جمہوریت کا حسن
اس فیصلے کے بعد نوازشریف مجرم نہیں بلکہ مظلوم بن کر ابھریں گے۔
KARACHI:
وزیراعظم میاں نوازشریف کی نااہلی کے بعد خدشات وامکانات اورافواہ سازی کا عمل عروج پر تھا ۔ اسمبلیوں کے ٹوٹنے، مسلم لیگ ن میں فارورڈ بلاک بننے، جمہوریت کی بساط لپٹنے تک کی افواہیں پھیلائی گئی تھیں، لیکن ایسا کچھ نہ ہوا، بلکہ فیصلے کے بعد مروجہ جمہوری طریقے سے قومی اسمبلی میں نئے قائد ایوان کا انتخاب عمل میں آیا، جس میں تمام سیاسی پارٹیوں کے اراکین نے اپنے حق رائے دہی استعمال کیا۔
پیپلزپارٹی، تحریک انصاف، جماعت اسلامی اور مسلم لیگ ن نے وزارت عظمی کے لیے اپنے اپنے امیدوار کھڑے کر کے ووٹنگ کے عمل میں بھرپور حصہ لیا۔ جمہوریت ' ڈی ریل ' نہیں ہوئی بلکہ چلتی رہی، ایک جمہوری طریقہ کارکے مطابق۔ اسے ہم سیاسی جماعتوں کی بالغ نظری اور جمہوریت پر پختہ یقین کی مضبوط علامت قرار دے سکتے ہیں، یہی جمہوریت کا حسن ہے۔
یہ پاکستان کی بدنصیبی ہے کہ اس ملک میں کسی وزیراعظم کو مدت پوری نہیں کرنے دی گئی اور ایک مخصوص لابی اپنی سازشوں کے ذریعے ہمیشہ عوامی نمائندوں کو نکال باہرکرتی رہی۔ لیاقت علی خان ہوں یا بھٹو، بے نظیر بھٹو ہوں یا نوازشریف سب کی حکومتوں کے خلاف سازشیں کرکے ان کی حکومتیں برطرف کی گئیں۔
میں ایک عام سیاسی طالب علم کی حیثیت سے یہ سوال کرتا ہوں کہ اس ملک کے عوام آخرکب اقتدار اعلیٰ کے مالک بنیں گے اور کب تک ایک مخصوص لابی عوامی مینڈیٹ کی توہین کرتی رہے گی۔ سازشوں کے ذریعے حکومتیں بدلنے کا سلسلہ اب بند ہونا چاہیے۔ دنیا بہت آگے نکل چکی ہے مگر وطن عزیز میں 70 برس سے جو کھیل کھیلا جارہا ہے وہ بند ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ نوازشریف تیسری بار اس گھناؤنے کھیل کا شکار ہوئے ہیں اور بعض اپوزیشن رہنما اس مخصوص لابی کے لیے کام کررہے ہیں۔
مشترکہ تفتیشی ٹیم (جے آئی ٹی) کی طویل تفتیش اور عدالتی کارروائی کے دوران ہر طرح چھان پھٹک کی گئی لیکن نوازشریف پر کرپشن کا کوئی الزام ثابت نہیں ہوا۔ سرکاری خزانہ لوٹنے اور سرکاری عہدے کے ناجائز استعمال کے ثبوت بھی دستیاب نہیں تھے۔ ان پر یہ الزام بھی ثابت نہیں ہوا کہ انھوں نے اربوں کے اثاثے غیر قانونی طور پر بنائے ہیں۔ ان پرکمیشن یا کک بیک لینے کے الزامات بھی عائد نہیں کیے گئے۔ انھیں اپنے بیٹے کی کمپنی سے تنخواہ لینے اور اسے چھپانے کے الزام میں تاحیات نااہل قرار دیا گیا ہے۔ اس فیصلے پر مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد مختلف آراء کا اظہار کررہے ہیں لیکن قانونی ماہرین نے فیصلے پر حیرت کا اظہار کیا ہے۔
بہرحال اس فیصلے سے یہ بات تو ثابت ہوجاتی ہے کہ سابق وزیر اعظم محمد نوازشریف اپنے فرائض دیانتداری سے ادا کرتے رہے ہیں لہٰذا ان کے مخالفین کا کیا گیا پروپیگنڈا اس فیصلے سے خود ہی غلط ثابت ہوجاتا ہے۔ نوازشریف نے نہایت اعتماد کے ساتھ اپنے اور اپنے خاندان کو احتساب کے لیے پیش کیا تھا اور کہا تھا کہ ان کا دامن صاف ہے۔ اس فیصلے سے ان کے اس دعوے کی تصدیق ہوجاتی ہے۔ اگرچہ یہ فیصلہ مسلم لیگ(ن) کے لیے ناقابل قبول ہے مگر بوجوہ اسے تسلیم کرلیا گیا ہے۔ وہ قوتیں جو عوامی مینڈیٹ کی توہین کرنا چاہتی تھیں اور نوازشریف کو برسراقتدار نہیں دیکھنا چاہتی تھیں۔ میرا خیال ہے کہ انھیں اب بھی ناکامی کا منہ دیکھنا پڑے گا۔
اس فیصلے کے بعد نوازشریف مجرم نہیں بلکہ مظلوم بن کر ابھریں گے۔ وہ ایک عوامی قائد ہیں اور کئی دہائیوں سے پاکستان کے عوام کے دلوں کی دھڑکن بنے ہوئے ہیں۔ عوام نے ہی انھیں تیسری بار وزیر اعظم منتخب کرکے ایک نئی تاریخ رقم کی تھی اور انھوں نے بھی عوام کو مایوس نہیں کیا، اقتدار سنبھالنے کے بعد جو وعدے کیے تھے انھیں پورا کردیا۔ ملک سے دہشتگردی کا خاتمہ، کراچی میں قیام امن، معیشت کو بحال کرکے اسے ابھرتی ہوئی معیشتوں میں شامل کرنا، ملک بھر میں شاہراہوں اور موٹرویز کا جال بچھانا اور سب سے بڑھ کر پاکستان اور چین کا مشترکہ عظیم منصوبہ سی پیک بنانا۔
پہلے انھیں ان کی حکومت برطرف کرکے اس بات کی سزا دی گئی کہ انھوں نے بھارت کے جواب میں ہر خوف اور لالچ کو ٹھکرا کر ایٹمی دھماکے کیے تھے۔ اس بار انھیں سی پیک تعمیر کی سزا دی گئی ہے۔ انھوں نے اپنے چار سال سے زائد دور حکومت میں پاکستان کو دشمنوں کی سازشوں سے محفوظ رکھا اور ایران عرب تنازع، قطر بحران اور سعودی یمن تنازع میں غیر جانبدارانہ پالیسی بنا کر نہایت دانشمندانہ فیصلے کیے۔ وزارت عظمیٰ سے برطرفی سے پہلے بھی وہ عوام کے محبوب قائد تھے اور اب عوام کے دلوں کی دھڑکن ہے۔ میں پاکستان کے مستقبل کے سیاسی منظر نامے میں نوازشریف کو مکمل طور پر غالب آتے ہوئے دیکھ رہا ہے۔
عمران خان نے نوازشریف کو ملنے والے عوامی مینڈیٹ کو کبھی تسلیم نہیں کیا، دھرنے، احتجاج، لاک ڈاؤن، ریلیاں، دارالحکومت کو مفلوج کرنے سمیت ہر وہ کام کیا جس سے نواز حکومت کا خاتمہ ممکن ہو۔ لیکن اب بھی وہ مسلم لیگ کی حکومت گرانے میں کامیاب نہیں ہوسکے ہیں۔ دوسری جانب سابق آمر جنرل پرویز مشرف ہیں جن پر آئین سے غداری کا مقدمہ عدالت میں زیرِ سماعت ہے۔ وہ نوازحکومت کے خلاف سازشوں میں مصروف رہے ہیں۔ اسی لیے انھوں نے عدالتی فیصلے کے بعد اس امر کا اظہار کیا ہے کہ نوازشریف کی نا اہلی نے میری وطن واپسی کی راہ ہموار کردی ہے۔
نوازشریف نے برطرفی کے بعد بالکل درست کہا ہے کہ اس قسم کی سازشوں سے ملک حادثے کا شکار ہوسکتا ہے۔ پیپلز پارٹی کے سندھ تک محدود ہونے کے بعد اب مسلم لیگ نواز ہی ایک ایسی پارٹی ہے جس کی جڑیں چاروں صوبوں میں ہیں اور وفاق کے ساتھ ساتھ دو صوبوں اور آزاد کشمیر میں مسلم لیگ نواز کی ہی حکومتیں ہیں۔ اس پارٹی کو کمزور کرنے اور اس کی قیادت کے خلاف سازشیں کرنے کا واضح مطلب یہ ہے کہ آپ وفاق کو کمزور کررہے ہیں۔
نوازشریف کا یہ کہنا بھی قابل غور ہے کہ میرا ضمیر مطمئن تھا اس لیے میں استعفیٰ کیوں دیتا؟ جو غیر جمہوری قوتیں ان سے استعفیٰ کی فرمائش کررہی تھیں اور جواباً نوازشریف نے انکار کردیا۔ اس صورت میں میرا خیال ہے کہ نوازشریف جمہوریت کے چمپئن بن کر سامنے آئے ہیں۔ پاکستانی جمہوریت کے محافظ بن کر ابھرے ہیں۔ ان کا یہ کہنا کہ 25 سال قبل وہ اتنے نظریاتی نہیں تھے جتنے اب ہیں۔ یہ قوم کے لیے نہایت خوش آئند بات ہے۔
یہ بات واضح ہے کہ نوازشریف کے اتحادی بھی اس ساری صورتحال کا بغور جائزہ لے رہے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ وزارت عظمیٰ سے برطرفی کے باوجود مولانا فضل الرحمن، حاصل بزنجو، محمود خان اچکزئی اور اسفند یار ولی، پیر پگارا صاحب نے حکومتی اتحاد کو برقرار رکھنے اور مشترکہ جدوجہد جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔
دوسری جانب مسلم لیگ (ن) کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں محمد نوازشریف کی قیادت پر اظہار اعتماد کیا گیا بلکہ 45 دن کے لیے وزارت عظمیٰ کے امیدوار شاہد خاقان عباسی اور مستقل وزیر اعظم شہبازشریف کے ناموں کی تصدیق بھی کی گئی جس سے واضح ہوتا ہے کہ مسلم لیگ کل بھی متحد تھی اور آج بھی متحد ہے۔ اس کے برعکس اپوزیشن وزارت عظمیٰ کے امیدوار کے نام پر ہی تقسیم ہوگئی۔ جب کہ شاہد خاقان عباسی اکثریت سے وزیر اعظم منتخب ہوگئے ہیں اور ایم کیو ایم نے بھی عباسی صاحب کو ووٹ دیا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ نوازشریف کے ویژن اور ان کی پالیسیاں جاری رہیں گی۔
میں نے سابق وزیر اعظم سے ملاقات کی۔ میرے تفکرات دیکھ کر انھوں نے بھی تسلی دی اور کہا کہ آپ فکر مت کریں سب ٹھیک ہوجائے گا۔ مجھے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ نوازشریف کے حوصلے بلند تھے اور انتہائی مطمئن دکھائی دے رہے تھے اور آنیوالے دنوں کی منصوبہ بندی میں مصروف تھے۔ میرا تجزیہ یہ ہے کہ الیکشن قریب ہیں اور 2018 میں ہونے والے الیکشن ایک بار پھر ثابت کردیں گے کہ وہ کسی کے مہرے اور پٹھوں کے ساتھ نہیں ہیں بلکہ اپنے عوامی قائد محمد نوازشریف کے ساتھ ہیں۔