عظیم سرجن محمد علی شاہ
آرتھو پیڈک سرجری پر ڈاکٹر محمد علی شاہ کے تحقیقی مقالات کی تعداد بھی کچھ کم نہیں ہے۔
ساقیا یاں لگ رہا ہے چل چلاؤ
گئے سال کے اختتام اور نئے سال کے آغاز سے چل چلاؤ کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا وہ ختم ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا۔ گذشتہ جمعرات کو ڈاکٹر محمد علی شاہ بھی شہر کراچی میں آسودہ خاک ہوگئے۔ اُف۔۔۔۔!
زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے
کینسر کے موذی مرض نے مسیحا کو بھی نہ بخشا۔ کیا عجب اتفاق ہے کہ ان کی رحلت کا سانحہ ٹھیک اس روز رونما ہوا جس دن کینسر کا عالمی دن منایا جارہا تھا۔شاہ صاحب جنھیں مرحوم کہتے ہوئے کلیجہ منہ کو آرہا ہے، ہمہ جہت اور ہمہ صفت انسان اور پہلودار شخصیت کے مالک نابغہ روزگار تھے، وہ آرتھو پیڈک سرجری اور کھیلوں کی دنیا کے بے تاج بادشاہ تھے، جنہوں نے وطن عزیز کا نام پوری دنیا میں روشن کیا۔ ان کی وفات سے کراچی ہی نہیں پورے پاکستان پر اداسی کے بادل چھا گئے، گویا:
اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا
ڈاکٹری ان کا پروفیشن اور کھیل ان کا Passion تھا، مگر کرکٹ سے ان کا عشق انھیں ایک دائمی مرض کی صورت میں بچپن سے ہی لاحق تھا جس نے ان کا ساتھ آخری سانس تک نہ چھوڑا، بہ قول شاعر:
چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی
شنید ہے کہ کرکٹ کا جنون انھیں زمانہ طالب علمی میں ایک مرتبہ کمرہ امتحان سے بھی اٹھالایا تھا، ہم چونکہ بذات خود اپنی طالب علمی کے زمانے میں مرض کرکٹ میں مبتلا رہتے ہوئے اس طرح کی حرکات کے مرتکب ہوچکے ہیں لہٰذا ہم شاہ صاحب کی اس مزاجی کیفیت کو بخوبی سمجھ سکتے ہیں۔ واقعی کسی نے خوب کہا ہے کہ ''گھائل کی گت گھائل جانے''۔
ڈاکٹر شاہ سے ہمارے تعارف کا سبب بھی کرکٹ ہی ہے۔ جہاں تک ہمیں یاد ہے 1993 کی بات ہے جب سری لنکا کی کرکٹ ٹیم کے دورے کا موقع تھا۔ ڈاکٹر صاحب کی خواہش تھی کہ وہ ریڈیو پر انگلش کمنٹری کرکے بھی اپنی صلاحیت کے جوہر دکھائیں۔ اس سلسلے میں کرکٹ کے معروف کمنٹیٹر اور میزبان مرزا اقبال بیگ ہمارے درمیان رابطے کی کڑی بنے۔ ان دنوں ہم ریڈیو پاکستان کے کراچی اسٹیشن سے وابستہ تھے، یوں ہمیں ڈاکٹر صاحب سے شرف ملاقات حاصل ہوا اور اس تعلق کو انھوں نے انتہائی محبت اور وضع داری سے ہمیشہ نبھایا۔
کوئی بھی شخص خواہ اپنے پیشے اور منصب کے اعتبار سے کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو، اگر اچھا انسان نہ ہو تو کوئی قابل ذکر بات نہیں ہے۔
شاہ صاحب کی سب سے بڑی اور نمایاں خوبی ان کی انسان دوستی اور وضع داری تھی، ہمارا مشاہدہ ہے کہ عام طور پر لوگ عظمت اور شہرت کی بلندیوں پر پہنچ کر پرانے ساتھیوں کو بھول جاتے ہیں، مگر ڈاکٹر شاہ کا معاملہ اس کے برعکس تھا۔ اس کی کئی مثالیں ہمارے ذہن میں آج بھی تازہ ہیں، ایک مرتبہ اپنی اہلیہ کے علاج کے سلسلے میں ہمیں ڈاکٹر صاحب سے رجوع کرنے کی ضرورت پیش آئی، ان کی شدید مصروفیات کے پیش نظر ان سے ملاقات بظاہر آسان نہیں تھی، لیکن ہماری حیرت کی اس وقت انتہا نہ رہی جب ہمیں بلاتامل اور بلاعذروتاخیر ان سے Appointment مل گیا۔ وقت مقررہ پر جب ہم اپنی اہلیہ کے ہمراہ اے۔او کلینک پہنچے تو ڈاکٹر صاحب سراپا انتظار تھے۔ نہ صرف انھوں نے ہماری اہلیہ کا پوری توجہ اور اطمینان کے ساتھ معائنہ کیا بلکہ کوئی فیس لینے کے بجائے الٹی ہماری خاطر تواضع بھی کی اور ہمیں یہ احساس بھی نہیں ہونے دیا کہ وہ اتنے مصروف آدمی ہیں۔
اسی طرح کا ایک اور تجربہ ہمیں اس وقت ہوا جب ہم اپنے ایک انتہائی قریبی عزیز کو ان کے کلینک پر لے کرگئے جن کی سال ڈیڑھ سال کی بیٹی کے پاؤں پیدائشی طور پر ٹیڑھے تھے، معاملہ بڑا گمبھیر تھا اور ہمارے یہ عزیز بہت زیادہ پریشان تھے کیونکہ مسئلہ یہ تھا کہ بچی بڑی ہوکر سہارے کے بغیر چل نہ سکے گی۔ بہ الفاظ دیگر یہ تاحیات معذوری کا سنگین مسئلہ تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے حسب روایت ہمیں اولین فرصت میں appointment دے دیا اور بغور ننھی مریضہ کا معائنہ کرنے کے بعد آپریشن کی تاریخ بھی دے دی۔ ڈاکٹر صاحب نے اس بچی کا ایسا کامیاب آپریشن کیا کہ کوئی یہ گمان بھی نہیں کرسکتا کہ کبھی اس کے پیر ٹیڑھے بھی رہے ہوں گے۔
ان کی یہ خدمت صدقہ جاریہ سے کم نہیں، کیونکہ آرتھو پیڈک سرجن تو اور بہت سے ہیں لیکن شاہ صاحب والی بات بھلا اور کسی میں کہاں۔
یہ غیر معمولی قوت مسیحائی انھیں اللہ تعالیٰ ہی نے بخشی تھی۔ تب ہی تو وطن عزیز کے علاوہ دنیا کے گوشے گوشے سے مایوس مریض ان کے پاس علاج کے لیے آتے تھے اور مکمل شفایابی حاصل کرنے کے بعد انھیں دعائیں دیتے ہوئے واپس جایا کرتے تھے۔ ان سے شفایاب ہونے والے مریضوں میں پاکستان کے علاوہ متحدہ عرب امارات، افغانستان، ایران اور بنگلہ دیش کے لوگ بھی شامل ہیں۔ ان کے فیضیاب مریضوں کی تعداد لاکھوں افراد پر مشتمل ہے۔ انھوں نے لگ بھگ 43,000 کامیاب آپریشن کیے جس کی بناء پر ان کا نام گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈز میں شامل ہے جوکہ محض ان کے لیے ہی نہیں بلکہ وطن عزیز پاکستان کے لیے بھی ایک بہت بڑا اعزاز ہے۔ آرتھو پیڈک سرجری پر ان کے تحقیقی مقالات کی تعداد بھی کچھ کم نہیں ہے۔ ہم نے ڈاکٹر شاہ صاحب جیسے متحرک انسان بہت کم دیکھے ہیں۔
سرجری جیسے وقت طلب اور دقت طلب شعبے کے علاوہ کرکٹ اور دیگر کھیلوں کے لیے بھی ان کی خدمات کچھ کم گراں قدر نہ تھیں۔ سچ پوچھیے تو انھوں نے کھیلوں اور کھلاڑیوں کے لیے اپنی زندگی تک وقف کردی تھی۔ چنانچہ ان کے سانحہ ارتحال سے نہ صرف کھیل کے میدان میں صف ماتم بچھ گئی بلکہ کھیلوں کی دنیا ہی اجڑ گئی ہے، کون ہے جو ان کی وفات پر ملول اور غمزدہ نہیں ؟ ان کے سوا کوئی اور شخص ایسا نہیں ہے جس نے اس طرح تن من دھن سے کھیلوں اور کھلاڑیوں کی ایسی خدمت کی ہو۔ ان کی خدمات کے اعتراف میں اگر انھیں تمغۂ امتیاز اور ستارۂ امتیاز دیا گیا تو یہ ان تمغوں کے لیے باعث امتیاز ہے۔ اگر انھیں وزارت و مشاورت کھیل کے قلمدان سونپے گئے تو یہ ان قلمدانوں کے لیے اعزازات کی بات ہے۔ کھیلوں اور کھلاڑیوں کا ایسا مخلص اور بے لوث خادم اب مشکل سے ہی پیدا ہوگا۔ بے شک ان کی وفات سے جو خلاء پیدا ہوگیا ہے وہ اب کبھی پر نہیں ہوگا کیونکہ کھیلوں کے فروغ کے لیے نہ کوئی اتنے وسائل مہیا کرسکتا ہے اور نہ اتنی تگ و دو کرسکتا ہے۔ ڈاکٹر محمد علی شاہ تو اس دار فانی سے ہمیشہ کے لیے کوچ کرگئے، لیکن اپنے پیچھے ایک بہت بڑا سوالیہ نشان چھوڑ گئے کہ ان کے ناتمام کھیلوں کے منصوبوں کا آئندہ کیا ہوگا؟
ہم مزاجاً اور فطرتاً ایک مردہ پرست قوم ہیں۔ ہم جیتے جی کسی کی عظمت کا اعتراف بہت کم اور بڑی مشکل سے کرتے ہیں، لیکن ڈاکٹر محمدعلی شاہ کا معاملہ اس سے مختلف ہے۔ وہ ان خوش نصیبوں میں شامل ہیں جن کی خدمات کا اعتراف ان کی زندگی میں ہی کرلیاگیا، مگر اس کا کریڈٹ بھی خود ان ہی کی ذات کو جاتا ہے کیونکہ انھوں نے اپنی عظمت کا لوہا اپنی زندگی میں ہی اپنی بے مثال خدمات کے ذریعے منوالیا تھا۔
ڈاکٹر صاحب کی زندگی پر دو قابل ذکر کتابیں ''عظیم کامیابیوں کا سفر'' اور ''The Legend Unfoldsـ'' کے عنوان سے تحریر کی گئی ہیں جو ان کی ہمہ گیر شخصیت پر روشنی ڈالتی ہیں۔ ڈاکٹر شاہ نے اپنی انتھک محنت اور خداداد صلاحیت سے یہ ثابت کردیا کہ ایک عام سے پیلے اسکول کا پڑھا ہوا طالب علم بھی اپنے ملک و قوم کا نام پوری دنیا میں روشن کرسکتا ہے۔ ان کی بے مثل کامیابی میں ان کی ماں کی دعاؤں کا بھی بہت بڑا ہاتھ تھا جن کا ذکر وہ اکثر و بیشتر نہایت جذباتی انداز میں کیا کرتے تھے اور نہایت فخر سے کہا کرتے تھے کہ میری ساری کامیابیاں میری والدہ کی دعاؤں کا ثمر ہیں۔ اپنے والد سے والہانہ لگاؤ کی بناء پر انھوں نے نہ صرف عالمی سطح کے کرکٹ گراؤنڈ کا نام اصغر علی شاہ اسٹیڈیم رکھا بلکہ اپنے اسپتال میں ایک بیڈ بھی اپنے والد بزرگوار کے نام وقف کردیا، بے شک! باادب بانصیب۔ اپنے بے مثل باپ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے شاہ صاحب کے دو لائق وفائق فرزند ڈاکٹر جنید اور عمران اپنے خاندان کا نام روشن کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ڈاکٹر شاہ کی مغفرت اور درجات بلند کرے اور لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے، آمین!