نواز شریف کو جوش نہیں ہوش سے فیصلے کرنا ہوںگے
ایک ہی بات سمجھ میں آرہی ہے کہ نواز شریف اپنے ووٹ بینک کو مستحکم رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اب اس بات میں کوئی ابہام نہیں کہ میاں نواز شریف بھر پور مزاحمت کے موڈ میں ہیں۔ وہ اپنی مخا لف قوتوں کے ساتھ بھر پور قوت سے ٹکرانا چاہتے ہیں۔ جس کے نتیجے میں یا تو ان کی مخالف قوتیں پاش پاش ہو جائیں یا نواز شریف کی بچی کھچی سیاست بھی پاش پاش ہو جائے۔ وہ لڑائی کو فائنل راؤنڈ میں لانے کا فیصلہ کر چکے ہیں۔
میاں نواز شریف نے اپنی نا اہلی کے بعد جو کابینہ میدان میں اتاری ہے۔ وہی بتا رہی ہے کہ میدان سج گیا ہے۔ وہ مفاہمت والی نہیں بلکہ مزاحمت والی کابینہ ہے۔ کچھ لوگ اس کو انتخابی کابینہ کہہ رہے ہیں۔ لیکن یہ انتخابی نہیں جنگی کابینہ ہے۔
مشاہد اللہ کو واپس وزیر بنانا ایک واضح پیغام ہے کہ اب اسٹیبلشمنٹ سے ٹکراؤ ہے۔ اسی طرح جب اقامہ والا وزیر اعظم قبول نہیں تو اقامہ والا وزیر داخلہ اور وزیر خارجہ کیسے قبول ہو سکتا ہے۔ تم کتنے اقامے والے مارو گے ہر گھر سے اقامہ والا نکلے گا کے مصداق نواز شریف اقامہ کی سیاست پر جارحانہ موڈ رکھتے ہیں۔ وہ اس پر سرنڈر کرنے کے موڈ میں نہیں ہیں۔ اسی طرح اسحاق ڈار کو دوبارہ وزیر خزانہ بنانا بھی ایک واضح پیغام ہے۔
آپ مانیں یا نہ مانیں لیکن چوہدری نثار علی خان اور سرتاج عزیز کے کابینہ سے فارغ ہونے سے کابینہ میں مفاہمتی اور اسٹیبلشمنٹ سے اچھے تعلقات رکھنے والے وزراء کی تعداد کم ہو گئی ہے۔ اب اگر کوئی ہے بھی تو وہ اس قدر غیر اہم ہے کہ اس سے بات کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ تمام اہم وزارتوں پر اسٹیبلشمنٹ کے باغی بیٹھ گئے ہیں۔ جن پر کسی نہ کسی حوالے سے اعتراض ہے۔ مجھے پریشانی ہے اسٹیبلشمنٹ اس قدر جارحا نہ کیبنٹ کے ساتھ کیسے گزارا کرے گی۔کیا انھوں نے اپنے ہی بنائے ہوئے وزیر اعظم کو تنہا نہیں کر دیا۔ شاہد خاقان عباسی کو جس ٹیم کا کپتان بنایا گیا ہے شاید وہ ٹیم ان کو کپتان نہیں مانے گی۔
ایک طرف شاہد خاقان گارڈ آف آنر لے رہے ہیں دوسری طرف اسٹیبلشمنٹ سے لڑائی کے شادیانے بج رہے ہیں۔اگر ایسا ہی کرنا تھا تو خواجہ آصف کو وزیر خارجہ کے بجائے وزیر اعظم ہی بنا دیا جاتا۔ وہ ایک ڈمی وزیر دفاع تو تھے لیکن کیا وہ ڈمی وزیر خارجہ بھی ہو ںگے۔ کیونکہ وزارت خا رجہ اسٹیبلشمنٹ کے تعاون کے بغیر چلانا ممکن نہیں۔ اسی طرح سی پیک میں تو احسن اقبال کا کردار غیر اہم تھا۔ لیکن وزارت داخلہ میں وہ غیر اہم کیسے ہوںگے۔ طلال چوہدری کو بھی وزارت داخلہ میں کیسے قبول کیا جائے گا۔یہ ایک خطرناک منظر نامہ ہے۔
اسی طرح لاہور جانے کے سفر کو موٹر وے سے جی ٹی روڈ پر منتقل کرنا بھی ایک واضح پیغام ہے کہ اب کوئی مفاہمت نہیں۔ میاں نواز شریف کی پارٹی پر تو پہلے ہی یہ الزام ہے کہ یہ جی ٹی روڈ کی پارٹی ہے۔ جی ٹی روڈ ان کا مضبوط گڑھ ہے۔ اس لیے اس بات میں کوئی ابہام نہیں کہ جی ٹی روڈ پر عوام نہیں آئیں گے۔ ویسے بھی عاشق کا جنازہ دھوم سے نکلے گا والی مصداق نواز شریف نااہلی کے بعد پہلی دفعہ عوام میں آرہے ہیں اس لیے عوام تو آئیں گے۔
جی ٹی روڈ کے دونوں طرف سو فیصد نشستیں نواز شریف نے جیتی ہوئی ہیں۔ چپے چپے پر ان کے لوگ ہیں۔ اس لیے ان کا جی ٹی روڈ سے آنے کا فیصلہ یہ ظاہر کر رہا ہے کہ وہ اب چیلنج کرنے کا ارداہ کر چکے ہیں۔ وہ نہ صرف اپنے سیاسی مخالفین بلکہ ہر مخالف کو للکارنے کا فیصلہ کر چکے ہیں۔ موٹر وے سے آنا ایک مفاہمتی فیصلہ تھا۔ اس کو اس قدر خطرہ کی نگاہ سے نہیں دیکھا جا رہا تھا۔ لیکن جی ٹی روڈ سے آنے کو ایک اعلان جنگ کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
موٹر وے سے آنے کو اعلان جنگ نہیں سمجھا جا رہا تھا۔ سب اس کو ہلکی پھلکی سیاسی سرگرمی لے رہے تھے۔ ایک بات تھی کہ اب گھر تو جانا تھا۔ لوگوں میں بھی رہنا ہے۔ اس لیے موٹر وے سے جانا قوتوں کو قابل قبول تھا تا ہم جی ٹی روڈ کو وہ اپنے لیے خطرہ سمجھ رہے ہیں۔
اس سے پہلے کہ یہ سمجھا جائے کہ نواز شریف کیا کرنے جا رہے ہیں۔ یہ بھی مد نظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ ابھی بھی نواز شریف کی جماعت کی ہی مرکز میں حکومت ہے۔ انھوں نے وزرا کی فوج ظفر موج نامزد کر دی ہے۔ وزیر اعظم ان کے نام کی تسبیح پڑھ رہا ہے۔ اقتدار میں آنے کا راستہ بھی ان کی خوشنودی کا ہی محتاج ہے۔ اسی لیے جو ٹکراؤ کے مخالف ہیں وہ کابینہ میں نہیں ہیں۔ پنجاب میں ان کا بھائی ایک مضبوط وزیر اعلیٰ ہے۔ پنجاب اسمبلی میں ان کی بلا شرکت غیرے ایک مضبوط اکثریت ہے۔ پنجاب ان کا قلعہ ہے۔
سوال یہ بھی ہے کہ وہ اپنی حکومتوں کو مزید غیر مستحکم کیوں کر رہے ہیں۔ اگر وہ عوام میں آنے کا فیصلہ کر چکے ہیں تو اسمبلیوں کو چھوڑ دیں۔ عوام میں آجائیں۔ ایک فریش مینڈیٹ کی طرف جائیں۔ لیکن ایک طرف سسٹم کو چلانا بھی ہے اور دوسری طرف سسٹم کو چیلنج بھی کرنا ہے۔ ایک طرف جمہوریت کو بچانا بھی ہے دوسری طرف خود ہی جمہوریت کو غیر مستحکم بھی کرنا ہے۔ ایک طرف تحمل کی بات بھی کرنی ہے دوسری طرف غصہ بھی ہے۔ایک طرف اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر کام بھی کرنا ہے دوسری طرف اس کو چیلنج بھی کرنا ہے۔ چپ رہنا بھی ہے اور یہ کہنا بھی ہے کہ میں ہمیشہ چپ نہیں رہوں گا۔ تحمل کا مظاہرہ بھی کرنا ہے اور یہ باور بھی کروانا ہے کہ یہ تحمل مستقل نہیں ہے۔
اب بلا شبہ جی ٹی روڈ پر نواز شریف کا شاندار استقبال ہو جائے گا۔ لیکن کیا سندھ میں یہ استقبال ہو سکے گا۔کیا کے پی کے کی سڑکوں پر یہ استقبال ہو سکے گا۔کیا کراچی میں یہ ریلی نکالی جا سکے گی۔کیا کوئٹہ میں عوام نکلیں گے۔ صرف جی ٹی روڈ پر لوگوں کو نکال کر کیا پیغا م دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
ایک ہی بات سمجھ میں آرہی ہے کہ نواز شریف اپنے ووٹ بینک کو مستحکم رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ اپنے ووٹر کو حو صلہ دینا چاہتے ہیں کہ میں کھڑا ہوں۔ لیکن اگر یہ کرنا بھی مقصود ہے تو اس کے لیے اتنی مزاحمت کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ ایک ہی دفعہ میں ساری طاقت کیوں سڑکوں پر لانا چاہتے ہیں۔ وہ ایک ہی دن میں سب کو سڑکوں پر کیوں لانا چاہتے ہیں۔کیا وہ اس کے بعد گھر بیٹھنا چاہتے ہیں۔ وہ جلسوں اور ریلیوں کا ایک لمبا پروگرام بھی بنا سکتے تھے۔
الگ الگ شہر شہر جا سکتے تھے لیکن ایک ہی دن میں سارے شئر کرنے کی کیا وجہ ہے۔ جب وہ عدلیہ کی بحالی کے لیے نکلے تھے تو ایک ٹارگٹ تھا کہ عدلیہ بحال کرانی ہے۔ وہ راستہ میں ہی بحال ہو گئی۔ لیکن تب ان کی کوئی حکومت نہیں تھی۔ مرکز میں ان کی حکومت نہیں تھی۔ پنجاب میں ان کی حکومت ختم ہو چکی تھی۔ لیکن اب تو مرکز اور پنجاب دونوں طرف ہی ان کی اپنی حکومتیں ہیں۔ وہ اپنی ہی حکومتوں کے خلاف کیسے نکل سکتے ہیں۔ سفر چاہے اسلام آباد سے لاہور کی طرف ہو یا لاہور سے اسلام آباد کی طرف دونوں طرف ہی ان کی حکومت ہے۔
کیا یہ بھی قابل قبول ہو گا کہ وہ اپنی حکومتوں کے سائے تلے اسٹیبلشمنٹ کو چیلنج کر دیں۔کیا یہ بھی قابل قبول ہو گا کہ وہ اقتدار اور مزاحمت کی سیاست کو اکٹھا کر سکیں۔پتہ نہیں کیوں لیکن نواز شریف کو جلدی لگ رہی ہے۔ وہ سیاست میں دروازوں کو بند کرتے ہوئے بند گلی میں سب کو لیجا رہے ہیں۔ لیکن بند گلیوں کی سیاست میں سب ہی بند گلی میں پھنس جائیں گے۔ یہ درست ہے کہ وہ اپنے دشمنوں کو بند گلی میں لیجا رہے ہیں لیکن ساتھ ساتھ ان کے دوست اور ہمدرد بھی بند گلی میں جا رہے ہیں۔ اس پر بھی سوچنے کی ضرورت ہے۔انھیں جوش نہیں ہوش سے فیصلے کرنا ہوںگے۔