عوام میں جانے کا فیصلہ
پاناما کیس کے فیصلے نے ہمارے یہاں کی سیاست کا سارا منظر نامہ بدل کر رکھ دیا ہے۔
KARACHI:
نیوز لیکس کا معاملہ نہایت خوش اسلوبی سے طے ہو جانے کے بعد میاں صاحب کے وہم و گمان میں بھی شاید یہ بات نہ تھی کہ پاناما کیس میں پانچ کے پانچ ججوں کے ایک مکمل متفقہ فیصلے میں وہ اس طرح آناً فاناً اقتدار سے بیدخل کردیے جائیں گے۔ اِس معاملے کو قانونی و آئینی طریقے سے نمٹانے کے لیے کسی نہ کسی ماتحت عدالت یا نیب کو ریفرکرناپڑے گا۔ مگر ہماری عدالت نے 28جولائی 2017ء کو جب اِس کیس کا فیصلہ سنایا تو وہ بہت سوں کے لیے حیران کن بلکہ تعجب خیز تھا۔ عدالت نے ایک ایسے معاملے میں میاں نواز شریف کو نااہل قرار دے دیا جو پاناما لیکس میں سرے سے شامل ہی نہ تھا۔
بس جے آئی ٹی کے اُس انکشاف کو اِس تاریخی فیصلے کے لیے اہم جواز اور بنیاد بنا ڈالاجس میں میاں صاحب نے دبئی میں بنائی گئی ایک کمپنی کا اقامہ حاصل کیا اور جس کی اُنہوں نے کوئی باقاعدہ تنخواہ بھی وصول نہ کی۔ ایسا لگتا ہے عدالت نے ایسا فیصلہ سناکر میاںصاحب کے حق میں شایدکچھ رحم دلی کامظاہرہ کیا ہے۔وہ اگرچاہتی تو پاناما کیس میں مدعی کی جانب سے کی گئی استدعا کے مطابق لندن فلیٹوں سے متعلق کوئی نہ کوئی فیصلہ سنادیتی۔ اُن سے نہ کوئی پوچھ گچھ کی گئی اور نہ کوئی جرح۔ جب کہ پاناما کیس کا اصل معاملہ ابھی تک لاینحل ہے۔
اب میاں صاحب اقتدار سے باہر نکل کر سڑکوں پر آ گئے ہیں۔ اُن کے چاہنے والے جو پہلے ہی کم نہ تھے اب عدالت عالیہ کے اِس فیصلے کے بعداُن کی تعداد میں یقینا اضافہ ہی ہو تادکھائی دے رہا ہے۔ویسے بھی ہماری یہ روایت رہی ہے کہ جس کسی رہنما کو اگر کوئی سزا دی جائے یا اُسے گرفتار کیاجائے تو وہ ہیرو بن جاتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ہماری حکومتیں اپنے مخالف سیاسی لیڈروں کو شدیدمخالفت اور اشتعال انگیزی کے باوجود گرفتارکرنے سے کتراتی رہی ہیں۔خود عمران خان اور طاہرالقادری اپنے خلاف وارنٹ گرفتاری جاری ہونے کے باوجود ابھی تک گرفتار ہونے سے شاید اِسی وجہ سے بچے ہوئے ہیں۔اِس عدالتی فیصلے کا ایک مثبت پہلو یہ بھی ہے کہ پیپلز پارٹی جس کو ہمیشہ ہماری عدالتوں سے یہ شکوہ رہا ہے کہ عدالتوں سے اکثر فیصلے پیپلزپارٹی یا بھٹو فیمیلی کے خلاف ہی آیا کرتے ہیں۔
مسلم لیگ یا شریف فیمیلی کو اِس سے مستثنیٰ رکھا جاتا ہے، لیکن اِس بار اُسے کم ازکم ایسی شکایت کاموقعہ نہیں ملا۔ خود قمر زمان کائرہ نے حال ہی میں ایک ٹی وی ٹاک شو میں کہا ہے کہ ہمیں پورا یقین تھا کہ فیصلے میں میاں صاحب کو ایک بار پھرریلیف ملے گا مگر ہمارا یہ خیال غلط ثابت ہوا۔
مسلم لیگیوں کے نکتہ نظر سے اِس فیصلے کے نتیجے میں ایک خوش آیند پہلو یہ بھی نکلا کہ اُن کی پارٹی کسی متوقع گروپ بندی یا پارٹی ارکان کی بغاوت سے فوری طور پر نہ صرف بچ گئی ہے بلکہ عوام الناس کی بڑھتی ہوئی پذیرائی اورہمدردی کے بعداُس کے ا مکانات اور بھی کم تر ہوگئے ہیں۔ میاں نواز شریف اب اپنی منصبی ذمے داریوں سے سبکدوش ہونے کے بعد بالکل آزاد ، بے پروا اوربے خوف ہوچکے ہیں۔وہ اب کھل کر اُسی طرح سیاست کرسکتے ہیں جس طرح تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کیاکرتے ہیں۔
شاید اِسی وجہ سے میاں صاحب نے اب عوام میں جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اِس مقصد کے لیے اُنہوں نے جی ٹی روڈ کا انتخاب کیا ہے۔ وہ اب براستہ جی ٹی روڈ پنجاب کے مختلف شہروں سے گذر کر لاہور پہنچیں گے۔ہماری نظر میں میاں نواز شریف نے حسب عادت یہ فیصلہ کرنے میں بھی کچھ دیر کردی ہے۔ اِن کی جگہ اگر ذوالفقار علی بھٹو ہوتے تو عدالتی فیصلے کے دوسرے روز ہی وہ سڑکوں پر ہوتے۔ سیاست میں درست فیصلوں کے لیے وقت کا درست انتخاب بہت ضروری ہوا کرتا ہے۔ایک اچھا اور مفید فیصلہ اگر غلط اور غیرمناسب وقت پر کیاجائے تو اُس کی ساری اہمیت و افادیت دھری کی دھری رہ جاتی ہے۔دیر آیددرست آید لیکن میاں صاحب کے اِس فیصلے نے اُن کے مخالفوں کو یقینا پریشان کردیا ہے۔
اُنہیں بہرحال یہ خطرہ لاحق ہونے لگا ہے کہ اگر عوام کا سمندر اُن کی حمایت میں نکل آیا تو پھر وہ کہاں کھڑے ہونگے۔ پاناما کیس میں عدلیہ کے فیصلے کو اپنے حق میں سمجھنے والوں کے لیے یہ صورت حال انتہائی تشویش ناک ہوگی جب میاں صاحب عوام کی نظروں میں پہلے سے ذیادہ ہردل عزیز اور محبوب رہنما کے طور پر ابھر کر سامنے آجائیں گے۔خودخان صاحب کوشاید اِس بات کا قطعی خدشہ اور احتمال نہ تھا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد میاں صاحب مزید مقبول اور طاقتور رہنما بن کر اِس طرح اُن کے مقابل آجائیں گے۔اُن کے لیے شاید یہی صورت حال بہتر اور مفید تھی کہ پاناما کیس یونہی تعطل اور طوالت کاشکار رہتا اور وہ 2018ء کے الیکشن تک اسی طرح الزام تراشی کی سیاست کو اپنا محور بنائے رکھتے۔
پاناما کیس کے فیصلے نے ہمارے یہاں کی سیاست کا سارا منظر نامہ بدل کر رکھ دیا ہے۔ جن لوگوں نے اِس فیصلے پر خوشی کا اظہار کیا تھا اور مٹھائیاں تقسیم کی تھیں وہ اب تذبذب اور تردد کاشکار نظر آتے ہیں۔اُن کے خواب وخیال میں بھی نہ تھا کہ یہ فیصلہ اُن کے لیے مزید مشکلیں پیدا کرنے کا باعث بن جائے گا۔ پانچوں پرچوں میں فیل ہو جانے والانواز شریف عوامی مقبولیت کے تمام امتحانات یوں یک لخت اور یکمشت پاس کرلے گا کسی کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا۔
اِس فیصلے سے پہلے جولوگ یہ دعویٰ کررہے تھے کہ نون یا قانون میں سے کسی ایک کاجنازہ نکلے گا وہ لوگ بھی شایدآج اپنے کہے پر پشیمان ہورہے ہونگے۔کیونکہ اگر یہ نون کاجنازہ ہے تو پھریہ کیسا جنازہ ہے جہاں ماتم کی بجائے شادیانے بجائے جارہے ہیںاور جہاں جنازے میں شریک لوگ والہانہ انداز میں اپنے اِس بظاہر'' متوفی اورشہید لیڈر'' پر محبتیں نثارکررہے ہیں۔ ایسالگتا ہے عدالتی فیصلہ'' بیک فائر'' ہوتا ہواخود اپنے مدعیوں کو ہی نشانہ بناگیا ۔ اُن کی ساری کی ساری چارسالہ مشقت ''مشق رائیگاں'' بن چکی ہے اور وہ میاں صاحب کو زیرکرنے کی بجائے خود ہی زیر ہوچکے ہیں۔ اگلا الیکشن جیت جانے کے اُن کے سارے خواب تشنہ تعبیر ہوتے جارہے ہیں۔
پاناما کیس کو کرپشن کے تابوت میں آخری کیل قرار دینے اور اپنے سارے عمل کو کرپشن کے خلاف جہاد قرار دینے والے ہمیں ذرا یہ بتائیں کہ جس ملک میں پانچ لاکھ ڈالرزکی منی لانڈرنگ کرنے والی ایان علی کو ہماری عدالت ہی سے ریلیف مل جائے اور 480ارب روپے کی مبینہ کرپشن کرنے والے ڈاکڑ عاصم حسین کو رہائی مل جائے وہاں دس ہزار درہم کی جاب کا اقامہ رکھنے پر کسی کو نااہل قرار دینے سے بھلا کس طرح سارے ملک سے کرپشن کاخاتمہ ممکن ہوسکتا ہے ۔اگر یہاں کسی کو ملک سے کرپشن کاخاتمہ کروانا مقصود ہے تو اُسے سب سے پہلے خود اپنی صفوں سے کرپٹ لوگوں کو باہر کرنا ہوگا۔ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا کہ وہ خود تو ساری پارٹیوں کا گند اپنی پارٹی میں جمع کرتا رہے اوردوسروں کی سیاست پر کیچڑ اُچھالتا رہے۔
نیوز لیکس کا معاملہ نہایت خوش اسلوبی سے طے ہو جانے کے بعد میاں صاحب کے وہم و گمان میں بھی شاید یہ بات نہ تھی کہ پاناما کیس میں پانچ کے پانچ ججوں کے ایک مکمل متفقہ فیصلے میں وہ اس طرح آناً فاناً اقتدار سے بیدخل کردیے جائیں گے۔ اِس معاملے کو قانونی و آئینی طریقے سے نمٹانے کے لیے کسی نہ کسی ماتحت عدالت یا نیب کو ریفرکرناپڑے گا۔ مگر ہماری عدالت نے 28جولائی 2017ء کو جب اِس کیس کا فیصلہ سنایا تو وہ بہت سوں کے لیے حیران کن بلکہ تعجب خیز تھا۔ عدالت نے ایک ایسے معاملے میں میاں نواز شریف کو نااہل قرار دے دیا جو پاناما لیکس میں سرے سے شامل ہی نہ تھا۔
بس جے آئی ٹی کے اُس انکشاف کو اِس تاریخی فیصلے کے لیے اہم جواز اور بنیاد بنا ڈالاجس میں میاں صاحب نے دبئی میں بنائی گئی ایک کمپنی کا اقامہ حاصل کیا اور جس کی اُنہوں نے کوئی باقاعدہ تنخواہ بھی وصول نہ کی۔ ایسا لگتا ہے عدالت نے ایسا فیصلہ سناکر میاںصاحب کے حق میں شایدکچھ رحم دلی کامظاہرہ کیا ہے۔وہ اگرچاہتی تو پاناما کیس میں مدعی کی جانب سے کی گئی استدعا کے مطابق لندن فلیٹوں سے متعلق کوئی نہ کوئی فیصلہ سنادیتی۔ اُن سے نہ کوئی پوچھ گچھ کی گئی اور نہ کوئی جرح۔ جب کہ پاناما کیس کا اصل معاملہ ابھی تک لاینحل ہے۔
اب میاں صاحب اقتدار سے باہر نکل کر سڑکوں پر آ گئے ہیں۔ اُن کے چاہنے والے جو پہلے ہی کم نہ تھے اب عدالت عالیہ کے اِس فیصلے کے بعداُن کی تعداد میں یقینا اضافہ ہی ہو تادکھائی دے رہا ہے۔ویسے بھی ہماری یہ روایت رہی ہے کہ جس کسی رہنما کو اگر کوئی سزا دی جائے یا اُسے گرفتار کیاجائے تو وہ ہیرو بن جاتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ہماری حکومتیں اپنے مخالف سیاسی لیڈروں کو شدیدمخالفت اور اشتعال انگیزی کے باوجود گرفتارکرنے سے کتراتی رہی ہیں۔خود عمران خان اور طاہرالقادری اپنے خلاف وارنٹ گرفتاری جاری ہونے کے باوجود ابھی تک گرفتار ہونے سے شاید اِسی وجہ سے بچے ہوئے ہیں۔اِس عدالتی فیصلے کا ایک مثبت پہلو یہ بھی ہے کہ پیپلز پارٹی جس کو ہمیشہ ہماری عدالتوں سے یہ شکوہ رہا ہے کہ عدالتوں سے اکثر فیصلے پیپلزپارٹی یا بھٹو فیمیلی کے خلاف ہی آیا کرتے ہیں۔
مسلم لیگ یا شریف فیمیلی کو اِس سے مستثنیٰ رکھا جاتا ہے، لیکن اِس بار اُسے کم ازکم ایسی شکایت کاموقعہ نہیں ملا۔ خود قمر زمان کائرہ نے حال ہی میں ایک ٹی وی ٹاک شو میں کہا ہے کہ ہمیں پورا یقین تھا کہ فیصلے میں میاں صاحب کو ایک بار پھرریلیف ملے گا مگر ہمارا یہ خیال غلط ثابت ہوا۔
مسلم لیگیوں کے نکتہ نظر سے اِس فیصلے کے نتیجے میں ایک خوش آیند پہلو یہ بھی نکلا کہ اُن کی پارٹی کسی متوقع گروپ بندی یا پارٹی ارکان کی بغاوت سے فوری طور پر نہ صرف بچ گئی ہے بلکہ عوام الناس کی بڑھتی ہوئی پذیرائی اورہمدردی کے بعداُس کے ا مکانات اور بھی کم تر ہوگئے ہیں۔ میاں نواز شریف اب اپنی منصبی ذمے داریوں سے سبکدوش ہونے کے بعد بالکل آزاد ، بے پروا اوربے خوف ہوچکے ہیں۔وہ اب کھل کر اُسی طرح سیاست کرسکتے ہیں جس طرح تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کیاکرتے ہیں۔
شاید اِسی وجہ سے میاں صاحب نے اب عوام میں جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اِس مقصد کے لیے اُنہوں نے جی ٹی روڈ کا انتخاب کیا ہے۔ وہ اب براستہ جی ٹی روڈ پنجاب کے مختلف شہروں سے گذر کر لاہور پہنچیں گے۔ہماری نظر میں میاں نواز شریف نے حسب عادت یہ فیصلہ کرنے میں بھی کچھ دیر کردی ہے۔ اِن کی جگہ اگر ذوالفقار علی بھٹو ہوتے تو عدالتی فیصلے کے دوسرے روز ہی وہ سڑکوں پر ہوتے۔ سیاست میں درست فیصلوں کے لیے وقت کا درست انتخاب بہت ضروری ہوا کرتا ہے۔ایک اچھا اور مفید فیصلہ اگر غلط اور غیرمناسب وقت پر کیاجائے تو اُس کی ساری اہمیت و افادیت دھری کی دھری رہ جاتی ہے۔دیر آیددرست آید لیکن میاں صاحب کے اِس فیصلے نے اُن کے مخالفوں کو یقینا پریشان کردیا ہے۔
اُنہیں بہرحال یہ خطرہ لاحق ہونے لگا ہے کہ اگر عوام کا سمندر اُن کی حمایت میں نکل آیا تو پھر وہ کہاں کھڑے ہونگے۔ پاناما کیس میں عدلیہ کے فیصلے کو اپنے حق میں سمجھنے والوں کے لیے یہ صورت حال انتہائی تشویش ناک ہوگی جب میاں صاحب عوام کی نظروں میں پہلے سے ذیادہ ہردل عزیز اور محبوب رہنما کے طور پر ابھر کر سامنے آجائیں گے۔خودخان صاحب کوشاید اِس بات کا قطعی خدشہ اور احتمال نہ تھا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد میاں صاحب مزید مقبول اور طاقتور رہنما بن کر اِس طرح اُن کے مقابل آجائیں گے۔اُن کے لیے شاید یہی صورت حال بہتر اور مفید تھی کہ پاناما کیس یونہی تعطل اور طوالت کاشکار رہتا اور وہ 2018ء کے الیکشن تک اسی طرح الزام تراشی کی سیاست کو اپنا محور بنائے رکھتے۔
پاناما کیس کے فیصلے نے ہمارے یہاں کی سیاست کا سارا منظر نامہ بدل کر رکھ دیا ہے۔ جن لوگوں نے اِس فیصلے پر خوشی کا اظہار کیا تھا اور مٹھائیاں تقسیم کی تھیں وہ اب تذبذب اور تردد کاشکار نظر آتے ہیں۔اُن کے خواب وخیال میں بھی نہ تھا کہ یہ فیصلہ اُن کے لیے مزید مشکلیں پیدا کرنے کا باعث بن جائے گا۔ پانچوں پرچوں میں فیل ہو جانے والانواز شریف عوامی مقبولیت کے تمام امتحانات یوں یک لخت اور یکمشت پاس کرلے گا کسی کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا۔
اِس فیصلے سے پہلے جولوگ یہ دعویٰ کررہے تھے کہ نون یا قانون میں سے کسی ایک کاجنازہ نکلے گا وہ لوگ بھی شایدآج اپنے کہے پر پشیمان ہورہے ہونگے۔کیونکہ اگر یہ نون کاجنازہ ہے تو پھریہ کیسا جنازہ ہے جہاں ماتم کی بجائے شادیانے بجائے جارہے ہیںاور جہاں جنازے میں شریک لوگ والہانہ انداز میں اپنے اِس بظاہر'' متوفی اورشہید لیڈر'' پر محبتیں نثارکررہے ہیں۔ ایسالگتا ہے عدالتی فیصلہ'' بیک فائر'' ہوتا ہواخود اپنے مدعیوں کو ہی نشانہ بناگیا ۔ اُن کی ساری کی ساری چارسالہ مشقت ''مشق رائیگاں'' بن چکی ہے اور وہ میاں صاحب کو زیرکرنے کی بجائے خود ہی زیر ہوچکے ہیں۔ اگلا الیکشن جیت جانے کے اُن کے سارے خواب تشنہ تعبیر ہوتے جارہے ہیں۔
پاناما کیس کو کرپشن کے تابوت میں آخری کیل قرار دینے اور اپنے سارے عمل کو کرپشن کے خلاف جہاد قرار دینے والے ہمیں ذرا یہ بتائیں کہ جس ملک میں پانچ لاکھ ڈالرزکی منی لانڈرنگ کرنے والی ایان علی کو ہماری عدالت ہی سے ریلیف مل جائے اور 480ارب روپے کی مبینہ کرپشن کرنے والے ڈاکڑ عاصم حسین کو رہائی مل جائے وہاں دس ہزار درہم کی جاب کا اقامہ رکھنے پر کسی کو نااہل قرار دینے سے بھلا کس طرح سارے ملک سے کرپشن کاخاتمہ ممکن ہوسکتا ہے ۔اگر یہاں کسی کو ملک سے کرپشن کاخاتمہ کروانا مقصود ہے تو اُسے سب سے پہلے خود اپنی صفوں سے کرپٹ لوگوں کو باہر کرنا ہوگا۔ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا کہ وہ خود تو ساری پارٹیوں کا گند اپنی پارٹی میں جمع کرتا رہے اوردوسروں کی سیاست پر کیچڑ اُچھالتا رہے۔