جوڑ توڑ میں تیزی
ٹنڈو محمد خان میں پیپلز پارٹی کی پوزیشن مضبوط ہوئی ہے۔
ٹنڈو محمد خان میں سندھ ترقی پسند پارٹی کے پچھلے چار سال سے مسلسل عوام سے رابطے میں ہے اور خود کو یہاں مضبوط بنانے میں کام یاب بھی ہو گئی تھی، مگر چند دنوں پہلے اس کے ضلعی عہدے داروں نے تشدد کا راستہ اختیار کر کے اپنی محنت پر پانی پھیر دیا۔
انھوں نے ایک خبر کی اشاعت پر نجی ٹی وی چینل کے رپورٹر اور ڈسٹرکٹ الیکٹرونک میڈیا ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری مرسل رضوی کو تشدد کا نشانہ بنایا، جس سے مقامی سطح پر ایس ٹی پی کی ساکھ متأثر ہوئی ہے اور میڈیا سے تعلقات میں بھی سرد مہری پیدا ہو گئی ہے۔ ایس ٹی پی کے مرکزی راہ نما ڈاکٹر احمد نوناری اور ڈاکٹر جی ایم گل کی کوششوں سے میڈیا اور ایس ٹی پی کے مابین مصالحت تو ہو گئی ہے۔ تاہم اس پر عوامی حلقوں نے بھی ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے۔
دوسری طرف جیسے جیسے عام انتخابات قریب آ رہے ہیں، سیاسی جوڑ توڑ میں بھی تیزی آگئی ہے۔ ٹنڈو محمد خان کو پیپلز پارٹی کا قلعہ سمجھا جاتا رہا ہے اور اس قلعے کو فتح کرنے کے لیے پیپلز پارٹی مخالف قوتیں تیزی سے اکٹھی ہو رہی ہیں۔ مرکزی سطح پر فنکشنل مسلم لیگ، نیشنل پیپلز پارٹی اور قوم پرست پارٹیوں کے مابین سندھ اسمبلی کے تمام حلقوں پر پیپلز پارٹی کے امیدواروں کے مقابلے میں متفقہ امیدوار کھڑا کرنے کی بات کی گئی ہے، لیکن مختلف نظریات رکھنے والی ان جماعتوں کا ایسا کرنا آسان نظر نہیں آ رہا۔
سندھ اسمبلی کی بیش تر نشستوں پر قوم پرست جماعتوں نے اپنے امیدواروں کا اعلان بھی کر دیا ہے۔ سندھ ترقی پسند پارٹی کی جانب سے صوبائی اسمبلی کے حلقۂ انتخاب 53، ٹنڈو محمد خان کے لیے ڈاکٹر احمد نوناری کا نام سامنے آیا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ عام انتخابات میں پی پی پی کے مقابلے میں یہاں ایس ٹی پی مضبوط جماعت ہے۔ اسی نشست پر نیشنل پیپلز پارٹی کے میر مشتاق علی ٹالپر یا ان کے صاحب زادے میر علی نواز ٹالپر انتخابات میں حصہ لینے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ دوسری جانب حال ہی میں فنکشنل مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کرنے والے میر عنایت علی ٹالپر پی ایس 53 پر سب سے مضبوط امیدوار تصور کیے جارہے ہیں۔ اگر پیپلز پارٹی کے امیدوار کے مقابلے میں، میر عنایت علی خان ٹالپر فنکشنل مسلم لیگ، قوم پرست جما عتوں اور مسلم لیگ ن کے متفقہ امیدوار کے طور پر سامنے آجاتے ہیں تو پی پی پی کے لیے یہ نشست حاصل کرنا مشکل ہوگا۔
ایک طرف سیاسی جماعتیں پیپلز پارٹی کے اس قلعے کو فتح کرنے کے لیے جوڑ توڑ کر رہی ہیں اور دوسری جانب پی ایس 53 پر پیپلز پارٹی کے منتخب نمایندے سید محسن شاہ بخاری کے انتقال کے بعد اس نشست کے حصول کے لیے پارٹی دھڑے بندی کا شکار ہو چکی ہے۔ 1988 سے 2008تک صوبائی اسمبلی کی اس نششت پر بلا شرکت غیرے راج کرنے والے بخاری ہائوس کے مکینوں ہی کے مابین متوقع انتخابات میں پارٹی کا ٹکٹ حاصل کرنے کے لیے سرد جنگ چل رہی ہے۔ پیپلز پارٹی نے 25 فروری 2012 کے ضمنی انتخابات کے لیے سید محسن شاہ بخاری کی بیوہ سیدہ وحیدہ شاہ کو ٹکٹ جاری کیا تھا۔ تاہم پولنگ کے دوران ایک ناخوش گوار واقعے کے بعد الیکشن کمیشن کی جانب سے ان کی نا اہلی کا حکم آگیا۔
پیپلز پارٹی نے 26 اپریل کے ضمنی انتخابات میں سید محسن شاہ بخاری مرحوم کے چچا زاد بھائی سید اعجاز شاہ کو پارٹی ٹکٹ جاری کیا، لیکن عدالتی حکم کے باعث یہ ضمنی انتخاب بھی نہیں ہو سکا، جس کے بعد سیدہ وحیدہ شاہ اور سید اعجاز شاہ بخاری کے مابین اس نششت کے لیے سرد جنگ شروع ہو گئی۔ سید اعجاز شاہ بخاری متوقع انتخابات میں بہتر نتائج حاصل کرنے کے لیے پارٹی کارکنوں کو منظم کر رہے ہیں جب کہ سیدہ وحیدہ شاہ بخاری نے بھی عوامی رابطہ مہم شروع کر رکھی ہے اور گذشتہ ایک ہفتے کے دوران انھوں نے یونین کونسل ٹنڈو فضل کے گوٹھ جمعو کھوسو، گوٹھ حاجی جام کھوسو اور یونین کونسل شیخ بھرکیو کے گوٹھ محمد خان کھن جیجو میں اجتماعات سے خطاب بھی کیا ہے۔ ان کی نا اہلی کا معاملہ تاحال عدالت میں زیر سماعت ہے۔
انھیں توقع ہے کہ انتخابات سے قبل ان کے حق میں فیصلہ آجائے گا اور وہ متوقع عام انتخابات میں بھی پی ایس 53 پر پیپلز پارٹی کی امیدوار ہوں گی۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر انتخابات تک عدالت کا فیصلہ نہ آیا تو ان کی کوشش ہوگی کہ ان کی صاحب زادی ڈاکٹر سیدہ رافعہ محسن بخاری اس نشست سے پیپلز پارٹی کی امیدوار ہوں۔ اسی نشست پر پیپلز پارٹی کے سینیر راہ نما پیر خالد جان سرہندی بھی انتخابات میں اپنے صاحب زادے پیر احمد سعید جان سرہندی کے لیے پیپلز پارٹی سے ٹکٹ حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
پیر احمد سعید جان سرہندی نے عوامی رابطہ مہم کا آغاز بھی کر دیا ہے۔ ٹنڈو محمد خان کے دیہی علاقوں میں پیپلز پارٹی نے سیکڑوں گائوں، گوٹھوں کو گیس اور بجلی فراہم کی ہے، لوگوں کو نوکریاں بھی دی ہیں، جس سے وہاں اس کی پوزیشن مضبوط ہوئی ہے۔ تاہم شہری علاقوں کے مسائل حل کرنے پر توجہ نہیں دی گئی۔ شہرکے متعدد علاقے کئی کئی روز تک پینے کے پانی سے محروم رہتے ہیں، سڑکیں اور بازار گندے پانی میں ڈوبے نظر آتے ہیں، بجلی کی سہولت سے عوام بارہ بارہ گھنٹوں تک محروم ہیں، جس کی وجہ سے پی پی پی کی مقبولیت میں کمی آئی ہے۔ سیاسی پنڈتوں کے مطابق متوقع الیکشن میں صوبائی نشست پر پی پی پی کے امیدوار کے لیے کام یابی حاسل کرنا آسان نہیں ہو گا۔
انھوں نے ایک خبر کی اشاعت پر نجی ٹی وی چینل کے رپورٹر اور ڈسٹرکٹ الیکٹرونک میڈیا ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری مرسل رضوی کو تشدد کا نشانہ بنایا، جس سے مقامی سطح پر ایس ٹی پی کی ساکھ متأثر ہوئی ہے اور میڈیا سے تعلقات میں بھی سرد مہری پیدا ہو گئی ہے۔ ایس ٹی پی کے مرکزی راہ نما ڈاکٹر احمد نوناری اور ڈاکٹر جی ایم گل کی کوششوں سے میڈیا اور ایس ٹی پی کے مابین مصالحت تو ہو گئی ہے۔ تاہم اس پر عوامی حلقوں نے بھی ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے۔
دوسری طرف جیسے جیسے عام انتخابات قریب آ رہے ہیں، سیاسی جوڑ توڑ میں بھی تیزی آگئی ہے۔ ٹنڈو محمد خان کو پیپلز پارٹی کا قلعہ سمجھا جاتا رہا ہے اور اس قلعے کو فتح کرنے کے لیے پیپلز پارٹی مخالف قوتیں تیزی سے اکٹھی ہو رہی ہیں۔ مرکزی سطح پر فنکشنل مسلم لیگ، نیشنل پیپلز پارٹی اور قوم پرست پارٹیوں کے مابین سندھ اسمبلی کے تمام حلقوں پر پیپلز پارٹی کے امیدواروں کے مقابلے میں متفقہ امیدوار کھڑا کرنے کی بات کی گئی ہے، لیکن مختلف نظریات رکھنے والی ان جماعتوں کا ایسا کرنا آسان نظر نہیں آ رہا۔
سندھ اسمبلی کی بیش تر نشستوں پر قوم پرست جماعتوں نے اپنے امیدواروں کا اعلان بھی کر دیا ہے۔ سندھ ترقی پسند پارٹی کی جانب سے صوبائی اسمبلی کے حلقۂ انتخاب 53، ٹنڈو محمد خان کے لیے ڈاکٹر احمد نوناری کا نام سامنے آیا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ عام انتخابات میں پی پی پی کے مقابلے میں یہاں ایس ٹی پی مضبوط جماعت ہے۔ اسی نشست پر نیشنل پیپلز پارٹی کے میر مشتاق علی ٹالپر یا ان کے صاحب زادے میر علی نواز ٹالپر انتخابات میں حصہ لینے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ دوسری جانب حال ہی میں فنکشنل مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کرنے والے میر عنایت علی ٹالپر پی ایس 53 پر سب سے مضبوط امیدوار تصور کیے جارہے ہیں۔ اگر پیپلز پارٹی کے امیدوار کے مقابلے میں، میر عنایت علی خان ٹالپر فنکشنل مسلم لیگ، قوم پرست جما عتوں اور مسلم لیگ ن کے متفقہ امیدوار کے طور پر سامنے آجاتے ہیں تو پی پی پی کے لیے یہ نشست حاصل کرنا مشکل ہوگا۔
ایک طرف سیاسی جماعتیں پیپلز پارٹی کے اس قلعے کو فتح کرنے کے لیے جوڑ توڑ کر رہی ہیں اور دوسری جانب پی ایس 53 پر پیپلز پارٹی کے منتخب نمایندے سید محسن شاہ بخاری کے انتقال کے بعد اس نشست کے حصول کے لیے پارٹی دھڑے بندی کا شکار ہو چکی ہے۔ 1988 سے 2008تک صوبائی اسمبلی کی اس نششت پر بلا شرکت غیرے راج کرنے والے بخاری ہائوس کے مکینوں ہی کے مابین متوقع انتخابات میں پارٹی کا ٹکٹ حاصل کرنے کے لیے سرد جنگ چل رہی ہے۔ پیپلز پارٹی نے 25 فروری 2012 کے ضمنی انتخابات کے لیے سید محسن شاہ بخاری کی بیوہ سیدہ وحیدہ شاہ کو ٹکٹ جاری کیا تھا۔ تاہم پولنگ کے دوران ایک ناخوش گوار واقعے کے بعد الیکشن کمیشن کی جانب سے ان کی نا اہلی کا حکم آگیا۔
پیپلز پارٹی نے 26 اپریل کے ضمنی انتخابات میں سید محسن شاہ بخاری مرحوم کے چچا زاد بھائی سید اعجاز شاہ کو پارٹی ٹکٹ جاری کیا، لیکن عدالتی حکم کے باعث یہ ضمنی انتخاب بھی نہیں ہو سکا، جس کے بعد سیدہ وحیدہ شاہ اور سید اعجاز شاہ بخاری کے مابین اس نششت کے لیے سرد جنگ شروع ہو گئی۔ سید اعجاز شاہ بخاری متوقع انتخابات میں بہتر نتائج حاصل کرنے کے لیے پارٹی کارکنوں کو منظم کر رہے ہیں جب کہ سیدہ وحیدہ شاہ بخاری نے بھی عوامی رابطہ مہم شروع کر رکھی ہے اور گذشتہ ایک ہفتے کے دوران انھوں نے یونین کونسل ٹنڈو فضل کے گوٹھ جمعو کھوسو، گوٹھ حاجی جام کھوسو اور یونین کونسل شیخ بھرکیو کے گوٹھ محمد خان کھن جیجو میں اجتماعات سے خطاب بھی کیا ہے۔ ان کی نا اہلی کا معاملہ تاحال عدالت میں زیر سماعت ہے۔
انھیں توقع ہے کہ انتخابات سے قبل ان کے حق میں فیصلہ آجائے گا اور وہ متوقع عام انتخابات میں بھی پی ایس 53 پر پیپلز پارٹی کی امیدوار ہوں گی۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر انتخابات تک عدالت کا فیصلہ نہ آیا تو ان کی کوشش ہوگی کہ ان کی صاحب زادی ڈاکٹر سیدہ رافعہ محسن بخاری اس نشست سے پیپلز پارٹی کی امیدوار ہوں۔ اسی نشست پر پیپلز پارٹی کے سینیر راہ نما پیر خالد جان سرہندی بھی انتخابات میں اپنے صاحب زادے پیر احمد سعید جان سرہندی کے لیے پیپلز پارٹی سے ٹکٹ حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
پیر احمد سعید جان سرہندی نے عوامی رابطہ مہم کا آغاز بھی کر دیا ہے۔ ٹنڈو محمد خان کے دیہی علاقوں میں پیپلز پارٹی نے سیکڑوں گائوں، گوٹھوں کو گیس اور بجلی فراہم کی ہے، لوگوں کو نوکریاں بھی دی ہیں، جس سے وہاں اس کی پوزیشن مضبوط ہوئی ہے۔ تاہم شہری علاقوں کے مسائل حل کرنے پر توجہ نہیں دی گئی۔ شہرکے متعدد علاقے کئی کئی روز تک پینے کے پانی سے محروم رہتے ہیں، سڑکیں اور بازار گندے پانی میں ڈوبے نظر آتے ہیں، بجلی کی سہولت سے عوام بارہ بارہ گھنٹوں تک محروم ہیں، جس کی وجہ سے پی پی پی کی مقبولیت میں کمی آئی ہے۔ سیاسی پنڈتوں کے مطابق متوقع الیکشن میں صوبائی نشست پر پی پی پی کے امیدوار کے لیے کام یابی حاسل کرنا آسان نہیں ہو گا۔