پیپلزپارٹی اور مسلم لیگن کی مالیاتی لوٹ مار آخری حصہ
ایک طرف واضح طور پر یہ بات سامنے موجود ہے کہ آئی ایم ایف حکومت کو تجویزیں دیتی ہے اور حکومت عمل کرتی ہے۔
ٹیبل D۔(7)۔ سال 2014ء میں تین مدوں غیر ملکی قرض نقد وصولی+ ملکی قرض وصولی+زرمبادلہ وصولی تینوں کا ٹوٹل 34 کھرب 65 ارب 89 کروڑ 45 لاکھ 96 ہزار روپے تھا۔ اس میں سے اصل بجٹ خسارہ نکال دیا جائے تو باقی 32 کھرب 39 ارب 5 کروڑ15 لاکھ 96 ہزار روپے عوامی سرپلس سرمایہ حکومت کے پاس بچ گئے تھے۔ اس بچت کی ڈالر میں مالیت 102.8591 روپے فی ڈالر کے حساب سے 31 ارب 49 کروڑ ایک لاکھ 80 ہزار ڈالر تھی۔ حکومت نے یہ بڑی رقم کہاں خرچ کی تھی؟ (8)۔ سال 2015ء ٹیبل 4.2 کے مطابق ٹوٹل ریونیو 39 کھرب 31 ارب 4 کروڑ20 لاکھ روپے تھا۔
ٹیبل 4.5 میں سال 2015ء میں حکومت سودوں کی مد میں بوگس ادائیگیاں 13 کھرب 16 ارب 69 کروڑ70 لاکھ روپے دکھا کر باقاعدہ اس بوجھ کو عوام سے وصول کرنے کے لیے ٹیبل 4.9 میں اخراجات کا حصہ بنایا گیا اور ٹوٹل اخراجات اس بوگس اعداد وشمار سمیت 53 کھرب 87 ارب 76 کروڑ 70 لاکھ بنائے گئے اور ٹیبل 4.2 میں باقاعدہ ان اعداد و شمار کو (8) سال 2015ء میں بجٹ کا حصہ بناکر ٹوٹل ریونیو سال 2015ء کو اس سے نکال کر بجٹ خسارہ 14 کھرب 56 ارب 72 کروڑ50 لاکھ روپے دکھایا گیا اور پھر اس خسارے کے مساوی غیر ملکی جعلی و بوگس اعداد و شمار (1)۔ایک کھرب 81 ارب 3 کروڑ20 لاکھ روپے جو تمام بجٹ میں کہیں بھی موجود نہیں ہیں۔ (2)۔ اور ملکی قرض 12 کھرب 75 ارب 69 کروڑ30 لاکھ روپے+اور اس میں شامل کرکے پرائیویٹائزیشن کے 17 ارب 49 کروڑ 80 لاکھ روپے شامل کرکے بجٹ خسارے کے برابر کردیا گیا۔
لیکن اصل حقیقت یہ تھی اصل ٹوٹل اخراجات سال 2015ء میں 40 کھرب 71 ارب 7 کروڑ روپے تھے۔ اس میں سے سال 2015ء کا ٹوٹل ریونیو 39 کھرب 31 ارب 4 کروڑ20 لاکھ روپے نکال دینے کے بعد بجٹ خسارہ ایک کھرب 40 ارب 2کروڑ 80 لاکھ روپے تھا۔ ٹیبل D۔(8)۔ میں غیر ملکی نقد ڈالر وصولی+ ملکی قرض وصولی+ زرمبادلہ وصولی تینوں مدوں کا ٹوٹل 38 کھرب 46 ارب 57 کروڑ45 لاکھ 84 ہزار روپے تھا۔ اس ٹوٹل میں سے اصل بجٹ خسارہ (140028.0ملین روپے) خارج کرنے کے بعد حکومت کے پاس 37 کھرب 6 ارب 54 کروڑ65 لاکھ 84 ہزار روپے کی بچت موجود تھی۔ جس کی ڈالر میں مالیت 101.2947 روپے فی ڈالر کے حساب سے 36 ارب 59 کروڑ17 لاکھ 13 ہزار ڈالر تھی۔
حکومت نے یہ بڑی رقم کہاں ٹھکانے لگائی؟ 9۔ سال 2016 مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے چوتھے سال ٹیبل 4.2 کے مطابق ٹوٹل ریونیو 44 کھرب 46 ارب 97 کروڑ 90 لاکھ روپے دکھایا گیا۔ ٹیبل 4.5 میں سال 2016ء کے مطابق حکومت نے بوگس سود ادائیگیاں 12 کھرب 73 ارب 12 کروڑ 10 لاکھ روپے ٹیبل 4.4 میں سال 2016ء میں ٹوٹل اخراجات کا حصہ بناکر 57 کھرب 96 ارب 30 کروڑ20 لاکھ روپے بنالیا۔ اس طرح مصنوعی بوگس بجٹ خسارہ ٹیبل 4.2 کے مطابق 13 کھرب 49 ارب 32 کروڑ30 لاکھ بناکر حکومت نے اتنے ہی مساوی ملکی قرض+غیر ملکی قرض سے 13 کھرب 49 ارب 32 کروڑ30 لاکھ روپے لے کر خسارہ برابر کردیا، لیکن حقیقت یہ تھی اصل ٹوٹل اخراجات 45 کھرب 23 ارب 18 کروڑ10 لاکھ روپے تھا۔ اس میں سے ریونیو ٹوٹل خارج کردینے کے بعد ٹوٹل بجٹ خسارہ 76 ارب 20 کروڑ 20 لاکھ روپے ہوا تھا۔
ٹیبل۔D۔(9)۔سال 2016ء میں حکومت نے غیرملکی نقد قرض+ملکی قرض+زرمبادلہ وصولی تینوں کا ٹوٹل 35 کھرب 59 ارب 76 کروڑ98 لاکھ روپے حاصل کیا۔ اس میں سے اصل بجٹ خسارہ 76 ارب 20 کروڑ 20 لاکھ روپے خارج کرنے کے بعد حکومت کے پاس 34 کھرب 83 ارب 56 کروڑ78 لاکھ روپے بچت میں تھے۔ ان کی ڈالر میں مالیت 104.763 روپے فی ڈالر کے حساب سے 33 ارب 25 کروڑ18 لاکھ 90 ہزار ڈالر تھی حکومت نے یہ بڑی رقم اپنے ذاتی مفادات پر قربان کردی۔ اس کا کوئی حسب کہیں نہیں موجود؟
ایک طرف واضح طور پر یہ بات سامنے موجود ہے کہ آئی ایم ایف حکومت کو تجویزیں دیتی ہے اور حکومت عمل کرتی ہے۔ 16 جولائی 2017ء کو میڈیا میں شایع خبر کے مطابق آئی ایم ایف نے حکومت کو بجلی اور پٹرول مہنگا کرنے کا حکم دیا ہے پیپلز پارٹی کی حکومت نے 2008ء سے 2012-13ء تک غیرملکی ڈالر قرضہ نقد 7 ارب 53 کروڑ4 لاکھ ڈالر وصول کیا اور عوام پر 58 ارب 93 کروڑ32 لاکھ ڈالر تک قرضہ چڑھا دیا۔ مسلم لیگ (ن) نے 2013ء سے 2016ء تک 4 سال میں 9 ارب 2 کروڑ24 لاکھ ڈالر قرضہ نقد وصول کیا۔
پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ دونوں نے مل کر کتاب Statical Bulletin February 2017 by State Bank of Pakistan کے صفحہ 112 کے مطابق جون 2016ء تک غیر ملکی قرضہ ملکی عوام پر 60 کھرب 50 ارب 80 کروڑ روپے چڑھادیا تھا اور ملکی قرضہ 136 کھرب 25 ارب 90 کروڑ روپے عوام پر چڑھا دیا تھا۔ دونوں کا ٹوٹل 196 کھرب 76 ارب 70 کروڑ روپے تھا۔
آخر میں عالمی مارکیٹ کے چند حقائق سامنے رکھتا ہوں۔ کتاب Statical Digest of Pakistan 1950 ء کے صفحے 232 اور 233 کے مطابق نومبر 1947ء کو کراچی میں آٹا چکی 10 روپے کا تھیلہ۔ فی یعنی ایک روپے کا 4 سیر جو آج کے 25 پیسے بنتے ہیں۔ کراچی میں چکی آٹا جولائی 2017ء میں 45 روپے سیر ہے۔ آٹے کی قیمت میں اضافہ 17 ہزار 9 سو فیصد ہوگیا۔
اسی کتاب کے صفحہ 246 سے 247 پر چینی دسمبر 1948ء میں کراچی میں 40 روپے فی من تھی۔ ایک روپے کی ایک سیر تھی۔ جولائی 2017ء میں کراچی میں چینی 60 روپے فی کلو مل رہی تھی۔ چینی کی قیمت میں 5 ہزار 9 سو فیصد اضافہ ہوگیا تھا۔ کتاب International Financial Statistics Year 1979 by IMF. USAء کے صفحہ 76 اور 77 کے مطابق کینیڈا و دیگر ملکوں میں 1.65 ڈالر کا آٹا گندم ایک باشل تھا۔ ایک باشل (Bushel) میں 27.25 کلوگرام ہوتے ہیں۔
ایک ڈالر کا آٹا گندم 16 کلو گرام 515 گرام مل رہا تھا۔ کتاب IFS 2016 کے صفحے 90 کے مطابق 2015ء میں 185.6 ڈالر کا آٹا گندم ایک میٹرک ٹن تھا۔ ایک میٹرک ٹن میں 1016 کلوگرام ہوتے ہیں۔ اس طرح یورپی ملکوں میں آٹا ایک ڈالر کا 5.474 کلوگرام ہوگیا تھا۔ اس طرح ان ملکوں میں آٹا گندم 398 فیصد مہنگا ہوا۔ یہ 68 سالوں میں مہنگائی ہوئی۔ کتاب IFS 1979ء کے صفحہ 76 اور 77 کے مطابق چینی 1949ء میں یورپی و دیگر ملکوں میں 2.76 سینٹ کی ایک پونڈ تھی۔
کتاب IFS 2016 کے صفحے 90 کے مطابق 2015ء میں ان ملکوں میں 13.2 سینٹ کی ایک پونڈ تھی۔ ان ملکوں میں 68 سالوں میں چینی کی قیمت میں اضافہ 378 فیصد ہوا تھا۔ اب عوام عملاً دیکھ چکے ہیں کہ عوامی سرپلس سرمایہ جو عوام کی ملکیت ہے جاگیردار، سرمایہ دار عوام سے ووٹ لے کر اس سرمائے کے مالک بن کر خود سب کچھ حاصل کرلیتے ہیں اور عوام کے پلے محرومیاں رونا دھونا باندھ دیتے ہیں۔