احترامِ انسانیت کی پامالی

یہ ایک سلگتا ہوا معاشرتی المیہ ہے اور ہم سب اس کے ساتھ جی رہے ہیں


شاہد سردار August 06, 2017

یہ ایک مسلم امر ہے کہ اب تک انسان نے انسان کو جتنا نقصان پہنچایا ہے، اتنا نقصان پچھلے دس ہزار سال میں قدرتی آفتیں مل کر نہیں پہنچاسکیں۔ ہماری دانش میں سائنس دانوں کو قدرتی آفتوں کے بجائے انسانی سرشت کا کوئی شافی علاج دریافت کرنا چاہیے، انھیں کوئی ایسی دوا ایجاد کرنی چاہیے جسے کھانے کے بعد احترام آدمیت انسانوں میں عود کر آئے، وہ انسان کو انسان سمجھنے لگے جانورنہ سمجھے، جسے کھانے سے انسان دوسرے انسان کو معاف کردے (اس کی کوتاہی پر) اسے جانے دے، در گزرکرے اور اپنے دل میں نرمی اور وسعت لے آئے۔

ہم اپنی سوسائٹی اپنے معاشرے پر نگاہ ڈالیں تو قدم قدم پر انسانی استحصال کی کہانیاں بکھری پڑی نظر آئیںگی۔ گھریلو ملازم بچوں اور بچیوں کے ساتھ ہونے والی داستانیں اب کثرت سے اور حد درجہ دلخراش بن کر سامنے آرہی ہیں لیکن ہمارے ارباب اختیار، قانون نافذ کرنیوالے ادارے سب کے سب بچوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کی روک تھام میں بری طرح ناکام دکھائی پڑتی ہیں۔

ایبٹ آباد میں ایک آٹھ سالہ غریب بچے کا گدھا با اثر شخص کے کھیت میں گھس گیا جس پر کھیت کا مالک مشتعل ہوگیا اور بچے کو گدھے سے باندھ کر اتنا گھسیٹا کہ اس کی موت واقع ہوگئی لوگ دیکھتے رہے لیکن کسی نے اس ظلم کو روکنے کی جرأت نہیں کی، پولیس بھی حسب معمول موقع پر نہ پہنچی۔ اس طرح لاہور میں ایک خاتون ایم پی اے کی بیٹی کی تشدد سے بارہ سالہ گھریلو ملازم ہلاک ہوگیا اور اس گھر میں اس کے ساتھ اس کی بہن بھی ملازمت کرتی تھی، اس کے جسم پر بھی تشدد کے نشانات پائے گئے اس کے بعد ایم پی اے روپوش ہوگئی اور اس کی بیٹی نے اپنی ضمانت کرالی۔

چند ماہ قبل اسلام آباد میں ایک سیشن جج کی دس سالہ ملازمہ پر اس کی بیوی نے بڑا بہیمانہ تشدد کیا اس کے سر اور بھنوؤں کے بال تک کاٹ ڈالے۔ پورے ملک میں اس امر پر تشویش اور غم و غصے کی لہر دوڑی۔ لیکن یہاں بھی ضمانت کام آئی اور ملازمہ بچی غریب اور بے بس گھر کی بچی ہونے کی سزا سہہ کر آج عبرت کا نشان بن کر اس سوال کے ساتھ زندہ ہے کہ کمسن بچوں پر آخر ان کے مالکان تشدد کیوں کرتے ہیں؟

اینٹوں کے بھٹے پر بچوں کی مشقت کے خلاف ہمارے ہاں قانون موجود ہے لیکن قانون پر عمل در آمد نہیں کرایا جاتا، اکثر بھٹے دور دراز مقامات پر واقع ہیں جہاں ہونے والے ظلم و تشدد کے واقعات کا کسی کو پتا بھی نہیں چلتا اکثر گھروں میں غریب لوگ معاشی حالات سے مجبور ہوکر اپنے بچے بچیاں امیر اور اثر و رسوخ رکھنے والے لوگوں کے پاس بیچ دیتے ہیں، انسانیت کی سوچ سے عاری یہ خریدار اس قدر سنگ دل اور زمین کے خدا ہوتے ہیں کہ پولیس کی زبان بندی بھی ان کے لیے کوئی مسئلہ نہیں ہوتا پکڑے بھی جائیں تو صاف بچ جاتے ہیں کیونکہ غریب والدین کو ڈرا دھمکا کر صلح نامے پر مجبور کردیا جاتا ہے۔ مقدمہ چلے بھی تو فیصلے میں سالہا سال گزر جاتے ہیں لیکن انھیں انصاف نہیں ملتا۔

یہ ایک سلگتا ہوا معاشرتی المیہ ہے اور ہم سب اس کے ساتھ جی رہے ہیں اس قسم کے کسی نئے واقعے پر ہم بپھر تو جاتے ہیں بات بھی کرتے ہیں لیکن کچھ کر نہیں پاتے۔ سوال بس یہی ذہن میں آتا ہے کہ آخر مفلسی کے مارے بچے گھروں میں ملازمت کیوں کرتے ہیں؟ غلاموں کی سی زندگی کیوں گزارتے ہیں؟ اور وہ بھی ایک ایسے ملک میں جس کے آئین میں یہ لکھا ہے کہ پانچ سال سے سولہ سال کے بچوں کو لازمی تعلیم دینے کی ذمے داری ریاست کی ہے، سڑک، گلی محلوں میں بھیک مانگنے والے بچوں کی تعداد بھی ہزاروں میں ہے، یہ سب کا سب احترام انسانیت کے منافی ہونے کا غماز نہیں تو اور پھر کیا ہے؟

افریقا میں ہمارے ایک پاکستانی سفیر نے یہ بات بتائی تھی کہ ایک روز انھیں سخت بھوک لگی تھی اور ملازم سے کھانا لانے میں ذرا دیر ہوگئی تو میں نے ذرا سی اونچی آواز میں اس سے اس کی وجہ پوچھی تو ملازم نے میز پرگھر کی چابیاں رکھیں اور آہستہ سے کہا ''سر میں جا رہا ہوں'' اور پھر وہ نوکری چھوڑ کر چلا گیا۔ فلپائن (فیلا) اور پاکستان کی فی کس آمدنی تقریباً 10 سال قبل برابر تھی لیکن وہاں ملازمین کے ساتھ بہت اچھا برتاؤ دکھائی دیتا تھا، ترکی، ملائیشیا، بنکاک، سنگاپور میں گھریلو ملازمین گھر والوں کی طرح بہترین پوشاکیں زیب تن کرتے ہیں اور انھیں گھر کے فرد کی طرح اہمیت و حیثیت حاصل ہوتی ہے۔

افسوس ہم اچھی روایتوں کے حوالے سے بھی دیگر ممالک سے کوسوں دور ہیں اور ملازمین بالخصوص ملازم پیشہ بچوں کے ساتھ ہمارا جو طرز عمل ہے وہ میڈیا کے ذریعے گاہے بگاہے سامنے آتا رہتا ہے۔ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ہر ظالم یا زیادتی کرنیوالا خود کو ظافر سمجھتاہے لیکن ظفر یابی اور عالیٰ ظفری میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ ہمارے ملک میں ظافر تو بہت ہیں لیکن اعلیٰ ظرف بہت ہی کم۔ ہمارے یہاں اختلاف رائے کا جواب دلیل کی بجائے اونچی آواز میں تضحیک آمیز لہجے میں دینے والا اپنے آپ کو ظفر یاب سمجھتا ہے۔

در اصل جسے ہم سماجی انصاف کہتے ہیں اس کے حصول کے لیے ہمیں کسی عدالت کے دروازے پر دستک دینے کی ضرورت نہیں، اس کے لیے پاکستان کے حکمرانوں اور اس کی اشرافیہ کو اپنی زندگی اور اپنے رویوں میں تبدیلی لانا ہوگی جس عیش و عشرت کی وہ خود نمائش کرتے ہیں وہ در اصل غریب کمزور اور محکوم طبقے کی ذلت اور بے بسی کی ایک کریہ شکل ہے اور کچھ نہیں، مشکل یہ ہے کہ ہمارے پاکستانی معاشرے کی یہ سچی تصویر نہ میڈیا کھل کر دکھارہا ہے اور نہ اشرافیہ اسے دیکھنا چاہتی ہے۔

ادھر ادھر سے کسی حادثے، واقعے یا اتفاق کے ذریعے اس کی کچھ جھلکیاں دکھائی دے جاتی ہیں، پوری تصویر دیکھنا شاید ہماری برداشت سے باہر ہو۔ بہر کیف برہنہ سچائی یہی ہے کہ ہماری زمین پر انصاف کم سے کم ہوتا جارہا ہے ہماری دھرتی پر انکسار بھی کم ہوتا جارہاہے اور کسی زمین پر عجز و انکسار کم ہوجائے، انصاف کی پامالی زوروں پر ہوں اور رعونیت پھیل جائے تو وجود جھرجھری لینے لگتے ہیں کہ یہ سبھی قحط الرجال، علم کے زوال اور فہم و فراست کی کمی کی نشانیاں ہیں، بیرونی دنیا جو کبھی ہم سے خائف تھی اب ہمیں نظر انداز کرنے پر کمر بستہ ہے۔

اگر ہم محض روایت پارینہ اور علت دیرینہ کی پاسداری میں قدم کی دستار سے فٹ بال کھیلنا چاہتے ہیں تو یہ محض ہماری کم ظرفی اور کوتاہ بینی ہی ہے۔وطن عزیز کے عام لوگ بچوں کی روٹی، علاج معالجہ، تعلیم اورگیس، بجلی اور پانی کے بلوں کی آخری تاریخوں کو ہی اپنی زندگی کا مقصد اور مقدر سمجھتے ہیں کیونکہ انھیں نہ ان کا ریاستی اور اخلاقی حق ملتا ہے اور نہ وہ انھیں انصاف میسر آپاتا ہے، کاش ہمارے ارباب اختیار یہ جان پاتے کہ انصاف معاشرے کو شفاف، محفوظ اور بہتر بنانے میں ہمیشہ کامیاب ہوتا ہے، انصاف ایک استعار بندوبست کا نام ہے جب کہ احتساب خود راستی اور پس پردہ کیمیا گری کا جنون ہوتا ہے لیکن ہاری ہوئی سوچ کا المیہ یہی ہوتا ہے کہ اسے تاریخ کے دریا کا بہاؤ معلوم نہیں ہوتا، یوں پسماندہ سوچ احتساب کے پتھروں سے سر پھوڑتی رہتی ہے جب کہ تاریخ کا دریا انصاف کے میدانوں میں پہنچ چکا ہوتا ہے۔ یاد رکھنے کا اصول یہ ہے کہ تاریخ کا دریا الٹا نہیں بہتا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔