کشمیر کے ساتھ مذاق قوم برداشت نہیں کرے گی

اگر دانیال عزیز کو نوازنا ہے تو کوئی دوسراعہدہ دیجئے مگر کشمیر افئیرز کی وزارت سونپ کر قوم سے مذاق نہ کیجئے۔

بندر بانٹ کا اندازہ تو لگائیے ایک وزارت کے لیے ایک وفاقی وزیر اور ایک وزیر مملکت رکھا گیا ہے اور تین وزیر مملکت کے لیے ایک نگراں رکھا گیا ہے۔

پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں نچلے ترین درجے پر فرائض سر انجام دینے کے لیے اُس فرض سے متعلقہ قابلیت تو لازمی تصور کی جاتی ہے مگر اعلیٰ ترین کرسی پر براجمان ہونے کے لیے نہ ہی کسی قسم کی مہارت درکار ہے اور نہ ہی کوئی تجربہ درکار ہوتا ہے۔ پاکستان میں ایک چپڑاسی بھرتی کرنا ہو تو صف اول کے اخبارات میں بھرتی کا اشتہار شائع کروانا لازمی ہوتا ہے، مگر جب معاملہ ہو اعلیٰ کرسیوں پر تعیناتی کا تو اِس کے لئے وابستگیاں کام آتی ہیں۔ اگر یقین نہیں آئے تو نئے وزیراعظم کی نئی نویلی کابینہ پر نظر ڈال لیجیے میری بات بہت آسانی سے سمجھ آجائے گی۔

نئی کابینہ کی تشکیل کا حال کچھ ایسا ہے کہ یہاں اتنی اہلیت کو بھی مدِنظر نہیں رکھا گیا جتنی اہلیت ایک چپڑاسی کے لیے ضروری ہوتی ہے۔ اہلیت کو مدِنظر نہیں رکھا گیا لیکن وفاداریوں کا مکمل پاس رکھا گیا ہے۔ جس نے بھی پانامہ کیس کی سماعت کے دوران گلے پھاڑ پھاڑ کر سابق وزیراعظم نواز شریف اور اُن کے خاندان کا دفاع کیا تھا اُن سب کو اُن کا مکمل حق دیا گیا ہے، اور سچ بتائیے کہ ایک پارٹی ورکر کو بھلا اپنی پارٹی سے اور کیا چاہیے؟

نئی کابینہ میں ملنے والے قلمدان کے حوالے سے بھی لوگوں کو بہت غصے میں دیکھا کہ دفاع سنبھالنے والا خارجہ اور تجارتی معاملات دیکھنے والا بھلا دفاع کے معاملات کیسے دیکھ سکتا ہے؟ ایسے لوگوں کا غصہ اپنی جگہ ٹھیک، لیکن ہر معاملے میں منفی پہلو دیکھنے سے کام نہیں چل سکتا، میں اِس کو دوسری نظر سے دیکھتا ہوں۔

اگر دنیا بھر کی حکومتوں پر نظر ڈالی جائے تو وہاں جس فرد کی جو صلاحیت ہوتی ہے اُس کو بس وہی وزارت اور منصب دیا جاتا ہے، لیکن پاکستان کے وزیروں کی اہلیت اور صلاحیت تو ملاحظہ کیجیے کہ گزشتہ چار سال تک پلاننگ کمیشن اور ترقی و اصلاحات کے معاملات دیکھنے والے احسن اقبال اب وزارت داخلہ کے معاملات دیکھیں گے اور دفاع اور پانی و بجلی کی ذمہ داریاں ادا کرنے والے خواجہ آصف اب خارجہ کا محاذ سنبھالیں گے۔ یعنی آپ ان وزراء کی صلاحیت تو ملاحظہ کیجیے کہ یہ اتنے قابل ہیں کہ ملکی معاملات کے حوالے سے کوئی بھی ذمہ داری سونپ دی جائے، یہ گھبراتے اور ہچکچاتے نہیں، بلکہ فوری طور پر بغیر چوں و چراں کام کرنے پر راضی ہوجاتے ہیں۔

میرے نزدیک تو یہ اہلیت اور صلاحیت سے بھرپور ذمہ داری ہے، لیکن ہمارے کچھ دوست کہتے ہیں کہ بھائی یہ اہلیت اور صلاحیت کا معاملہ نہیں بلکہ ہاتھ آیا موقع ہے۔ آج ہم اپنی بات رہنے دیتے ہیں اور آپ کو اپنے دوستوں کی رائے بتاتے ہیں جو بہت غصے میں ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ چار سال جو احسن اقبال پلان بناتے رہے، جن اصلاحات پر کام کرتے رہے اچانک اُن سے ذمہ داری سے کیوں لی گئی؟ اگر تو وہ اچھا کام نہیں کررہے تھے تو پھر چار سال تک حکومت خاموش کیوں رہی؟ اور اگر خاموشی اِس لیے تھی کہ کام اچھا ہورہا ہے تو پھر اچانک احسن اقبال کو اُن کی ذمہ داری سے کیوں ہٹالیا گیا؟ کیونکہ چار سال جو انہوں نے کام کیا تھا نئے آنے والے وزیر کو یقیناً اُس کو سمجھنے کے لیے کچھ وقت درکار ہوگا، اور جب تک نیا وزیر یہ سب کام سمجھے گا تب تک تو حکومت کی معیاد ہی ختم ہوجائے گی۔

اِسی طرح خواجہ آصف چار سال وزیر پانی و بجلی اور وزیر دفاع رہے، اِس بات سے قطع نظر کہ انہوں نے بجلی کی لوڈشیڈنگ کتنی کم کی اور وہ کیسے وزیر دفاع تھے، لیکن اب جب وہ اِن وزارتوں کو مکمل طور پر سمجھ چکے تھے تو آخری دس مہینوں کے لیے اُن کی اپنی وزارت سے ہٹاکر کیونکر خارجہ کے معاملات تھمادیے گئے؟ اِسی طرح خرم دستگیر کی بات کی جائے تو انہیں وزیرِ دفاع بنادیا گیا۔ سچی بات تو یہی ہے کہ یہ جمہوریت نہیں بلکہ بادشاہت ہے کہ بادشاہ کا جب دل چاہا لوگوں کو نواز دیا، یہ دیکھے بغیر کہ کون کیا کام کرسکتا ہے۔ ارے بھائی اگر خواجہ آصف دفاع میں اور خرم دستگیر تجارت میں کامیاب نہیں تھے تو اُنہیں خارجہ اور دفاع اب کون سی گیدڑ سنگھی دیکھ کر دی گئی ہیں؟ اب اِن میں کون سی قابلیت آ گئی ہے جو پہلے نہیں تھی؟


ہمارے دوستوں کا ابھی غصہ ٹھنڈا نہیں ہوا، بلکہ وہ آگے بڑھ کر ہمیں کہنے لگے کہ بھیا بندر بانٹ کا اندازہ تو لگائیے ایک وزارت کے لیے ایک وفاقی وزیر اور ایک وزیر مملکت رکھا گیا ہے اور تین وزیر مملکت کے لیے ایک نگراں رکھا گیا ہے۔ آخر یہ تماشہ کس ملک میں ہوتا ہے؟ طلال چوہدری صاحب بہت محترم ہیں مگر اُن کے حامیوں سے بھی اتنی التجا ہے کہ اُن کی کوئی ایک قابلیت (سوائے نواز شریف صاحب کے حق میں بولنے کے) بتا دیجیے جس کی بنیاد پر اُنہیں وزیرِ مملکت برائے داخلہ کا قلمدان دیا گیا ہے؟ اور جو کل تک قصور وار ٹھہرائے گئے تھے اُن کے سب گناہ دُھل گئے یا پھر سیکیورٹی اداروں کو اشارہ دیا گیا ہے کہ ہماری جو مرضی آئے گی ہم وہی کریں گے۔ جی ہاں آپ ٹھیک سمجھے، یہاں مشاہد اللہ خان کی دوبارہ کابینہ میں واپسی کے حوالے سے ہی بات ہورہی تھی۔

یہاں تک تو ہمارے دوستوں کے غصے سے ہم اتفاق نہیں کرتے تھے کہ بھائی یہ تو عوامی حکومت ہے، عوام نے اِن کو مینڈیٹ دیا ہے، اب یہ جو چاہے وہ کریں، اگر عوام کو واقعی یہ سب بُرا لگ رہا ہے تو دس ماہ بعد وہ اپنا فیصلہ سنادیں کہ ہمیں آپ بالکل بھی اچھے نہیں لگے، اِس لیے اب کی بار حکمرانی کی ذمہ داری ہم کسی اور کو دے رہے ہیں۔

لیکن جب ہمارے دوستوں نے مسئلہ کشمیر سے حوالے سے بات کی تو ہاں اِس بار میں اُن کے بالکل حق میں ہوں۔ جناب معاملہ یہ ہے کہ کشمیر کا مسئلہ ہمیشہ سے ہی ہماری ہر حکومت کے لیے انہتائی سنجیدہ معاملہ رہا ہے، اور یہی وجہ ہے کہ اِس پر خاص توجہ دی جاتی رہی ہے لیکن موجودہ حکومت نے تو ساری کی ساری سنجیدگی کا تمسخر اُڑا کر رکھ دیا ہے۔ پہلے کشمیر کمیٹی کے لیے مولانا فضل الرحمان کو ذمہ داری دی گئی، چلیں اگر اُن کو نوازا بھی گیا ہے تو یہ اُمید کی جارہی تھی کہ مولانا سنجیدہ آدمی ہیں، اِس حوالے سے ضرور کچھ کریں گے، لیکن المیہ دیکھیے کہ کشمیر میں مسلسل معصوم لوگوں کو خون بہائے جانے کے باوجود مولانا کشمیریوں کے دفاع کے بجائے نواز شریف کا دفاع کیے جارہے ہیں۔ چلیے یہاں تو تک پھر بات سمجھ آتی تھی، لیکن نئی کابینہ میں کشمیر افئیرز کی ذمہ داری جب دانیال عزیز کو دی گئی تو دل خون کے آنسو رونے لگ گیا ہے۔

یہ کیسا المیہ ہے کہ کشمیری ابتداء سے آج تک پاکستان کے ساتھ شامل ہونے کے لیے ظالم بھارتی افواج کے سامنے کھڑے ہیں اور مسلسل شہادتیں پیش کررہے ہیں اور دوسری طرف ہم ہیں کہ سنجیدگی سے کشمیریوں کی یہ جدوجہد عالمی دنیا تک پہنچانے کے لیے وفاداریاں تبدیل کرنے والے دانیال عزیز کو یہ سنجیدہ ذمہ داری سونپ رہے ہیں۔

چونکہ دانیال عزیز نے اب تک اپنے عہدے کا حلف نہیں لیا، اِس لیے میری حکومت اور نئے وزیراعظم سے گزارش ہے کہ کچھ تو ہوش کے ناخن لیں، کشمیر پاکستان کی شہہ رگ ہے اور اِس موقف سے پاکستانی ایک قدم بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہیں، اِس لیے اپنے فیصلے پر نظرِ ثانی کریں اور کشمیریوں کے زخموں پر نمک پاشی کے بجائے سنجیدہ لوگوں کو یہ ذمہ داری دیں۔ اگر دانیال عزیز کو نوازنا ہی مقصود ہے تو کسی اور عہدے پر نوازیے لیکن کشمیر کے ساتھ یہ مذاق قوم برداشت نہیں کرے گی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے

اگر آپ بھی ہمارے لیے بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریراپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک و ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کیساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اور ویڈیو لنکس بھی
Load Next Story