دریا کے پار
اپنا ٹارگٹ حاصل کرنے کے لیے کھلاڑیوں نے بڑے پاپڑ بیلے اور سازشی تھیوریوں کے کئی افسانے لکھے۔
ملک کے جمہوریت پسند اور سنجیدہ و باشعور سیاسی حلقوں کے لیے یہ امر یقینا خوش آئند ہے کہ قومی سیاسی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک مکمل جمہوری حکومت اپنی پانچ سالہ آئینی مدت پوری کرنے کے قریب تر ہے۔ گزشتہ پانچ سالوں کے دوران پیپلز پارٹی کی حکومتی کو سیکڑوں مسائل ، مشکلات، آزمائشوں، امتحانوں اور چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا۔ مخالف قوتوں کی سرتوڑ کوششیں تھیں کہ کسی طرح جمہوریت کی بساط لپیٹ دی جائے اور ملک ایک بار پھر آمریت کی بھینٹ چڑھ جائے یا کم ازکم کسی گیم پلان کے ذریعے پیپلزپارٹی کو اقتدار کے ایوانوں سے نکلنے پر مجبور کردیا جائے۔
اپنے ٹارگٹ کو حاصل کرنے کے لیے پس پردہ موجود کھلاڑیوں نے بڑے پاپڑ بیلے اور سازشی تھیوریوں کے کئی افسانے لکھے، ساتھ ہی حکومت کے خاتمے کی پیشن گوئیاں بھی کی جاتی رہیں، بالخصوص ہر بڑے ایشو کے سامنے آنے کے بعد نئی کہانی کا خاکہ بڑے طمطراق کے ساتھ تیار کیا جاتا، جس میں اپنی بے چین خواہشات کے رنگ بھر دیئے جاتے اور نشانہ براہ راست صدر کی ذات ہوتی۔ پھر ''گرمی بازار'' میں اضافے کے لیے ایوان صدر سے ان کی رخصتی کی ''ڈیڈلائن'' دے دی جاتی۔ آخر کار ڈیڈ لائنیں ڈیڈ ہوتی رہیں، سازشوں کی قلعی کھلتی گئی اور پیپلز پارٹی کی حکومت اپنی اتحادی جماعتوں اے این پی، ایم کیو ایم اور (ن) لیگ کے بھرپور تعاون کے ساتھ مشکل ترین صورت حال کا مقابلہ کرتے ہوئے یہاں تک آپہنچی۔ صدر آصف علی زرداری کو مفاہمتی پالیسی کے باعث اپنے اتحادیوں کے ساتھ نشیب و فراز کے کئی مراحل طے کرنے کے بعد آج بھی ان کا تعاون اور اعتماد حاصل ہے۔
اگرچہ حکومت کو اپنی آئینی مدت پوری کرنے میں صرف 5/4 ہفتے ہی باقی ہیں، البتہ صدر آصف علی زرداری سال رواں کے اواخر تک صدر رہیں گے، تاہم حکومت کو آج بھی متعدد مسائل، مشکلات اور چیلنجز کا سامنا ہے۔ عدالتی و سیاسی ہر دو محاذ پر حکمراں جماعت کے لیے 16 مارچ تک کی آئینی مدت پوری کرنا کڑا امتحان نظر آرہا ہے۔ سوئس حکام کو خط لکھنے کے حوالے سے توہین عدالت کیس میں ایک وزیر اعظم یوسف رضاگیلانی کی قربانی دینے کے بعد راجہ پرویز اشرف کے وزیر اعظم بننے سے یہ معاملہ حل ہوگیا تو یہ امید بندھی کہ اب راجہ صاحب کی قیادت میں حکومت اپنی باقی ماندہ مدت باآسانی پوری کرلے گی، لیکن آزمائشوں کا سلسلہ اب بھی جاری ہے، صورت حال خاصی پیچیدہ اورغیر واضح ہے۔
اوگرا عمل درآمد کیس میں چیئرمین اوگرا جناب توقیر صادق کے بیرون ملک جانے کے حوالے سے وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف، پیپلزپارٹی کے سیکریٹری جنرل جہانگیر بدر اور وزیر داخلہ رحمن ملک کو اپنے خلاف امکانی ریفرنس کا سامنا ہے۔ توقیر صادق کی بطور چیئرمین تقرری کا کیس بھی علیحدہ سے زیر سماعت ہے جس میں وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کو ان کی تقرری کرنے پر الزامات کا سامنا ہے۔ رینٹل پاور کیس بھی وزیر اعظم کے پاؤں کی زنجیر بنا ہوا ہے اس حوالے سے نیب کے تفتیشی افسر کامران فیصل کی موت نے صورت حال کو مزید گھمبیر اور سنجیدہ بنا دیا ہے اس پہ مستزاد چیئرمین نیب ایڈمرل (ر) فصیح بخاری صاحب کا وہ خط ہے جو انھوں نے صدر آصف علی زرداری کو لکھا ہے جس میں حساس نوعیت کے سوالات اٹھائے گئے ہیں اس ضمن میں چیئرمین نیب فصیح بخاری کو توہین عدالت کیس کا سامنا ہے۔ عدالت عظمیٰ میں میموگیٹ اسکینڈل کی سماعت بھی شروع ہونے والی ہے، بعض اور کیس بھی جو عدالت کے روبرو زیرسماعت ہیں حکومت کے لیے مشکلات کا سبب بن سکتے ہیں۔
پیپلز پارٹی کو اپنے آغاز سے آج تک سنگین چیلنجز اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ماضی کے آمرانہ دور میں پارٹی کے اکابر رہنماؤں کو ہراساں کرنے اور انھیں سیاسی انتقام کا نشانہ بنانے کے لیے جھوٹے، بے بنیاد اور من گھڑت مقدمات ان کے پاؤں کی زنجیر بنا دیے گئے، کوڑے، جیلیں، جلاوطنی اور شہادتیںان کا مقدر ٹھہریں، قربانیوں کو نظر انداز کردیا گیا، اناؤں کی تسکین کے لیے جھوٹے افسانے تراشے گئے، ملک کو ایٹمی قوت بنانے والے پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کو تختہ دار تک پہنچا دیا گیا۔
محترمہ بے نظیر بھٹو دہشت گردی کا نشانہ بن گئیں، صدر آصف علی زرداری کے کئی سال جیلوں کی تنگ و تاریک کوٹھریوں کی نذر ہوگئے۔ پیپلز پارٹی کے اکابر رہنماؤں کے خلاف منفی ہتھکنڈوں اور بے بنیاد پروپیگنڈوں کے باوجود مخالف قوتیں عوام اور پارٹی کے درمیان فاصلے پیدا کرنے میں ناکام رہیں۔ ہزارہا الزامات اور سازشوں کے باوجود جمہوریت اور سیاست پر یقین اور اسے اپنی منزل سمجھنے والے کروڑوں عوام آج بھی کسی آمر، مولانا یا علامہ کی آواز پر نہیں بلکہ گڑھی خدا بخش میں آسودۂ خواب شہداء کے نام پر ووٹ دیتے ہیں یہی وجہ ہے 8 سالہ آمریت کے بعد جب جمہوریت کا سورج طلوع ہوا تو ایک مرتبہ پھر عوام نے پی پی پی کو اقتدار کے ایوانوں میں پہنچا دیا، لیکن وہی روایتی مشکلیں پیپلز پارٹی کا پیچھا کر رہی ہیں اور حکومت کے آخری دنوں میں بھی ریلیکس ہونے کی بجائے نئی آزمائشوں اور امتحانوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ بقول منیر نیازی کے:
ایک اور دریا کا سامنا تھا مجھے منیر
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا
سیاسی محاذ کے ساتھ ساتھ دیگر محاذ پر بھی پیپلز پارٹی کی مشکلات کا دور ابھی ختم نہیں ہوا ۔ ملک کے طول و ارض بالخصوص کوئٹہ، پشاور اور کراچی میں امن کا قیام سنگین چیلنج ہے۔ بلوچستان میں گورنر راج پر پارٹی کے اپنے وزیر اعلیٰ ناراض ہیں تو ادھر کراچی میں گھر گھر ووٹروں کی تصدیق اور حلقہ بندیوں پر اہم اتحادی جماعت ایم کیوایم کی ناراضگی بھی ایک امتحان ہے۔ بقیہ نگران حکومتوں کے قیام کا مسئلہ بالخصوص مرکزی سطح پر ایک ایسے وزیر اعظم کی نامزدگی جس پر اپوزیشن و پارلیمنٹ سے باہر کی تمام جماعتوں کو مکمل اعتماد ہو، ایسا اتفاق رائے حاصل کرنا بلاشبہ جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔
اسی طرح صوبوں میں وزرائے اعلیٰ کی نامزدگی پر اپوزیشن کی آمادگی بھی آسان کام نہیں ، بعض جماعتوں کو الیکشن کمیشن کی تشکیل پر بھی اعتراضات ہیں، ان کی شکایات کا ازالہ الگ درد سر ہے۔ ہرچند کہ اس حوالے سے آئین کے تمام تقاضے مکمل ہیں لیکن مولانا طاہر القادری الیکشن کمیشن کی تشکیل نو کے لیے اپنے تمام گھوڑے کھولنے پر کمربستہ ہیں۔ بہاولپور جنوبی پنجاب صوبے کے قیام کے حوالے سے حکومتی تیاریاں مکمل ہیں لیکن (ن) لیگ پنجاب میں نئے صوبے کے قیام کے لیے اپنا الگ موقف رکھتی ہے ۔
اگرچہ شفاف آزادانہ و منصفانہ انتخابات حکومت کی اولین ترجیح ہے ، لیکن ساتھ ہی الیکشن کے التوا اور تین سال کے لیے بنگلہ دیش ماڈل نگران حکومت کے حامیوں کی سرگرمیاں بھی عروج پر ہیں، پس پردہ کہیں مائنس ون اور مائنس ٹو کی بازگشت بھی سنائی دے رہی ہے۔ ایسے ہمہ گیر چیلنجز کے باوجود صدر زرداری اپنی فطری صلاحیتوں اور سیاسی بصیرت کو بروئے کار لاکے طلاطم خیز طوفانوں کا پامردی سے مقابلہ کر رہے ہیں وہ پوری سنجیدگی کے ساتھ ملک کو عام انتخابات کی جانب لے جانا چاہتے ہیں، رکاوٹوں کو عبور کرنا اور مشکلات کے ہر ''دریا کے پار'' اترنے کا ہنر انھیں آتا ہے، جس کا اعتراف ان کے مخالفین بھی کرتے ہیں۔