نوازشریف نے عوام میں جانے کا فیصلہ کرنے میں دیرکردی خورشید شاہ
ہم نے اپنی حکومت میں منتیں کی تھیں کہ آرٹیکل 62،63 ختم کردیں، قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف
اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کا کہنا ہے کہ 4 سال سے نوازشریف کو میری بات سمجھ نہیں آئی جب کہ اب نوازشریف نے عوام میں جانے کا فیصلہ کیا لیکن دیر کردی۔
اسلام آباد میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ 4 سال سے نوازشریف کو میری بات سمجھ نہیں آئی، اب نوازشریف نے عوام میں جانے کا فیصلہ کیا لیکن دیر کردی، کرسیاں ملتی ہیں تو سب کچھ بھول جاتے ہیں جب کہ نواز شریف کا حق ہے کہ وہ ریلی نکالیں۔ ان کا کہنا تھا کہ سیاست دانوں کو سیکورٹی رسک لینا پڑیں گے، قبل از وقت الیکشن کرانے کی ضرورت نہیں جب کہ تمام مسائل کا حل اب پیپلز پارٹی کے پاس ہے۔
خورشید نے کہا کہ اسمبلی کی مدت 4 سال ہونی چاہیے جب کہ آرٹیکل 62، 63 میں تبدیلی کا ابھی وقت نہیں، یہ ضیاالحق کا قانون تھا ۔ ہم نے اپنی حکومت میں منتیں کی تھیں کہ آرٹیکل 62،63 ختم کردیں۔ انہوں نے کہا کہ نواز شریف کے دوستوں نے ثبوت دینے کے بجائے ایسے بیان دیے جس نے دوریاں پیدا کیں جب کہ تحریک انصاف کے ساتھ کوئی معاملات نہیں، وہ اپوزیشن میں ہیں اور ہم بھی۔
دوسری جانب لاہور میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے پیپلزپارٹی پنجاب کے صدر قمر زمان کائرہ کا کہنا تھا کہ نوازشریف نے عدالتی فیصلہ قبول کرنے کا کہا تھا کہ عدالت جو بھی فیصلہ دے گی وہ انہیں منظور ہو گا اور عدالتی فیصلے کی روشنی میں ہی میاں صاحب کو عہدے سے الگ ہونا پڑا جس پر وہ عدالتی فیصلے کو سازش قرار دے رہے ہیں البتہ آج عدالتی فیصلے کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے وہ دنیا دیکھ رہی ہے۔
قمر زمان کائرہ کا کہنا تھا کہ نواز شریف یہ کہتے آ رہے ہیں کہ ان کے خلاف سازش ہو رہی ہے، ہم ان سے پوچھتے ہیں کہ وہ بتائیں کہ ان کے خلاف کون سازش کررہا ہے، ابھی تو ان کے خلاف صرف ایک فیصلہ آیا تو کہہ رہے ہیں ملک خطرے میں ہے جب کہ ہم نے انہیں بار بار کہا کہ آپ کو خطرات ہیں تو قومی قیادت کو بتانا چاہیئے، لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ خود میاں صاحب نے بھی ایک صدر اور ایک چیف جسٹس کو گھر بھجوایا تھا۔
اسلام آباد میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ 4 سال سے نوازشریف کو میری بات سمجھ نہیں آئی، اب نوازشریف نے عوام میں جانے کا فیصلہ کیا لیکن دیر کردی، کرسیاں ملتی ہیں تو سب کچھ بھول جاتے ہیں جب کہ نواز شریف کا حق ہے کہ وہ ریلی نکالیں۔ ان کا کہنا تھا کہ سیاست دانوں کو سیکورٹی رسک لینا پڑیں گے، قبل از وقت الیکشن کرانے کی ضرورت نہیں جب کہ تمام مسائل کا حل اب پیپلز پارٹی کے پاس ہے۔
خورشید نے کہا کہ اسمبلی کی مدت 4 سال ہونی چاہیے جب کہ آرٹیکل 62، 63 میں تبدیلی کا ابھی وقت نہیں، یہ ضیاالحق کا قانون تھا ۔ ہم نے اپنی حکومت میں منتیں کی تھیں کہ آرٹیکل 62،63 ختم کردیں۔ انہوں نے کہا کہ نواز شریف کے دوستوں نے ثبوت دینے کے بجائے ایسے بیان دیے جس نے دوریاں پیدا کیں جب کہ تحریک انصاف کے ساتھ کوئی معاملات نہیں، وہ اپوزیشن میں ہیں اور ہم بھی۔
دوسری جانب لاہور میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے پیپلزپارٹی پنجاب کے صدر قمر زمان کائرہ کا کہنا تھا کہ نوازشریف نے عدالتی فیصلہ قبول کرنے کا کہا تھا کہ عدالت جو بھی فیصلہ دے گی وہ انہیں منظور ہو گا اور عدالتی فیصلے کی روشنی میں ہی میاں صاحب کو عہدے سے الگ ہونا پڑا جس پر وہ عدالتی فیصلے کو سازش قرار دے رہے ہیں البتہ آج عدالتی فیصلے کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے وہ دنیا دیکھ رہی ہے۔
قمر زمان کائرہ کا کہنا تھا کہ نواز شریف یہ کہتے آ رہے ہیں کہ ان کے خلاف سازش ہو رہی ہے، ہم ان سے پوچھتے ہیں کہ وہ بتائیں کہ ان کے خلاف کون سازش کررہا ہے، ابھی تو ان کے خلاف صرف ایک فیصلہ آیا تو کہہ رہے ہیں ملک خطرے میں ہے جب کہ ہم نے انہیں بار بار کہا کہ آپ کو خطرات ہیں تو قومی قیادت کو بتانا چاہیئے، لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ خود میاں صاحب نے بھی ایک صدر اور ایک چیف جسٹس کو گھر بھجوایا تھا۔
پیپلزپارٹی کے رہنما نے نوازشریف کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو 5 ججوں نے متفقہ طور پر گھر بھیجا اور اب آپ کے خلاف ریفرنس ہونے جا رہا ہے اس لیے پریشان ہیں جب کہ میاں صاحب اپنے خلاف کیسوں میں دباؤ بڑھانا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میاں صاحب ابھی لاڈلے ہیں ابھی بھی آپ پر ہاتھ ہولا ہے، نواز شریف کنٹینر کنٹینر کرتے خود کنٹینر پر چڑھ گئے ہیں۔
ادھر پاکستان تحریک انصاف کے رہنما و رکن قومی اسمبلی علی محمد خان نے کہا ہے کہ ریلی نکالنا سیاسی جماعت کا حق ہے لیکن مسلم لیگ ن والے عدلیہ پر اٹیک کر رہے ہیں یہ جمہو ریت پر خو د کش حملہ ہے یہ باتیں انہوں نے پارلیمنٹ ہائوس کے باہر میڈیا سے گفتگو کے دوران کی انہوں نے کہاکہ نواز شریف نااہل ہو چکے ہیں ان پر جرم ثابت ہو گیا اور نیب میں ریفرنس چلا گیا ہے اب انہوں نے ریلیاں نکالنا شروع کر دی ہیں جو عدلیہ پر اٹیک ہے اس طرح تو کوئی بھی 20سے 30ہزار بندہ لے کر سڑکوں پر نکل آئے گا اور کچھ بھی کر لے گا ۔