بارہ فروری پاکستانی خواتین کا دن
حبیب جالب نے بھی 12 فروری 1983کو لاہور میں عورتوں کے ساتھ احتجاجی جلوس میں پولیس کے ڈنڈے کھائے تھے۔
1983 کا ذکر ہے۔ تاریخ بارہ فروری تھی، لاہور میں دفعہ 144 لگی ہوئی تھی، لیکن عورتوں نے اس کی خلاف ورزی کرتے ہوئے لاہور ہائی کورٹ تک ایک جلوس نکالا۔اس جلوس میں خواتین محاذ عمل (WAF) نے ضیاء الحق کے خواتین کی آدھی گواہی والے قانون کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے شرکت کی تھی۔یہ جلوس مارشل لاء کے خلاف نکلنے والے عورتوں کا پہلا جلوس تھا۔پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ پولیس نے عورتوں پرآنسو گیس اورلاٹھی چارج کا استعمال کیا تھا، بہت سی خواتین زخمی ہوئیں اور پچاس کو گرفتار کرلیا گیا۔ ان بہادر عورتوں پر پولیس کے لاٹھی چارج کی تصاویر بہت سے شہروں میں دیواروں پر چسپاں کی گئیں، عورتوں کے حقوق کے مسائل قومی منظر پر ابھر کے سامنے آئے اور آمریت اور اس کے مسلط کردہ امتیازی قوانین کے خلاف عورتوں کی تحریک جس کا آغاز 1981 میں خواتین محاذ عمل کے قیام کی شکل میں ہوگیا تھا، زور پکڑنے لگی۔ بعدازاں 12 فروری کو پاکستانی عورتوں کے قومی دن کے طور پر منایا جانے لگا۔
عورتوں کے حقوق کی جدوجہد کے نتیجے میں ایسے بہت سے نام سامنے آئے جن پر پاکستانی قوم بجاطور پر فخر کرسکتی ہے۔ مثال کے طور پر کارلاخان جنھوں نے اسکواش کے کھیل میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ 2005 میں انھوں نے اس وقت کے نمبر ایک کھلاڑی نکول ڈیوڈ کو ہرایا۔ 2006 میں کمر کی شدید چوٹ کے باعث ڈاکٹرز نے انھیں اس کھیل کو خیرباد کہنے کا مشورہ دیا، لیکن انھوں نے 2007 میں ایرانی اوپن اور آسٹرین اوپن مقابلے جیت کر دکھائے۔ یوں ان کا شمار دنیا کے چالیس ممتاز ترین کھلاڑیوں میں ہونے لگا۔ وہ 2008 میں ریٹائر ہوگئیں، لیکن آج بھی وہ پاکستانی عورتوں کے لیے رول ماڈل کی حیثیت رکھتی ہیں۔
نسیم حمید نے 2010 میں بنگلہ دیش، ڈھاکا میں جنوبی ایشیائی فیڈریشن گیمز (SAF گیمز) میں تیز رفتاری کے سارے ریکارڈ توڑ ڈالے اور جنوبی ایشیا کی تیز ترین خاتون ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔ انھوں نے صرف رفتار اور برداشت کے ریکارڈ نہیں توڑے تھے بلکہ غربت اور پیشہ ورانہ تربیت کے فقدان کی رکاوٹوں کو بھی عبور کیا تھا۔ وہ پاکستان کی پہلی خاتون ایتھلیٹ ہیں جنھوں نے سیف گیمز میں100 میٹر کی دوڑ میں طلائی تمغہ حاصل کیا۔
ثنا میر پاکستان کی خواتین کرکٹ ٹیم کی کپتان ہیں، ان کا شمار دنیا کے بیس بہترین باؤلرز میں ہوتا ہے۔ خیبرپختونخوا جیسے روایت پسند علاقے سے تعلق رکھنے کے باوجود انھوں نے ایک ایسے کھیل میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا جسے صرف مردوں کاکھیل سمجھا جاتا ہے۔2008 کے ویمن کرکٹ ورلڈ کپ میں انھیں پلیئر آف دی ٹورنامنٹ کا اعزاز حاصل ہوا۔ ان کی قیادت میں پاکستانی ٹیم نے T20 اور سری لنکا 2011 سیریز میں کامیابیاں حاصل کیں۔
شازیہ سکندر پاکستان کی ممتاز منی ایچر آرٹسٹ ہیں اور کئی بین الاقوامی نمائشوں میں پاکستان کی نمائندگی کرچکی ہیں اور منی ایچر کے علاوہ پینٹنگ، ڈرائنگ، اینیمیشن اور فلم میکنگ میں بھی مہارت رکھتی ہیں۔ 2006 میں انھیں میک آرتھر فیلوز پروگرام کے لیے گرانٹ ملی اور اس کے بعد دنیا کی ہر ممتاز گیلری میں ان کے فن پاروں کی نمائش ہوچکی ہے۔ انھوں نے صنف، مذہب اور دہشت گردی کو بھی اپنے فن پاروں کا موضوع بنایا ہے۔
ماریا طورپا کے نے انتہائی قدامت پسند ماحول میں آنکھ کھولنے کے باوجود اسکواش کے کھیل کو اپنایا، اسے اپنے والد کا مکمل تعاون حاصل رہا اور طالبان کے زیر اثر علاقے وزیرستان سے تعلق رکھنے کے باوجود اس نے ناممکن کو ممکن کردکھایا، خواہ اس کے لیے اسے لڑکوں والا لباس پہننا پڑا اور خواہ کورٹ کی بجائے اپنے گھر میں پریکٹس کرنی پڑی۔اس کی مستقل مزاجی نے اسے کامیابی اور شہرت عطا کی، ممتاز کھلاڑی جوناتھن پاور کو جب اس کی شہرت اور حالات کے بارے میں پتہ چلا تو انھوں نے اسے اپنی سرپرستی میں لے لیا اور کینیڈا میں اسے تربیت فراہم کی۔ یوں اس کے لیے مستقبل میں کامیابی اور کامرانی کے دروازے کھل گئے۔
مہرین جبار مایہ ناز ہدایت کار اور فلم ساز، ان کی فلمیں دنیا کے مشہور فلمی میلوں میں خواہ وہ ہانگ کانگ فلم فیسٹیول ہو یا سان فرانسسکو ایشین امریکن فلم فیسٹیول یا لیڈز فلم فیسٹیول ہو، ہر جگہ نقادوں اور ناظرین نے ان کی فلموں کو سراہا ہے۔ مختصر فلموں، طویل دورانیے کے ڈراموں اور سیریلز میں وہ پاکستانی عورتوں اور ان کے مسائل کو اپنا موضوع بناتی ہیں۔ ان کی فلم ''رام چند پاکستانی'' نے بہت سے فلمی ایوارڈز جیتے ہیں۔
شرمین عبید چنائے نے آسکر ایوارڈ حاصل کرکے پاکستان میں ایک نئی تاریخ رقم کی، وہ یہ ایوارڈ حاصل کرنے والی پہلی پاکستانی خاتون ہیں۔ اس سے پہلے 2010 میں اپنی دستاویزی فلم پاکستان کی طالبان نسل پر بین الاقوامی ایوارڈ مل چکا ہے۔
انوشکا کچیلو نے 24 سال کی عمر میں شمالی قطب کی مہم سر کرکے دنیا کی سب سے کم عمر خاتون اور پہلی پاکستانی خاتون ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔ یہ پرخطر مہم سر کرنے کا ایک مقصد چلڈرن آرٹ فاؤنڈیشن کے لیے فنڈز جمع کرنا بھی تھا۔
راحیلہ گل: اکتوبر 2005 کے زلزلے میں ہزاروں افراد لقمہ اجل بن گئے، ان میں سے ایک راحیلہ گل بھی تھی جو ستاروں کو چھولینے کی آرزو رکھتی تھی۔ اس نے چار سو کلو میٹر طویل صحرائے تھر عبور کیا اور K-2 اور نانگا پربت جیسی بلندوبالا چوٹیاں بھی سر کرنے کی کوشش کی۔ اس نے پنجاب یونیورسٹی سے موسیقی اور صحافت میں گریجویشن کیا اور لندن اسکول آف مینجمنٹ سے ترپول اور ٹورازم میں ڈپلومہ لیا اور جنیوا سے بھی انٹرنیشنل ٹریول کا ڈپلومہ لیا۔ وہ ایک سند یافتہ آئی ٹی پروفیشنل بھی تھی۔ اس کے علاوہ اس نے ہائیکنگ، چٹانوں پر چڑھنے اور پیراشوٹ سے چھلانگ لگانے کی تربیت بھی حاصل کی تھی۔ افسوس کہ یہ ہونہار خاتون زلزلے کی نذر ہوگئی۔
نمیرہ سلیم کو پاکستان کی پہلی خلاباز خاتون ہونے کا اعزاز حاصل ہے، وہ ایورسٹ سے اسکائی ڈائیو کرنے والی پہلی ایشیائی خاتون ہیں۔ 2007 میں انھوں نے شمالی قطب پر اور 2008 میں جنوبی قطب پر امن کا جھنڈا لہرایا۔ انھیں کھیلوں میں اعلیٰ کارکردگی دکھانے پر تمغہ امتیاز مل چکا ہے۔
سائرہ امین پہلی خاتون پائلٹ ہیں جنھیں ڈیفنس اکیڈمی آف پاکستان نے اعزازی تلوار سے نوازا۔
نرگس ماولوالا MIT پروفیسر ہیں۔ وہ کوانٹم آسٹرو فزیسٹ Astro Physicist ہیں۔ انھیں میک آرتھر فیلو شپ ملی، انھوں نے کائنات کے ابتدائی لمحات اور ستاروں کے ٹکرانے سے پیدا ہونے والی کشش ثقل کی لہروں پر تحقیق کی ہے۔اور پھر حنا ربانی کھر ہیں جنھیں پاکستان کی پہلی خاتون وزیر خارجہ ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ (بشکریہ کاربونیٹڈ ٹی وی) فہمیدہ مرزا ہیں جنھیں پہلی پاکستانی خاتون اسپیکر ہونے کا اعزاز حاصل ہے، پاکستانی خواتین کے قومی دن کے موقعے پر ہمیں متذکرہ بالا اور ان دیگر بہت سی خواتین کو یاد کرنا چاہیے جو کھیتوں میں، گھروں میں اور فیکٹریوں اور دفاتر میں کام کرکے پاکستان کی ترقی میں اپنا کردار ادا کر رہی ہیں۔ ہمیں ان سب پر فخر ہے، یہ دن مناتے ہوئے ہمیں حبیب جالب کو بھی یاد رکھنا چاہیے جنھوں نے 12 فروری 1983کو لاہور میں عورتوں کے ساتھ احتجاجی جلوس میں شرکت کی تھی اور پولیس کے ڈنڈے کھائے تھے۔
عورتوں کے حقوق کی جدوجہد کے نتیجے میں ایسے بہت سے نام سامنے آئے جن پر پاکستانی قوم بجاطور پر فخر کرسکتی ہے۔ مثال کے طور پر کارلاخان جنھوں نے اسکواش کے کھیل میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ 2005 میں انھوں نے اس وقت کے نمبر ایک کھلاڑی نکول ڈیوڈ کو ہرایا۔ 2006 میں کمر کی شدید چوٹ کے باعث ڈاکٹرز نے انھیں اس کھیل کو خیرباد کہنے کا مشورہ دیا، لیکن انھوں نے 2007 میں ایرانی اوپن اور آسٹرین اوپن مقابلے جیت کر دکھائے۔ یوں ان کا شمار دنیا کے چالیس ممتاز ترین کھلاڑیوں میں ہونے لگا۔ وہ 2008 میں ریٹائر ہوگئیں، لیکن آج بھی وہ پاکستانی عورتوں کے لیے رول ماڈل کی حیثیت رکھتی ہیں۔
نسیم حمید نے 2010 میں بنگلہ دیش، ڈھاکا میں جنوبی ایشیائی فیڈریشن گیمز (SAF گیمز) میں تیز رفتاری کے سارے ریکارڈ توڑ ڈالے اور جنوبی ایشیا کی تیز ترین خاتون ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔ انھوں نے صرف رفتار اور برداشت کے ریکارڈ نہیں توڑے تھے بلکہ غربت اور پیشہ ورانہ تربیت کے فقدان کی رکاوٹوں کو بھی عبور کیا تھا۔ وہ پاکستان کی پہلی خاتون ایتھلیٹ ہیں جنھوں نے سیف گیمز میں100 میٹر کی دوڑ میں طلائی تمغہ حاصل کیا۔
ثنا میر پاکستان کی خواتین کرکٹ ٹیم کی کپتان ہیں، ان کا شمار دنیا کے بیس بہترین باؤلرز میں ہوتا ہے۔ خیبرپختونخوا جیسے روایت پسند علاقے سے تعلق رکھنے کے باوجود انھوں نے ایک ایسے کھیل میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا جسے صرف مردوں کاکھیل سمجھا جاتا ہے۔2008 کے ویمن کرکٹ ورلڈ کپ میں انھیں پلیئر آف دی ٹورنامنٹ کا اعزاز حاصل ہوا۔ ان کی قیادت میں پاکستانی ٹیم نے T20 اور سری لنکا 2011 سیریز میں کامیابیاں حاصل کیں۔
شازیہ سکندر پاکستان کی ممتاز منی ایچر آرٹسٹ ہیں اور کئی بین الاقوامی نمائشوں میں پاکستان کی نمائندگی کرچکی ہیں اور منی ایچر کے علاوہ پینٹنگ، ڈرائنگ، اینیمیشن اور فلم میکنگ میں بھی مہارت رکھتی ہیں۔ 2006 میں انھیں میک آرتھر فیلوز پروگرام کے لیے گرانٹ ملی اور اس کے بعد دنیا کی ہر ممتاز گیلری میں ان کے فن پاروں کی نمائش ہوچکی ہے۔ انھوں نے صنف، مذہب اور دہشت گردی کو بھی اپنے فن پاروں کا موضوع بنایا ہے۔
ماریا طورپا کے نے انتہائی قدامت پسند ماحول میں آنکھ کھولنے کے باوجود اسکواش کے کھیل کو اپنایا، اسے اپنے والد کا مکمل تعاون حاصل رہا اور طالبان کے زیر اثر علاقے وزیرستان سے تعلق رکھنے کے باوجود اس نے ناممکن کو ممکن کردکھایا، خواہ اس کے لیے اسے لڑکوں والا لباس پہننا پڑا اور خواہ کورٹ کی بجائے اپنے گھر میں پریکٹس کرنی پڑی۔اس کی مستقل مزاجی نے اسے کامیابی اور شہرت عطا کی، ممتاز کھلاڑی جوناتھن پاور کو جب اس کی شہرت اور حالات کے بارے میں پتہ چلا تو انھوں نے اسے اپنی سرپرستی میں لے لیا اور کینیڈا میں اسے تربیت فراہم کی۔ یوں اس کے لیے مستقبل میں کامیابی اور کامرانی کے دروازے کھل گئے۔
مہرین جبار مایہ ناز ہدایت کار اور فلم ساز، ان کی فلمیں دنیا کے مشہور فلمی میلوں میں خواہ وہ ہانگ کانگ فلم فیسٹیول ہو یا سان فرانسسکو ایشین امریکن فلم فیسٹیول یا لیڈز فلم فیسٹیول ہو، ہر جگہ نقادوں اور ناظرین نے ان کی فلموں کو سراہا ہے۔ مختصر فلموں، طویل دورانیے کے ڈراموں اور سیریلز میں وہ پاکستانی عورتوں اور ان کے مسائل کو اپنا موضوع بناتی ہیں۔ ان کی فلم ''رام چند پاکستانی'' نے بہت سے فلمی ایوارڈز جیتے ہیں۔
شرمین عبید چنائے نے آسکر ایوارڈ حاصل کرکے پاکستان میں ایک نئی تاریخ رقم کی، وہ یہ ایوارڈ حاصل کرنے والی پہلی پاکستانی خاتون ہیں۔ اس سے پہلے 2010 میں اپنی دستاویزی فلم پاکستان کی طالبان نسل پر بین الاقوامی ایوارڈ مل چکا ہے۔
انوشکا کچیلو نے 24 سال کی عمر میں شمالی قطب کی مہم سر کرکے دنیا کی سب سے کم عمر خاتون اور پہلی پاکستانی خاتون ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔ یہ پرخطر مہم سر کرنے کا ایک مقصد چلڈرن آرٹ فاؤنڈیشن کے لیے فنڈز جمع کرنا بھی تھا۔
راحیلہ گل: اکتوبر 2005 کے زلزلے میں ہزاروں افراد لقمہ اجل بن گئے، ان میں سے ایک راحیلہ گل بھی تھی جو ستاروں کو چھولینے کی آرزو رکھتی تھی۔ اس نے چار سو کلو میٹر طویل صحرائے تھر عبور کیا اور K-2 اور نانگا پربت جیسی بلندوبالا چوٹیاں بھی سر کرنے کی کوشش کی۔ اس نے پنجاب یونیورسٹی سے موسیقی اور صحافت میں گریجویشن کیا اور لندن اسکول آف مینجمنٹ سے ترپول اور ٹورازم میں ڈپلومہ لیا اور جنیوا سے بھی انٹرنیشنل ٹریول کا ڈپلومہ لیا۔ وہ ایک سند یافتہ آئی ٹی پروفیشنل بھی تھی۔ اس کے علاوہ اس نے ہائیکنگ، چٹانوں پر چڑھنے اور پیراشوٹ سے چھلانگ لگانے کی تربیت بھی حاصل کی تھی۔ افسوس کہ یہ ہونہار خاتون زلزلے کی نذر ہوگئی۔
نمیرہ سلیم کو پاکستان کی پہلی خلاباز خاتون ہونے کا اعزاز حاصل ہے، وہ ایورسٹ سے اسکائی ڈائیو کرنے والی پہلی ایشیائی خاتون ہیں۔ 2007 میں انھوں نے شمالی قطب پر اور 2008 میں جنوبی قطب پر امن کا جھنڈا لہرایا۔ انھیں کھیلوں میں اعلیٰ کارکردگی دکھانے پر تمغہ امتیاز مل چکا ہے۔
سائرہ امین پہلی خاتون پائلٹ ہیں جنھیں ڈیفنس اکیڈمی آف پاکستان نے اعزازی تلوار سے نوازا۔
نرگس ماولوالا MIT پروفیسر ہیں۔ وہ کوانٹم آسٹرو فزیسٹ Astro Physicist ہیں۔ انھیں میک آرتھر فیلو شپ ملی، انھوں نے کائنات کے ابتدائی لمحات اور ستاروں کے ٹکرانے سے پیدا ہونے والی کشش ثقل کی لہروں پر تحقیق کی ہے۔اور پھر حنا ربانی کھر ہیں جنھیں پاکستان کی پہلی خاتون وزیر خارجہ ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ (بشکریہ کاربونیٹڈ ٹی وی) فہمیدہ مرزا ہیں جنھیں پہلی پاکستانی خاتون اسپیکر ہونے کا اعزاز حاصل ہے، پاکستانی خواتین کے قومی دن کے موقعے پر ہمیں متذکرہ بالا اور ان دیگر بہت سی خواتین کو یاد کرنا چاہیے جو کھیتوں میں، گھروں میں اور فیکٹریوں اور دفاتر میں کام کرکے پاکستان کی ترقی میں اپنا کردار ادا کر رہی ہیں۔ ہمیں ان سب پر فخر ہے، یہ دن مناتے ہوئے ہمیں حبیب جالب کو بھی یاد رکھنا چاہیے جنھوں نے 12 فروری 1983کو لاہور میں عورتوں کے ساتھ احتجاجی جلوس میں شرکت کی تھی اور پولیس کے ڈنڈے کھائے تھے۔