بلوچستان کا حسنِ جمال قائدِاعظم کی رہائش گاہ
یہ بات کہی جاتی ہے کہ وادی زیارت کی سیر اُس وقت تک ادھوری رہتی ہے، جب تک ’قائدِاعظم ریزیڈنسی‘ کا دورہ نہ کیا جائے۔
SINGAPORE:
یہ بات تو بدقسمتی سے ہم سب ہی جانتے ہیں کہ بلوچستان قدرتی گیس، کوئلے، سونے، تانبہ اور دوسری معدنیاتی دولت سے مالامال ہونے کے باوجود مالی وسائل سے محروم اور یہاں کی عوام دوسرے صوبوں کے مقابلے میں غریب اور پسماندہ ہیں، لیکن اِن تمام تر مسائل کے باوجود جو سب سے اچھی بات ہے وہ یہ کہ یہاں ہر سال 14 اگست کو یوم آزادی کے حوالے سے پرجوش تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے اور خصوصاً لوگ قائداعظم کی آخری رہائش گاہ یعنی 'زیارت ریزیڈنسی' پر آتے ہیں اور یہاں آکر قائداعظم کو قریب سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
14 اگست کو جب ریزڈنسی میں پاکستانی پرچم کشائی ہوتی ہے تو لوگوں کے دل خوشی سے مہک اٹھتے ہیں اور پاکستان زندہ باد کے نعرے فضا میں گونج اٹھتے ہیں۔بلوچستان میں سب سے مشہور اگر کوئی بھی جگہ ہے تو وہ قائداعظم ریزیڈنسی ہی ہے۔ پاکستان کے بانی اور پہلے گورنر جنرل محمد علی جناح اپنی وفات سے قبل یہاں زیارت ریزیڈنسی میں ہی مقیم تھے اور انہوں نے اپنی زندگی کے آخری دو ماہ دس دن اِسی رہائش گاہ میں قیام کیا۔ جس کے بعد اِس رہائش گاہ کو قائداعظم ریزیڈنسی کا نام دے کر قومی ورثہ قرار دیا گیا، اور آج بھی 'سو روپے' کی نوٹ پر اِسی مقام کی تصویر لگی ہوئی ہے۔
اِس رہائش گاہ کو دیکھنے کے لیے صرف مقامی لوگ ہی نہیں بلکہ پورے ملک اور خصوصاً بیرون ممالک سے لوگ سیاحت کیلئے آتے ہیں، اور موسم گرما کا آغاز ہوتے ہی یہاں سیاحوں کی آمد میں زبردست اضافہ ہوجاتا ہے۔
اِس سال بھی بلوچستان میں جشنِ آزادی کے موقع پر کوئٹہ سمیت بلوچستان کے تمام اضلاع میں ہونے والے جشن آزادی کی تیاریاں شروع ہوچکی ہیں، جس میں بابائے قوم کی رہائش گاہ کو بھی سجا دیا گیا ہے۔ 2013ء میں اِس رہائش گاہ پر دہشتگردوں کے حملے کے بعد سے یہاں ہونے والی ہر تقریب کے موقع پر عوام کو جامعہ تلاشی کے سخت مرحلے سے گزرنا پڑتا ہے، اگرچہ اِس مرحلے سے لوگوں کو مشکلات ضرور پیش آتی ہیں لیکن حفاظتی اعتبار سے بہرحال یہ اچھا فیصلہ ہے۔
یہ رہائشگاہ انگریزوں نے سنہ 1892ء لکڑی سے تعمیر کی گئی تھی۔ یہ بات بھی کہی جاتی ہے کہ اُس دور میں حکومتِ برطانیہ کے جو افسران بھی یہاں آتے تھے وہ اِسی رہائشگاہ میں قیام کرتے تھے۔ لکڑی سے تعمیر کی گئی یہ خوبصورت رہائش گاہ اپنے بنانے والے کے اعلیٰ فن کی عکاس ہے۔ عمارت کے بیرونی چاروں اطراف میں لکڑی کے ستون ہیں اور عمارت کے اندرونی حصے میں بھی لکڑی کا استعمال بہت خوبصورتی سے کیا گیا ہے۔
وادی زیارت کی سیر اُس وقت تک ادھوری رہتی ہے، جب تک 'قائدِاعظم ریزیڈنسی' کا دورہ نہ کیا جائے، جہاں پیارے قائد نے زندگی کے آخری ایام گزارے تھے۔ یکم جولائی 1948ء کو بانی پاکستان قائدِاعظم محمد علی جناح اپنے ذاتی معالج ڈاکٹر کرنل الٰہی بخش کے مشورے پر ناسازئ طبیعت کے باعث یہاں تشریف لائے تاکہ بہتر ماحول میں رہنے کی وجہ سے طبیعت میں کچھ بہتری آسکے لیکن افسوس کہ ایسا نہیں ہوسکا۔
ریزیڈنسی کے کمروں میں ایک کمرہ محترمہ فاطمہ جناح اور ایک کمرہ قائدِاعظم کے ذاتی معالج کرنل الہی بخش کا تھا جبکہ ایک کمرہ اُن کے ذاتی معتمد کے لئے مختص کیا گیا تھا۔ یہ عمارت آج بھی قائد اعظم کی بارعب شخصیت کا احساس دلاتی ہے، اور آج بھی آپ وہاں جائیں تو آپ کو محسوس ہوتا کہ قائدِاعظم جیسے اندر ہی کہیں آرام فرما رہے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ میں اُن تمام لوگوں کو یہ مشورہ ضرور دوں گا کہ زندگی میں ایک بار ضرور اِس مقام پر تشریف لائیں، پھر چاہے سال کے کسی بھی موسم میں آپ کو موقع لگے، کیونکہ یہاں آنے سے نہ صرف آپ اِس خوبصورت مقام کی سیر بھی کرسکیں گے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ قائدِاعظم کی رہائش کو قریب سے دیکھ کر اندازہ کرسکیں گے کہ وہ کس طرح زندگی گزارہ کرتے تھے اور کیونکر زندگی کے آخری دن انہوں نے یہاں گزارنا پسند کیے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے
یہ بات تو بدقسمتی سے ہم سب ہی جانتے ہیں کہ بلوچستان قدرتی گیس، کوئلے، سونے، تانبہ اور دوسری معدنیاتی دولت سے مالامال ہونے کے باوجود مالی وسائل سے محروم اور یہاں کی عوام دوسرے صوبوں کے مقابلے میں غریب اور پسماندہ ہیں، لیکن اِن تمام تر مسائل کے باوجود جو سب سے اچھی بات ہے وہ یہ کہ یہاں ہر سال 14 اگست کو یوم آزادی کے حوالے سے پرجوش تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے اور خصوصاً لوگ قائداعظم کی آخری رہائش گاہ یعنی 'زیارت ریزیڈنسی' پر آتے ہیں اور یہاں آکر قائداعظم کو قریب سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
14 اگست کو جب ریزڈنسی میں پاکستانی پرچم کشائی ہوتی ہے تو لوگوں کے دل خوشی سے مہک اٹھتے ہیں اور پاکستان زندہ باد کے نعرے فضا میں گونج اٹھتے ہیں۔بلوچستان میں سب سے مشہور اگر کوئی بھی جگہ ہے تو وہ قائداعظم ریزیڈنسی ہی ہے۔ پاکستان کے بانی اور پہلے گورنر جنرل محمد علی جناح اپنی وفات سے قبل یہاں زیارت ریزیڈنسی میں ہی مقیم تھے اور انہوں نے اپنی زندگی کے آخری دو ماہ دس دن اِسی رہائش گاہ میں قیام کیا۔ جس کے بعد اِس رہائش گاہ کو قائداعظم ریزیڈنسی کا نام دے کر قومی ورثہ قرار دیا گیا، اور آج بھی 'سو روپے' کی نوٹ پر اِسی مقام کی تصویر لگی ہوئی ہے۔
اِس رہائش گاہ کو دیکھنے کے لیے صرف مقامی لوگ ہی نہیں بلکہ پورے ملک اور خصوصاً بیرون ممالک سے لوگ سیاحت کیلئے آتے ہیں، اور موسم گرما کا آغاز ہوتے ہی یہاں سیاحوں کی آمد میں زبردست اضافہ ہوجاتا ہے۔
اِس سال بھی بلوچستان میں جشنِ آزادی کے موقع پر کوئٹہ سمیت بلوچستان کے تمام اضلاع میں ہونے والے جشن آزادی کی تیاریاں شروع ہوچکی ہیں، جس میں بابائے قوم کی رہائش گاہ کو بھی سجا دیا گیا ہے۔ 2013ء میں اِس رہائش گاہ پر دہشتگردوں کے حملے کے بعد سے یہاں ہونے والی ہر تقریب کے موقع پر عوام کو جامعہ تلاشی کے سخت مرحلے سے گزرنا پڑتا ہے، اگرچہ اِس مرحلے سے لوگوں کو مشکلات ضرور پیش آتی ہیں لیکن حفاظتی اعتبار سے بہرحال یہ اچھا فیصلہ ہے۔
یہ رہائشگاہ انگریزوں نے سنہ 1892ء لکڑی سے تعمیر کی گئی تھی۔ یہ بات بھی کہی جاتی ہے کہ اُس دور میں حکومتِ برطانیہ کے جو افسران بھی یہاں آتے تھے وہ اِسی رہائشگاہ میں قیام کرتے تھے۔ لکڑی سے تعمیر کی گئی یہ خوبصورت رہائش گاہ اپنے بنانے والے کے اعلیٰ فن کی عکاس ہے۔ عمارت کے بیرونی چاروں اطراف میں لکڑی کے ستون ہیں اور عمارت کے اندرونی حصے میں بھی لکڑی کا استعمال بہت خوبصورتی سے کیا گیا ہے۔
وادی زیارت کی سیر اُس وقت تک ادھوری رہتی ہے، جب تک 'قائدِاعظم ریزیڈنسی' کا دورہ نہ کیا جائے، جہاں پیارے قائد نے زندگی کے آخری ایام گزارے تھے۔ یکم جولائی 1948ء کو بانی پاکستان قائدِاعظم محمد علی جناح اپنے ذاتی معالج ڈاکٹر کرنل الٰہی بخش کے مشورے پر ناسازئ طبیعت کے باعث یہاں تشریف لائے تاکہ بہتر ماحول میں رہنے کی وجہ سے طبیعت میں کچھ بہتری آسکے لیکن افسوس کہ ایسا نہیں ہوسکا۔
ریزیڈنسی کے کمروں میں ایک کمرہ محترمہ فاطمہ جناح اور ایک کمرہ قائدِاعظم کے ذاتی معالج کرنل الہی بخش کا تھا جبکہ ایک کمرہ اُن کے ذاتی معتمد کے لئے مختص کیا گیا تھا۔ یہ عمارت آج بھی قائد اعظم کی بارعب شخصیت کا احساس دلاتی ہے، اور آج بھی آپ وہاں جائیں تو آپ کو محسوس ہوتا کہ قائدِاعظم جیسے اندر ہی کہیں آرام فرما رہے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ میں اُن تمام لوگوں کو یہ مشورہ ضرور دوں گا کہ زندگی میں ایک بار ضرور اِس مقام پر تشریف لائیں، پھر چاہے سال کے کسی بھی موسم میں آپ کو موقع لگے، کیونکہ یہاں آنے سے نہ صرف آپ اِس خوبصورت مقام کی سیر بھی کرسکیں گے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ قائدِاعظم کی رہائش کو قریب سے دیکھ کر اندازہ کرسکیں گے کہ وہ کس طرح زندگی گزارہ کرتے تھے اور کیونکر زندگی کے آخری دن انہوں نے یہاں گزارنا پسند کیے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے
اگر آپ بھی ہمارے لیے بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریراپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک و ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کیساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اور ویڈیو لنکس بھی