گلالئی کی سیاسی آتش بازی
عائشہ گلالئی کے الزامات کا معاملہ بہت الجھا ہوا اور پیچیدہ ہے
پاکستان میں سیاسی موسم کا کچھ پتہ نہیں، کسی وقت بھی کچھ ہوسکتا ہے، ابھی پاناما لیکس کے فیصلے پر ن لیگ کا شورشرابا تھما بھی نہیں کہ پاکستان تحریک انصاف کی رکن قومی اسمبلی عائشہ گلالئی نے اپنی ہی پارٹی کے چیئرمین عمران خان پر الزامات لگاکر ایک نیا پنڈورا باکس کھول دیا ہے اور ہر طرف اس حوالے سے گرما گرمی دیکھنے میں آرہی ہے۔
عمران خان پر الزامات کے بارے میں سیاسی و سماجی حلقوں میں بحث جاری ہے، تبصروں و تجزیوں کا بازار بھی خوب گرم ہے۔ قومی اسمبلی کے اجلاس میں بھی یہ معاملہ زیر بحث آیا اور عائشہ گلالئی کے الزامات کی تحقیقات کے لیے ایک پارلیمانی کمیٹی کی تشکیل سے متعلق قرار داد کثرت رائے سے منظور کرلی گئی۔
کمیٹی ایک ماہ کے اندر اپنی رپورٹ مکمل کرکے ایوان میں پیش کریگی۔ عمران خان نے اس کمیٹی کا خیر مقدم کیا مگر اب ان کی پارٹی اس کے حق میں نہیں اسے کمیٹی کے ارکان پر اعتراض ہے وہ انھیں غیر جانبدار نہیں سمجھتی۔یہ معاملہ کس طرح حل ہو گا فی الحال اس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا اسی دوران وزیر اعلیٰ پنجاب کے بیٹے حمزہ شہباز کی بیوی ہونے کا دعویٰ کرنیوالی عائشہ احد بھی میدان میں آگئی ہیں۔
جنہوں نے میاں نواز شریف کو مخاطب کیا اور کہاکہ عائشہ گلالئی کے لیے پارلیمانی کمیٹی تو بن گئی لیکن میاں صاحب اپنے گھر کی بہو کے لیے کمیٹی کب بنوائیں گے؟ پی ٹی آئی رہنما عائشہ احد کے معاملے پر بھی کمیٹی بنانے کا مطالبہ کررہے ہیں، عائشہ گلالئی اور عائشہ احد کے معاملات میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ فریقین ایک دوسرے کو بدنام کرنے کے لیے خواتین کو استعمال کررہے ہیں، عائشہ گلالئی کی جانب سے 4سال تک خاموش رہنے کے بعد اپنی ہی پارٹی کے چیئرمین کا میڈیا ٹرائل شروع کرانا پی ٹی آئی کے اس شک کو تقویت دیتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) گلالئی کو استعمال کررہی ہے، جب کہ اس کے جواب میں پی ٹی آئی عائشہ احد کو منظر عام پرلے آئی ہے۔
کوئی شک نہیں کہ عائشہ گلالئی نے ایک ایسی بحث کا دروازہ کھولا ہے جس کا تعلق خواتین کے حقوق سے ہے لیکن موجودہ ملکی سیاسی صورتحال میں یہ دیکھنا بھی لازمی ہے کہ ان کے الزامات میں کتنی صداقت ہے؟ یا وہ اپنے یا کسی اور کے سیاسی مفادات کے لیے اپنی ہی پارٹی کے لیڈر کی کردار کشی کررہی ہیں؟
عائشہ گلالئی کے الزامات کا معاملہ بہت الجھا ہوا اور پیچیدہ ہے اور کمیٹی کے قیام سے یہ معاملہ حل ہوتا نظر نہیں آرہا کیونکہ فریقین سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کی کوشش کرتے ہوئے معاملے کو زیادہ سے زیادہ اچھال رہے ہیں۔ معاملے کا سب سے اہم پہلو خود عائشہ گلالئی کی اتنے عرصے تک اختیار کی گئی خاموشی ہے، جس نے معاملے کو پراسرار بنادیا ہے۔
عائشہ گلالئی نے اپنے سیاسی کیرئیر کا آغاز پیپلز پارٹی سے کیا، محترمہ بینظیر بھٹو نے فاٹا میں انھیں پارٹی کی چیف کوآرڈینیٹر بنایا، محترمہ کی شہادت کے بعد عائشہ گلالئی جنرل پرویز مشرف کی پارٹی آل پاکستان مسلم لیگ میں آگئیں اور پھر اکتوبر 2012میں پاکستان تحریک انصاف میں شامل ہوئیں، 2013ء کے الیکشن کے بعد پی ٹی آئی نے انھیں مخصوص نشست پر رکن قومی اسمبلی بنایا۔ بقول عائشہ گلالئی کے 2013ء میں پارٹی چیئرمین نے انھیں نازیبا میسجز بھیجے تو پھر وہ اتنے عرصے خاموش کیوں رہیں؟
4سال کی خاموشی کے بعد اچانک اس طرح کے انکشافات سے شکوک و شبہات جنم لے رہے ہیں، عام طور پر یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ اگر رشتہ داروں میں بھی اس طرح کے واقعات ہوتے ہیں تو متاثرہ شخص اپنے رشتہ داروںسے قطع تعلق کرلیتا ہے لیکن محترمہ نے خاموشی اختیار کیے رکھی اور پارٹی سرگرمیوں میں حصہ لیتی رہیں، یوم تشکر کے جلسے میں بھی شریک ہوئیں۔
بنی گالہ میں پارٹی چیئرمین کی رہائشگاہ پر گئیں اور ان سے ملاقات بھی کی، پھر اچانک اگلے دن اتنے بڑے الزامات لگادینا معاملات کو پراسرار بنارہے ہیں، اگر انھیں پارٹی چیئرمین کے رویے کی شکایت تھی تو کم از کم پارٹی میں موجود اپنے قریبی لوگوں کو تو اعتماد میں لینا چاہیے تھا مگر انھوں نے کسی ایک پارٹی خاتون کو بھی اعتبار کے قابل نہیں سمجھا، انھیں خاموش رہنے کے بجائے پارٹی میں شکایت کرنی چاہیے تھی اگر پارٹی ان کی شکایت کو درخور اعتناء نہ سمجھتی تو پھر انھیں متعلقہ پولیس اسٹیشن کا رخ کرنا چاہیے تھا، یا پھر خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنیوالی تنظیموں سے رابطہ کرنا چاہیے تھا۔
وہ کوئی عام خاتون نہیں بلکہ رکن قومی اسمبلی ہیں، اس لیے ان کی بات لازمی طور پر سنی جاتی۔ مگر انھوں نے کوئی بھی قانونی طریقہ اختیار کرنے کے بجائے خاموش رہنے کو ترجیح دی اور اب پریس کانفرنسوں کے ذریعے اپنے ہی لیڈر کا میڈیا ٹرائل کررہی ہیں۔ اس طرح یہ قانونی یا اخلاقی ہونے سے زیادہ سیاسی معاملہ بنتا نظر آرہا ہے اور وہ یعنی گلالئی جاوید ہاشمی کا فیمیل ایڈیشن بن رہی ہیں جو کچھ دنوں کے وقفوں کے ساتھ تواتر سے عمران خان کے خلاف پریس کانفرنس کرنا ضروری خیال کرتے ہیں۔
سب سے زیادہ حیران کن امر یہ ہے کہ یہ وہ ہی عائشہ گلالئی ہیں جنہوں نے 2014کے ایک ٹی وی انٹرویو میں فرمایا تھا کہ خیبرپختونخوا کی حکومت کو دیکھ کر ریاست مدینہ کی حکومت یاد آجاتی ہے،اب ان کا کہنا ہے کہ 2013ء میں انھیں پارٹی چیئرمین نے نازیبا میسجز بھیجے، یہ بات اگر درست ہے تو پھر انھوں نے 2014میں کے پی کے حکومت کو ریاست مدینہ کی حکومت سے تشریح کیوں دی تھی؟
ذہن نشین رہے کہ عائشہ گلالئی قومی اسمبلی کی رکن مخصوص نشست پر منتخب ہوئی ہیں، پاکستان تحریک انصاف نے انھیں یہ نشست دی ہے، اب اگر وہ پارٹی چھوڑ چکی ہیں تو اخلاقی تقاضا یہی بنتا ہے کہ وہ نشست بھی چھوڑ دیں تاہم وہ نشست چھوڑنے پر آمادہ نہیں، ایک طرف تو وہ اپنے کردارکو اخلاق کی بلندی پر ثابت کرنا چاہتی ہیں تو دوسری جانب ان کے اخلاق کا یہ عالم ہے کہ وہ پارٹی کی جانب سے دی جانیوالی نشست نہ چھوڑنے پر بضد ہیں۔
اس وقت زمینی حقائق یہ ہیں کہ مسلم لیگ ن غیرمعمولی صورتحال سے دوچار ہے، ایسے میں ن لیگ کی جانب سے اپنے سیاسی حریف عمران خان کے خلاف سازش کرنے کے امکان کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ عائشہ گلالئی کی جانب سے ایک ایسے وقت میں اپنی ہی پارٹی کے چیئرمین پر الزامات لگائے گئے ہیں جب عمران خان کی نااہلی کا مقدمہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے اور میاں نواز شریف کو پاناما کیس کے فیصلے میں نااہل قرار دیا جا چکا ہے۔
پی ٹی آئی کے حامیوں کی نظر میں عائشہ گلالئی کے الزامات کا مقصد لیڈر شپ کو بدنام کرنا ہے، جسکا فائدہ براہ راست ان کے سیاسی حریفوں کو ہوگا، جیسا کہ ہو بھی رہا ہے، عائشہ گلالئی کی خیبرپختونخواہ میں مسلم لیگ (ن) کے امیر مقام سے ملاقاتوں کی باتیں بھی گردش کررہی ہیں جب کہ ن لیگ کی جانب سے عائشہ گلالئی کی مکمل حوصلہ افزائی کی جارہی ہے، ن لیگ سمجھتی ہے کہ پاناما کیس کو آگے بڑھانے اور نواز شریف کی نااہلی اور کرپشن کے مقدمات عدالتوں میں بھیجنے میں عمران خان کا اہم کردار ہے، اس لیے ن لیگ اپنی پٹاری میں سے یقیناً بہت کچھ نکالے گی۔
ن لیگی رہنما کپتان کی سابقہ اہلیہ ریحام کی کتاب لانے کا عندیہ بھی دے چکے ہیں۔ بہتر یہی ہے کہ اس معاملے پر پوائنٹ اسکورنگ کر کے ایک دوسرے کو بدنام کرنے کی کوششیں کرنے کے بجائے قانونی ماہرین سے رائے لی جائے کہ عائشہ گلالئی کے الزامات کی قانونی حیثیت کیا ہے؟ ان الزامات پر کیس بنتا ہے یا نہیں؟
اگر قانونی لحاظ سے کیس نہیں بنتا تو پھر اخلاقی طور پر یہ ہونا چاہیے کہ عائشہ گلالئی کی جانب سے لگائے گئے الزامات کی غیرجانبدارانہ تحقیقات کے لیے ایسے غیر متنازع افراد پر مشتمل کمیشن بنایا جائے جو فریقین کے لیے قابل قبول ہوںتاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوسکے، سیاستدانوں کو یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ اس طرح کے الزامات سے دنیا بھر میں ہمارا مذاق اڑایا جاتا ہے اور یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان میں سیاست صرف ایک دوسرے کی عزت اچھالنے کا نام ہے، لہٰذا سیاستدانوں کو اخلاقیات کا دامن ہر حال میں تھامے رکھنا چاہیے۔
عمران خان پر الزامات کے بارے میں سیاسی و سماجی حلقوں میں بحث جاری ہے، تبصروں و تجزیوں کا بازار بھی خوب گرم ہے۔ قومی اسمبلی کے اجلاس میں بھی یہ معاملہ زیر بحث آیا اور عائشہ گلالئی کے الزامات کی تحقیقات کے لیے ایک پارلیمانی کمیٹی کی تشکیل سے متعلق قرار داد کثرت رائے سے منظور کرلی گئی۔
کمیٹی ایک ماہ کے اندر اپنی رپورٹ مکمل کرکے ایوان میں پیش کریگی۔ عمران خان نے اس کمیٹی کا خیر مقدم کیا مگر اب ان کی پارٹی اس کے حق میں نہیں اسے کمیٹی کے ارکان پر اعتراض ہے وہ انھیں غیر جانبدار نہیں سمجھتی۔یہ معاملہ کس طرح حل ہو گا فی الحال اس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا اسی دوران وزیر اعلیٰ پنجاب کے بیٹے حمزہ شہباز کی بیوی ہونے کا دعویٰ کرنیوالی عائشہ احد بھی میدان میں آگئی ہیں۔
جنہوں نے میاں نواز شریف کو مخاطب کیا اور کہاکہ عائشہ گلالئی کے لیے پارلیمانی کمیٹی تو بن گئی لیکن میاں صاحب اپنے گھر کی بہو کے لیے کمیٹی کب بنوائیں گے؟ پی ٹی آئی رہنما عائشہ احد کے معاملے پر بھی کمیٹی بنانے کا مطالبہ کررہے ہیں، عائشہ گلالئی اور عائشہ احد کے معاملات میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ فریقین ایک دوسرے کو بدنام کرنے کے لیے خواتین کو استعمال کررہے ہیں، عائشہ گلالئی کی جانب سے 4سال تک خاموش رہنے کے بعد اپنی ہی پارٹی کے چیئرمین کا میڈیا ٹرائل شروع کرانا پی ٹی آئی کے اس شک کو تقویت دیتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) گلالئی کو استعمال کررہی ہے، جب کہ اس کے جواب میں پی ٹی آئی عائشہ احد کو منظر عام پرلے آئی ہے۔
کوئی شک نہیں کہ عائشہ گلالئی نے ایک ایسی بحث کا دروازہ کھولا ہے جس کا تعلق خواتین کے حقوق سے ہے لیکن موجودہ ملکی سیاسی صورتحال میں یہ دیکھنا بھی لازمی ہے کہ ان کے الزامات میں کتنی صداقت ہے؟ یا وہ اپنے یا کسی اور کے سیاسی مفادات کے لیے اپنی ہی پارٹی کے لیڈر کی کردار کشی کررہی ہیں؟
عائشہ گلالئی کے الزامات کا معاملہ بہت الجھا ہوا اور پیچیدہ ہے اور کمیٹی کے قیام سے یہ معاملہ حل ہوتا نظر نہیں آرہا کیونکہ فریقین سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کی کوشش کرتے ہوئے معاملے کو زیادہ سے زیادہ اچھال رہے ہیں۔ معاملے کا سب سے اہم پہلو خود عائشہ گلالئی کی اتنے عرصے تک اختیار کی گئی خاموشی ہے، جس نے معاملے کو پراسرار بنادیا ہے۔
عائشہ گلالئی نے اپنے سیاسی کیرئیر کا آغاز پیپلز پارٹی سے کیا، محترمہ بینظیر بھٹو نے فاٹا میں انھیں پارٹی کی چیف کوآرڈینیٹر بنایا، محترمہ کی شہادت کے بعد عائشہ گلالئی جنرل پرویز مشرف کی پارٹی آل پاکستان مسلم لیگ میں آگئیں اور پھر اکتوبر 2012میں پاکستان تحریک انصاف میں شامل ہوئیں، 2013ء کے الیکشن کے بعد پی ٹی آئی نے انھیں مخصوص نشست پر رکن قومی اسمبلی بنایا۔ بقول عائشہ گلالئی کے 2013ء میں پارٹی چیئرمین نے انھیں نازیبا میسجز بھیجے تو پھر وہ اتنے عرصے خاموش کیوں رہیں؟
4سال کی خاموشی کے بعد اچانک اس طرح کے انکشافات سے شکوک و شبہات جنم لے رہے ہیں، عام طور پر یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ اگر رشتہ داروں میں بھی اس طرح کے واقعات ہوتے ہیں تو متاثرہ شخص اپنے رشتہ داروںسے قطع تعلق کرلیتا ہے لیکن محترمہ نے خاموشی اختیار کیے رکھی اور پارٹی سرگرمیوں میں حصہ لیتی رہیں، یوم تشکر کے جلسے میں بھی شریک ہوئیں۔
بنی گالہ میں پارٹی چیئرمین کی رہائشگاہ پر گئیں اور ان سے ملاقات بھی کی، پھر اچانک اگلے دن اتنے بڑے الزامات لگادینا معاملات کو پراسرار بنارہے ہیں، اگر انھیں پارٹی چیئرمین کے رویے کی شکایت تھی تو کم از کم پارٹی میں موجود اپنے قریبی لوگوں کو تو اعتماد میں لینا چاہیے تھا مگر انھوں نے کسی ایک پارٹی خاتون کو بھی اعتبار کے قابل نہیں سمجھا، انھیں خاموش رہنے کے بجائے پارٹی میں شکایت کرنی چاہیے تھی اگر پارٹی ان کی شکایت کو درخور اعتناء نہ سمجھتی تو پھر انھیں متعلقہ پولیس اسٹیشن کا رخ کرنا چاہیے تھا، یا پھر خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنیوالی تنظیموں سے رابطہ کرنا چاہیے تھا۔
وہ کوئی عام خاتون نہیں بلکہ رکن قومی اسمبلی ہیں، اس لیے ان کی بات لازمی طور پر سنی جاتی۔ مگر انھوں نے کوئی بھی قانونی طریقہ اختیار کرنے کے بجائے خاموش رہنے کو ترجیح دی اور اب پریس کانفرنسوں کے ذریعے اپنے ہی لیڈر کا میڈیا ٹرائل کررہی ہیں۔ اس طرح یہ قانونی یا اخلاقی ہونے سے زیادہ سیاسی معاملہ بنتا نظر آرہا ہے اور وہ یعنی گلالئی جاوید ہاشمی کا فیمیل ایڈیشن بن رہی ہیں جو کچھ دنوں کے وقفوں کے ساتھ تواتر سے عمران خان کے خلاف پریس کانفرنس کرنا ضروری خیال کرتے ہیں۔
سب سے زیادہ حیران کن امر یہ ہے کہ یہ وہ ہی عائشہ گلالئی ہیں جنہوں نے 2014کے ایک ٹی وی انٹرویو میں فرمایا تھا کہ خیبرپختونخوا کی حکومت کو دیکھ کر ریاست مدینہ کی حکومت یاد آجاتی ہے،اب ان کا کہنا ہے کہ 2013ء میں انھیں پارٹی چیئرمین نے نازیبا میسجز بھیجے، یہ بات اگر درست ہے تو پھر انھوں نے 2014میں کے پی کے حکومت کو ریاست مدینہ کی حکومت سے تشریح کیوں دی تھی؟
ذہن نشین رہے کہ عائشہ گلالئی قومی اسمبلی کی رکن مخصوص نشست پر منتخب ہوئی ہیں، پاکستان تحریک انصاف نے انھیں یہ نشست دی ہے، اب اگر وہ پارٹی چھوڑ چکی ہیں تو اخلاقی تقاضا یہی بنتا ہے کہ وہ نشست بھی چھوڑ دیں تاہم وہ نشست چھوڑنے پر آمادہ نہیں، ایک طرف تو وہ اپنے کردارکو اخلاق کی بلندی پر ثابت کرنا چاہتی ہیں تو دوسری جانب ان کے اخلاق کا یہ عالم ہے کہ وہ پارٹی کی جانب سے دی جانیوالی نشست نہ چھوڑنے پر بضد ہیں۔
اس وقت زمینی حقائق یہ ہیں کہ مسلم لیگ ن غیرمعمولی صورتحال سے دوچار ہے، ایسے میں ن لیگ کی جانب سے اپنے سیاسی حریف عمران خان کے خلاف سازش کرنے کے امکان کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ عائشہ گلالئی کی جانب سے ایک ایسے وقت میں اپنی ہی پارٹی کے چیئرمین پر الزامات لگائے گئے ہیں جب عمران خان کی نااہلی کا مقدمہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے اور میاں نواز شریف کو پاناما کیس کے فیصلے میں نااہل قرار دیا جا چکا ہے۔
پی ٹی آئی کے حامیوں کی نظر میں عائشہ گلالئی کے الزامات کا مقصد لیڈر شپ کو بدنام کرنا ہے، جسکا فائدہ براہ راست ان کے سیاسی حریفوں کو ہوگا، جیسا کہ ہو بھی رہا ہے، عائشہ گلالئی کی خیبرپختونخواہ میں مسلم لیگ (ن) کے امیر مقام سے ملاقاتوں کی باتیں بھی گردش کررہی ہیں جب کہ ن لیگ کی جانب سے عائشہ گلالئی کی مکمل حوصلہ افزائی کی جارہی ہے، ن لیگ سمجھتی ہے کہ پاناما کیس کو آگے بڑھانے اور نواز شریف کی نااہلی اور کرپشن کے مقدمات عدالتوں میں بھیجنے میں عمران خان کا اہم کردار ہے، اس لیے ن لیگ اپنی پٹاری میں سے یقیناً بہت کچھ نکالے گی۔
ن لیگی رہنما کپتان کی سابقہ اہلیہ ریحام کی کتاب لانے کا عندیہ بھی دے چکے ہیں۔ بہتر یہی ہے کہ اس معاملے پر پوائنٹ اسکورنگ کر کے ایک دوسرے کو بدنام کرنے کی کوششیں کرنے کے بجائے قانونی ماہرین سے رائے لی جائے کہ عائشہ گلالئی کے الزامات کی قانونی حیثیت کیا ہے؟ ان الزامات پر کیس بنتا ہے یا نہیں؟
اگر قانونی لحاظ سے کیس نہیں بنتا تو پھر اخلاقی طور پر یہ ہونا چاہیے کہ عائشہ گلالئی کی جانب سے لگائے گئے الزامات کی غیرجانبدارانہ تحقیقات کے لیے ایسے غیر متنازع افراد پر مشتمل کمیشن بنایا جائے جو فریقین کے لیے قابل قبول ہوںتاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوسکے، سیاستدانوں کو یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ اس طرح کے الزامات سے دنیا بھر میں ہمارا مذاق اڑایا جاتا ہے اور یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان میں سیاست صرف ایک دوسرے کی عزت اچھالنے کا نام ہے، لہٰذا سیاستدانوں کو اخلاقیات کا دامن ہر حال میں تھامے رکھنا چاہیے۔