کتاب میلہ 2017ء
سوشل سائنسز، فلسفے اور بالخصوص ادب سے متعلق کتابوں کی اشاعت تیزی سے گر رہی ہیں۔
کتابوں، بالخصوص اردو اور پاکستان کی دیگر بڑی زبانوں سے بے رغبتی کے اس دور میں اس حوالے سے کسی کتاب میلے کا انعقاد بیک وقت خوش آئند بھی ہے اور تعجب خیز بھی کہ یہ منظر ایک طرف ''تری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں'' اور دوسری طرف ''آسماں ہو گا سحر کے نور سے آئینہ پوش'' کے رنگ بکھیرتا نظر آتا ہے۔
ماہرین لسانیات کے تجزیوں اور اطلاعات کے مطابق آئندہ 50 برس میں بہت سی زبانیں یا تو صفحۂ ہستی سے مٹ جائیں گی یا صرف بولنے کی حد تک محدود ہو جائیں گی۔ ایک عرصے تک میں بھی اس تحقیق کو مغربی استعمار کی پھیلائی ہوئی ایک افواہ ہی سمجھتا رہا لیکن ادھر کچھ برسوں سے یہ احساس مسلسل تقویت پکڑتا جا رہا ہے کہ معاملات واقعی ہاتھوں سے نکل رہے ہیں۔ اردو ادب کے قارئین نایاب نہ سہی کم یاب یقینا ہوتے چلے جا رہے ہیں۔
دینی موضوعات سے متعلق لٹریچر اور درسی کتابیں تو اپنے کچھ مخصوص تقاضوں کے پیش نظر چھپ اور بک رہی ہیں لیکن سوشل سائنسز، فلسفے اور بالخصوص ادب سے متعلق کتابوں کی اشاعت تیزی سے گر رہی ہیں۔ کہنے کو نئے لکھنے والوں کی کتابیں دھڑا دھڑ چھپ رہی ہیں مگر ان کے قارئین کا حلقہ تیزی سے سکڑتا جا رہا ہے جب کہ ان کے خریدار اس قدر کم ہو گئے ہیں کہ کم و بیش بیس کروڑ آبادی والے اس ملک میں کئی کتابوں کا پہلا اور آخری ایڈیشن صرف پانچ سو کی تعداد میں چھپتا ہے جو اکثر صورتوں میں سارے کا سارا یا تو مصنف کے دوستوں میں تقسیم ہو جاتا ہے یا پڑا پڑا گل سڑ جاتا ہے جب کہ پرانے اور معروف لکھنے والوں کی کتابیں بھی اکثر خریدار کی راہ دیکھتی رہ جاتی ہیں۔
لائبریری کلچر کی بڑی بھلی شکل بھی غائب ہوتی چلی جا رہی ہے کیونکہ چار پانچ سطحی نظام تعلیم اور انگلش میڈیم کی اندھا دھند تقلید کی وجہ سے اسکولوں اور کالجوں کی لائبریریوں میں اب تدریسی موضوعات کے علاوہ نہ تو دیگر موضوعات پر مبنی کتابوں کو خریدنے کے لیے فنڈز ہوتے ہیں اور نہ ہی قارئین۔ عموماً مہنگائی اور کتاب کی صنعت پر عائد کردہ گوناگوں ٹیکسوں کی وجہ سے اس کی قیمت عام خریدار کی پہنچ سے باہر ہو جاتی ہے جس کا بالواسطہ منفی اثر مصنفین اور ناشرین دونوں پر ایک ساتھ پڑتا ہے جب کہ رہی سہی کسر انگریزی زبانوں کے ناجائز مگر ہمہ گیر تسلط نے پوری کر دی ہے کہ نئی نسل میں اردو رسم الخط کو پڑھنے اور اس میں لکھنے کی صلاحیت تیزی سے کم ہو رہی ہے۔ آج کے بچے اور نوجوان ٹیکسٹ میسجز میں زیادہ تر رومن اسکرپٹ استعمال کرتے ہیں جب کہ اشتہارات میں بھی اس کا عمل دخل تیزی سے بڑھ رہا ہے۔
اب اگر اس سارے منظرنامے کو سامنے رکھ کر کتاب میلوں اور ان کی بڑھتی ہوئی مقبولیت پر نظر ڈالی جائے تو ذہن بے اختیار حسرت موہانی کے اس شعر میں الجھ جاتا ہے کہ
خرد کا نام جنوں رکھ دیا جنوں کا خرد
جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے
پندرہویں صدی عیسوی میں پرنٹنگ پریس کی ایجاد اور آئندہ دو صدیوں میں صنعتی ترقی اور علمی انقلابات کی وجہ سے یورپ میں کتاب کی اہمیت اور مقبولیت میں جو اضافہ ہوا اس کا اثر نو آبادیاتی دور میں یوں تو ہر طرف پھیلتا چلا گیا مگر تعلیم اور لائبریریوں کے فروغ، عام آدمی کی قوت خرید میں اضافے اور سوشل سائنسز کے ساتھ ساتھ ادب اور فنون لطیفہ کے فروغ کے باعث یورپی اقوام میں کتاب ان کے کلچر کا حصہ بن گئی جب کہ باقی دنیا میں بوجوہ ایسا نہ ہو سکا۔ ہم جیسے تیسری دنیا کے لوگ اپنی قدیم مذہبی بنیاد، روایت اور جدید سائنسی ترقی اور ٹیکنالوجی کے فروغ اور کھچڑی نما نظام ہائے تعلیم نے پہلے ہمیں تحقیق اور ایجاد کے دائرے سے باہر کیا اور اب ہم کتاب سے دوری کے باعث ان اوصاف سے بھی محروم ہو جا رہے ہیں جن کی وجہ سے انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ دیا گیا تھا۔
ایکسپو سینٹر لاہور میں جاری کتاب میلہ جہاں ہمیں غار کے دوسرے کنارے پر روشنی کی خبر دیتا ہے وہاں اس سے متعلق چند ایسے حقائق بھی سامنے آتے ہیں جنھیں نرم ترین الفاظ میں بھی ''افسوسناک'' ہی کہا جا سکتا ہے۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ وطن عزیز میں تعلیمی اداروں میں لگنے والے کتاب میلوں سے قطع نظر باقی کے بیشتر اہم کتاب میلے ناشرین کی تنظیمیں آکسفورڈ پریس ٹائپ چند ادارے اور نیشنل بک فاؤنڈیشن وغیرہ ہی منعقد کرتے ہیں۔
ٹیکسٹ بک بورڈ پنجاب کی ملازمت کے دوران مجھے لاہور کے پبلشرز کی تنظیم کے عہدیداروں سے ملاقات کا بھی موقع ملتا رہا اور میں نے ان کے سالانہ کتاب میلوں میں ادارہ جاتی اور ذاتی دونوں حوالوں سے شرکت بھی کی اور یہ تجربہ خاصا خوشگوار بھی رہا لیکن موجودہ میلے کے حوالے سے برادرم نواز نیازی کی معرفت یہ جان کر بہت افسوس ہوا کہ ہمارے ان ہی دوستوں نے صرف اس بنیاد پر اس کی مخالفت کی اور اس کے انعقاد میں روڑے بلکہ پہاڑ اٹکائے کہ یہ کام ان کی تنظیم سے الگ کچھ نئے لوگ کر رہے تھے جن میں سرفہرست ہمارے مرحوم دوست عبدالجبار شاکر کا صاحبزادہ جمال الدین افغانی ہے۔
میرے نزدیک یہ سراسر ایک آمرانہ ذہنیت اور رویے کا اظہار ہے کہ اصولی طور پر تو ہر کتاب دوست کو اس اقدام کی تحسین اور معاونت کرنی چاہیے کہ اس کا مقصد بہرحال کتاب ہی کا فروغ تھا اور ہے اگر کچھ طے طلب معاملات تھے بھی تب بھی اس میلے کو روکنے کی کوشش کسی بھی حوالے سے جائز اور مستحسن نہیں ٹھہرتی۔ یہ تو ایک سال میں دو کتاب میلوں کا مسئلہ تھا۔ میں تو کہتا ہوں کہ ایسے کتاب میلے سارا سال ہوتے رہنے چاہئیں کہ اس کا تعلق معاشرے کی عمومی فلاح اور ترقی سے ہے۔
میری کتابوں کے تقریباً تمام اشاعتی ادارے سنگ میل پبلی کیشنز، جہانگیر بکس، دوست پبلی کیشنز اسلام آباد، مجلس ترقی ادب اور یو ایم ٹی پریس اس میلے میں حصہ لے رہے تھے لیکن سب سے زیادہ خوشگوار حیرت اس میں جہلم جیسے نسبتاً چھوٹے شہر کے ایک بڑے اور نسبتاً نئے اشاعتی ادارے ''بک کارنر'' کے اسٹال کو دیکھ کر ہوئی جسے امر شاہد اور گگن شاہد دو بھائی بہت محبت اور محنت سے چلا رہے ہیں۔
مجھے گزشتہ برس جہلم میں ان کے شو روم اور شائع کردہ کتابوں کو دیکھنے کا بھی موقع ملا تھا جو یقیناً ایک متاثر کن تجربہ تھا۔ ان دوستوں نے حال ہی میں برادرم نصیر احمد ناصر کے مرتب کردہ ادبی جریدے ''تسیطر'' کی اشاعتی ذمے داریاں بھی سنبھالی ہیں جس کا تازہ شمارہ اس میلے میں پیش کیا گیا لیکن ایک اور خوشگوار حیرت بھی میری منتظر تھی کہ انھوں نے وہاں میری سالگرہ کی رعایت سے کیک کاٹنے کا اہتمام بھی کر رکھا تھا۔
منتظمین میلہ نے مجھے مختلف اسٹالز کا ایک راؤنڈ لگوایا جس کے دوران ایسی خوب صورت، اہم، نئی اور بے شمار کتابوں کو دیکھنے کا موقع ملا کہ چند لمحوں کے لیے کتاب کے زوال سے متعلق تمام تر خدشے اندیشے اور اندازے جیسے گم سے ہو گئے۔ کتابوں کا عمومی اور بچوں کی کتابوں کا معیار بالخصوص بہت اچھا تھا۔ بہت سے اشاعتی اداروں سے تعارف بھی ہوا اور کئی ایک نے اپنی کچھ مطبوعات تحفتاً بھی پیش کیں اور یوں بہت دنوں کے بعد کتاب کے حوالے سے ایک روشن اور امید افزا صورت حال میں کچھ وقت گزارنے کا موقع ملا۔ اس تاثر میں تسلسل کی دعا کے ساتھ علامہ صاحب کا یہ مصرعہ بھی دہرانے کو جی چاہتا ہے کہ
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
ماہرین لسانیات کے تجزیوں اور اطلاعات کے مطابق آئندہ 50 برس میں بہت سی زبانیں یا تو صفحۂ ہستی سے مٹ جائیں گی یا صرف بولنے کی حد تک محدود ہو جائیں گی۔ ایک عرصے تک میں بھی اس تحقیق کو مغربی استعمار کی پھیلائی ہوئی ایک افواہ ہی سمجھتا رہا لیکن ادھر کچھ برسوں سے یہ احساس مسلسل تقویت پکڑتا جا رہا ہے کہ معاملات واقعی ہاتھوں سے نکل رہے ہیں۔ اردو ادب کے قارئین نایاب نہ سہی کم یاب یقینا ہوتے چلے جا رہے ہیں۔
دینی موضوعات سے متعلق لٹریچر اور درسی کتابیں تو اپنے کچھ مخصوص تقاضوں کے پیش نظر چھپ اور بک رہی ہیں لیکن سوشل سائنسز، فلسفے اور بالخصوص ادب سے متعلق کتابوں کی اشاعت تیزی سے گر رہی ہیں۔ کہنے کو نئے لکھنے والوں کی کتابیں دھڑا دھڑ چھپ رہی ہیں مگر ان کے قارئین کا حلقہ تیزی سے سکڑتا جا رہا ہے جب کہ ان کے خریدار اس قدر کم ہو گئے ہیں کہ کم و بیش بیس کروڑ آبادی والے اس ملک میں کئی کتابوں کا پہلا اور آخری ایڈیشن صرف پانچ سو کی تعداد میں چھپتا ہے جو اکثر صورتوں میں سارے کا سارا یا تو مصنف کے دوستوں میں تقسیم ہو جاتا ہے یا پڑا پڑا گل سڑ جاتا ہے جب کہ پرانے اور معروف لکھنے والوں کی کتابیں بھی اکثر خریدار کی راہ دیکھتی رہ جاتی ہیں۔
لائبریری کلچر کی بڑی بھلی شکل بھی غائب ہوتی چلی جا رہی ہے کیونکہ چار پانچ سطحی نظام تعلیم اور انگلش میڈیم کی اندھا دھند تقلید کی وجہ سے اسکولوں اور کالجوں کی لائبریریوں میں اب تدریسی موضوعات کے علاوہ نہ تو دیگر موضوعات پر مبنی کتابوں کو خریدنے کے لیے فنڈز ہوتے ہیں اور نہ ہی قارئین۔ عموماً مہنگائی اور کتاب کی صنعت پر عائد کردہ گوناگوں ٹیکسوں کی وجہ سے اس کی قیمت عام خریدار کی پہنچ سے باہر ہو جاتی ہے جس کا بالواسطہ منفی اثر مصنفین اور ناشرین دونوں پر ایک ساتھ پڑتا ہے جب کہ رہی سہی کسر انگریزی زبانوں کے ناجائز مگر ہمہ گیر تسلط نے پوری کر دی ہے کہ نئی نسل میں اردو رسم الخط کو پڑھنے اور اس میں لکھنے کی صلاحیت تیزی سے کم ہو رہی ہے۔ آج کے بچے اور نوجوان ٹیکسٹ میسجز میں زیادہ تر رومن اسکرپٹ استعمال کرتے ہیں جب کہ اشتہارات میں بھی اس کا عمل دخل تیزی سے بڑھ رہا ہے۔
اب اگر اس سارے منظرنامے کو سامنے رکھ کر کتاب میلوں اور ان کی بڑھتی ہوئی مقبولیت پر نظر ڈالی جائے تو ذہن بے اختیار حسرت موہانی کے اس شعر میں الجھ جاتا ہے کہ
خرد کا نام جنوں رکھ دیا جنوں کا خرد
جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے
پندرہویں صدی عیسوی میں پرنٹنگ پریس کی ایجاد اور آئندہ دو صدیوں میں صنعتی ترقی اور علمی انقلابات کی وجہ سے یورپ میں کتاب کی اہمیت اور مقبولیت میں جو اضافہ ہوا اس کا اثر نو آبادیاتی دور میں یوں تو ہر طرف پھیلتا چلا گیا مگر تعلیم اور لائبریریوں کے فروغ، عام آدمی کی قوت خرید میں اضافے اور سوشل سائنسز کے ساتھ ساتھ ادب اور فنون لطیفہ کے فروغ کے باعث یورپی اقوام میں کتاب ان کے کلچر کا حصہ بن گئی جب کہ باقی دنیا میں بوجوہ ایسا نہ ہو سکا۔ ہم جیسے تیسری دنیا کے لوگ اپنی قدیم مذہبی بنیاد، روایت اور جدید سائنسی ترقی اور ٹیکنالوجی کے فروغ اور کھچڑی نما نظام ہائے تعلیم نے پہلے ہمیں تحقیق اور ایجاد کے دائرے سے باہر کیا اور اب ہم کتاب سے دوری کے باعث ان اوصاف سے بھی محروم ہو جا رہے ہیں جن کی وجہ سے انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ دیا گیا تھا۔
ایکسپو سینٹر لاہور میں جاری کتاب میلہ جہاں ہمیں غار کے دوسرے کنارے پر روشنی کی خبر دیتا ہے وہاں اس سے متعلق چند ایسے حقائق بھی سامنے آتے ہیں جنھیں نرم ترین الفاظ میں بھی ''افسوسناک'' ہی کہا جا سکتا ہے۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ وطن عزیز میں تعلیمی اداروں میں لگنے والے کتاب میلوں سے قطع نظر باقی کے بیشتر اہم کتاب میلے ناشرین کی تنظیمیں آکسفورڈ پریس ٹائپ چند ادارے اور نیشنل بک فاؤنڈیشن وغیرہ ہی منعقد کرتے ہیں۔
ٹیکسٹ بک بورڈ پنجاب کی ملازمت کے دوران مجھے لاہور کے پبلشرز کی تنظیم کے عہدیداروں سے ملاقات کا بھی موقع ملتا رہا اور میں نے ان کے سالانہ کتاب میلوں میں ادارہ جاتی اور ذاتی دونوں حوالوں سے شرکت بھی کی اور یہ تجربہ خاصا خوشگوار بھی رہا لیکن موجودہ میلے کے حوالے سے برادرم نواز نیازی کی معرفت یہ جان کر بہت افسوس ہوا کہ ہمارے ان ہی دوستوں نے صرف اس بنیاد پر اس کی مخالفت کی اور اس کے انعقاد میں روڑے بلکہ پہاڑ اٹکائے کہ یہ کام ان کی تنظیم سے الگ کچھ نئے لوگ کر رہے تھے جن میں سرفہرست ہمارے مرحوم دوست عبدالجبار شاکر کا صاحبزادہ جمال الدین افغانی ہے۔
میرے نزدیک یہ سراسر ایک آمرانہ ذہنیت اور رویے کا اظہار ہے کہ اصولی طور پر تو ہر کتاب دوست کو اس اقدام کی تحسین اور معاونت کرنی چاہیے کہ اس کا مقصد بہرحال کتاب ہی کا فروغ تھا اور ہے اگر کچھ طے طلب معاملات تھے بھی تب بھی اس میلے کو روکنے کی کوشش کسی بھی حوالے سے جائز اور مستحسن نہیں ٹھہرتی۔ یہ تو ایک سال میں دو کتاب میلوں کا مسئلہ تھا۔ میں تو کہتا ہوں کہ ایسے کتاب میلے سارا سال ہوتے رہنے چاہئیں کہ اس کا تعلق معاشرے کی عمومی فلاح اور ترقی سے ہے۔
میری کتابوں کے تقریباً تمام اشاعتی ادارے سنگ میل پبلی کیشنز، جہانگیر بکس، دوست پبلی کیشنز اسلام آباد، مجلس ترقی ادب اور یو ایم ٹی پریس اس میلے میں حصہ لے رہے تھے لیکن سب سے زیادہ خوشگوار حیرت اس میں جہلم جیسے نسبتاً چھوٹے شہر کے ایک بڑے اور نسبتاً نئے اشاعتی ادارے ''بک کارنر'' کے اسٹال کو دیکھ کر ہوئی جسے امر شاہد اور گگن شاہد دو بھائی بہت محبت اور محنت سے چلا رہے ہیں۔
مجھے گزشتہ برس جہلم میں ان کے شو روم اور شائع کردہ کتابوں کو دیکھنے کا بھی موقع ملا تھا جو یقیناً ایک متاثر کن تجربہ تھا۔ ان دوستوں نے حال ہی میں برادرم نصیر احمد ناصر کے مرتب کردہ ادبی جریدے ''تسیطر'' کی اشاعتی ذمے داریاں بھی سنبھالی ہیں جس کا تازہ شمارہ اس میلے میں پیش کیا گیا لیکن ایک اور خوشگوار حیرت بھی میری منتظر تھی کہ انھوں نے وہاں میری سالگرہ کی رعایت سے کیک کاٹنے کا اہتمام بھی کر رکھا تھا۔
منتظمین میلہ نے مجھے مختلف اسٹالز کا ایک راؤنڈ لگوایا جس کے دوران ایسی خوب صورت، اہم، نئی اور بے شمار کتابوں کو دیکھنے کا موقع ملا کہ چند لمحوں کے لیے کتاب کے زوال سے متعلق تمام تر خدشے اندیشے اور اندازے جیسے گم سے ہو گئے۔ کتابوں کا عمومی اور بچوں کی کتابوں کا معیار بالخصوص بہت اچھا تھا۔ بہت سے اشاعتی اداروں سے تعارف بھی ہوا اور کئی ایک نے اپنی کچھ مطبوعات تحفتاً بھی پیش کیں اور یوں بہت دنوں کے بعد کتاب کے حوالے سے ایک روشن اور امید افزا صورت حال میں کچھ وقت گزارنے کا موقع ملا۔ اس تاثر میں تسلسل کی دعا کے ساتھ علامہ صاحب کا یہ مصرعہ بھی دہرانے کو جی چاہتا ہے کہ
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی