رام داس سے رام ناتھ تک
بھارت کی سیاست بھارت کے اقتدار اور بھارت کی جمہوریت پر مڈل اور لوئر مڈل کلاس کا قبضہ ہے۔
بھارتی صدر پرناب مکھرجی کے ریٹائر ہونے کے بعد بھارت میں نئے صدر نے عہدہ سنبھال لیا ہے، اس نئے صدر کا نام رام ناتھ ہے اور یہ دلت یعنی نچلی ذات سے تعلق رکھتے ہیں۔ بھارت سے ہمارے تعلقات لاکھ خراب سہی لیکن اس حقیقت کو تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ بھارت میں اشرافیہ اقتدار سے باہر ہے۔ اس حوالے سے دلچسپ بات یہ ہے کہ بھارت کا موجودہ وزیراعظم ایک ڈھابے پر باہر کا کام کرنے والا شخص نریندر مودی ہے جس کا تعلق بھی انتہائی نچلے طبقات سے ہے۔
بھارت کے ایک سابق نیول چیف رام داس کا تعلق بھی غریب گھرانے سے ہے اور رام داس ریٹائر ہونے کے بعد ایک سماجی کارکن کے طور پر ہندوستان اور پاکستان کے درمیان دوستی کے لیے کام کرتے رہے، اس حوالے سے ان کا پاکستان آنا جانا رہتا تھا۔ رام داس سے ہماری ملاقات رہتی تھی کیونکہ وہ پائلر کے مہمان ہوتے تھے اور ہم پائلر میں نیوز لیٹر کے ایڈیٹر کی حیثیت سے کام کرتے تھے۔ ایک بار رام داس نے ہمیں بتایا کہ ان کی بیٹی باہر زیر تعلیم تھی اور تعلیم کے دوران ان کی بیٹی ایک مسلمان طالب علم کی محبت میں گرفتار ہوگئی۔
ایک دن بیٹی کا فون آیا، بیٹی نے اپنی محبت کی داستان سناتے ہوئے اپنے پتا جی سے کہا کہ وہ مسلمان لڑکے سے شادی کر رہی ہے۔ رام داس بڑے پریشان ہوئے کہ ان کی بیٹی ایک عام آدمی کی بیٹی نہیں بلکہ دنیا کے دوسرے بڑے ملک بھارت کے نیول چیف کی بیٹی ہے، اگر وہ ایک مسلمان لڑکے سے شادی کرے گی تو ان کے لیے کہیں مشکلات نہ پیدا ہوں۔ سو رام داس نے بتایا کہ انھوں نے اس بات کا ذکر وزیراعظم سے کیا۔ وزیراعظم نے جواب دیا کہ آپ کی لڑکی اپنی زندگی کے فیصلے کرنے میں آزاد ہے، حکومت کو اس کے فیصلے پر کوئی اعتراض نہیں۔
بھارت کے نئے صدر کا تعلق دلت یعنی نچلی ذات سے ہے۔ بھارت میں یہ کلچر کس طرح پروان چڑھا؟ یہ ایسا سوال ہے جس پر پاکستان کے حکمران طبقے کی کلاس کے تناظر میں غور کرنے کی ضرورت ہے۔ بھارت کی آزادی کے بعد بھارت میں برسر اقتدار آنے والوں کو اس حقیقت کا ادراک تھا کہ اگر بھارت میں جمہوری کلچر کو فروغ دینا ہے تو سب سے پہلے اشرافیہ کو ختم کرنا اور سیاست بدر کرنا ہوگا۔
سو پنڈت نہرو نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ سخت زرعی اصلاحات کے ذریعے جاگیردارانہ نظام ختم کیا اور صنعتی اشرافیہ کو سیاست سے دور رکھا، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سیاست اور جمہوریت میں مڈل اور لوئر مڈل کلاس آگے آتی گئی اور اب صورتحال یہ ہے کہ بھارت کی سیاست بھارت کے اقتدار اور بھارت کی جمہوریت پر مڈل اور لوئر مڈل کلاس کا قبضہ ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ بھارت کے اقتدار میں مڈل اور لوئر مڈل کلاس غالب ہے۔ بھارت کے صدر اور وزیراعظم مڈل اور لوئر مڈل کلاس سے آتے رہے ہیں، آج بھارت کا وزیر اعظم ایک ڈھابے پر کام کرنے والا شخص ہے تو بھارت کے صدر کا تعلق ایک نچلی ذات یعنی دلت سے ہے۔
اس کے برخلاف اگر ہم پاکستان کی سیاست اور جمہوریت پر نظر ڈالیں تو ہماری سیاست، ہماری جمہوریت، ہمارا اقتدار اشرافیہ کا یرغمال بنا ہوا نظر آتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب 1947ء میں ہندوستان کی تقسیم یقینی نظر آنے لگی تو پاکستان میں ممکنہ طور پر شامل ہونے والے علاقوں پنجاب اور سندھ کے جاگیردار اور وڈیرے پاکستان مسلم لیگ میں نہ صرف شامل ہوگئے بلکہ صف اول میں جگہ بنا لی۔ اس سازش کا نتیجہ یہ نکلا کہ قیام پاکستان کے بعد سیاست اقتدار اور جمہوریت پر زمینی اور صنعتی اشرافیہ نے قبضہ کرلیا۔
پاکستان کی اشرافیہ نے ایک منظم سازش اور منصوبہ بندی کے ساتھ ایسے اقدامات کیے کہ غریب طبقات پاکستانی سیاست میں مستقل ہاری بن کر رہ گئے۔ ایوب خان نے صدق دل اور ایمانداری سے نہیں بلکہ سیاسی مفادات کی خاطر ملک میں زرعی اصلاحات نافذ کیں، کیونکہ ایوب خان کو اس حقیقت کا اندازہ تھا کہ پاکستانی سیاست پر جاگیردار طبقہ چھایا ہوا ہے اور یہ طبقہ مستقبل میں اس کی حکمرانی کے لیے خطرہ ثابت ہوسکتا ہے۔ سو اس نے اس طبقے کو بلیک میل کرنے کے لیے زرعی اصلاحات نافذ کیں۔
زرعی اصلاحات سے جاگیردار طبقے کی کمر ٹوٹ گئی اور یہ طبقہ ایوب خان سے سمجھوتے پر راضی ہوگیا اور کنونشن لیگ بناکر ایوب خان کی خدمت میں پیش کردی اس طرح ایوب خان کو ایک سیاسی پلیٹ فارم مہیا کردیا گیا، جس کے معاوضے میں ایوب خان نے جاگیرداروں اور اطاعت گزار وڈیروں کی زمینیں واپس کردیں اور اسی سازشی ٹولے نے بھٹو کی زرعی اصلاحات کو بھی ناکام بناکر سیاست اور جمہوریت پر قبضہ کرلیا۔
آج پاکستان جس خطرناک بحران سے گزر رہا ہے یہ بحران اشرافیہ کی اقتدار پر ہر حال میں قبضہ برقرار رکھنے کی کوششوں کا نتیجہ ہے۔ ہمارے ملک میں80 فیصد غریب دو وقت کی روٹی کے لیے محتاج ہیں اور ہماری اشرافیہ عوام کی کھربوں دولت پر قابض ہے، حکمران شہزادوں اور شہزادیوں کی اربوں ڈالر کی جائیداد بیرونی ملکوں میں ہے جس کے ایک ایک فلیٹ کی قیمت 25-25 ارب روپے ہے۔
یہ سب اس لیے ہوا کہ پاکستانی سیاست پاکستانی جمہوریت سے نریندر مودی اور رام ناتھوں کو دودھ کی مکھیوں کی طرح نکال کر باہر پھینک دیا گیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا عدلیہ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اشرافیہ کی ناک میں نکیل ڈال سکے گی؟ اور پاکستان میں نریندر مودیوں اور رام ناتھوں کو آگے آنے کا موقع فراہم کرے گی؟