عائشہ گلالئی الزامات پر پارلیمانی کمیٹی کا خیرمقدم عمران خان کی دانشمندی
سیاست میں خواتین پر گند اچھالنے کی ابتدا ن لیگ نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ملکر کی تھی
تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے عائشہ گلالئی کے معاملے میں سیاسی دانشمندی کا ثبوت دیتے ہوئے پارٹی رہنماؤں کے موقف کے برعکس پارلیمانی کیمٹی کا خیرمقدم کیا جس کا عمران خان کو فائدہ پہنچے گا۔
تحریک انصاف کے مرکزی سیکریٹری اطلاعات شفقت محمود نے عمران خان کو اعتماد میں لیے بغیر پارلیمانی کمیٹی کو مسترد کر دیا جس پر عمران خاں نے پارلیمانی کمیٹی کے معاملے پر واضح موقف لیا۔ عمران خان نے پارلیمانی کمیٹی کا خیر مقدم کر کے یہ پیغام دیا ہے کہ وہ پارلیمان کو اہمیت دیتے ہیں انھیں شاید اس چیزکا احساس ہوگیا ہے کہ اگر یہ معاملہ عدالت میںچلا گیا تو پھر پارلیمنٹیرین کے ہاتھوں سے نکل جائیگا۔
تحریک انصاف اگرماضی کے معاملات میں بھی پارلیمنٹ کوساتھ لیکر چلتی تو سیاست میں اتنا گند نہ پڑتا۔ عائشہ گلالئی کے معاملے پر تحریک انصاف اورعمران خاں خاصے دباؤ میں نظر آتے ہیں۔ وزیراعظٖم نے اس معاملے کی تحقیقات کیلیے پارلیمانی کمیٹی کی تجویز دی جسے قو می اسمبلی نے منظور کرلیا ہے۔ وزیراعظم نے اس حوالے سے جوموقف پیش کیا وہ خاصا منطقی اور مدلل ہے۔
وزیراعظم نے موقف اختیارکیا ہے کہ عمران خان اور عائشہ گلالئی دونوں اراکین قومی اسمبلی ہیں اس لیے یہ معاملہ پارلیمانی ہے اور اسے پارلیمنٹ میں ہی حل ہونا چاہیے۔ تحریک انصاف نے عائشہ گلالئی کے الزامات کو ردکرتے ہوئے معاملے کو پارلیمنٹ میں لے جانے کی بھی مخالفت کی۔ تحریک انصاف اگر ماضی کے معاملات میں بھی پارلیمنٹ کو ساتھ لیکر چلتی تو سیاست میں اتنا گند نہ پڑتا۔ اس معاملے میں مسلم لیگ(ن) بھی اتنی ہی قصوروار ہے۔
سیاست میں پی ٹی آئی اور مسلم لیگ(ن)کے کارکنان جس طرح ایک دوسرے کے کپڑے اتار رہے ہیں ۔اس نے سب سے زیادہ نقصان سیاستدانوں کو پہنچایاہے اور جنھیں ہم ادارے کہتے ہیں وہ مزے سے اپنا کھیل کھیل رہے ہیں۔ سیاستدانوں کی اس لڑائی میں پارلیمان کی سپریم حیثیت کو نقصان پہنچا ہے اور یہ سپریم حیثیت غیرمنتخب اداروں کو حاصل ہو گئی ہے جو سیاستدانوں کیلیے سوچنے کا مقام ہے۔
نواز شریف اور عمران خاں اگر دھاندلی الزامات اور اسکے بعد پانامہ معاملے کو پارلیمنٹ کے اندر رکھتے تو نواز شریف کا خاندان اور عمران خاں غلیظ الزامات کے سبب بے توقیرنہ ہوتے۔ پاکستان کی سیاست میں خانگی معاملات اور خواتین پرگنداچھالنے کی ابتدا ن لیگ اوراسکے ساتھ دائیں بازو کے ساتھیوں نے اسٹیبلمنٹ کے ساتھ ملکر کی تھی۔ اس وقت انکا ہدف بیگم نصرت بھٹو، بے نظیر بھٹو اورآصف علی زرداری تھے۔
آصف زردرای کی کردارکشی کے معاملے میںپی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ن) دونوں جماعتیں ایک پیج پر تھیں جبکہ پیپلزپارٹی نے نواز شریف کی فیملی خواتین پرکبھی الزام تراشی نہیںکی اورنہ ہی عمران خاںکی خانگی اور نجی زندگی کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ پیپلزپارٹی نے جمائما خاں پرکبھی بات نہ کی لیکن عمران خاں اور نواز شریف دونوں نے اپنے سیاسی مخالفین پرگند اچھالنے کی انتہاکی ہے اور اس سلسلے میں خواتین کا بھی احترام محلوظ خاطر نہیں رکھا گیا۔
تحریک انصاف کے مرکزی سیکریٹری اطلاعات شفقت محمود نے عمران خان کو اعتماد میں لیے بغیر پارلیمانی کمیٹی کو مسترد کر دیا جس پر عمران خاں نے پارلیمانی کمیٹی کے معاملے پر واضح موقف لیا۔ عمران خان نے پارلیمانی کمیٹی کا خیر مقدم کر کے یہ پیغام دیا ہے کہ وہ پارلیمان کو اہمیت دیتے ہیں انھیں شاید اس چیزکا احساس ہوگیا ہے کہ اگر یہ معاملہ عدالت میںچلا گیا تو پھر پارلیمنٹیرین کے ہاتھوں سے نکل جائیگا۔
تحریک انصاف اگرماضی کے معاملات میں بھی پارلیمنٹ کوساتھ لیکر چلتی تو سیاست میں اتنا گند نہ پڑتا۔ عائشہ گلالئی کے معاملے پر تحریک انصاف اورعمران خاں خاصے دباؤ میں نظر آتے ہیں۔ وزیراعظٖم نے اس معاملے کی تحقیقات کیلیے پارلیمانی کمیٹی کی تجویز دی جسے قو می اسمبلی نے منظور کرلیا ہے۔ وزیراعظم نے اس حوالے سے جوموقف پیش کیا وہ خاصا منطقی اور مدلل ہے۔
وزیراعظم نے موقف اختیارکیا ہے کہ عمران خان اور عائشہ گلالئی دونوں اراکین قومی اسمبلی ہیں اس لیے یہ معاملہ پارلیمانی ہے اور اسے پارلیمنٹ میں ہی حل ہونا چاہیے۔ تحریک انصاف نے عائشہ گلالئی کے الزامات کو ردکرتے ہوئے معاملے کو پارلیمنٹ میں لے جانے کی بھی مخالفت کی۔ تحریک انصاف اگر ماضی کے معاملات میں بھی پارلیمنٹ کو ساتھ لیکر چلتی تو سیاست میں اتنا گند نہ پڑتا۔ اس معاملے میں مسلم لیگ(ن) بھی اتنی ہی قصوروار ہے۔
سیاست میں پی ٹی آئی اور مسلم لیگ(ن)کے کارکنان جس طرح ایک دوسرے کے کپڑے اتار رہے ہیں ۔اس نے سب سے زیادہ نقصان سیاستدانوں کو پہنچایاہے اور جنھیں ہم ادارے کہتے ہیں وہ مزے سے اپنا کھیل کھیل رہے ہیں۔ سیاستدانوں کی اس لڑائی میں پارلیمان کی سپریم حیثیت کو نقصان پہنچا ہے اور یہ سپریم حیثیت غیرمنتخب اداروں کو حاصل ہو گئی ہے جو سیاستدانوں کیلیے سوچنے کا مقام ہے۔
نواز شریف اور عمران خاں اگر دھاندلی الزامات اور اسکے بعد پانامہ معاملے کو پارلیمنٹ کے اندر رکھتے تو نواز شریف کا خاندان اور عمران خاں غلیظ الزامات کے سبب بے توقیرنہ ہوتے۔ پاکستان کی سیاست میں خانگی معاملات اور خواتین پرگنداچھالنے کی ابتدا ن لیگ اوراسکے ساتھ دائیں بازو کے ساتھیوں نے اسٹیبلمنٹ کے ساتھ ملکر کی تھی۔ اس وقت انکا ہدف بیگم نصرت بھٹو، بے نظیر بھٹو اورآصف علی زرداری تھے۔
آصف زردرای کی کردارکشی کے معاملے میںپی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ن) دونوں جماعتیں ایک پیج پر تھیں جبکہ پیپلزپارٹی نے نواز شریف کی فیملی خواتین پرکبھی الزام تراشی نہیںکی اورنہ ہی عمران خاںکی خانگی اور نجی زندگی کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ پیپلزپارٹی نے جمائما خاں پرکبھی بات نہ کی لیکن عمران خاں اور نواز شریف دونوں نے اپنے سیاسی مخالفین پرگند اچھالنے کی انتہاکی ہے اور اس سلسلے میں خواتین کا بھی احترام محلوظ خاطر نہیں رکھا گیا۔