لمحہ فکریہ

ہر وزیراعظم کو اس وقت فارغ کردیا جاتا ہے، جب وہ خود کو عوام کا منتخب کردہ وزیراعظم سمجھنے لگتا ہے۔


Muqtida Mansoor August 07, 2017
[email protected]

سینیٹ چیئرمین رضا ربانی، اپنی صاف گوئی اور غیر مشروط جمہوریت نوازی کے حوالے سے ملک کے متوشش حلقوں میں احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔ وہ جو کچھ بولتے یا لکھتے ہیں، وہ اس ملک کے 20 کروڑ عوام کے جذبات اور احساسات کی ترجمانی ہوتی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ وہ اس دور میں اصولی سیاست کی شمع روشن کرنے کی کوشش کررہے ہیں، جب ان کے اپنے اطراف ''سیاہ راتوں میں کار ثواب'' کرنے والوں کی بہتات ہے۔

چند روز قبل کوئٹہ میں شہید وکلا کی یاد میں ہونے والے قومی سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے میاں نواز شریف کی حکومت کے عدالتی حکم کے تحت ختم کیے جانے پر فکر انگیز خیالات کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ جب سے 58(2)B ختم ہوئی ہے، اسمبلیاں ختم کرنے کا نیا طریقہ دریافت کرلیا گیا ہے۔ ہر وزیراعظم کو اس وقت فارغ کردیا جاتا ہے، جب وہ خود کو عوام کا منتخب کردہ وزیراعظم سمجھنے لگتا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ وطن عزیز میں پارلیمان سب سے کمزور ادارہ ہے۔ جس پر ایگزیکٹو اور عدلیہ دونوں حاوی آنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جب کہ عدلیہ کی کوشش ہے کہ وہ پارلیمان اور ایگزیکٹو کو اپنے زیر اثر لے آئے۔ حالانکہ قانون ساز ادارے کے طور پر پارلیمان کو ریاست کے دیگر اداروں پر سبقت حاصل ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ کسی شہری کو کسی ریاستی ادارے سے حب الوطنی کے سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کی ضرورت نہیں ہونی چاہیے۔

رضا ربانی کے خیالات سے اتفاق کرتے ہوئے، چند نکات اٹھانے کی جسارت کریں گے۔ اس میں شک نہیں کہ غیر سیاسی قوتوں نے شروع ہی سے پارلیمان کو کمزور رکھنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن اس بات سے بھی انکار ممکن نہیں کہ اہم قومی امور پر فیصلہ سازی کرتے وقت خود سیاسی جماعتیں بھی اس کلیدی ادارے کو نظر انداز کرتی ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ وطن عزیز میں Parasite قسم کے سیاستدانوں کی بھرمار رہی ہے۔ جنھوں نے اقتدار واختیار کی ہوس میں آمروں کو خوش آمدید کہا اور انھیں سیاسی چھتریاں فراہم کیں۔

کیا ملک غلام محمد سے اسکندرمرزا تک اور ایوب خان سے پرویز مشرف تک، شخصی آمریت کے ہر دور میں جو عوام دشمن فیصلے اور اقدامات کیے گئے، ان کی منصوبہ بندی میں انھی موقع پرست سیاست دانوں کا ہاتھ نہیں رہا؟ منتخب سویلین دور میں کسی بھی حلقے یا ادارے کے دباؤ پر ہی سہی، کیا غیر مقبول اور غیر جمہوری فیصلے نہیں کیے گئے؟

اس کے علاوہ ہماری سیاسی تاریخ میں کئی ا یسے وکلا بھی موجود نہیں رہے، جنھوں نے اپنی قانون دانی کی صلاحیتیں آمریتوں کو آئینی و قانونی تحفظ فراہم کرنے میں صرف کیں؟ کیا وطن عزیز میں ہر دور میں ایسے قلمکاروں اور صحافیوں کی فوج ظفر موج موجود نہیں رہی، جس نے آمروں کے حق میں صفحات کے صفحات سیاہ کیے اور آج بھی کررہے ہیں؟

اگر 70 برس کی تاریخ پر نظر ڈالیں، تو آل انڈیا مسلم لیگ کی مرکزی وصوبائی قیادت کے علاوہ ملک کو پہلا سیاسی کیڈر 1946ء کے انتخابات میں منتخب ہونے والے رہنماؤں کی شکل میں ملا۔ یہ مختلف فکری رجحانات اور رویوں کے لوگ تھے، جو مختلف سماجی پس منظر سے آئے تھے۔ اس لیے جلد ہی تاج برطانیہ کی تربیت یافتہ بیوروکریسی کے ہاتھوں کھلونا بن گیا۔ ان کی ایک بڑی تعداد تہذیبی نرگسیت کا شکار ہونے کی وجہ سے جمہوریت کی اہمیت اور افادیت سے قطعی بے بہرہ تھی۔ جو ملک کو ایک تھیوکریٹک ریاست بنانے کے خواب دیکھ رہی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ریاست کے منطقی جواز کا معاملہ روز اول سے متنازع چلا آرہا ہے۔

اس کیڈر کے بیشتر رہنماؤں کو ایوب خان نے خرید لیا۔ جو نہیں بکے انھیں گھر بھیج دیا گیا۔ ایوب خان کے BD سسٹم کے بطن سے ایک نئی سیاسی قیادت نے جنم لیا، جو موقع پرست اور کوتاہ بین تھی۔ مگر اس دوران ساتھ ہی تعلیمی اداروں سے ایک نئی کھیپ بھی مسلسل سیاسی میدان میں آرہی تھی، جو ایوبی آمریت کو تسلسل کے ساتھ چیلنج کر رہی تھی۔ یوں وطن عزیز میں دو متوازی سیاسی دھارے بہتے رہے۔ ایک طرف وہ طالع آزما تھے، جنھیں ہر قیمت پر اقتدار اختیار چاہیے تھا، دوسری طرف عوامی جمہوری سیاست کرنے والا کیڈر تھا۔

ڈاکٹر سرور مرحوم سے شروع ہونے والے قافلے میں ڈاکٹر شیر افضل مرحوم اور عابد حسن منٹو سے علی مختار رضوی مرحوم، معراج محمد خان مرحوم، رشید حسن خان مرحوم تک ایسے نوجوان شامل ہوتے چلے گئے، جنھوں نے ہر قدم پر ایوبی آمریت کو للکارا۔ جمہوریت اور جمہوری اقدار کو پروان چڑھانے کی کوششوں میں قید وبند اور شہر بدری جیسی صعوبتیں برداشت کیں۔ مگر متوسط اور نچلے متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والا یہ سیاسی کیڈر سرکار کی زیر سرپرستی ان فیوڈل اور مراعات یافتہ سیاستدانوں کے ہاتھوں پسپا ہوتا چلا گیا، جن کی سیاست کو سہارا دینے کے لیے ان کے اپنے اور سرکار کے بے بہا وسائل کا منہ کھلا ہوا تھا۔

جنرل ضیا الحق نے اولاً اس نرسری (طلبہ یونینوں) کو بند کردیا، جو جمہوری سیاست کے لیے نیا کیڈر پیدا کرتی تھی۔ دوسرے ایوبی دور کے سیاستدانو ںکو بھی گھر بھیجنے کی کوشش کی اور ایک نیا سیاسی کیڈر متعارف کرایا۔ ان کے غیر جماعتی انتخابات کے بطن سے ایک ایسے سیاسی کیڈر نے جنم لیا، جو قومی تصورات سے عاری برادریوں، قبائلی شناخت اور جاگیردارانہ کلچر کی زنجیروں میں جکڑا ہوا تھا۔

یوں 1980ء کے عشرے سے ایوب خان اور ضیا دور میں جنم لینے والے سیاسی کیڈر ایک دوسرے سے گتھم گتھا چلے آرہے ہیں۔ جب کہ طلبا سیاست سے قومی سیاست میں آنے والا کیڈر گہناتا چلا گیا اور پھر ایک ایسا وقت آیا کہ یہ قصہ پارینہ ہوگیا۔ اس کیڈر کی اپنی بھی فاش غلطیاں اور کوتاہیاں رہی ہیں، مگر اس کے اخلاص اور نظریاتی پختگی پر انگشت نمائی ممکن نہیں۔

پرویز مشرف کے دور میں بھی ایک سیاسی کیڈر ابھر کر سامنے آیا۔ لیکن یہ کیڈر نا تو نظریاتی اساس رکھتا ہے اور نہ ہی فکری بالیدگی۔ یہ بھان متی کا ایک ایسا کنبہ ہے، جس کا مطمع نظر محض مفادات کا حصول ہے۔ لیکن آج بھی اصل تصادم ایوب خان کی باقیات اور جنرل ضیا کی باقیات کے درمیان ہے۔ جس میں مشرف کا پیدا کردہ سیاسی ٹولہ کبھی ایک طرف، کبھی دوسری طرف اپنی موجودگی کا احساس دلانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔

ہمارے سیاسی رہنما اور اکابرین یہ بھول چکے ہیں کہ اقوام کا تشخص تہذیبی نرگسیت نہیں، بلکہ آئین ہوتا ہے۔ انھیں شاید یہ بھی نہیں معلوم کہ قانون سازی اور منصوبہ بندی کا واحد ادارہ پارلیمان ہے۔ جسے نظر انداز کرنے سے جمہوری سیاست ممکن نہیں ہوتی۔ وہ اس حقیقت سے بھی نابلد ہیں کہ سیاست کا مقصد صرف اقتدار کا حصول نہیں، بلکہ عوام کو فکری، نظریاتی اور اصولی بنیادوں پر منظم کرنا بھی ہے۔

پاکستان میں آج سیاست مراعات یافتہ طبقہ کی رکھیل بن چکی ہے۔ وہ سیاستدان جو آج ملک کے مقدر کا ستارہ بنے ہوئے ہیں، انھیں اس سے غرض نہیں کہ عوام کو کن مسائل کا سامنا ہے۔ وہ اپنی دکانیں چلانے کی خاطر ہر غیر جمہوری اقدام کو قبول کرنے پر آمادہ رہتے ہیں۔

جب سیاسی جماعتوں کے درمیان نظریاتی وفکری تقسیم ناپید ہوچکی ہو۔ جب قومی دھارے (Main Stream) کی جماعتوں کے درمیان فکری اور نظریاتی فرق مٹ چکا ہو، جب ایک جماعت کا لیڈر اپنا بوریا بستر لپیٹ کر دوسری اور دوسری سے تیسری جماعت میں چلے جانے کو بالکل ایسا سمجھتا ہو، جیسے کوئی مسافر ٹرین کی ایک بوگی سے دوسری بوگی میں چلا جائے۔

ایسے ماحول میں رضا ربانی جیسے سیاستدان جو فکری اور نظریاتی طور پر اپنا ایک تشخص رکھتے ہیں، جب فضا میں پھیلی گھٹن سے فرسٹریٹ ہوکر ٹھہرے ہوئے پانی میں فکروآگہی کا کنکر پھینکتے ہیں، تو سوائے معمولی سے ارتعاش کے کوئی بڑا طوفان نہیں اٹھتا۔ کیونکہ سیاست اب اقتدار و اختیار پر بہرصورت قبضہ کا نام بن کر رہ گئی ہے۔ ہر ادارہ اور ہر فرد آئین و قانون سے ماورا اقدامات کو اپنی طاقت کا اظہار سمجھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چہار سو طاری بے حسی اور موقع پرستی کا مہیب سناٹا کم ہونے کے بجائے بڑھ رہا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں