امن وامان کی بگڑتی ہوئی صورتحال پر سندھ اسمبلی کی قرار داد
کراچی کی پیچیدہ صورت حال کے پیش نظر آئی جی سندھ پولیس اور اے آئی جی سندھ اسمبلی کو ان کیمرہ بریفنگ دیں کے۔
سندھ اسمبلی کے اراکین کو بالآخر کراچی میں امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورت حال کا خیال آگیا، سندھ اسمبلی نے ایک قرارداد متفقہ طور پر منظور کی جس میں مطالبہ کیا گیا کہ کراچی کی پیچیدہ صورت حال کے پیش نظر آئی جی سندھ پولیس اور اے آئی جی کراچی سندھ اسمبلی کو ان کیمرہ بریفنگ دیں ۔
یہ قرارداد پیپلز پارٹی کے رکن غلام مجدد اسران اور متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے سید خالد احمد نے مشترکہ طور پر پیش کی ۔ قائم مقام اسپیکر نے اعلان کیا کہ بدھ کو دونوں پولیس افسران سندھ اسمبلی کے ارکان کو ان کیمرہ بریفنگ دیں گے اور جمعرات کو ہم فیصلہ کریں گے کہ اس پر کیسے بحث کی جائے ۔ قرار داد کے محرک غلام مجدد اسران نے کہا کہ کراچی میں لوگ مارے جا رہے ہیں اور ہمیں پتہ ہی نہیں کہ حکومت کیا کر رہی ہے ۔ وزیر قانون ایاز سومرو نے اس قرارداد کی حمایت کی اور کہا کہ امن و امان کا مسئلہ پیدا کرکے جمہوریت اور سندھ کے خلاف سازشیں کی جا رہی ہیں ۔
قرارداد پر ارکان بحث کریں گے تو پتہ چل جائے گا کہ یہ کیا سازش ہو رہی ہے ۔ وزیر ثقافت سسی پلیجو نے کہا کہ سپریم کورٹ میں پولیس نے یہ رپورٹ دی ہے کہ400 پولیس والے جرائم میں ملوث ہیں ۔ لوگ ہم سے پوچھتے ہیں کہ آخر یہ کیا ہو رہا ہے ۔ اپوزیشن کی رکن نصرت سحر عباسی نے کہا کہ گذشتہ5 سالوں میں یہاں سے25 ارب روپے کا بھتہ وصول کیا گیا اور6 سے7 ہزار لوگ مارے گئے ۔ آخر وہ کون سے لوگ ہیں ، جو دہشت گردی بھی کرتے ہیں اور پکڑے بھی نہیں جاتے۔
پیپلز پارٹی کے رکن ڈاکٹر سکندر میندھرو نے کہا کہ یہ قرارداد بھی ہے اور مطالبہ بھی کہ ایوان کو اصل حالات سے آگاہ کیا جائے ۔ پیپلز پارٹی کے جام تماچی نے کہا کہ ایسی قرارداد دو چار سال پہلے آنی چاہیے تھی لیکن دیر آید درست آید ۔ انہوں نے کہا کہ ڈی جی رینجرز اور جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیموں میں شامل انٹیلی جنس اداروں کے افسروں کو بھی اس ان کیمرہ بریفنگ میں بلایا جائے ۔ سنیئر وزیر تعلیم پیر مظہر الحق ، وزیر برائے امور نوجوانان فیصل سبزواری اور پیپلز پارٹی کے رکن سید بچل شاہ نے اس بات پر زور دیا کہ خفیہ اجلاس کی کارروائی کے بارے میں ارکان باہر بات نہ کریں ۔
سندھ اسمبلی میں مسلسل گذشتہ تین ماہ کے دوران پوائنٹ اسکورنگ کے لیے بدترین ہنگامہ آرائی کا سلسلہ جاری رہا جس پر صرف سیاسی حلقے ہی نہیں بلکہ عام لوگ بھی تشویش میں مبتلا ہیں ۔ وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ جن کے پاس محکمہ داخلہ کا بھی قلمدان ہے امن و امان کے حوالے سے کوئی حکمت عملی بنانے میں ناکام ہوگئے ہیں بار بار پولیس ، رینجرز کو فری ہینڈ دینے کے اعلانات کیے جاتے ہیں لیکن شہر میں روزانہ 15 سے 20 افراد کو قتل کردیا جاتا ہے یہ سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔ ایسی صورت حال میں امن و امان کے قیام پر توجہ دینے کے بجائے وزیراعلیٰ ہاؤس میں معاون خصوصی صدیق ابو بھائی کی سربراہی میں قائم سیل صرف ملازمتوں کی بندر بانٹ میں مصروف ہے ، ملازمتوں میں مبینہ بھاری رشوت وصول کرنے کے بھی الزامات عائد کیے جا رہے ہیں ، افسران کو طلب کرکے پرانی تاریخوں میں ملازمتوں کے آرڈز پر دستخط کرائے جار ہے ہیں ۔ لوگوں کو ملازمتیں اس وقت کام آئیں گی جب وہ زندہ بچیں گے۔
متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کی رابطہ کمیٹی کے ڈپٹی کنوینئر اور وفاقی وزیر ڈاکٹر فاروق ستار بھی اچانک سندھ اسمبلی پہنچ گئے اور پیپلز پارٹی کے رہنماؤں سے ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کراچی کے حالات اور جمہوریت کے استحکام کے لیے متحدہ قومی موومنٹ دوبارہ آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) بلائے گی ۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے مشترکہ دشمن دہشت گردی اور بدامنی پھیلا کر انتخابات کے عمل کو متاثر کرسکتے ہیں ۔ ان عناصر کی کارروائیوں کو روکنے کے لیے الیکن کمیشن سمیت سیاسی جماعتوں کو ضابطہ اخلاق طے کرنا ہوگا ۔
کراچی کے 25 علاقوں میں طالبان عدالتیں لگانے کے انکشافات ہو رہے ہیں ، مذکورہ علاقے پولیس کے لیے نو گو ایریاز بن گئے ہیں ، جدید اسلحہ کراچی کا سکون تباہ کر رہا ہے، اسلحہ بردار دن دھاڑے معصوم لوگوں کو قتل کر رہے ہیں رینجرز اور پولیس تماشہ دیکھ رہی ہے ، فیکٹریاں بند ہو رہی ہیں ، سرمایہ بیرون ملک منتقل کیا جا رہا ہے ، ڈاکٹرز ، انجینئرز ، پروفیسرز ، وکلاء ، صحافیوں کے بعد اب سگے بھائیوں اور پورے اہل خانہ کو قتل کرنے کا نیا سلسلہ شروع کیا گیا ہے، مسلح افراد کا کنٹرول بڑھتا جا رہا ہے لیکن وزیراعلیٰ سندھ کہتے ہیں کہ حالات پہلے سے زیادہ خراب نہیں ہیں ایسی صورت حال میں تحریک انصاف سندھ کے صدر نادر اکمل لغاری کی بات درست لگتی ہے کہ موت رقص کر رہی ہے اور حکمران کہتے ہیں سب ٹھیک ہے لیکن افسوس کہ کچھ ٹھیک نہیں ۔موجودہ صورت حال میں سندھ کے عوام صرف صدر آصف علی زرداری کی طرف دیکھ رہے ہیں انہیں چاہیے کہ وہ براہ راست امن و امان کی نگرانی اپنے ہاتھ میں لیں فوری طور پر موثر اقدامات نہ اٹھائے گئے تو پیپلز پارٹی کو سندھ میں شدید نقصان کا سامنا کرنا پڑے گا ۔
یہ قرارداد پیپلز پارٹی کے رکن غلام مجدد اسران اور متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے سید خالد احمد نے مشترکہ طور پر پیش کی ۔ قائم مقام اسپیکر نے اعلان کیا کہ بدھ کو دونوں پولیس افسران سندھ اسمبلی کے ارکان کو ان کیمرہ بریفنگ دیں گے اور جمعرات کو ہم فیصلہ کریں گے کہ اس پر کیسے بحث کی جائے ۔ قرار داد کے محرک غلام مجدد اسران نے کہا کہ کراچی میں لوگ مارے جا رہے ہیں اور ہمیں پتہ ہی نہیں کہ حکومت کیا کر رہی ہے ۔ وزیر قانون ایاز سومرو نے اس قرارداد کی حمایت کی اور کہا کہ امن و امان کا مسئلہ پیدا کرکے جمہوریت اور سندھ کے خلاف سازشیں کی جا رہی ہیں ۔
قرارداد پر ارکان بحث کریں گے تو پتہ چل جائے گا کہ یہ کیا سازش ہو رہی ہے ۔ وزیر ثقافت سسی پلیجو نے کہا کہ سپریم کورٹ میں پولیس نے یہ رپورٹ دی ہے کہ400 پولیس والے جرائم میں ملوث ہیں ۔ لوگ ہم سے پوچھتے ہیں کہ آخر یہ کیا ہو رہا ہے ۔ اپوزیشن کی رکن نصرت سحر عباسی نے کہا کہ گذشتہ5 سالوں میں یہاں سے25 ارب روپے کا بھتہ وصول کیا گیا اور6 سے7 ہزار لوگ مارے گئے ۔ آخر وہ کون سے لوگ ہیں ، جو دہشت گردی بھی کرتے ہیں اور پکڑے بھی نہیں جاتے۔
پیپلز پارٹی کے رکن ڈاکٹر سکندر میندھرو نے کہا کہ یہ قرارداد بھی ہے اور مطالبہ بھی کہ ایوان کو اصل حالات سے آگاہ کیا جائے ۔ پیپلز پارٹی کے جام تماچی نے کہا کہ ایسی قرارداد دو چار سال پہلے آنی چاہیے تھی لیکن دیر آید درست آید ۔ انہوں نے کہا کہ ڈی جی رینجرز اور جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیموں میں شامل انٹیلی جنس اداروں کے افسروں کو بھی اس ان کیمرہ بریفنگ میں بلایا جائے ۔ سنیئر وزیر تعلیم پیر مظہر الحق ، وزیر برائے امور نوجوانان فیصل سبزواری اور پیپلز پارٹی کے رکن سید بچل شاہ نے اس بات پر زور دیا کہ خفیہ اجلاس کی کارروائی کے بارے میں ارکان باہر بات نہ کریں ۔
سندھ اسمبلی میں مسلسل گذشتہ تین ماہ کے دوران پوائنٹ اسکورنگ کے لیے بدترین ہنگامہ آرائی کا سلسلہ جاری رہا جس پر صرف سیاسی حلقے ہی نہیں بلکہ عام لوگ بھی تشویش میں مبتلا ہیں ۔ وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ جن کے پاس محکمہ داخلہ کا بھی قلمدان ہے امن و امان کے حوالے سے کوئی حکمت عملی بنانے میں ناکام ہوگئے ہیں بار بار پولیس ، رینجرز کو فری ہینڈ دینے کے اعلانات کیے جاتے ہیں لیکن شہر میں روزانہ 15 سے 20 افراد کو قتل کردیا جاتا ہے یہ سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔ ایسی صورت حال میں امن و امان کے قیام پر توجہ دینے کے بجائے وزیراعلیٰ ہاؤس میں معاون خصوصی صدیق ابو بھائی کی سربراہی میں قائم سیل صرف ملازمتوں کی بندر بانٹ میں مصروف ہے ، ملازمتوں میں مبینہ بھاری رشوت وصول کرنے کے بھی الزامات عائد کیے جا رہے ہیں ، افسران کو طلب کرکے پرانی تاریخوں میں ملازمتوں کے آرڈز پر دستخط کرائے جار ہے ہیں ۔ لوگوں کو ملازمتیں اس وقت کام آئیں گی جب وہ زندہ بچیں گے۔
متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کی رابطہ کمیٹی کے ڈپٹی کنوینئر اور وفاقی وزیر ڈاکٹر فاروق ستار بھی اچانک سندھ اسمبلی پہنچ گئے اور پیپلز پارٹی کے رہنماؤں سے ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کراچی کے حالات اور جمہوریت کے استحکام کے لیے متحدہ قومی موومنٹ دوبارہ آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) بلائے گی ۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے مشترکہ دشمن دہشت گردی اور بدامنی پھیلا کر انتخابات کے عمل کو متاثر کرسکتے ہیں ۔ ان عناصر کی کارروائیوں کو روکنے کے لیے الیکن کمیشن سمیت سیاسی جماعتوں کو ضابطہ اخلاق طے کرنا ہوگا ۔
کراچی کے 25 علاقوں میں طالبان عدالتیں لگانے کے انکشافات ہو رہے ہیں ، مذکورہ علاقے پولیس کے لیے نو گو ایریاز بن گئے ہیں ، جدید اسلحہ کراچی کا سکون تباہ کر رہا ہے، اسلحہ بردار دن دھاڑے معصوم لوگوں کو قتل کر رہے ہیں رینجرز اور پولیس تماشہ دیکھ رہی ہے ، فیکٹریاں بند ہو رہی ہیں ، سرمایہ بیرون ملک منتقل کیا جا رہا ہے ، ڈاکٹرز ، انجینئرز ، پروفیسرز ، وکلاء ، صحافیوں کے بعد اب سگے بھائیوں اور پورے اہل خانہ کو قتل کرنے کا نیا سلسلہ شروع کیا گیا ہے، مسلح افراد کا کنٹرول بڑھتا جا رہا ہے لیکن وزیراعلیٰ سندھ کہتے ہیں کہ حالات پہلے سے زیادہ خراب نہیں ہیں ایسی صورت حال میں تحریک انصاف سندھ کے صدر نادر اکمل لغاری کی بات درست لگتی ہے کہ موت رقص کر رہی ہے اور حکمران کہتے ہیں سب ٹھیک ہے لیکن افسوس کہ کچھ ٹھیک نہیں ۔موجودہ صورت حال میں سندھ کے عوام صرف صدر آصف علی زرداری کی طرف دیکھ رہے ہیں انہیں چاہیے کہ وہ براہ راست امن و امان کی نگرانی اپنے ہاتھ میں لیں فوری طور پر موثر اقدامات نہ اٹھائے گئے تو پیپلز پارٹی کو سندھ میں شدید نقصان کا سامنا کرنا پڑے گا ۔