غیر بینکاری اداروں کو اے ٹی ایم نصب کرنے کی اجازت کا فیصلہ
وائٹ لیبل اے ٹی ایم میں رقوم نکلوانے،جمع کرانے، فنڈز ٹرانسفر، بل ادائیگی ودیگرڈیجیٹل سہولتیں دستیاب ہوں گی
KARACHI:
اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے ادائیگیوں کی سہولت فراہم کرنے والے غیربینکاری اداروں (پے منٹ سروس پروائیڈرز) کو اے ٹی ایم نصب کرنے کی اجازت دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے نیشنل فنانشل انکلوژن اسٹریٹیجی کے تحت ملک میں اے ٹی ایمز کی تعداد میں نمایاں اضافے کا ہدف مقرر کیا تھا تاہم بینکوں کی عدم دلچسپی کی وجہ سے بینکوں کی 13ہزار 134 شاخوں کے مقابلے میں اے ٹی ایمز کی تعداد 12ہزار تک محدود رہی، ملک میں مجموعی کھاتے داروں کی تعداد 4کروڑ 30لاکھ کے لگ بھگ ہے، اس لحاظ سے اوسطاً 3583کھاتے داروں کے لیے 1اے ٹی ایم دستیاب ہے، ورلڈ بینک کے اعدادوشمار کے مطابق بھی پاکستان کا شمار ہر 1ہزار بالغ افراد کے لیے اے ٹی ایمز کے پست شرح کے حامل ملکوں میں کیا جاتا ہے جن میں زیادہ تر تیسری دنیا کے ممالک شامل ہیں۔
ماہرین کے مطابق اے ٹی ایمز سمیت کھاتے داروں کو فراہم کی جانے والی دیگر سہولتوں اور فرسودہ ٹیکنالوجی کے استعمال کے باوجود پاکستانی بینکوں کا بھرپور منافع خود مرکزی بینک اور متعلقہ حکام کے لیے سوالیہ نشان ہے، اس پر متضاد یہ کہ تمام بڑے بینک ہر سال ملک میں صارفین کی بہترین خدمات کے درجنوں ایوارڈ بھی وصول کررہے ہیں، اے ٹی ایمز کی قلیل تعداد کی وجہ سے اہم تہواروں پر اے ٹی ایمز میں رقوم کی قلت اور کھاتے داروں کی پریشانی معمول بن چکی ہے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے بینکوں سے مایوس ہوکر اب ادائیگیوں کی سہولت فراہم کرنے والے اداروں کو اے ٹی ایم یا اے بی ایم نصب کرنے کی اجازت دینے کا فیصلہ کیا ہے جن کے ذریعے نقد رقوم کے علاوہ چیک بھی جمع کرائے جاسکیں گے۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے اس ضمن میں رہنما قواعد کا مسودہ تیار کرلیا ہے جس پر اسٹیک ہولڈرز کی رائے طلب کی گئی ہے، مجوزہ مسودے میں اسٹیٹ بینک نے اعتراف کیا ہے کہ پاکستان میں اے ٹی ایمز کا تناسب دیگر ملکوں کے مقابلے میں پست ہے اور اسٹیٹ بینک کی تمام کوششوں کے باوجود اے ٹی ایمز کی تعداد بینکوں کی شاخوں کی تعداد کے مساوی نہیں لائی جاسکی۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق پے منٹ سروس پروائیڈرز کے نصب کردہ اے ٹی ایمز کو وائٹ لیبل اے ٹی ایم کہا جائے گا اور یہ سہولت فراہم کرنے والے ادارے وائٹ لیبل اے ٹی ایم آپریٹرز کہلائیں گے، وائٹ لیبل آپریٹرز کے لیے اے ٹی ایم سوئچ کی رکنیت کا حصول لازمی قرار دیا گیا ہے، وائٹ لیبل آپریٹرز صرف کمپیوٹرائزڈ چپ پر مبنی اسمارٹ کارڈز سے چلنے والے (ای ایم وی) اے ٹی ایمز نصب کرسکیں گے، اس طرح صارفین کو جدید ڈیجیٹل سہولتیں میسر آئیں گی۔
وائٹ لیبل اے ٹی ایمز کے ذریعے نقد رقوم نکلوانے، نقد رقوم جمع کرانے، فنڈز ٹرانسفر، یوٹیلٹی بلوں کی ادائیگی، اکاؤنٹس اسٹیٹمنٹ کے اجرا اور بیلنس انکوائری کی بنیادی سہولتوں کے علاوہ دیگر سہولتیں بھی مہیا کی جاسکیں گی جن کے لیے اسٹیٹ بینک سے منظوری لینا ہوگی۔
وائٹ لیبل اے ٹی ایم کے ذریعے لین دین پر صارفین یا متعلقہ بینک سے مناسب چارجز وصول کیے جاسکیں گے جو ٹرانزیکشن کے وقت اسکرین پر نمایاں ہوں گے جبکہ شیڈول آف چارجز بھی اے ٹی ایم پر آویزاں کرنا ہوگا، چارجز زائد ہونے کی صورت میں اسٹیٹ بینک کارروائی کرے گا۔
واضح رہے کہ ورلڈ بینک کے 2015تک کے اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں 1ہزار بالغ افراد کے لیے اوسطاً 9اے ٹی ایمز دستیاب ہیں، عالمی سطح پر یہ تناسب 40 اے ٹی ایمز سے زائد ہے، بھارت میں یہ تناسب 19اے ٹی ایمز، بنگلہ دیش میں 7، سری لنکا میں 17، ایران میں 66، چین میں 76 کے لگ بھگ ہے۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے ادائیگیوں کی سہولت فراہم کرنے والے غیربینکاری اداروں (پے منٹ سروس پروائیڈرز) کو اے ٹی ایم نصب کرنے کی اجازت دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے نیشنل فنانشل انکلوژن اسٹریٹیجی کے تحت ملک میں اے ٹی ایمز کی تعداد میں نمایاں اضافے کا ہدف مقرر کیا تھا تاہم بینکوں کی عدم دلچسپی کی وجہ سے بینکوں کی 13ہزار 134 شاخوں کے مقابلے میں اے ٹی ایمز کی تعداد 12ہزار تک محدود رہی، ملک میں مجموعی کھاتے داروں کی تعداد 4کروڑ 30لاکھ کے لگ بھگ ہے، اس لحاظ سے اوسطاً 3583کھاتے داروں کے لیے 1اے ٹی ایم دستیاب ہے، ورلڈ بینک کے اعدادوشمار کے مطابق بھی پاکستان کا شمار ہر 1ہزار بالغ افراد کے لیے اے ٹی ایمز کے پست شرح کے حامل ملکوں میں کیا جاتا ہے جن میں زیادہ تر تیسری دنیا کے ممالک شامل ہیں۔
ماہرین کے مطابق اے ٹی ایمز سمیت کھاتے داروں کو فراہم کی جانے والی دیگر سہولتوں اور فرسودہ ٹیکنالوجی کے استعمال کے باوجود پاکستانی بینکوں کا بھرپور منافع خود مرکزی بینک اور متعلقہ حکام کے لیے سوالیہ نشان ہے، اس پر متضاد یہ کہ تمام بڑے بینک ہر سال ملک میں صارفین کی بہترین خدمات کے درجنوں ایوارڈ بھی وصول کررہے ہیں، اے ٹی ایمز کی قلیل تعداد کی وجہ سے اہم تہواروں پر اے ٹی ایمز میں رقوم کی قلت اور کھاتے داروں کی پریشانی معمول بن چکی ہے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے بینکوں سے مایوس ہوکر اب ادائیگیوں کی سہولت فراہم کرنے والے اداروں کو اے ٹی ایم یا اے بی ایم نصب کرنے کی اجازت دینے کا فیصلہ کیا ہے جن کے ذریعے نقد رقوم کے علاوہ چیک بھی جمع کرائے جاسکیں گے۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے اس ضمن میں رہنما قواعد کا مسودہ تیار کرلیا ہے جس پر اسٹیک ہولڈرز کی رائے طلب کی گئی ہے، مجوزہ مسودے میں اسٹیٹ بینک نے اعتراف کیا ہے کہ پاکستان میں اے ٹی ایمز کا تناسب دیگر ملکوں کے مقابلے میں پست ہے اور اسٹیٹ بینک کی تمام کوششوں کے باوجود اے ٹی ایمز کی تعداد بینکوں کی شاخوں کی تعداد کے مساوی نہیں لائی جاسکی۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق پے منٹ سروس پروائیڈرز کے نصب کردہ اے ٹی ایمز کو وائٹ لیبل اے ٹی ایم کہا جائے گا اور یہ سہولت فراہم کرنے والے ادارے وائٹ لیبل اے ٹی ایم آپریٹرز کہلائیں گے، وائٹ لیبل آپریٹرز کے لیے اے ٹی ایم سوئچ کی رکنیت کا حصول لازمی قرار دیا گیا ہے، وائٹ لیبل آپریٹرز صرف کمپیوٹرائزڈ چپ پر مبنی اسمارٹ کارڈز سے چلنے والے (ای ایم وی) اے ٹی ایمز نصب کرسکیں گے، اس طرح صارفین کو جدید ڈیجیٹل سہولتیں میسر آئیں گی۔
وائٹ لیبل اے ٹی ایمز کے ذریعے نقد رقوم نکلوانے، نقد رقوم جمع کرانے، فنڈز ٹرانسفر، یوٹیلٹی بلوں کی ادائیگی، اکاؤنٹس اسٹیٹمنٹ کے اجرا اور بیلنس انکوائری کی بنیادی سہولتوں کے علاوہ دیگر سہولتیں بھی مہیا کی جاسکیں گی جن کے لیے اسٹیٹ بینک سے منظوری لینا ہوگی۔
وائٹ لیبل اے ٹی ایم کے ذریعے لین دین پر صارفین یا متعلقہ بینک سے مناسب چارجز وصول کیے جاسکیں گے جو ٹرانزیکشن کے وقت اسکرین پر نمایاں ہوں گے جبکہ شیڈول آف چارجز بھی اے ٹی ایم پر آویزاں کرنا ہوگا، چارجز زائد ہونے کی صورت میں اسٹیٹ بینک کارروائی کرے گا۔
واضح رہے کہ ورلڈ بینک کے 2015تک کے اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں 1ہزار بالغ افراد کے لیے اوسطاً 9اے ٹی ایمز دستیاب ہیں، عالمی سطح پر یہ تناسب 40 اے ٹی ایمز سے زائد ہے، بھارت میں یہ تناسب 19اے ٹی ایمز، بنگلہ دیش میں 7، سری لنکا میں 17، ایران میں 66، چین میں 76 کے لگ بھگ ہے۔