آج 9 اگست ہے
ہم نے اپنی آنکھوں سے اپنے دوستوں، رشتے داروں اور ہمسایوں کو جھلستے ہوئے دیکھا ہے۔
6 اگست ۔ میرے لیے مسرت اور بہجت کا دن ہے، اس کے ساتھ ہی غم و اندوہ اور نوحہ وماتم کا دن۔ 6 اگست میری سب سے بڑی بیٹی کی پیدائش کا دن، وہ اس وقت پیدا ہوئی جب دہائیوں پہلے ایک امریکی بمبار طیارے نے ہیروشیما کے جیتے جاگتے شہرکو قبرستان میں بدل دیا تھا اور1,40,000 انسان اذیت اور کرب سے گزرتے ہوئے ختم ہوئے تھے۔9 اگست۔ ہیروشیما کی تباہی کے صرف 3 دن بعد جاپان کے ایک دوسرے شہر کو امریکی فوجی سائنس دانوں نے اپنی تجربہ گاہ کے طور پر استعمال کیا۔
آج 9 اگست ہے، آج سے 72 برس پہلے امریکی بمبار طیارے نے ہیروشیما کی طرح ناگا ساکی کو بھی اپنا نشانہ بنایا اور یہاں بھی لگ بھگ ایک لاکھ انسان لقمہ اجل ہوئے۔ ہیروشیما اور ناگا ساکی 2 شہر یوں تہس نہس ہوئے جیسے وہاں کبھی کچھ تھا ہی نہیں۔ عمارتیں کھنڈر ہوئیں، انسان بھاپ بن کر اڑ گئے۔ اور دریا خشک ہوئے۔ یہ سب کچھ اب سے 72 برس پہلے گزرا تھا۔
خوش گمان لوگوں کا خیال تھا کہ دنیا کی تمام قومیں اس ناقابل بیان تباہی سے کچھ سیکھیں گی اور ایٹم بم کے حصول کے قریب بھی نہیں جائیں گی لیکن ہوا اس کے برعکس ۔ قوموں میں ایٹم بم بنانے کی جو دوڑ لگی، وہ آج تک ختم نہیں ہوئی ہے۔ ہم دوسروں کو کیا کہیں، ہم خود بھی اسی دوڑ میں شامل رہے اور آج بھی اپنے ان ہتھیاروں کو چمکاتے رہتے ہیں۔ آس پاس کے لوگوں کو ڈراتے ہیں اور اپنے ان لوگوں کی طرف بھول کر نہیں دیکھتے جن کا مقدر فاقہ اور بیماری ہے۔ یہ لوگ اگر اپنے بنیادی حقوق کا مطالبہ کریں تو انھیں ڈانٹ دیا جاتا ہے اور''حب وطن'' کی دو گولیاں دے کر صبروشکر سے زندگی گذارنے کے بارے میں کہا جاتا ہے۔
انھیں اگر اس بچی کی کہانی سنائی جائے جس کا نام ''سراکو'' تھا، جب ہیروشیمار پر بم گرا تو وہ صرف 2 برس کی تھی۔کچھ ہی دنوں بعد اسے لیوکیمیا ہوا۔ اسے بتایا گیا کہ اگر وہ کاغذکی کونجیں بناتی رہے گی تو رفتہ رفتہ ٹھیک ہوجائے گی۔ جینے کی خواہش میں وہ کاغذکی کونجیں بناتی رہی اور لمحہ بہ لمحہ موت کی طرف بڑھتی رہی۔ یہاں تک کہ 25 اکتوبر 1955کو ابدی نیند سو گئی۔ اب ہر برس بچوں کی امن یادگارکے سامنے بچوں کی بنائی ہوئی کاغذ کی ایک کروڑ کونجیں نذر کی جاتی ہیں، شمعیں جلائی جاتی ہیں، دعائیں مانگی جاتی ہیں اور خواہش کی جاتی ہے کہ اقتدار کو ہر قیمت پر اپنے قبضۂ قدرت میں رکھنے کی خواہش رکھنے والوں کے سر میں پھر کسی ہیروشیما، کسی ناگاساکی کو اپنی تجربہ گاہ بنانے کا سودا نہ سما جائے۔
آج کے بعض اخبارات میں ایک تصویر شایع ہوئی ہے جس میں کنکریٹ کی ایک محراب کے نیچے ہیروشیما کے موجود میئر اس دستاویز کو پیش کررہے ہیں جس میں گزشتہ برس سے اس برس تک کے ان لوگوں کے نام ہیں جو 6 اگست 1945 یا اس کے بعد پیدا ہوئے، ایٹمی تابکاری کے مہلک اثرات سے متاثر ہوئے اورگزشتہ 365 دنوں میں ختم ہوگئے۔ اس کے بعد وہاں ایک دعائیہ تقریب ہوئی جس میں لگ بھگ 50 ہزار افراد نے شرکت کی۔
گذرنے والوں کے لیے دعائے مغفرت کی اور جلتی ہوئی آگ کے سامنے یہ خواہش کی کہ آیندہ دنیا میں کہیں بھی لوگوں کو ایٹمی موت کے عذاب سے نہ گزرنا پڑے۔ اس روز ہیروشیما کے میئر نے کہا کہ ''جہنم'' ماضی کا فسانہ نہیں۔ جب تک دنیا میں ایک بھی ایٹمی ہتھیار موجود ہے اور دنیا کے مختلف ملکوں میں وہ مقتدر لوگ حکومت کرتے ہیں جو ان ہتھیاروں سے نوعِ انسانی کو دھمکاتے رہیں گے، اس وقت تک اس جہنم کے در کبھی بھی کھل جائیں گے اور ہم اس کی سفاکی اور اذیت کا سامنا کرنے کے لیے رہ جائیں گے۔''
یہ تقریر پڑھ کر مجھے ڈاکٹر ماریکوکٹیانو کی یاد آئی۔ پاکستان میں ایٹمی دھماکوں کے اعلان کے ساتھ ہی عوام نے جس طرح جشن منایا اس کی عینی شاہد ایک جاپانی خاتون ڈاکٹر ماریکو کٹیانو بھی تھیں۔ ڈاکٹر کٹیا نو، نے اوساکا یونیورسٹی سے مذاہب عالم پر ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ہے، ہندوستان اور پھر پاکستان نے دھماکے کیے تو ان دنوں وہ پاکستان کے تاریخی شہر لاہور میں تھیں۔ جاپان پر امریکا کے ایٹمی حملے کی وہ خود اور ان کا خاندان شکار ہوا تھا۔ ان کے لیے ہندوستان اور پاکستان کے یہ ایٹمی دھماکے اور اس پر عوام کا جشن منانا، قابل فہم نہیں تھا۔ اس حوالے سے انھوں نے پاکستانی عوام کے نام ایک کھلا خط لکھا جو یہاں بعض اخبارات میں شایع ہوا۔ انھوں نے لکھا...
''میں نے ایٹم بم کے اثرات دیکھے ہیں۔ انھیں اپنے بدن پر محسوس کیا ہے۔ ناگا ساکی پر اترنے والی قیامت کا شکار ہونے والی عورتوں میں سے ایک میری نانی بھی تھیں۔ مجھے اپنے مسخ شدہ چہرے پر اپنی نانی اور ان جیسی سیکڑوں عورتوں کے زخموں کی جلن محسوس ہوتی ہے۔ میری ایک آنکھ بصارت سے محروم ہے اور میرا بایاں ہاتھ مردہ ہے۔ میں نے اسی مسخ شدہ بدن کے ساتھ جنم لیا۔ انسانیت نے مجھے ورثے میں یہی کچھ دیا۔
خدا نہ کرے پاکستانیوں کو کبھی اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے۔ میں نے پاکستان میں بچوں کو روٹی کے چند ٹکڑوں کی خاطر بھیک مانگتے دیکھا ہے، عورتوں کوگود میں بلکتے ہوئے بچے اٹھائے ہوئے خیرات مانگتے دیکھا ہے، بیمار بوڑھوں کو سسکتے دیکھا ہے۔ حکومت نے ان غریب، لاچار اور بے بس لوگوں کے دکھوں کا مداوا کرنے کے بجائے انھیں مزید غربت میں دھکیل دیا ہے۔ اس ایٹمی دوڑ کے لیے جو رقم درکار ہوگی اس کے بعد تعلیم اور صحت کے لیے کیا باقی بچے گا؟ ایٹم بم سے بھوکے بچوں کا پیٹ تو نہیں بھرا جا سکتا۔
مذاہب عالم کے تقابلی مطالعے کے موضوع پر ڈاکٹریٹ کے دوران میں نے اسلام کا مطالعہ بھی کیا۔ اسلام نے انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ دیا ہے۔ آج کی دنیا عملی طور پر انسان کی اس حیثیت کو تسلیم نہیں کرتی۔ ہم نے اس عظیم سبق کو بھلا دیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم اپنے چہرے پر تہذیب کے چاہے کتنے ہی نقاب اوڑھ لیں، ہمارے اندر کا وحشی آج بھی پہلے کی طرح ہی زندہ اور توانا ہے۔ اس کرئہ ارض پر انسان ہی واحد مخلوق ہے جو اپنی نسل کو ختم کرنے کے لیے مسلسل خطرناک ہتھیار بنا رہی ہے۔ جوں جوں اس کے پاس ہتھیار بڑھتے جاتے ہیں، اس کی وحشت اور انانیت بھی بڑھتی جاتی ہے۔ شاید اسے اپنے جیسے انسان کو ہلاک کرکے تسکین ملتی ہے۔
ہمارے لیے ماضی کو فراموش کردینا کس قدر آسان ہے۔ نئی نسل اپنے اجداد کی غلطیوں سے سبق سیکھنے پر آمادہ نہیں ہوتی۔ نازیوں نے یہودیوں کے ساتھ جو وحشیانہ سلوک کیا، اس سے یہودیوں نے کچھ نہیں سیکھا اور وہی سلوک فلسطینیوں کے ساتھ شروع کردیا۔ آج بوسنیا میں بھی یہی کچھ ہورہا ہے۔ ہیروشیما اور ناگاساکی پر جو قیامت ٹوٹی اس سے دنیا نے کچھ نہیں سیکھا کیونکہ آج بھی ایٹمی دھماکے کیے جارہے ہیں۔ البتہ جاپان نے ایک سبق ضرور سیکھا۔ اس نے ایٹمی دوڑ میں حصہ لینے سے انکار کر دیا۔ کیا آپ نے کبھی سوچا کہ جاپان نے ایسا کیوں کیا؟ اس لیے کہ ہم نے ایٹمی تابکاری کی ہولناکی دیکھی ہے۔ برداشت کی ہے۔
ہم نے اپنی آنکھوں سے اپنے دوستوں، رشتے داروں اور ہمسایوں کو جھلستے ہوئے دیکھا ہے۔ ہمارے گھر ریت کی مانند بکھر گئے۔ کسی پاکستانی یا ہندوستانی شہری نے ہیروشیما اور ناگاساکی کے اندھے بچوں کو نہیں دیکھا۔ وہاں آج بھی معذور بچے جنم لیتے ہیں۔یہ معصوم جانیں کس جرم کی سزا کاٹ رہی ہیں؟ وحشت اور بربریت کی اس طاقت پر آپ جشن منارہے ہیں؟
میری دعا ہے کہ ایسا وقت کبھی نہ آئے کہ کوئی پاکستانی یا ہندوستانی اپنے نومولود بچے کو پہلی مرتبہ گود میں اٹھائے اور دیکھے کہ جہاں اس کی آنکھیں ہونی چاہیے تھیں وہاں صرف دو سوراخ ہیں۔ خدانہ کرے کہ آپ کے بچے بے نور آنکھوں، مردہ ہاتھوں اورمسخ چہروں کے ساتھ اس دنیا میں آئیں۔
ڈاکٹر ماریکو کا یہ خط اب پرانا ہوچکا، اس لیے کہ موجودہ جاپانی وزیراعظم شنزوایبے جاپان کے امن دوست آئین کو بدلنے کا اور حکومت کی دوسری امن دوست پالیسیوں کو بدلنے کا ارادہ رکھتے ہیں اور کھلے بندوں اس کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس مرتبہ 6 اگست کو جب وہ امن پارک آئے اور انھوں نے روایتی طور پر امن پسندی پر مبنی تقریر کی تو پارک میں موجود بہت سے لوگ ان کے خلاف نعرے لگا رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کے عزائم جاپان کو کسی وقت بھی جنگ سے دوچار کرسکتے ہیں۔
جاپانی وزیراعظم کی حالیہ تقریر اور 90 کی دہائی میں لکھا جانے والا ڈاکٹر ماریکوکا خط دونوں اپنی جگہ حقیقت ہیں لیکن دیکھنا یہ ہے کہ امن کی آرزو سربلند رہے گی یا جنگ کی طرف لپکنے کی خواہش رنگ لائے گی۔
ہم امن کی آرزو کرتے ہوئے یہ یاد کرتے ہیں کہ آج 9 اگست ہے اور اب سے 72برس پہلے جاپانی شہر ناگاساکی، کے نہتے اور بے گناہ شہری بم کا کھا جا بن گئے تھے۔