کیا شہر میں زندہ کوئی نہیں
سینے دہک رہے ہیں، آنکھیں شعلہ بار ہیں، حوصلے انتہا کے بلند ہیں، ڈر خوف ختم اور فضائیں نغمہ بار ہیں۔
کبھی تصور میں بھی نہیں سوچا تھا کہ ایسے دن بھی آئیں گے جن سے ہم گزر رہے ہیں۔ شہر کا ہر شخص خوفزدگی کے عذاب سے گزرا ہے، ہر شخص کے ساتھ ایک کہانی ہے اور انتہا یہ ہے کہ وہ کسی کو اپنا شریک غم بھی نہیں بنا سکتا۔ اس کے ساتھ کیا ہوا؟ یہ بوجھ وہ خود ہی اٹھائے پھر رہا ہے، ہم اعتبار کھو بیٹھے ہیں، کسی پر بھروسہ نہیں رہا۔
ایک دوست سے ملنے گیا تھا، وہ میرے بزرگ دوست ہیں۔ 80 سال سے اوپر کے ہوچکے ہیں مگر ٹھیک ہیں، تھوڑی بہت اونچ نیچ تو ہو ہی جاتی ہے، باقی صحت مند ہیں، اچھے پڑھے لکھے خاندان سے تعلق ہے۔ شعر و ادب سے بھی دلچسپی ہے، ایک کتاب ضرب المثل اشعار کی ترتیب دیکر اہل ادب سے داد پاچکے ہیں، غالب کے حوالے سے ایک اور کتاب پر آج کل کام کر رہے ہیں۔ اب آپ اسی بات سے اندازہ لگالیں کہ اس عمر میں وہ کس درجہ فعال ہیں۔ گفتگو خوب کرتے ہیں، لہجہ نرم، فقرے تہذیب و شائستگی لیے مزاج دھیما۔ ریٹائرڈ کرنل ہیں ، فوج کے اور بھی بے شمار لوگ ہیں جو کرنل صاحب جیسے ہی اعلیٰ اوصاف کے مالک ہیں، اور کئی فوجی تو ایسے بھی ہیں کہ جن کا ہمارے اردو ادب میں بہت بڑا نام اور کام ہے۔
کرنل صاحب کی طرف جانا ہوا تو انھوں نے ایک غزل میرے ہاتھ میں تھمادی، صاف ظاہر ہے کرنل صاحب بھی شہر کے حالات پر دل گرفتہ ہیں، ایسی ہی گرفتہ دل غزل میرے ہاتھ میں تھی۔ غزل سے پہلے ناصر کاظمی کا ایک مطلع سن لیں جو میرے ذہن میں آگیا ہے، اور میں آپ کو ضرور سناؤں گا۔
گرفتہ دل ہیں بہت آج تیرے دیوانے
خدا کرے کوئی تیرے سوا نہ پہچانے
یہ تو ناصر کاظمی کی دل گرفتی کا معاملہ ہے، مگر جو غزل میں آپ کو سنانے جارہا ہوں اس کے شاعر جناب شوق فہمی (حال مقیم امریکا) کا معاملہ ناصرکاظمی جیسا نہیں ہے کہ جسے شاعر کے محبوب کے سواکوئی دوسرا نہ پہچانے۔ فہمی صاحب کی غزل تو شہر آشوب کو سمیٹے ہوئے ہے، لہٰذا ان کی غزل کو تو پورا شہر خوب جان اور پہچان جائے گا۔ شوق فہمی سات سمندر پار امریکا میں رہتے ہیں، لیکن ان کا دل اپنے دیس ہی میں اٹکا ہوا ہے جو کچھ دیس میں ہورہا ہے سات سمندر پار رہنے والا شاعر بھی اس دکھ کو کس درجہ محسوس کرتا ہے ملاحظہ فرمائیں:
پیڑوں پہ پرندہ کوئی نہیں
کیا شہر میں زندہ کوئی نہیں
سب آن بسے ہیں شہروں میں
جنگل میں درندہ کوئی نہیں
اس شہر میں کون نہیں رسوا
لیکن شرمندہ کوئی نہیں
ہم جن حالات میں رہتے ہیں
ان کا آئندہ کوئی نہیں
تحریر ہے پہلے پتوں پر
موسم پائندہ کوئی نہیں
یہ رات زمیں پر کیسی ہے
تارہ تابندہ کوئی نہیں
کیوں چاک زمانہ پر فہمیؔ
برتن نقشندہ کوئی نہیں
شوق فہمی صاحب کی غزل کیا ہے، ہمارے شہر کا منظرنامہ ہے۔ غزل پڑھ کر پھر یاد آیا کہ ہمیں اس حال تک پہنچانے میں ''کتنے ظالم چہرے جانے پہچانے یاد آتے ہیں'' ان چہروں میں بہت سے تو اب منوں مٹی تلے دفن ہوچکے، اور ان کا حساب کتاب بھی مکمل ہوچکا ہوگا، باقی آگے جانے کو تیار بیٹھے ہیں۔ یقینا ان کا حساب کتاب بھی ہوگا۔ مگر جیتے جی کوئی بھی اگلے جہاں کے بارے میں سوچنے کو تیار نہیں۔ یا شاید ان ظالموں کا روز حشر پر ایمان نہیں ہے۔ یہ خدا کے بھی منکر ہی ہوں گے، صرف اپنے پل دو پل کے عیش کی خاطر خلق خدا کو بھوکوں ترسا رہے ہیں، مار رہے ہیں۔
ہماری اسمبلیوں کے باہر دیکھ لیں، کس کس ذات کی مہنگی گاڑیاں آکر رکتی ہیں اور ان میں سے غریبوں کے ووٹ لے کر کامیاب ہونے والے کیسے کیسے صاحب اور بیگمات نکلتے ہیں کیسے کیسے شہزادے اور شہزادیاں اسمبلیوں میں آتے ہیں، ہماری اسمبلیوں میں وڈیروں، جاگیرداروں، نوابوں، خانوں، پیروں، سجادہ نشینوں، سرداروں کی موروثی کرسیاں سجی ہیں، ان کرسیوں پر آج کل تیسری نسل یعنی پوتے پوتیاں، نواسے نواسیاں، بھانجے بھتیجے بیٹھ رہے ہیں۔ ہمارے دیہی علاقوں میں زمینوں کے مالکان کے خلاف پرندہ بھی پر نہیں مار سکتا، زمینداروں کی بندوقیں اور ان کے کارندے بے بس ہاری، کسانوں، بھٹہ مزدوروں کو آواز نکالنے نہیں دیتے۔ شہروں میں تو صورتحال کچھ اور ہے مگر گاؤں دیہاتوں میں صدیوں کا جابرانہ نظام آج بھی جاری ہے۔ اس نظام کو کون بدلے گا؟ خوف و ہراس کی فضا کو کون ختم کریگا؟ ان سوالوں کے جواب دینے کے لیے وہ سورج ضرور طلوع ہوگا کہ جس کی روشنی کچے گھروں تک بھی پہنچے گی۔ ظہیر کاشمیری کہہ گئے ہیں کہ:
ہمیں یقیں ہے' ہم ہیں چراغ آخر شب
ہمارے بعد اندھیرا نہیں' اُجالا ہے
اور حبیب جالب بھی وعدہ کرکے گئے ہیں کہ ''میں ضرور آؤں گا، اک عہد حسین کی صورت'' امید صبح رکھتے ہوئے ہمیں قدم بڑھاتے رہنا ہے۔ ظہیر کاشمیری کا اجالا اور جالب کا عہد حسین ضرور آئے گا۔ ہم جانتے ہیں کہ عوام کے دشمنوں، جمہور کے مخالفوں نے بڑا اسلحہ جمع کر رکھا ہے، مگر یہ بھی سچ اور تاریخ گواہ ہے کہ نہتے عوام سینہ تانے نکل آئیں تو بندوقیں ہاتھوں سے چھوٹ جاتی ہیں، توپیں سر نگوں ہوجاتی ہیں۔
الیکشن 2013 میں بہت کچھ حیران کن بھی ہوسکتا ہے، پاکستان کے موجودہ حالات میں یہ الیکشن بہت اہم کردار ادا کریں گے۔ اس الیکشن کے بعد بھی بہت کچھ اچھا ہوگا۔ حالات تیزی سے ٹھیک ہونا شروع ہوجائیں گے، دیوار پر لکھا پڑھ کر بہت کچھ سدھر جائے گا۔ ''بگاڑ والے'' اپنا کھیل جاری رکھیں گے اور انھی کے کھیل کھلواڑ سے سدھار کے رستے نکلیں گے، عوام باشعور ہیں، ان پر سب کچھ کھل چکا ہے۔ اصل کھیل ان کے سامنے آچکا ہے، میں دیکھ رہا ہوں کہ ظلم کی رات اب ختم ہونے کو ہے، اور سویرا بہت نزدیک ہے۔ مانا کہ ابھی راستے میں بہت کٹھنائیاں ہیں، مگر سینے دہک رہے ہیں، آنکھیں شعلہ بار ہیں، حوصلے انتہا کے بلند ہیں، ڈر خوف ختم اور فضائیں نغمہ بار ہیں۔
دوستوں کو پہچانو
دشمنوں کو پہچانو
اٹھارہ کروڑ انسانو
ایک دوست سے ملنے گیا تھا، وہ میرے بزرگ دوست ہیں۔ 80 سال سے اوپر کے ہوچکے ہیں مگر ٹھیک ہیں، تھوڑی بہت اونچ نیچ تو ہو ہی جاتی ہے، باقی صحت مند ہیں، اچھے پڑھے لکھے خاندان سے تعلق ہے۔ شعر و ادب سے بھی دلچسپی ہے، ایک کتاب ضرب المثل اشعار کی ترتیب دیکر اہل ادب سے داد پاچکے ہیں، غالب کے حوالے سے ایک اور کتاب پر آج کل کام کر رہے ہیں۔ اب آپ اسی بات سے اندازہ لگالیں کہ اس عمر میں وہ کس درجہ فعال ہیں۔ گفتگو خوب کرتے ہیں، لہجہ نرم، فقرے تہذیب و شائستگی لیے مزاج دھیما۔ ریٹائرڈ کرنل ہیں ، فوج کے اور بھی بے شمار لوگ ہیں جو کرنل صاحب جیسے ہی اعلیٰ اوصاف کے مالک ہیں، اور کئی فوجی تو ایسے بھی ہیں کہ جن کا ہمارے اردو ادب میں بہت بڑا نام اور کام ہے۔
کرنل صاحب کی طرف جانا ہوا تو انھوں نے ایک غزل میرے ہاتھ میں تھمادی، صاف ظاہر ہے کرنل صاحب بھی شہر کے حالات پر دل گرفتہ ہیں، ایسی ہی گرفتہ دل غزل میرے ہاتھ میں تھی۔ غزل سے پہلے ناصر کاظمی کا ایک مطلع سن لیں جو میرے ذہن میں آگیا ہے، اور میں آپ کو ضرور سناؤں گا۔
گرفتہ دل ہیں بہت آج تیرے دیوانے
خدا کرے کوئی تیرے سوا نہ پہچانے
یہ تو ناصر کاظمی کی دل گرفتی کا معاملہ ہے، مگر جو غزل میں آپ کو سنانے جارہا ہوں اس کے شاعر جناب شوق فہمی (حال مقیم امریکا) کا معاملہ ناصرکاظمی جیسا نہیں ہے کہ جسے شاعر کے محبوب کے سواکوئی دوسرا نہ پہچانے۔ فہمی صاحب کی غزل تو شہر آشوب کو سمیٹے ہوئے ہے، لہٰذا ان کی غزل کو تو پورا شہر خوب جان اور پہچان جائے گا۔ شوق فہمی سات سمندر پار امریکا میں رہتے ہیں، لیکن ان کا دل اپنے دیس ہی میں اٹکا ہوا ہے جو کچھ دیس میں ہورہا ہے سات سمندر پار رہنے والا شاعر بھی اس دکھ کو کس درجہ محسوس کرتا ہے ملاحظہ فرمائیں:
پیڑوں پہ پرندہ کوئی نہیں
کیا شہر میں زندہ کوئی نہیں
سب آن بسے ہیں شہروں میں
جنگل میں درندہ کوئی نہیں
اس شہر میں کون نہیں رسوا
لیکن شرمندہ کوئی نہیں
ہم جن حالات میں رہتے ہیں
ان کا آئندہ کوئی نہیں
تحریر ہے پہلے پتوں پر
موسم پائندہ کوئی نہیں
یہ رات زمیں پر کیسی ہے
تارہ تابندہ کوئی نہیں
کیوں چاک زمانہ پر فہمیؔ
برتن نقشندہ کوئی نہیں
شوق فہمی صاحب کی غزل کیا ہے، ہمارے شہر کا منظرنامہ ہے۔ غزل پڑھ کر پھر یاد آیا کہ ہمیں اس حال تک پہنچانے میں ''کتنے ظالم چہرے جانے پہچانے یاد آتے ہیں'' ان چہروں میں بہت سے تو اب منوں مٹی تلے دفن ہوچکے، اور ان کا حساب کتاب بھی مکمل ہوچکا ہوگا، باقی آگے جانے کو تیار بیٹھے ہیں۔ یقینا ان کا حساب کتاب بھی ہوگا۔ مگر جیتے جی کوئی بھی اگلے جہاں کے بارے میں سوچنے کو تیار نہیں۔ یا شاید ان ظالموں کا روز حشر پر ایمان نہیں ہے۔ یہ خدا کے بھی منکر ہی ہوں گے، صرف اپنے پل دو پل کے عیش کی خاطر خلق خدا کو بھوکوں ترسا رہے ہیں، مار رہے ہیں۔
ہماری اسمبلیوں کے باہر دیکھ لیں، کس کس ذات کی مہنگی گاڑیاں آکر رکتی ہیں اور ان میں سے غریبوں کے ووٹ لے کر کامیاب ہونے والے کیسے کیسے صاحب اور بیگمات نکلتے ہیں کیسے کیسے شہزادے اور شہزادیاں اسمبلیوں میں آتے ہیں، ہماری اسمبلیوں میں وڈیروں، جاگیرداروں، نوابوں، خانوں، پیروں، سجادہ نشینوں، سرداروں کی موروثی کرسیاں سجی ہیں، ان کرسیوں پر آج کل تیسری نسل یعنی پوتے پوتیاں، نواسے نواسیاں، بھانجے بھتیجے بیٹھ رہے ہیں۔ ہمارے دیہی علاقوں میں زمینوں کے مالکان کے خلاف پرندہ بھی پر نہیں مار سکتا، زمینداروں کی بندوقیں اور ان کے کارندے بے بس ہاری، کسانوں، بھٹہ مزدوروں کو آواز نکالنے نہیں دیتے۔ شہروں میں تو صورتحال کچھ اور ہے مگر گاؤں دیہاتوں میں صدیوں کا جابرانہ نظام آج بھی جاری ہے۔ اس نظام کو کون بدلے گا؟ خوف و ہراس کی فضا کو کون ختم کریگا؟ ان سوالوں کے جواب دینے کے لیے وہ سورج ضرور طلوع ہوگا کہ جس کی روشنی کچے گھروں تک بھی پہنچے گی۔ ظہیر کاشمیری کہہ گئے ہیں کہ:
ہمیں یقیں ہے' ہم ہیں چراغ آخر شب
ہمارے بعد اندھیرا نہیں' اُجالا ہے
اور حبیب جالب بھی وعدہ کرکے گئے ہیں کہ ''میں ضرور آؤں گا، اک عہد حسین کی صورت'' امید صبح رکھتے ہوئے ہمیں قدم بڑھاتے رہنا ہے۔ ظہیر کاشمیری کا اجالا اور جالب کا عہد حسین ضرور آئے گا۔ ہم جانتے ہیں کہ عوام کے دشمنوں، جمہور کے مخالفوں نے بڑا اسلحہ جمع کر رکھا ہے، مگر یہ بھی سچ اور تاریخ گواہ ہے کہ نہتے عوام سینہ تانے نکل آئیں تو بندوقیں ہاتھوں سے چھوٹ جاتی ہیں، توپیں سر نگوں ہوجاتی ہیں۔
الیکشن 2013 میں بہت کچھ حیران کن بھی ہوسکتا ہے، پاکستان کے موجودہ حالات میں یہ الیکشن بہت اہم کردار ادا کریں گے۔ اس الیکشن کے بعد بھی بہت کچھ اچھا ہوگا۔ حالات تیزی سے ٹھیک ہونا شروع ہوجائیں گے، دیوار پر لکھا پڑھ کر بہت کچھ سدھر جائے گا۔ ''بگاڑ والے'' اپنا کھیل جاری رکھیں گے اور انھی کے کھیل کھلواڑ سے سدھار کے رستے نکلیں گے، عوام باشعور ہیں، ان پر سب کچھ کھل چکا ہے۔ اصل کھیل ان کے سامنے آچکا ہے، میں دیکھ رہا ہوں کہ ظلم کی رات اب ختم ہونے کو ہے، اور سویرا بہت نزدیک ہے۔ مانا کہ ابھی راستے میں بہت کٹھنائیاں ہیں، مگر سینے دہک رہے ہیں، آنکھیں شعلہ بار ہیں، حوصلے انتہا کے بلند ہیں، ڈر خوف ختم اور فضائیں نغمہ بار ہیں۔
دوستوں کو پہچانو
دشمنوں کو پہچانو
اٹھارہ کروڑ انسانو