سپریم کورٹ اور فوج کیخلاف مہم پر تشویش ہے پاکستان بار کونسل
مہم کا مقصد نواز شریف، خاندان کے اربوں کے غبن چھپانا ہے، احسن بھون، حفیظ الرحمن
پاناما لیکس فیصلہ پر پاکستان بارکونسل میں عاصمہ جہانگیر گروپ کے ممبران میں اختلاف سامنے آگیا۔
پاکستان بارکونسل میں عاصمہ جہانگیر گروپ کے13ممبران میں بھی اختلاف رائے پایا جاتا ہے، چند ممبران فیصلہ پر تنقید جبکہ گروپ کے ممبران کی اکثریت پاناما لیکس کیس کے فیصلہ کی حمایت کر رہی ہے اور عاصمہ جہانگیر کی عدالتی فیصلہ پر تنقیدکیخلاف بات کی جارہی ہے۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر رشید اے رضوی نے کہا ہے کہ پاناما لیکس کے فیصلے میں خامیاں ہوسکتی ہیں لیکن یہ کہنا کہ فیصلہ سازش ہے یا کسی کے اشارے پر دیا درست نہیں ،پاکستان بارکونسل کے وائس چیئرمین محمد احسن بھون اورچیئرمین ایگزیکٹوکمیٹی حفیظ الرحمن نے جمعہ کوجاری بیان میں پاناما کیس کا فیصلہ آنیکے بعد سپریم کورٹ کیخلاف چلائی جانیوالی مہم پر تشویش کا اظہارکرتے ہوئے کہا ہے کہ سپریم کورٹ نے پاناما کیس میں تاریخی فیصلہ دیا کیونکہ سابق وزیراعظم نوازشریف اور ان کے خاندان کے افراد بھاری منی لانڈرنگ میں ملوث ہیں اور بیرون ملک قیمتی جائیدادیں خریدی ہیں۔
بیان کے مطابق کچھ لوگوں کی طرف سے نہ صرف ملک کی اعلیٰ ترین عدالت بلکہ مسلح افواج کیخلاف بھی تضحیک آمیز تحریک چلائی جا رہی ہے۔ ان دونوں بڑے اداروں نے ملکی تاریخ میں بڑا اہم کردار ادا کیا ہے۔ پاک افواج نہ صرف ملک کے اندر امن وامان کنٹرول کرنے میں معاونت کر رہی ہیں بلکہ غیر ملکی مداخلت کو بھی روک رہی ہیں اور ملک میں دہشت گردی کے ناسور سے بھی نبردآزما ہیں۔
اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ حکمران پارٹی کے ایما پرکچھ لوگ اداروں کیخلاف مہم چلا رہے ہیں جس پر مقصد پارٹی کے رہنماء کی طرف سے گزشتہ 35 سال میں غبن کی گئی اربوں روپے کی رقم کو چھپانا ہے۔
بیان کے مطابق تمام وکلاء برادری سپریم کورٹ کے اس تاریخی فیصلے کی سپورٹ کرتی ہے کیونکہ ملکی تاریخ میں پہلی بارکسی وزیراعظم کیخلاف ایسا فیصلہ آیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ سپریم کورٹ اور مسلح افواج کیخلاف کسی بھی مہم کا پوری قوت کیساتھ مقابلہ کیا جائیگا اور وکلا برادری عدلیہ کے تحفظ کیلیے کسی بھی نہج تک جائیگی۔
بارکے رکن قلب حسن نے کہا ہے کہ گروپ میں فیصلہ پر اختلاف جمہوری حسن ہے، ہر رکن کا الگ موقف ہوسکتا ہے۔یاد رہے کہ عاصمہ جہانگیر، یاسین آزاد ، کامران مرتضیٰ سمیت کچھ اراکین پاناما لیکس کے فیصلہ کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں جبکہ احسن بھون، حفیظ الرحمن، عابد ساقی، اخترامین ،علی ظفر سمیت اراکین کی اکثریت سپریم کورٹ کے فیصلہ کوسپورٹ کررہے ہیں۔ سپریم کورٹ بارمیں حامد خان گروپ کی اکثریت ہے اس لیے وہاں سے اس فیصلہ کو سپورٹ کیا جا رہا ہے۔
ادھر رشید اے رضوی نے میڈیاسے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ فیصلہ غلط ہے تو اسے چیلنج کیا جائے لیکن یہ نہ کہا جائے کہ فیصلہ کسی کے اشارے پر دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ شریف خاندان کیخلاف ریفرنسزکی نگرانی کیلئے سپریم کورٹ کے جج کو مقررکرنا عدلیہ کی آزادی کے منافی عمل ہے، جج کی نگرانی سے احتساب عدالت کی کارروائی متاثر ہوگی۔ انہوں نے کہا پاناما لیکس کے مقدمے کے فیصلے کیخلاف نظرثانی درخواست کی سماعت کیلئے پانچ رکنی بینچ سے بڑا بینچ بنے تو یہ خلاف روایت نہیں۔
رشید اے رضوی نے حالیہ دنوں میں وکلا کی طرف سے اشتعال انگزیوں میں اضافہ سے متعلق سوال کے جواب میںکہا کہ تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی،گزشتہ کئی سال سے ججوںکے رویے کا بہت بڑا مسئلہ پیدا ہوگیا ہے جبکہ وکیلوں میں ایک طبقہ ایسا ہے جن میں تکبر اور اشتعال انگیزی کا عنصر پایا جاتا ہے۔انھوں نے کہا ججوں کے رویے اور وکیلوں کی اشتعال انگیزی سے انصاف کے نظام کو خطرہ لاحق ہوگیا ہے۔
پاکستان بارکونسل میں عاصمہ جہانگیر گروپ کے13ممبران میں بھی اختلاف رائے پایا جاتا ہے، چند ممبران فیصلہ پر تنقید جبکہ گروپ کے ممبران کی اکثریت پاناما لیکس کیس کے فیصلہ کی حمایت کر رہی ہے اور عاصمہ جہانگیر کی عدالتی فیصلہ پر تنقیدکیخلاف بات کی جارہی ہے۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر رشید اے رضوی نے کہا ہے کہ پاناما لیکس کے فیصلے میں خامیاں ہوسکتی ہیں لیکن یہ کہنا کہ فیصلہ سازش ہے یا کسی کے اشارے پر دیا درست نہیں ،پاکستان بارکونسل کے وائس چیئرمین محمد احسن بھون اورچیئرمین ایگزیکٹوکمیٹی حفیظ الرحمن نے جمعہ کوجاری بیان میں پاناما کیس کا فیصلہ آنیکے بعد سپریم کورٹ کیخلاف چلائی جانیوالی مہم پر تشویش کا اظہارکرتے ہوئے کہا ہے کہ سپریم کورٹ نے پاناما کیس میں تاریخی فیصلہ دیا کیونکہ سابق وزیراعظم نوازشریف اور ان کے خاندان کے افراد بھاری منی لانڈرنگ میں ملوث ہیں اور بیرون ملک قیمتی جائیدادیں خریدی ہیں۔
بیان کے مطابق کچھ لوگوں کی طرف سے نہ صرف ملک کی اعلیٰ ترین عدالت بلکہ مسلح افواج کیخلاف بھی تضحیک آمیز تحریک چلائی جا رہی ہے۔ ان دونوں بڑے اداروں نے ملکی تاریخ میں بڑا اہم کردار ادا کیا ہے۔ پاک افواج نہ صرف ملک کے اندر امن وامان کنٹرول کرنے میں معاونت کر رہی ہیں بلکہ غیر ملکی مداخلت کو بھی روک رہی ہیں اور ملک میں دہشت گردی کے ناسور سے بھی نبردآزما ہیں۔
اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ حکمران پارٹی کے ایما پرکچھ لوگ اداروں کیخلاف مہم چلا رہے ہیں جس پر مقصد پارٹی کے رہنماء کی طرف سے گزشتہ 35 سال میں غبن کی گئی اربوں روپے کی رقم کو چھپانا ہے۔
بیان کے مطابق تمام وکلاء برادری سپریم کورٹ کے اس تاریخی فیصلے کی سپورٹ کرتی ہے کیونکہ ملکی تاریخ میں پہلی بارکسی وزیراعظم کیخلاف ایسا فیصلہ آیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ سپریم کورٹ اور مسلح افواج کیخلاف کسی بھی مہم کا پوری قوت کیساتھ مقابلہ کیا جائیگا اور وکلا برادری عدلیہ کے تحفظ کیلیے کسی بھی نہج تک جائیگی۔
بارکے رکن قلب حسن نے کہا ہے کہ گروپ میں فیصلہ پر اختلاف جمہوری حسن ہے، ہر رکن کا الگ موقف ہوسکتا ہے۔یاد رہے کہ عاصمہ جہانگیر، یاسین آزاد ، کامران مرتضیٰ سمیت کچھ اراکین پاناما لیکس کے فیصلہ کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں جبکہ احسن بھون، حفیظ الرحمن، عابد ساقی، اخترامین ،علی ظفر سمیت اراکین کی اکثریت سپریم کورٹ کے فیصلہ کوسپورٹ کررہے ہیں۔ سپریم کورٹ بارمیں حامد خان گروپ کی اکثریت ہے اس لیے وہاں سے اس فیصلہ کو سپورٹ کیا جا رہا ہے۔
ادھر رشید اے رضوی نے میڈیاسے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ فیصلہ غلط ہے تو اسے چیلنج کیا جائے لیکن یہ نہ کہا جائے کہ فیصلہ کسی کے اشارے پر دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ شریف خاندان کیخلاف ریفرنسزکی نگرانی کیلئے سپریم کورٹ کے جج کو مقررکرنا عدلیہ کی آزادی کے منافی عمل ہے، جج کی نگرانی سے احتساب عدالت کی کارروائی متاثر ہوگی۔ انہوں نے کہا پاناما لیکس کے مقدمے کے فیصلے کیخلاف نظرثانی درخواست کی سماعت کیلئے پانچ رکنی بینچ سے بڑا بینچ بنے تو یہ خلاف روایت نہیں۔
رشید اے رضوی نے حالیہ دنوں میں وکلا کی طرف سے اشتعال انگزیوں میں اضافہ سے متعلق سوال کے جواب میںکہا کہ تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی،گزشتہ کئی سال سے ججوںکے رویے کا بہت بڑا مسئلہ پیدا ہوگیا ہے جبکہ وکیلوں میں ایک طبقہ ایسا ہے جن میں تکبر اور اشتعال انگیزی کا عنصر پایا جاتا ہے۔انھوں نے کہا ججوں کے رویے اور وکیلوں کی اشتعال انگیزی سے انصاف کے نظام کو خطرہ لاحق ہوگیا ہے۔