈا تھا۔
سیاست دانوں کی بدقسمتی یہ رہی ہے کہ پہلے یہ آپس میں لڑتے ہیں اور اس لڑائی میں اس حد تک آگے نکل جاتے ہیں کہ جمہوریت کو نقصان پہنچ جاتا ہے، پھر سب مل کر جمہوریت کی بحالی کی جدوجہد کرتے ہیں۔ جمہوریت کے بعد پھر ایک دوسرے کے خلاف سازشیں شروع کردیتے ہیں۔بعض سیاستدانوں کی جانب سے 1988 میں بے نظیر بھٹو کا راستہ روکنے کے لیے غیر جمہوری قوتوں کا ساتھ دیا گیا۔
بے نظیر بھٹو کے وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد ان ہی قوتوں نے بے نظیر بھٹو کے مدمقابل قوتوں کو مضبوط کیا۔ بے نظیر بھٹو کی غلام اسحاق خان کے ہاتھوں برطرفی پر جس طرح خوشیاں منائی گئیں، اس ہی طرح پرویز مشرف کے ہاتھوں نواز شریف کی برطرفی اور طیارہ ہائی جیکنگ کیس میں گرفتاری پرمخالفین کی جانب سے ویسا ہی ردعمل سامنے آیا۔
یہ بھی تاریخ کا حصہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کے قائدین اور رہنماؤں پر بننے والے مقدمات سیاسی جماعتوں نے ایک دوسرے کے خلاف بنائے اور ایک دوسرے کو بدنام کرنے کے لیے کروڑوں روپوں کی مہم چلائی اور پیٹ پھاڑ کر پیسے نکلوانے کے دعوے بھی کیے۔ مخالفین پر الزامات لگانا سیاست دانوں کا وتیرہ بن گیا ہے، اس عمل سے سیاست دانوں کو کتنا نقصان ہوتا ہے اس بات کا احساس اس وقت ہوتا ہے جب کوئی دوسرا ان ہی مقدمات کی ازسر نو تحقیقات شروع کرتا ہے اور سیاست دانوں کو ان مقدمات میں لپیٹ دیا جاتا ہے۔ جب سیاست دان اپنی اپنی باری کے انتظار میں کھڑے ہوں اور اپنے مخالفین کی کرسی کو کھینچ کر گرانے کی جستجو میں مصروف ہوں تو پھر غیر جمہوری قوتوں کو موقع مل ہی جاتا ہے۔
اس میں غیر مقبول سیاست دان غیر جمہوری قوتوں کی بیساکھی بن کر جمہوریت کو گرانے، سیاست دانوں کا تمسخر اڑانے، بدنام کرنے اور الزامات کی دلدل سے گرانے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں اور اپنی قیمت وصول کرتے ہیں۔ ایک سیٹ رکھنے والے پنڈی کے شیخ نے عمران خان کو اس با ت پر راضی کر ہی لیا کہ متحدہ اپوزیشن جماعتوں کے متفقہ امیدوار کے مقابلے میں انھیں پی ٹی آئی کے امیدوار کے حیثیت سے وزیراعظم کا امیدوار نامزد کیا جائے، جس پر اپوزیشن تقسیم ہوگئی۔
خواجہ ناظم الدین، محمد علی بوگرہ، حسین شہید سہروردی، اسماعیل چندریگر، فیروز خان نون ہوں، بے نظیر بھٹو اور نواز شریف بھی منتخب وزیراعظم کی حیثیت سے پانچ سال مکمل نہ کرسکے۔ یہ کتنا بڑا المیہ ہے کہ ہم اس سال 14 اگست کو پاکستان کی 70 ویں سالگرہ منارہے ہیں، لیکن لیاقت علی خان سے لے کر نواز شریف تک ایک بھی وزیراعظم اپنے پانچ سال پورے نہ کرسکا۔ ان میں سے اکثریت کو کرپشن کا الزام لگا کر برطرف کیا گیا مگر کسی بھی وزیراعظم کو کرپشن کے الزام میں سزا ملی اور نہ ان پر کرپشن ثابت ہوئی۔ مگر یہ کیسا اتفاق ہے جسے قوم منتخب کرتی ہے وہ برطرف کردیا جاتا ہے، مگر جنرل ایوب خان ہوں، جنرل ضیاالحق ہوں یا پرویز مشرف لامحدود مدت تک لامحدود اختیارات کے ساتھ حکمران بن جاتے ہیں، ان کا احتساب ہوتا ہے اور نہ ہی ان کے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت کارروائی کی جاتی ہے۔ اس کے ذمے دار بھی سیاستدان ہیں جو اپنے مفادات کے لیے آمریت کے تحفظ اور آمر حکمرانوں کو بچانے کے لیے میدان میں کود جاتے ہیں۔ اس طرح کے کرداروں نے جمہوریت کو پنپنے نہیں دیا۔
پارٹی قائدین کی ذمے داری ہے کہ وہ ایسے سیاست دانوں کے لیے اپنے دروازے بند کردیں جو آمریت میں بھی مزے لوٹتے ہیں اور جمہوریت میں پارسا بن کر وزیر اور مشیر بن جاتے ہیں۔ مسلم لیگ، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف میں دہرے معیار رکھنے والے سیاست دانوں کی کمی نہیں جنھوں نے جنرل ضیا الحق اور جنرل پرویز مشرف کے دور میں آمریت کو مضبوط کرنے میں اپنا کردار ادا کیا تھا۔
محمود خان اچکزئی نے قومی اسمبلی میں کہا ہے کہ ڈکٹیشن صرف پارلیمنٹ کی چلے گی، ایسا جب ہی ممکن ہے کہ سیاسی جماعتیں اپنے اندر سے کالی بھیڑوں کو صاف کرنے کا جرات مندانہ قدم اٹھائیں، نظریات، اصول اور پارٹیاں بدلنے والے سیاست دانوں سے اپنی جماعتوں کو پاک کریں، کرپٹ سیاست دانوں کو اپنی پارٹیوں میں پناہ دینے سے گریز کریں۔ اگر سیاست کو گندگی سے پاک نہ کیا گیا تو پھر مفاد پرستی اور موقع پرستی کی سیاست میں ڈکٹیشن بھی لینی پڑتی ہے اور سازشوں کا شکار بھی ہونا پڑتا ہے۔
نئے وزیراعظم کا کہنا تھا کہ نواز شریف کی تصویر کو دلوں سے اتارا نہیں جاسکتا۔ یقیناً یہ منظر اور یہ نعرے ان درو دیوار سے بھی ٹکرائے ہوں گے جنھوں نے مائنس ون فارمولا بنایا ہوگا۔ چالیس برس قبل ذوالفقار علی بھٹو کو مائنس کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا مگر بھٹو آج بھی دلوں میں زندہ ہے۔ پیپلز پارٹی کو ملنے والے ووٹ آج بھی بھٹو کے نام پر پڑتے ہیں۔
ایک سینئر قانون دان کا کہنا ہے کہ ایک کمزور شہادت پر ایک وزیراعظم کو پھانسی دی گئی، اس کو آج عدالتی قتل سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ کسی کو مائنس کرنے سے کوئی مائنس نہیں ہوتا ہے۔ مری میں نواز شریف کا شاندار استقبال اور میاں صاحب کے بااعتماد اور جیل کے ساتھی شاہد خاقان عباسی کا بھاری اکثریت سے وزیراعظم منتخب ہونا دراصل نوازشریف کی کامیابی ہے۔
نواز شریف نے کرپشن کی ہے تو انصاف کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے سخت ترین سزا ملنی چاہیے مگر اس کے ساتھ ساتھ ہر اس شخصیت کو سزا ملنی چاہیے جس نے ملک کی دولت کو لوٹا اور ان لوگوں کا بھی احتساب ہونا چاہیے جن کا نام پاناما لیکس میں آیا ہے۔ سب کے لیے علیحدہ علیحدہ JIT بننی چاہیے تاکہ فیصلے جلد ہوسکیں۔ سوال یہ ہے کہ قومی اسمبلی میں موجود 300 ارکان کے صادق اور امین ہونے کا فیصلہ کون کرے گا اور یہ کام کب شروع ہوگا۔ اوپر سے احتساب کا جو عمل شروع ہوا ہے اسے اب جاری رکھنے کی ضرورت ہے، کسی بھی وجہ سے احتساب کا سلسلہ رکا تو پھر عوام میں مایوسی بھی پیدا ہوگی اور سوالات بھی اٹھیں گے۔
نواز شریف کی برطرفی کے بعد کچھ میڈیا گروپ کا دعویٰ تھا کہ نواز شریف کی پارٹی پر گرفت کمزور پڑجائے گی، مسلم لیگ خزاں کے پتوں کی طرح بکھر جائے گی۔ تمام اندازوں کے برخلاف پارٹی کے سربراہ کی حیثیت سے میاں صاحب نے اب تک پارٹی کو مضبوط اور یکجا رکھا ہوا ہے۔ نواز شریف کو برطرف کرنے کی آوازیں لگانے والے خود متحد نہ ہوسکے۔ وزیراعظم کے انتخاب میں بڑی جماعتیں متفقہ امیدوار لانے میں ناکام رہیں۔
حیرت تو اس بات پر ہے کہ قومی اسمبلی میں ایک سیٹ رکھنے والی جماعت کے سربراہ شیخ رشید بھی وزیراعظم کے امیدوار کے طور پر کھڑے تھے۔ کم از کم شیخ رشید میں یہ خوبی تو موجود ہے کہ وہ جس سربراہ کے قریب ہوتے ہیں اسے کسی نہ کسی طرح رام کر ہی لیتے ہیں۔ وزیراعظم کے انتخاب میں عمران خان کی غیر سنجیدگی اور عدم دلچسپی اس بات کا مظہر تھی کہ ان کے پاس کوئی لائحہ عمل تھا اور نہ اپوزیشن جماعتوں کے پاس کوئی ایجنڈا تھا۔
سیاست دانوں کی بدقسمتی یہ رہی ہے کہ پہلے یہ آپس میں لڑتے ہیں اور اس لڑائی میں اس حد تک آگے نکل جاتے ہیں کہ جمہوریت کو نقصان پہنچ جاتا ہے، پھر سب مل کر جمہوریت کی بحالی کی جدوجہد کرتے ہیں۔ جمہوریت کے بعد پھر ایک دوسرے کے خلاف سازشیں شروع کردیتے ہیں۔بعض سیاستدانوں کی جانب سے 1988 میں بے نظیر بھٹو کا راستہ روکنے کے لیے غیر جمہوری قوتوں کا ساتھ دیا گیا۔
بے نظیر بھٹو کے وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد ان ہی قوتوں نے بے نظیر بھٹو کے مدمقابل قوتوں کو مضبوط کیا۔ بے نظیر بھٹو کی غلام اسحاق خان کے ہاتھوں برطرفی پر جس طرح خوشیاں منائی گئیں، اس ہی طرح پرویز مشرف کے ہاتھوں نواز شریف کی برطرفی اور طیارہ ہائی جیکنگ کیس میں گرفتاری پرمخالفین کی جانب سے ویسا ہی ردعمل سامنے آیا۔
یہ بھی تاریخ کا حصہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کے قائدین اور رہنماؤں پر بننے والے مقدمات سیاسی جماعتوں نے ایک دوسرے کے خلاف بنائے اور ایک دوسرے کو بدنام کرنے کے لیے کروڑوں روپوں کی مہم چلائی اور پیٹ پھاڑ کر پیسے نکلوانے کے دعوے بھی کیے۔ مخالفین پر الزامات لگانا سیاست دانوں کا وتیرہ بن گیا ہے، اس عمل سے سیاست دانوں کو کتنا نقصان ہوتا ہے اس بات کا احساس اس وقت ہوتا ہے جب کوئی دوسرا ان ہی مقدمات کی ازسر نو تحقیقات شروع کرتا ہے اور سیاست دانوں کو ان مقدمات میں لپیٹ دیا جاتا ہے۔ جب سیاست دان اپنی اپنی باری کے انتظار میں کھڑے ہوں اور اپنے مخالفین کی کرسی کو کھینچ کر گرانے کی جستجو میں مصروف ہوں تو پھر غیر جمہوری قوتوں کو موقع مل ہی جاتا ہے۔
اس میں غیر مقبول سیاست دان غیر جمہوری قوتوں کی بیساکھی بن کر جمہوریت کو گرانے، سیاست دانوں کا تمسخر اڑانے، بدنام کرنے اور الزامات کی دلدل سے گرانے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں اور اپنی قیمت وصول کرتے ہیں۔ ایک سیٹ رکھنے والے پنڈی کے شیخ نے عمران خان کو اس با ت پر راضی کر ہی لیا کہ متحدہ اپوزیشن جماعتوں کے متفقہ امیدوار کے مقابلے میں انھیں پی ٹی آئی کے امیدوار کے حیثیت سے وزیراعظم کا امیدوار نامزد کیا جائے، جس پر اپوزیشن تقسیم ہوگئی۔
خواجہ ناظم الدین، محمد علی بوگرہ، حسین شہید سہروردی، اسماعیل چندریگر، فیروز خان نون ہوں، بے نظیر بھٹو اور نواز شریف بھی منتخب وزیراعظم کی حیثیت سے پانچ سال مکمل نہ کرسکے۔ یہ کتنا بڑا المیہ ہے کہ ہم اس سال 14 اگست کو پاکستان کی 70 ویں سالگرہ منارہے ہیں، لیکن لیاقت علی خان سے لے کر نواز شریف تک ایک بھی وزیراعظم اپنے پانچ سال پورے نہ کرسکا۔ ان میں سے اکثریت کو کرپشن کا الزام لگا کر برطرف کیا گیا مگر کسی بھی وزیراعظم کو کرپشن کے الزام میں سزا ملی اور نہ ان پر کرپشن ثابت ہوئی۔ مگر یہ کیسا اتفاق ہے جسے قوم منتخب کرتی ہے وہ برطرف کردیا جاتا ہے، مگر جنرل ایوب خان ہوں، جنرل ضیاالحق ہوں یا پرویز مشرف لامحدود مدت تک لامحدود اختیارات کے ساتھ حکمران بن جاتے ہیں، ان کا احتساب ہوتا ہے اور نہ ہی ان کے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت کارروائی کی جاتی ہے۔ اس کے ذمے دار بھی سیاستدان ہیں جو اپنے مفادات کے لیے آمریت کے تحفظ اور آمر حکمرانوں کو بچانے کے لیے میدان میں کود جاتے ہیں۔ اس طرح کے کرداروں نے جمہوریت کو پنپنے نہیں دیا۔
پارٹی قائدین کی ذمے داری ہے کہ وہ ایسے سیاست دانوں کے لیے اپنے دروازے بند کردیں جو آمریت میں بھی مزے لوٹتے ہیں اور جمہوریت میں پارسا بن کر وزیر اور مشیر بن جاتے ہیں۔ مسلم لیگ، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف میں دہرے معیار رکھنے والے سیاست دانوں کی کمی نہیں جنھوں نے جنرل ضیا الحق اور جنرل پرویز مشرف کے دور میں آمریت کو مضبوط کرنے میں اپنا کردار ادا کیا تھا۔
محمود خان اچکزئی نے قومی اسمبلی میں کہا ہے کہ ڈکٹیشن صرف پارلیمنٹ کی چلے گی، ایسا جب ہی ممکن ہے کہ سیاسی جماعتیں اپنے اندر سے کالی بھیڑوں کو صاف کرنے کا جرات مندانہ قدم اٹھائیں، نظریات، اصول اور پارٹیاں بدلنے والے سیاست دانوں سے اپنی جماعتوں کو پاک کریں، کرپٹ سیاست دانوں کو اپنی پارٹیوں میں پناہ دینے سے گریز کریں۔ اگر سیاست کو گندگی سے پاک نہ کیا گیا تو پھر مفاد پرستی اور موقع پرستی کی سیاست میں ڈکٹیشن بھی لینی پڑتی ہے اور سازشوں کا شکار بھی ہونا پڑتا ہے۔