لاہور میں صدر زرداری کی اہم سیاسی رہنمائوں سے ملاقاتیں
صدر زرداری کے دورے کا مقصد وسطی پنجاب میں کمزور ہوتی ہوئی پارٹی کو سہارا دینا ہے۔
صدر آصف علی زرداری اس وقت غالباً لاہور کے طویل ترین دورے پر ہیں۔
صدر زرداری اور بلاول بھٹو زرداری 8فروری جمعہ کے روز 4بجے لاہور پہنچے تو گورنر پنجاب مخدوم احمد محمود ، پیپلزپارٹی وسطی پنجاب کے صدر میاں منظور احمد وٹو، اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض احمد، صوبائی جنرل سیکرٹری تنویر اشرف کائرہ اورگورنر کے سینئر مشیر عبدالقادر شاہین نے ان کااستقبال کیا اور وہ ایئرپورٹ سے سیدھے بحریہ ٹاؤن میں واقع بلاول ہاؤس پہنچے۔ صدر زرداری کے دورے کا مقصد وسطی پنجاب میں کمزور ہوتی ہوئی پارٹی کو سہارا دینا ہے۔لاہور کے بعد وہ بہاولپور بھی جارہے ہیں جہاں وہ گورنر پنجاب مخدوم احمد محمود کے مہمان ہوں گے اور ایک دن جمال دین والی میں رہیں گے۔ گورنرکے تینوں بیٹے مصطفی محمود ، مرتضیٰ محمود اور علی محمود پہلے ہی پیپلزپارٹی میں شمولیت کا اعلان کر چکے ہیں۔
گورنر پنجاب کے بہاولپور اور جنوبی پنجاب کے کئی سیاسی گھرانوں سے رابطے چل رہے ہیں اور توقع ہے کہ کئی سیاسی شخصیات صدر کے دورہ بہاولپور کے دوران ان سے ملاقات کریں گی۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ صدر زرداری کا دورہ وسطی پنجاب پارٹی کیلئے بہت ضروری تھا اور شاید اس کے علاوہ کوئی چارہ بھی نہیں تھا۔ قومی اسمبلی کے 107 حلقوں پر مشتمل وسطی پنجاب اور شمالی پنجاب کے بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ یہاں کھیل پیپلزپارٹی کے ہاتھ سے نکل چکا ہے اور وسطی پنجاب میں اصل مقابلہ نواز شریف اور عمران خان کے درمیان ہے لیکن پیپلزپارٹی کے حلقے خصوصاً میاں منظور احمد وٹو اور تنویر اشرف کائرہ اس تاثر کی سختی سے نفی کرتے ہیں ، ان کے خیال میں عمران خان کے سیاسی زوال کے بعد اصل مقابلہ پیپلزپارٹی اور ن لیگ ہی میں ہوگا اور پیپلزپارٹی وسطی پنجاب میں قومی و صوبائی اسمبلی کے حلقوں میں ن لیگ کا سخت مقابلہ کرے گی۔
لاہور، فیصل آباد، گوجرانوالہ، ساہیوال اور سرگودھا ڈویژن اس دورے میں صدر زرداری کی خصوصی توجہ کا مرکز رہے۔ بلاول ہاؤس لاہور میں ڈویژنل سطح پر پارٹی اجلاس ہورہے ہیں جن میں متوقع پارٹی امیدواروں کے ناموں پر مشاورت ہورہی ہے اور مقامی سطح پر صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے قومی و صوبائی حلقوں کے پینل بنائے جائیں گے تاہم پارٹی ٹکٹوں کا حتمی فیصلہ فریال تالپور کی رپورٹ کی روشنی میں پارلیمانی بورڈ کرے گا، پارٹی امیدواروں کا حتمی اعلان مسلم لیگ(ق) کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ طے ہونے کے بعد کیا جائے گا ۔
میاں منظور احمد وٹو صدر کے دورے میں ان کے ساتھ ساتھ رہے اور زیادہ قریب نظر آئے لیکن حیرت انگیز طور پر صدر کے دورے میں پنجاب کی تنظیم کو خاص اہمیت نہیں دی گئی۔ صرف اضلاع کے صدر ، سیکرٹریز اور ارکان اسمبلی کوڈویژنل سطح پر پارٹی میٹنگز میں بلایا گیا۔ شیخو پورہ سے سابق صوبائی وزیر رائے اعجاز احمد اور ان کے بیٹے رائے عظیم کو خصوصی طو پر مدعو کیا گیا، اس دوران رائے اعجاز نے صدر زرداری اور بلاول بھٹو کو اپنے حلقے میں آنے کی دعوت بھی دی۔ بلاول بھٹو زرداری نے ان کی دعوت قبول کرلی اور رائے اعجاز احمد کے حلقے میں جائیں گے۔ صدر زرداری بلاول بھٹو کے ہمراہ اپنے دوست خالد گھرکی مرحوم کے گھر بھی گئے جہاں ثمینہ گھرکی نے صدر کے اعزاز میں ظہرانہ بھی دیا۔ پیپلزپارٹی کے سینئر رہنما چودھری اعتزاز احسن نے بھی صدر زرداری اور بلاول بھٹو کے اعزاز میں ظہرانہ دیا ۔ دیکھنا یہ ہے کہ صدر زرداری کا یہ دورہ پیپلزپارٹی کی کمزور ہوتی ہوئی پوزیشن کو سہارا دے سکے گا یا نہیں۔ دوسری طرف مسلم لیگ(ق) کے قائدین سے صدر کی ملاقاتوں میں اضافہ ہورہا ہے۔ میاں مظور وٹو اور چوہدری برادران کے درمیان سرد جنگ کسی وقت بھی گرم جنگ میں تبدیل ہوسکتی ہے۔
منظور وٹو اورپرویز الٰہی دونوں پنجاب کی ڈرائنگ روم سیاست کے ماہر ہیں اور اپنی چالیں احتیاط سے چلنے کیلئے مشہور ہیں۔ یہاں پر چوہدری برادران کو سب سے بڑا چیلنج پیپلزپارٹی گجرات کے اہم رہنما چودھری احمد مختار اور نوابزادہ غضنفر گل دے رہے ہیں۔ صدر زرداری نے چوہدریوں کو پیپلزپارٹی کے ساتھ اتحاد ی تو بنالیا لیکن مقامی سیاست میں اپنا رنگ ہے اور قومی سیاست میں اتحادی ہونے کے باوجود لگتا نہیں ہے کہ گجرات کی مقامی سیاست میں پیپلزپارٹی اور ق لیگ گزارا کرسکیں گے۔گجرات کا حلقہ این اے 105 اس وقت پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ق) میں انتخابی ایڈجسٹمنٹ کیلئے سب سے بڑا ٹیسٹ کیس بن چکا ہے۔ نائب وزیراعظم چودھری پرویز الٰہی اور وفاقی وزیر چودھری احمد مختار اس حلقے میں کھل کر ایک دوسرے کے خلاف میدان میں آچکے ہیں جبکہ مسلم لیگ(ن) کے پاس یہاں کوئی موزوں امیدوار نہیں ہے ۔ چودھری احمد سعید اپنے بھائی کے خلاف الیکشن لڑنے کیلئے تیار نہیں ہیں ۔ مسلم لیگ(ن)کسی سطح پر الیکشن میں چودھری احمد مختار کی خاموش حمایت کر سکتی ہے۔ بہرحال ان تمام مشکلات کے باوجود چوہدری برادران اور صدر کی ملاقات کافی خوشگوار ماحول میں ہوئی۔ یوں لگتا ہے کہ صدر زرداری پنجاب میں میاں منظور احمد وٹو کے اوپر اتنا بھروسہ کرنے کو تیار نہیں کہ اپنے تمام پتے ان کی جھولی میں ڈال دیں، چنانچہ وہ چوہدریوں کو بھی پنجاب کے بادشاہ گری کے اس کھیل میں اپنے ساتھ رکھنا چاہتے ہیں۔ لگتا یہی ہے کہ پیپلزپارٹی اور ق لیگ کے درمیان نشستوں کا معاملہ طے ہوجائے گا اور دونوں پارٹیاں مشترکہ اتحاد میں ہی انتخابات میں حصہ لیں گی۔
صدر زرداری اور بلاول بھٹو زرداری 8فروری جمعہ کے روز 4بجے لاہور پہنچے تو گورنر پنجاب مخدوم احمد محمود ، پیپلزپارٹی وسطی پنجاب کے صدر میاں منظور احمد وٹو، اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض احمد، صوبائی جنرل سیکرٹری تنویر اشرف کائرہ اورگورنر کے سینئر مشیر عبدالقادر شاہین نے ان کااستقبال کیا اور وہ ایئرپورٹ سے سیدھے بحریہ ٹاؤن میں واقع بلاول ہاؤس پہنچے۔ صدر زرداری کے دورے کا مقصد وسطی پنجاب میں کمزور ہوتی ہوئی پارٹی کو سہارا دینا ہے۔لاہور کے بعد وہ بہاولپور بھی جارہے ہیں جہاں وہ گورنر پنجاب مخدوم احمد محمود کے مہمان ہوں گے اور ایک دن جمال دین والی میں رہیں گے۔ گورنرکے تینوں بیٹے مصطفی محمود ، مرتضیٰ محمود اور علی محمود پہلے ہی پیپلزپارٹی میں شمولیت کا اعلان کر چکے ہیں۔
گورنر پنجاب کے بہاولپور اور جنوبی پنجاب کے کئی سیاسی گھرانوں سے رابطے چل رہے ہیں اور توقع ہے کہ کئی سیاسی شخصیات صدر کے دورہ بہاولپور کے دوران ان سے ملاقات کریں گی۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ صدر زرداری کا دورہ وسطی پنجاب پارٹی کیلئے بہت ضروری تھا اور شاید اس کے علاوہ کوئی چارہ بھی نہیں تھا۔ قومی اسمبلی کے 107 حلقوں پر مشتمل وسطی پنجاب اور شمالی پنجاب کے بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ یہاں کھیل پیپلزپارٹی کے ہاتھ سے نکل چکا ہے اور وسطی پنجاب میں اصل مقابلہ نواز شریف اور عمران خان کے درمیان ہے لیکن پیپلزپارٹی کے حلقے خصوصاً میاں منظور احمد وٹو اور تنویر اشرف کائرہ اس تاثر کی سختی سے نفی کرتے ہیں ، ان کے خیال میں عمران خان کے سیاسی زوال کے بعد اصل مقابلہ پیپلزپارٹی اور ن لیگ ہی میں ہوگا اور پیپلزپارٹی وسطی پنجاب میں قومی و صوبائی اسمبلی کے حلقوں میں ن لیگ کا سخت مقابلہ کرے گی۔
لاہور، فیصل آباد، گوجرانوالہ، ساہیوال اور سرگودھا ڈویژن اس دورے میں صدر زرداری کی خصوصی توجہ کا مرکز رہے۔ بلاول ہاؤس لاہور میں ڈویژنل سطح پر پارٹی اجلاس ہورہے ہیں جن میں متوقع پارٹی امیدواروں کے ناموں پر مشاورت ہورہی ہے اور مقامی سطح پر صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے قومی و صوبائی حلقوں کے پینل بنائے جائیں گے تاہم پارٹی ٹکٹوں کا حتمی فیصلہ فریال تالپور کی رپورٹ کی روشنی میں پارلیمانی بورڈ کرے گا، پارٹی امیدواروں کا حتمی اعلان مسلم لیگ(ق) کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ طے ہونے کے بعد کیا جائے گا ۔
میاں منظور احمد وٹو صدر کے دورے میں ان کے ساتھ ساتھ رہے اور زیادہ قریب نظر آئے لیکن حیرت انگیز طور پر صدر کے دورے میں پنجاب کی تنظیم کو خاص اہمیت نہیں دی گئی۔ صرف اضلاع کے صدر ، سیکرٹریز اور ارکان اسمبلی کوڈویژنل سطح پر پارٹی میٹنگز میں بلایا گیا۔ شیخو پورہ سے سابق صوبائی وزیر رائے اعجاز احمد اور ان کے بیٹے رائے عظیم کو خصوصی طو پر مدعو کیا گیا، اس دوران رائے اعجاز نے صدر زرداری اور بلاول بھٹو کو اپنے حلقے میں آنے کی دعوت بھی دی۔ بلاول بھٹو زرداری نے ان کی دعوت قبول کرلی اور رائے اعجاز احمد کے حلقے میں جائیں گے۔ صدر زرداری بلاول بھٹو کے ہمراہ اپنے دوست خالد گھرکی مرحوم کے گھر بھی گئے جہاں ثمینہ گھرکی نے صدر کے اعزاز میں ظہرانہ بھی دیا۔ پیپلزپارٹی کے سینئر رہنما چودھری اعتزاز احسن نے بھی صدر زرداری اور بلاول بھٹو کے اعزاز میں ظہرانہ دیا ۔ دیکھنا یہ ہے کہ صدر زرداری کا یہ دورہ پیپلزپارٹی کی کمزور ہوتی ہوئی پوزیشن کو سہارا دے سکے گا یا نہیں۔ دوسری طرف مسلم لیگ(ق) کے قائدین سے صدر کی ملاقاتوں میں اضافہ ہورہا ہے۔ میاں مظور وٹو اور چوہدری برادران کے درمیان سرد جنگ کسی وقت بھی گرم جنگ میں تبدیل ہوسکتی ہے۔
منظور وٹو اورپرویز الٰہی دونوں پنجاب کی ڈرائنگ روم سیاست کے ماہر ہیں اور اپنی چالیں احتیاط سے چلنے کیلئے مشہور ہیں۔ یہاں پر چوہدری برادران کو سب سے بڑا چیلنج پیپلزپارٹی گجرات کے اہم رہنما چودھری احمد مختار اور نوابزادہ غضنفر گل دے رہے ہیں۔ صدر زرداری نے چوہدریوں کو پیپلزپارٹی کے ساتھ اتحاد ی تو بنالیا لیکن مقامی سیاست میں اپنا رنگ ہے اور قومی سیاست میں اتحادی ہونے کے باوجود لگتا نہیں ہے کہ گجرات کی مقامی سیاست میں پیپلزپارٹی اور ق لیگ گزارا کرسکیں گے۔گجرات کا حلقہ این اے 105 اس وقت پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ق) میں انتخابی ایڈجسٹمنٹ کیلئے سب سے بڑا ٹیسٹ کیس بن چکا ہے۔ نائب وزیراعظم چودھری پرویز الٰہی اور وفاقی وزیر چودھری احمد مختار اس حلقے میں کھل کر ایک دوسرے کے خلاف میدان میں آچکے ہیں جبکہ مسلم لیگ(ن) کے پاس یہاں کوئی موزوں امیدوار نہیں ہے ۔ چودھری احمد سعید اپنے بھائی کے خلاف الیکشن لڑنے کیلئے تیار نہیں ہیں ۔ مسلم لیگ(ن)کسی سطح پر الیکشن میں چودھری احمد مختار کی خاموش حمایت کر سکتی ہے۔ بہرحال ان تمام مشکلات کے باوجود چوہدری برادران اور صدر کی ملاقات کافی خوشگوار ماحول میں ہوئی۔ یوں لگتا ہے کہ صدر زرداری پنجاب میں میاں منظور احمد وٹو کے اوپر اتنا بھروسہ کرنے کو تیار نہیں کہ اپنے تمام پتے ان کی جھولی میں ڈال دیں، چنانچہ وہ چوہدریوں کو بھی پنجاب کے بادشاہ گری کے اس کھیل میں اپنے ساتھ رکھنا چاہتے ہیں۔ لگتا یہی ہے کہ پیپلزپارٹی اور ق لیگ کے درمیان نشستوں کا معاملہ طے ہوجائے گا اور دونوں پارٹیاں مشترکہ اتحاد میں ہی انتخابات میں حصہ لیں گی۔